URDU STORIES:

اردو ادب اور کہانیوں میں خوش آمدید ۔ قصہ کہانیاں، غزلیں، نظمیں، واقعات، طنزومزاح، لاہور کی پنجابی، کچھ حقیقت کچھ افسانہ، پراسرار خواب والی ٹیکنالوجی، میری فیملی کا ذاتی شجرہ نسب سن 1790ء تا 2023ء۔، قومی پیمانہ، تباہی و زلزلے، دو سو سالہ کیلینڈر، اردو سافٹ وئیر ڈاؤنلوڈ۔

Saturday, September 10, 2022

PAKISTAN ME BARHTI HUI ABADI - MARDUM SHUMARI - INCREASE IN POPULATION OF PAKISTAN AND UNEMPLOYMENT - بڑھتی ہوئی آبادی پاکستان کی اور مہنگائی غربت بیروزگاری

 





بڑھتی ہوئی آبادی پاکستان کی  اور مہنگائی غربت بیروزگاری


ہمارے ملک کی آبادی بہت تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے۔وسائل کم سے کم تر ہوتے جارہے ہیں۔ بیروز گاری انتہا کو پہنچ چکی ہے۔مہنگائی نے برا حال کر دیا ہے۔غریب اور متوسط طبقہ بر ی طرح پستا جا رہا ہے۔مگر ہم لوگ اس طرف توجہ ہی نہیں کر رہے۔ہم لوگ اپنا محاسبہ کر نے کی بجائے حکومت کی طرف دیکھتے رہتے ہیں۔آبادی کو محدود کرناہم سب کی ذمہ داری ہے۔دیکھنے میں یہ آتا ہے کہ جو گھرانہ جتنا غریب ہے اسکی آبادی اتنی ہی تیزی سے بڑھتی ہے۔گھر میں رہنے کے لیے نہ جگہ ہے اور نہ ہی روزی روزگار مگر لوگ کم عمری ہی میں بچوں کی شادیاں کر دیتے ہیں۔پھر بچوں کی موج ظفر موج وجود میں آتی رہتی ہے۔یہ خاندانی منصوبہ بندی   والے نہ جانے کیا کر رہے ہیں۔ پڑھے لکھے لوگ تو اپنی پود کی تعداد کو محدود کر لیتے ہیں، مگر ان پڑھوں کو کون سمجھائے۔خاندانی منصوبہ بندی  والوں کو کبھی غریب آبادیوں کی طرف بھی رخ کرنا چائیے۔دھڑا دھڑ بچے پیدا ہوتے جا رہے ہیں اور کرتے جارہے ہیں مگر نہ انکی تعلیم و تربیت کا انتظام ہے اور نہ ہی علاج معالجہ کا۔لوگ کہتے ہیں کہ اللہ سب کا رازق ہے، بے شک اللہ سب کا رازق ہے مگر ایسے رزق کا کیا فائدہ جو بھیک مانگ کر کھایا جائے۔رزق وہی اچھا جو محنت سے کما کر کھایا جائے۔دراصل رزق کاغذ کے نوٹ ہوتے ہیں جن پر قائداعظم کی تصویر ہوتی ہے ، جبکہ روٹی لنگر ہوتا ہے۔ محنت کی کمائی سے اس روٹی کو توڑیں گے تو وہ رزق بن جاتا ہے ورنہ لنگر ہی رہتا ہے۔ اگر لنگر کھانا ہو تو کسی بزرگ کے مزار سے ہی کھالیا جائے تو برکت ہوگی۔

 آبادی کے بڑھنے سے بے شمار مسائل پیدہ ہو جاتے ہیں۔وسائل کم ہو جاتے ہیں۔اب اتنی آبادی بڑھ گئی ہے کہ وہی گنتی کے دو بڑے ڈیم ہی بجلی دے رہے ہیں پورے ملک کو۔ جب پاکستان بنا تھا تو بھی وہی دو ٹیم تھے۔ اس وقت پاکستان کی آبادی صرف پانچ چھ کروڑ تھی، مشرقی اور مغربی دونوں ملا کر۔ آج 2022ء کے مطابق پاکستان کی آبادی 22 کروڑ تک پہنچ چکی ہے۔ جب کہ ڈیم وہی دو کے دو ہیں۔ اسی طرح آبادی بڑھنے کی وجہ سے سوئی گیس بہت زیادہ استعمال ہونے لگی ہے۔ جب کھیت کھلیان ختم ہو جائیںگے اور انکی جگہ شہر آباد ہو جائیں گے۔پھر ہمیں سبزیاں ترکاریاں،غلہ، اناج ، دودھ دہی کہاں سے ملے گا۔اسی طرح  طلب بڑھتی جائے گی اور  رسد کم ہو تی جائیگی، نتیجہ کے طور پر چیزیں مہنگی ہو تی جائینگی۔اس کے علاوہ قدرتی وسائل بھی کم ہوتے جائیں گے۔پھر ہماری  اور آنیوالی نسلوں کی ضروریات کہاں سے پوری ہونگی ۔سڑکوں پر ٹریفک کا ہجوم، حادثات اور بیماریاں بھی بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے ہیں۔آخر کتنے ہسپتال اور دوائوں کی فیکٹریاں کھولی جائیں۔کہیں جا کر یہ سلسلہ ختم بھی ہوگا یا نہیں۔آبادی بڑھنے کی وجہ سے ہی پولیوشن بڑھا ہے۔ جس کو آپ سموگ کا نام دیتے ہیں۔ جواب نفی میں ہے۔جب تک ہم شادی بیاہ کی عمر کی حد نہیں بڑھاتے اور خاندانی منصوبہ بندی پر عمل نہیں کرتے ، یہ سلسلہ جاری رہے گا۔آخر ہم حقیقت کو تسلیم کیوں نہیں کرتے۔ہم دوسرے ترقی یافتہ ممالک کی طرف کیوں نہیں دیکھتے۔وہاں کے اصل باشندوں کی آبادی مسلمانوں کی نسبت کم ہوتی جارہی ہے اور ہم خوشی سے پھولے نہیں سما رہے۔ہم لوگ جہاں بھی جاتے ہیں اپنا جھنڈا گاڑ دیتے ہیں اور جن کے ملک جا کر رہتے ہیں اور کماتے ہیں انکے لیےمسائل پیدا کر دیتے ہیں۔حساب لگاتے ہیں فلاں صدی میں اس ملک میں مسلمانوں کی حکومت ہوگی۔مگر کیا فائدہ ہم لوگ تو اپنے مسائل حل نہیں کر سکتے انکے ملک کے مسائل کیسے حل کریں گے۔وہاں بھی فتنہ فساد اور مسلکی جنگ پھیلا دیں  گے۔اگر ہم نے ترقی کرنا ہے،پھر آبادی کو لازمی کنٹرول کر نا ہوگا، کیونکہ یہی تمام خرابیوں، بیماریوں، بےروزگاریوں اور حادثاتوں کی جڑ ہے۔ہم کو صرف اپنا نہیں بلکہ آ نے والی نسلوں کا بھی سوچنا ہوگا۔

ایشیا اور افریقہ میں آبادی بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔یورپ اور امریکا میں بھی آبادی میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے، مگر وہاں بھی صرف مسلمانوں کی آبادی میں ہی اضافہ ہو رہاہے، جبکہ وہاں کے اصل باشندوں کی آبادی کم ہو رہی ہے۔ ہمارے اپنے ملک پاکستان میں بھی آبادی میں بے پناہ اضافہ ہو گیا ہے اور مسلسل  ہو تا جا رہا ہے۔شہروں میں رہائش کے مسائل پیدا ہوتے جا رہے ہیں۔ اب تو دیہات کم کم ہی نظر آتے ہیں، وہ بھی گنجان آباد شہر بن چکے ہیں۔ پہلے دیہاتی گاؤں سے شہر آتے تھے نوکریوں کے لیے اب شہری الٹا گاؤں میں جارہے ہیں۔ کیونکہ گاؤں کے لوگ یہاں شہروں میں آکر آباد ہوگئے تو آبادی شہر کی بڑھ گئی اور شہروں میں جگہ تنگ ہوگئ۔ شہر پھیلنے لگے اور گاؤں دیہات بھی اب آج 2022ء میں شہر بن چکے ہیں۔ جو 80ء  میں قصبے کہلاتے تھے آج وہ شہر کہلانے لگے۔  دیہاتی لوگ تیزی سے شہروں کی طرف ہجرت کر رہے ہیں۔  نتیجتاًشہروں کی آبادی دیہاتوں کے مقابلے میں زیادہ ہو گئی ہے، مگر ہم پھر بھی یہی کہتے رہتے ہیں کہ پاکستان کی 70 فی صد آبادی دیہاتوں میں رہتی ہے جو کہ بالکل غلط تجزیہ ہے۔ اس معاملے پر دوبارہ غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اب تو شاید گاؤں رہے ہی نہیں ہیں بلکہ سب شہر بن گئے ہیں۔

اس بڑھتی ہوئی آبادی سے کاشت کاری کے لیےزمینیں کم ہوتی جارہی ہیں اور ہم لوگ انڈیا سے سبزیاں منگوا رہے ہیں۔بیروزگاری میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے جس کی وجہ سے چوریاں اور ڈاکے عام ہو گئے ہیں۔علاج معالجہ کی سہولیات نا کافی ہوتی جا رہی ہیں۔تعلیم کاروبار بن چکی ہے۔ناقص غذا کی وجہ سے ہم لوگ مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوتے جارہے ہیں۔ بچے کمزور پیدا ہوتے ہیں۔انکی صحیح نشوو نما نہیں ہو پاتی۔آجکل پیدا ہوتے ہی بچوں کو انکیوبیٹر میں ڈالنا پڑتا ہے۔ جبکہ آج سے تیس چالیس سال پہلے بچے گھروں میں پیدا ہوتے تھے  اور کسی قسم کی انکیوبیٹیشن کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی تھی۔ٹیکے بھی چند ایک ہی لگتے تھے۔ اب تو پیدا ہوتے ہی ٹیکوں کی بھر مار ہو جاتی ہے۔ اصل خرابی کو کوئی نہیں دور کرنے کی سوچتا۔میں سمجھتا ہوں کہ اصل مسئلہ آبادی میں بے پناہ اضافہ ہے، جس کی وجہ سے ہر چیز کم پڑتی جارہی ہےاور ہم بچوں کی صحیح طرح  سے  دیکھ بال اور تربیت نہیں کر سکتے۔اگر کھانے والے کم ہونگے ،غذا  اچھی ملے گی ملاوٹ کی ضرورت ہی نہ رہے گی ۔جب غذا  اچھی ملے گی بیماریاں بھا گیں گی ۔ ذہین و تندرست بچے پیدا ہونگے ۔ہسپتالوں اور دوائی دارو کی ضرور  یات کم ہو جائیں گی۔یہی ذہین نسل آگے چل کر قوم کی خدمت کرے گی۔لہٰذا یہ ہم سب کا اخلاقی فرض ہے کہ اپنے خاندان کو محدود رکھیں تاکہ آنے والی نسل کی  ذمہ داریاں  نبھا سکیں اور اپنے ملک کو خوشحال بنا سکیں۔ 


غریب غریب ہی مرے گا

ہمارے ملک میں بےروزگاری اور غربت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے، بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ غربت اور بے روزگاری اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہیں اور حکومت بے نظیر انکم سپورٹ کا  ڈھنڈہورا   پیٹنے میں لگی ہوئی ہے۔ بجائے لوگوں کو ملازمتیں دینے کہ یہ ان کو بھکاری بنا رہی ہے۔ حکومت کی یہ آئینی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کو نوکریاں دیں یا پھر بے روزگاری  الا ئونس، بھیک نہ دیں۔ بھیک صرف اور صرف مستحقین کو دی جائے، جو کہ آجکل کھاتے پیتے لوگوں کو دی جا رہی ہے۔  غریبوں کے بچے ملازمتوں کے انتظار میں بوڑھے ہو چکے ہیں۔ شادی تو کجہ روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ پڑھا لکھا غریب تو پھر بھی مزدوری پر راضی ہو جاتا ہے، مگر  پڑھا لکھا امیر ماں باپ کی عزت کی خاطر کبھی مزدوری نہیں کرے گا چاہے خودکشی کر لے۔ بجلی، گیس اور پانی کے بلوں کا کون ذمہ دار ہوگا، مکان کا کرایہ کون ادا کرے گا۔ ایک ہوتی ہے عزت کی روٹی اور ایک ہوتی ہے ذلت کی روٹی۔ ذلت کی روٹی تو ہر ایک کو مل سکتی ہے۔ کیا اللہ سب کو عزت کی روٹی نہیں دے سکتا؟ نہیں دے سکتا کیونکہ رزق دراصل اس نے خود تلاش کرنا ہے۔ اگر تلاش نہیں کرے گا پھر بھوکا ہی مرے گا۔ میں نے آپ کو اسی آرٹیکل میں اوپر بتا دیا تھا کہ ایک ہوتا ہے رزق اور دوسرا لنگر، امید ہے دوبارہ سمجھانے کی ضرورت  نہیں پڑنا چاہیے۔ لہٰذا  یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ سب کو رزق مہیا کرے، لنگر نہیں۔

 پاکستان جیسے ناکام ملک میں غریب بے چارہ پیدا بھی غریب ہوتا ہے اور مرتا بھی غریب ہے، مرتا بھی غربت میں ہے۔ یہاں موچی کا بیٹا موچی ہی بنتا ہے۔ امریکہ میں موچی کا بیٹا صدر بھی بن جاتا ہے۔ ابراہم لنکن صدر تھا امریکہ کا اور اس کا باپ ایک غریب آدمی، نیٹ پہ خود سرچ کریں اس کا باپ کیا کام کرتا تھا۔ غریب کی قسمت میں ذلت ہی ذلت ہے۔ کہتے ہیں کہ اللہ غیب سے دینے والا ہے۔ شاید ہی کبھی کسی غریب کی لاٹری نکلی ہو، جبکہ انکے مقابلے میں امیروں کی ہر روز ہی لاٹریاں نکلتی رہتی ہیں۔ دنیا جہان کی تمام مصیبتیں بھی غریبوں کا مقدر بن چکی ہیں۔ بیماریاں بھی ان کے نصیب میں لکھی جا چکی ہیں۔ان کے مقدر میں لوگوں کا بچا کھچا  باسی کھانا، گلے سڑے پھل، گندہ پانی، گندہ لباس اور ٹوٹا پھوٹا کچا گھر ہوتا ہے۔جبکہ پاکستان میں تو یہ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ امیر پیدا بھی امیر ہوتا ہے اور مرتا بھی امیرہے۔ اللہ ان کو اچھی صحت، اچھی غذا اور سکھ چین کی لمبی زندگیاں دیتا ہے۔ پھر تو اللہ امیروں کا دوست ہوا۔ غریبوں کے لئیے صرف اور صرف صبر کیونکہ اللہ صبر والوں کے ساتھ ہے۔ علامہ اقبال کو شکوہ اور جواب شکوہ مسلمانوں کی حالت زار پر لکھنے کی بجائے دراصل غریبوں کی حالت زار پر لکھنا چاہیئے تھی۔ اکیلے مسلمانوں کا کیا شکوہ کرنا۔ شکوہ تو پوری غربت کا کرنا چاہیے تھا۔غریب نے ازل سے ابد تک غریب ہی  رہنا ہے ۔

یوں تو ساری دنیا میں غریبوں کا برا حال ہے مگر ہمارے ملک میں کچھ زیادہ ہی برا ہے۔ہمارے ملک کی کل آبادی کا تقریباً نصف حصہ خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہا ہے۔ ملک کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔افغانیوں،ایرانیوں اور بنگلا دیشیوں کی غیر قانونی آمد کا سلسلہ جاری ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے ملک میں سونے کی کانیں نکل آئی ہیں۔ہر بندہ ہی یہاں منہ اٹھا کے چلا آتا ہے بغیر ویزہ پاسپورٹ۔ اوپر سے نادرا والے ان کو پیسہ کھا  کے یعنی رشوت کھا کے شناختی کارڈ تک دے دیتے ہیں۔ غیر قانونی طریقوں سے شہریت حاصل کر لی جاتی ہے۔ وسائل کم سے کم تر ہوتے جارہے ہیں۔غریب غریب تر ہوتے جارہے ہیں اور  امیر امیر تر۔غربت ایک ایسی بیماری ہے جو اچھوت کی طرح چمٹی رہتی ہے۔ یہ بےچارے نسل در نسل غریب ہی رہتے ہیں۔  آخر کیا وجہ ہے کہ امیر امیر تر ہوتا جارہا ہے اور غریب غریب تر؟؟؟ غریب بے چارے تو صدیوں سے غریب کے غریب ہی چلے آ رہے ہیں۔جبکہ امیروں کو بغیر حساب بھی خوب مل رہا ہے۔ ایسا تو شاذو نادر ہی ہوا ہوگا کسی غریب کی بیٹھے بٹھائے لاٹری نکل آئی ہو۔ انکے پاس تو اتنا مال ہی نہیں ہوتا کہ وہ لاٹری کے ٹکٹ خرید لیں۔ اب ان حالات میں غریب خودکشی بھی نہیں کر سکتا، کیونکہ خودکشی حرام قرار دی گئی ہے۔ غریب مایوس بھی نہیں ہو سکتا کیونکہ مایوسی گناہ ہے، انسان بالکل بے بس ہے پاکستان میں۔  بندہ زندہ رہنے کیلیئے کیا کرے، جبکہ نہ نوکری ہے اور نہ روزگار اگر وہ اپنا پیٹ بھرنے کیلئیے چوری کرتا ہے، ڈاکے ڈالتا ہے، اغوا برائے تاوان کرتا ہے، بھتہ وصول کرتاہے، قتل کرتا ہے،  سزا کے طور پر جیل جاتا ہے اور اگر آخرت میں بھی پکڑ ہوئی تو جہنم کا ایندھن بن جائے گا۔ کیا وسائل اور اسباب پیدا کرنا حکومت کی ذمہ داری نہیں؟؟؟   کیا صرف دعاء سے اپنی تقدیر بدل سکتا ہے پاکستان کا غریب انسان؟؟؟ تو آئیں مل کر حضرت ابراہیمؑ کی یہ دعاء ہم بھی مانگیں کہ "یا اللہ میری یہ دنیا بھی بھلی کردے اور آخری بھی بھلی کردے۔آمین"۔




مالک و مصنف: شیخ محمد فاروق۔
کمپوزر: کاشف فاروق۔ لاہور سے۔


No comments:

Post a Comment