URDU STORIES:

اردو ادب اور کہانیوں میں خوش آمدید ۔ قصہ کہانیاں، غزلیں، نظمیں، واقعات، طنزومزاح، لاہور کی پنجابی، کچھ حقیقت کچھ افسانہ، پراسرار خواب والی ٹیکنالوجی، میری فیملی کا ذاتی شجرہ نسب سن 1790ء تا 2023ء۔، قومی پیمانہ، تباہی و زلزلے، دو سو سالہ کیلینڈر، اردو سافٹ وئیر ڈاؤنلوڈ۔

Friday, September 16, 2022

ANJUMAN E TARAQQI E URDU HIND - HINDUSTAN ME URDU ZUBAN KI BADHALI - ہندوستان میں اردو زبان اور اردو بازاروں کی بدحالی

 

















ہندوستان میں اردو زبان اور اردو بازاروں کی بدحالی

انجمن ترقی اردو ہند کا ایک طویل علالت کے بعد دہلی میں ان کی رہائش گاہ راؤز ایونینو میں انتقال ہو گیا۔ ایک طویل مدت سے بے حسی، بے بسی، عدم سرگرمی، خیانت فنڈ، اپنوں کی نظر اندازی اور بے توجہی جیسی مہلک بیماریوں کی شکار تھیں۔ افسوس یہ ہے کہ ان کا قابل اطمینان علاج نہیں ہو سکا حالانکہ مرکزی حکومت اور بعض ریاستی سرکاریں ان کے علاج کے لیے برابر خطیر رقم دیتی رہیں جسے وہ ہضم کرتے رہے جن پر ان کے علاج اور دیکھ ریکھ کی ذمہ داری تھی۔ یہ بات صد باعث ندامت ہے کہ مرحومہ کے یہ ذمہ داران ان کے علاج کے لیے سرکار دربار سے ملا پیسہ بھی کھاتے رہے اور سینہ کوبی بھی کرتے رہے کہ موصوفہ جاں بلب ہیں مگر ان پر توجہ نہیں دی جاتی ہے اور اگر دھیان نہ دیا گیا تو چل بسیں گی۔ مرحومہ کی کثیر تعداد میں اولادیں پورے ملک میں موجود ہیں۔ ان میں سے بہتوں نے مرحومہ کے نام پر دکانیں بھی کھول رکھی ہیں جس سے کچھ مالی فائدہ اٹھا رہی ہیں اور جو مالی فائدہ اٹھانے میں ناکام ہیں وہ نام و نمود کی دولت کما رہے ہیں۔ بہرحال سبھی کچھ نہ کچھ کما رہے ہیں ۔

بتایا جاتا ہے کہ مرحومہ صاحب املاک تھیں۔ دہلی کے راؤز ایونیو [Rouse Avenue] میں ان کا بہت بڑا عالیشان مکان ہے۔ اسی میں وہ رہتی تھیں اور باقی حصے کو کرایہ پر دے رکھا تھا جس سے لاکھوں روپے ماہوار آمدنی ہوتی تھی۔ اسی مکان میں ان کی کتابوں کی ایک دکان بھی تھی جس سے بھی اچھی خاصی آمدنی ہوتی تھی ۔مرحومہ ایک رسالہ اور ایک ہفت روزہ اخبار کی بھی مالکہ تھیں جس سے بھی کچھ نہ کچھ آمدنی ہو ہی جاتی تھی۔ اس سے کہیں زیادہ اس کا فائدہ یہ تھا کہ رسالہ اور اخبار کے ذریعہ وہ اپنی لاکھوں کروڑوں اولادوں سے جڑی ہوئی تھیں۔ اخبار مذکور میں پہلے مرحومہ کی سرگرمیوں کی خبریں چھپا کرتی تھیں جس کو پڑھ کر لوگ اندازہ لگاتے تھے کہ بیمار تو ہیں لیکن زندہ ہیں۔ رفتہ رفتہ اخبار کے صفحات سے یہ خبریں ختم ہوتی گئیں تو اندازہ ہو گیا کہ اب مرحومہ مفلوج اور صاحب فراش ہیں۔ مرحومہ کا ایک عرصے تک ڈاکٹر تخلیق فہم علاج کرتے رہے۔ اس دوران مرحومہ صحت مند تو نہ ہوئیں لیکن معذور و مفلوج نہ ہوئیں تھیں، بس یہ کہا جا سکتا ہے کہ مردہ بدست زندہ والی حالت تھی۔ ان کی اولادوں کو ایک گونہ چین تھا کہ چلو زندہ تو ہیں۔

پھر ایسا ہوا کہ معالج بدلا گیا کہ شاید اس سے کوئی فائدہ ہو۔ ڈاکٹر تخلیق فہم کی جگہ ڈاکٹر احقر جاروبی کا علاج شروع ہوا۔ لوگوں کا خیال تھا کہ نیا معالج بہتر علاج سے مریض کو ضرور تندرست کر دے گا اور مریضہ ایک بار پھر فعال ہو کر چلنے پھرنے کے لائق ہو جائیں گی ۔ لیکن تمام امیدوں پر پانی پھر گیا۔ ڈاکٹر احقر جاروبی کے علاج سے مریضہ صحت یاب کیا ہوتیں، صحت مزید خراب ہونے لگی ۔ پہلے کچھ بول لیا کرتی تھیں جس سے ان کی زندگی کا احساس ہوتا تھا۔ ڈاکٹر احقر جاروبی کے علاج سے مریضہ کی قوت گویائی بھی ختم ہو گئی ۔ لوگوں نے کہا بھی کہ مریضہ مر جائے گی ڈاکٹر بدلو۔ لیکن ڈاکٹر احقر جاروبی کی ضد تھی کہ علاج کریں گے تو وہی کریں گے یا تو مریضہ کو صحت مند کر دیں گے یا پھر مار دیں گے۔ ڈاکٹر موصوف کے تیور دیکھ کر سب سہم کر خاموش ہو گئے۔ اور وہی ہوا جس کا ڈر تھا، یعنی: مریضہ کا انتقال ہو گیا۔

اللہ بخشے بڑی خوبیاں تھیں مرنے والی میں۔ جب تک زندہ رہیں لاکھوں کروڑوں کا پیٹ بھرتی رہیں اور مرنے کے بعد بھی ان کا یہ صدقہ جاریہ جاری رہے گا۔ موصوفہ کی موت کی خبر جنگل کی آگ سے بھی زیادہ تیزی سے ملک اور بیرون ملک میں پھیل گئی۔ ان کے چاہنے والوں نے وہ آہ و بکا کی کہ محرم اور چہلم کا ماتم شرمندہ ہو گیا۔ جو رو نہ سکے انہوں نے گلیسرین آنکھوں میں ڈال کر نقلی آنسو بہائے۔ ملک اور بیرون ملک سے تعزیتی پیغامات کی اتنی بڑی تعداد آنے لگی کہ ڈاک خانہ والوں کو انہیں ڈھونے کے لیے خصوصی گاڑیوں کا انتظام کرنا پڑا۔ تمام تعزیتی پیغامات ڈاکٹر احقر جاروبی کے نام تھے اور کس کے نام ہوتے لوگ ان ہی کو مرحومہ کاسب سے قریبی سمجھتے تھے۔

جنازے کا انتظام ڈاکٹر احقر جاروبی نے تن تنہا سنبھال رکھا تھا۔ اس میں انہیں کچھ پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا ۔ اس کی وجہ یہ ہوئی کہ مرحومہ کے نام پر جن لوگوں نے ملک کی مختلف ریاستوں اور شہروں میں دکان کھول رکھی تھی ان میں سے اکثر اپنی دکان بڑھا گئے تھے یا ان کی دکان کا بورڈ "ہندی پڑھو سمیتی" کی دکان پر لٹکا ہوا تھا ۔ ڈاکٹر احقر جاروبی کی ہمت قابل داد ہے کہ انہوں نے تمام دشواریوں کے باوجود ان دکانوں کا پتہ لگانے میں کامیابی حاصل کر ہی لی۔ تمام دکانوں کے مالکان شریک جنازہ ہوئے ان میں سے کچھ بیساکھیوں کے سہارے کچھ چلنے والی کرسی اور بعض اسٹرکچر پر لد کر شریک جنازہ ہوئے۔ سبھوں کی رائے ہوئی کہ دم واپسیں تک چونکہ ڈاکٹر احقر جاروبی ہی مرحومہ کے ساتھ تھے اس لیے آخری خدمت بھی وہی انجام دیں۔ ڈاکٹر احقر جاروبی بخوشی تیار ہو گئے اور مرحومہ کی نماز جنازہ پڑھائی۔ قبر میں اتارنے میں البتہ گڑ بڑ ہو گئی کہ مرحومہ کے نام پر دکان چلانے والے سب کے سب تیار تھے، یہ صورتحال دیکھ کر ڈاکٹر احقر جاروبی نے اعلان کیا کہ وہ تنہا مرحومہ کو قبر میں اتاریں گے۔ مٹی دینے کے بعد ہفت روزہ "ہماری زبان" کے صفحات کو جوڑ کر چادر بنائی گئی اور قبر پر اوڑھا دی گئی۔ مرحومہ کو کسی قبرستان میں نہیں بلکہ ان کی رہائش گاہ جہاں انہوں نے آخری سانسیں لیں یعنی راؤز ایونیو، نئی دہلی میں ہی دفن کیا گیا۔ قل کے بعد ایک تعزیتی نشست کا انتظام کیا گیا جس کی صدارت ڈاکٹر احقر جاروبی نے کی۔ نشست میں درج ذیل تجاویز اتفاق رائے سے منظور کی گئیں:-

1۔ راؤز ایونیو، نئی دہلی کی جس عمارت میں مرحومہ کو دفن کیا گیا وہ اب "مقبرہ اردو" کہلائے گی۔

2۔ اس مقبرہ کے تاعمر مجاور ڈاکٹر احقر جاروبی ہوں گے۔

3۔ ہر سال مرحومہ کا عرس دھوم دھام سے منایا جائے گا۔

4۔ عرس میں میر انیس اور میر دبیر مرحومہ کا مرثیہ پڑھیں گے۔

5۔ ملک بھر میں مرحومہ کے نام پر جو دکانیں ہیں وہ اپنے بورڈ میں "مرحومہ" کا اضافہ کرلیں یعنی "انجمن ترقی اردو ، ہند (مرحومہ("

6۔ مرحومہ کے نام پر دکانداری جاری رہے گی تاکہ مرحومہ کی یاد سے زیادہ سلسلہ کام و دہن برقرار رہے۔

مرحومہ کے لیے دعائے مغفرت پر تعزیتی نشست کا اختتام ہوا۔

 

  

تیزی کے ساتھ ختم ہو رہا دہلی کا تاریخی ’ اُردو بازار ‘، کسی کو فکر نہیں

عالمی شہرت یافتہ اُردو بازار جو کسی زمانے میں علم و ادب کا گہوارہ ہوا کرتا تھا، جہاں ہر روز شعری و ادبی محفلیں جمتی تھیں، وہ دن بہ دن آگ کی بھٹیوں، مرغ و مچھلی فرائی کی دکانوں میں تبدیل ہوتا جا رہا ہے۔ ہندوستان میں سخت مذہبی ہندو جماعت بی جے پی اسی کوشش میں لگی ہوئی ہے کہ مسلمانوں کی زبان اردو کو ہندوستان سے بالکل مٹادو۔

'نئی دہلی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب...'، میر تقی میر سے منسوب شعر کا یہ مصرعہ ایک تاریخی سچائی ہے۔ شاہجہاں آباد تعمیر ہوا تو شاہجہاں نےعرب و ایران اور ایشیائی ممالک کے صاحب علم و ہنر کو دعوت دی کہ یہاں آکر آباد ہوں۔ انہیں دس ہزاری، بیس ہزاری کا اعزاز اور اکرم سے نوازا جائے گا۔ چناچہ دلّی دنیا بھر کی مختلف ممتاز انسانی نسلوں کے اجتماع سے معمور ہے۔ یہاں کے گلی، محلّے، حویلیاں، بازاروں کے نام انہیں خصوصیات سے وابستہ ہیں۔ ایسا ہی ایک بازار جامع مسجد سے متصل اردو بازار ہے۔ جو کسی زمانے میں اپنی منفرد شناخت رکھتا تھا۔ جہاں سے ملک بھر کے مشہور و معروف اخبارات، رسائل، کتابیں، میگزین شائع ہوا کرتے تھی۔ تاہم علمی و ادبی، محفل و مجالس کا خصوصاً اہتمام ہوتا تھا۔ ان ادبی محفلوں میں مجاہد آزادی اور نامور شخصیات شرکت کیا کرتی تھیں۔ لیکن اب یہ علم کا گہوارہ اردو بازار کتاب کی دکانوں سے مچھلی، مرغ فرائی کی دکانوں میں تبدیل ہوتا جا رہا ہے۔

کتنے ہی کتب خانے بند ہو چکے ہیں اور جو باقی ہیں وہ سسکیاں لے رہے ہیں۔ اس تعلق سے کتب خانہ انجمن ترقی اردو کے مالک نظام الدین نے قومی آواز کے نمائندہ کو بتایا کہ ایک زمانہ ہوا کرتا تھا جب اردو بازار میں قطار سے کتب خانے آباد تھے کتاب پڑھنے والوں کا تانتا لگا رہتا تھا۔ نامور ادیب شاعر، افسانہ نگار، صحافی، خطاط، پینٹر اور یہاں تک کے ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو بھی یہاں آکر بیٹھا کرتے تھے۔ علم کے پروانے نئی نئی کتابوں اور رسالوں کو پڑھ کر اپنے علم میں اضافہ کرتے اور اپنی علمی پیاس کو کتابیں پڑھ کر بجھاتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ آج حالات یہ ہیں لوگوں میں کتاب پڑھنے کا ذوق روز بروز کم ہوتا جا رہا ہے۔ لوگ علم پروری کی بجائے شکم پروری پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ہمارا کتب خانہ 1939 میں قائم ہوا تھا۔ جس کو آج چوتھی پیڑھی چلا رہی ہے۔ ہمارے کتب خانہ میں ایک ہی موضوع پر معتدد کتابیں دستیاب ہیں۔ دلّی شہر پر ہمارے یہاں 360 کتابیں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ تواریخ، طبّی اور اُردو ادب کی ہر کتاب ہمارے یہاں دستیاب ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اُردو کی نادر و نایاب کتابیں خریدنے کی غرض سے جاپان، چین، انڈونیشیا، دبئی، امریکہ، اور خلیجی ممالک تک سے عاشقان اُردو ہمارے کتب خانہ پر آتے ہیں اور اُردو کی کتابیں خرید کر لے جاتے ہیں اور ان سے استفادہ کرتے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ہمارے یہاں آزادی سے پہلے کی اُردو، ہندی، انگریزی زبان میں کتابیں آج بھی موجود ہیں، جو ریسرچ اسکالر کے لیے ایک قیمتی خزانے سے سے کم نہیں ہیں۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج اُردو کے لیے قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان، دہلی اُردو اکیڈمی جیسے ادارے اردو کی کتابوں کو کم قیمت پر شائع کر رہے ہیں، لیکن پھر بھی اُردو کی کتابوں کی طرف لوگ توجہ نہیں دے رہے۔

اُردو بازار کی موجودہ صورتِ حال پر شعبہ اردو ذاکر حسین دہلی کالج کے ڈاکٹر عبدالعزیز جو پرانی دلی کی تاریخ اور جغرافیہ پر اچھی گرفت رکھتے ہیں انہوں نے تفصیلی گفتگو میں بتایا کہ اردو بازار میں شعرا، ادیب، ادب کے قاری، قاری، پبلیشر، محقق، نقاد اکثر گھومتے نظر آتے تھے۔ یہ علاقہ صاف ستھرا رہتا تھا نہ شوروغل نہ بھاگ دوڑ، دلّی کے دوسرے تجارتی علاقوں سے بالکل مختلف امتیازات کا حامل تھا، اردو بازار کٹرا نظام الملک کے باہری کونے سے شروع ہو کر دوسرے کنارے پر ختم ہوتا تھا۔

کتب خانہ انجمن ترقی اردو اس سے آگے ایک کتب خانہ لاجپت رائے اینڈ سنز تھا۔ ایک کتب خانہ علمی کتب خانہ اور مولانا رفیق کتب خانہ تھا۔ مولانا رفیق کتب خانے کے مالک مددگار پبلیشر مصنف پارسل لے جانے والے منیجر، طباعت و اشاعت کے ذمہ دار سب کچھ تھے۔ اکیلی جان سے سب کچھ کرتے اکثر مذہبی کتابیں شائع کرتے اور فروخت کرتے تھے ان سے اگلی دکان مولانا احمد سعید کا کتب خانہ تھا۔ مولانا سیاسی سرگرمیوں میں ممتاز تھے وہ کونسلر بھی رہے، کانگریسی تھے، ناول نگار تھے نثر خوبصورت انداز میں لکھتے تھے، ان کے ناول اور خطوط کا مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ ان کے علاوہ ڈپٹی نذیر احمد کے پوتے کا کتب خانہ نظریہ تھا۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اُردو بازار میں حالی پبلیکیشن ہاؤس بھی تھا جہاں اب مرغ مچھلی فرائی ہوتی ہے۔ اس سے اگلی دکان مکتبہ جامعہ ہے جو تاحال باقی ہے، دیکھیے کب تک، اسی کے برابر میں جماعت اسلامی ہند کا کتب خانہ ہے۔ اس کے برابر میں سنگم کتاب گھر تھا جہاں اب جوتے فروخت ہوتے ہیں۔ نہ جانے کتنے کتب خانے یہاں آباد تھے۔ اگر سبھی کا ذکر کیا جائے تو پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اردو بازار کی سڑک پر بعد نمازعشاء بڑے چھوٹے جلسے ہوتے تھے، استاد رسا بے خود دہلوی کی یاد میں مشاعرہ بھی اسی سڑک پر ہوتا تھا جس میں اس زمانے کے تمام ممتاز شعراء شرکت کرتے تھے اور آل انڈیا ریڈیو سے براہ راست نشر ہوتا تھا۔ آخر میں انہوں کہا کہ جامع مسجد کے اردگرد اردو پارک، آزاد پارک، ایڈورڈ پارک، پائے والا اسپتال، تعلیمی مرکز، افضل پیشاوری کا آزاد ہند ہوٹل، مکتبہ شاہراہ، کیفی پبلک لائبریری، دارالمصنفین، دفتر خاکسار، دفتر مسلم لیگ، دفتر خاتون مشرق، وغیرہ سب گزرے زمانے کی کہانیاں بن گئے۔ اُردو بازار رفتہ رفتہ معدوم ہوتا جا رہا ہے۔

طہٰ نسیم، جو کئی کتابوں کے مصنف بھی ہیں اور صحافی بھی۔ اور پرانی دلّی کی تاریخ پر وقتاً فوقتاً لکھتے رہتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ سب سے پہلے اُردو بازار لال قلعہ کے سامنے ہوا کرتا تھا۔ جو بعد میں جامع مسجد سے متصل آباد ہوا اور اب بھی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ 1936 میں خواجہ حسن نظامی نے اس بازار کا نام اُردو بازار رکھا تھا۔ اسی اُردو بازار میں ان کا اپنا خود کا کتب خانہ موجود تھا۔ کسی زمانے میں یہ بازار جگت سنیما سے لے کر جامع مسجد گیٹ نمبر ایک تک پھیلا ہوا تھا بڑے بڑے علماء کرام نے یہاں اپنے کتب خانے قائم کیے ہوئے تھے۔ لیکن آج اُردو بازار کی حالت نا گفتبہ ہے۔ آج لوگوں میں اُردو کی کتابوں کو پڑھنے کا ذوق کم ہوتا جا رہا ہے۔ لوگ بیس روپے کا پان تو خریدنا پسند کرتے ہیں لیکن پندرہ روپے کا رسالہ خریدنے میں انہیں شرم آتی ہے۔

 

انہوں نے بتایا کہ گزشتہ سال کتب خانہ رشیدیہ اور دوسرا کتب خانہ ابو الحسن ندوی بند ہو گئے ہیں۔ اُردو بازار عربی، فارسی اور اُردو کی کتابوں کے لیے عالمی شناخت رکھتا ہے۔ جو کتاب پورے ہندوستان میں کہیں نہیں ملتی وہ کتاب اُردو بازار میں مل جاتی ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ میری دکان پر جاپان، برطانیہ، کناڈا، ترکی تک سے اُردو کی کتابوں اور رسالوں کی تلاش میں آتے ہیں۔ آج ہمیں اپنے بچوں کو اُردو پڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ اُردو کی اہمیت نئی نسل میں باقی رہے۔ اُردو بازار صرف کتابوں کا بازار نہیں بلکہ دلّی کی تہذیب و ثقافت کا امین ہے اور اسکو قائم رکھنا ہم دلّی والوں کی ذمہ داری ہے۔


ہندوستان کے شہر دلی میں یہ کام کیا جارہا ہے کہ اردو زبان میں لکھی گئی کتابوں کو ہندی میں تبدیل کرکے لوگوں کو بیچی جارہی ہیں جس سے اردو زبان مسخ ہورہی ہے۔ حتی کہ اسلامی کتب بھی ہندی زبان میں شائع کی جا رہی ہیں۔ اس کے پیچھے کس کا ہاتھ ہوسکتا ہے کہ یہ مسلمانوں کی زبان سمجھی جاتی ہے لہذا اسے ختم کرو؟؟؟ یہ سوالیہ نشان ہے پوری مسلمان قوم کے لیے!!!۔ دلی کے اردو بازار میں ایسی دکانیں بھی ہیں جہاں آج 2022ء سے 200 سال پہلے کی کتابیں  بھی کسی نہ کسی حالت میں موجود ہیں۔ 

ہندی فلموں میں تو یہ لوگ مکمل اردو میں بولتے ہیں اور ان کے گانے 100 فیصد اردو کی غزل و گائیکی ہوتی ہے ان فلموں میں کیوں نہیں ہندی بولتے۔ ہندی کے حروف الگ ہوتے ہیں۔ جبکہ ان کی خبریں اور دیگر پروگراموں میں یہی ہندو لوگ ٹھیٹھ ہندی بولتے ہیں۔ فلموں میں ان لوگوں کو ہندی زبان کیوں نظر نہیں آتی؟ یہ بھی ایک سوالیہ نشان ہے!!!

 





دلی کے اردو بازار میں اشفاق احمد کی کتاب











...


No comments:

Post a Comment