URDU STORIES:

اردو ادب اور کہانیوں میں خوش آمدید ۞ قصہ کہانیاں ۞ غزلیں ۞ نظمیں ۞ واقعات ۞ طنزومزاح ۞ لاہور کی پنجابی۞ کچھ حقیقت کچھ افسانہ ۞ پراسرار خواب والی ٹیکنالوجی ۞ میری فیملی کا ذاتی شجرہ نسب سن 1790ء تا 2023ء۔ ۞ قومی پیمانہ ۞ تباہی و زلزلے ۞ دو سو سالہ کیلینڈر ۞ اردو سافٹ وئیر ڈاؤنلوڈ ۞۔

QUAID E AZAM AUR URDU - MOLVI ABDUL HAQ - قائداعظم اور مولوی عبدالحق



 


 


قائداعظم اور اردو ۔ قائداعظم اور مولوی عبدالحق

یه سبق مولوی عبدالحق نے تحریر کیا ہے وه کهتے ہیں که میں غیر سیاسی آدمی ہوں چنانچه قائداعظم سے میری ملاقات اردو کے حوالے سے ہوئیں۔ بابائے اردو نے یه یاداشتیں صیغه واحد متکلم میں قلم بند کیں ہیں یعنی "میں" سے مراد مولوی عبدالحق کہتے ہیں:۔

سب سے پہلے 1937 میں قائداعظم کا خط میرے نام آیا جس میں اردو کے حوالے سے میری قومی خدمت کا اعتراف کیا گیا تھا۔ اور مجھے لکھنؤ میں منعقد ھونے والے مسلم لیگ کونسل کے اجلاس میں دعوت دی گئی تھی۔ تاکہ میں قائداعظم سے مل سکوں۔ اس کے ایک دو روز بعد ہی علامہ اقبالؒ اور میاں بشیر احمد نے مجھے خطوط کے ذریعے تاکید کی کہ میں ضرور مسٹر جناح سے ملوں۔ قائداعظمؒ سے میری ملاقات کی تحریک غالباً ڈاکٹر علامه اقبالؒ نے کی ہوگی۔

انھیں شاید اندیشه تھا کہ میں اہلِ کانگریس یا ہندی والوں سے کوئ ایسا سمجھوتہ نہ کرلوں جو اردو والوں کے حق میں مفید نه ہو۔ میں عبدالرحمٰن صدیقی کے ہمراہ لکھنؤ گیا جو مسلم لیگ کونسل کے ممبر تھے صدیقی صاحب کے ہمراہ قائداعظم سے میری ملاقات ہوئ اور انھوں نے اردو کے معاملے میں مجھے تعاون کرنے کو کہا چنانچه میں نے انھیں اپنے تعاون کا یقین دلایا۔ ہم اردو کے بارے میں ایک قرار دار بھی لکھ کر ساتھ لے گئے تھے۔وه ہم نے قائداعظم کو پیش کی انهوں نے شروع سے آخر تک پڑھا اور پسند فرمایا۔ دوسرے دن مسلم لیگ کونسل کا اجلاس تھا اجلاس میں یه قرارداد پیش کی جانی تھی۔ لیکن میں اسے پیش نه کرسکتا تھا۔ کیونکه میں کونسل کا ممبر نه تھا۔ چنانچه یه قرارداد جناب عبدالرحمٰن صدیقی صاحب نے پیش کی۔اس قرارداد میں یه فقره بھی تھا که مسلم لیگ کی آفیشل زبان اردو ہوگی۔

کونسل کے بعض ارکان نے اس قرارداد کے حق میں اور بعض نے اس کے خلاف رائے دی۔ آخر اس قرارداد کے متزکره بالا فقرے کو اس طرح بدل دیا گیا که " هر ممکن کوشش کی جائے گی که اردو تمام ہندوستان کی عام زبان ہوجائے گی"۔ سن 1939 میں انجمن ترقی اردو دہلی منتقل ہوگئ۔ اور 1945 میں مولوی سید ہاشمی کی درخواست پر قائداعظمؒ انجمن میں تشریف لائے اور ہمارے ساتھ لنچ کیا۔

اس موقع پر ڈاکٹر ضیاء الدین مرحوم نواب زاده لیاقت علی خان سید حسین امام اور چند اور صاحبان کو بھی دعوت دی گئ تھی۔ قائداعظم لنچ سے پهلے آگئے دیر تک باتیں کرتے رہے اور انجمن کی مطبوعات وغیره کا معائنه کیا۔ میں نے انھیں انجمن کی انگریزی اردو لغات اور سر سید احمد خان کی اردو یونیورسٹی کی تجویز کی ایک نقل نظر کی، جو وه ساتھ لے گئے۔ کچھ دنوں بعد انھیں اینگلو عربک کالج کے طلبه نے کالج میں تقریر کی دعوت دی۔ اس دعوت سے قبل انھیں رات کا کھانا بھی دیا گیا۔ کھانے کے بعد قائداعظم نے مجھ سے کها که انھوں نے سب سے پهلی اردو کی تقریر بنگال کے کسی مقام پر کی۔ اس مجمع میں هزاروں آدمیوں کا مجمع تھا۔ جن میں سے انگریزی جاننے والے تقریباً 500 اور اردو جاننے والے تقریباً ڈیڑھ هزار تھے۔ اس موقع پر قائداعظم نے فرمایا که میری اردو تانگه والے کی اردو ہے۔

سن 1946ء میں مسلم لیگ کونسل کا ایک اجلاس دہلی میں ہوا اس اجلاس میں سرفیروز خان نون نے اپنی تقریر اردو کے بجائے انگریزی میں کرنے پر اصرار کیا اور اس کا جواز یه پیش کیا که مسٹر جناح بھی انگریزی میں تقریر کرتے ہیں۔ اس پر قائداعظم نے صریح اور صاف لفظوں میں فرمایا که "سر فیروز خان نون نے میرے پیچھے پناه لی ہے لهٰذا میں اعلان کرتا ہوں که پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہوگی"۔

فروری 1946ء میں انجمن ترقی اردو کی سالانه کانفرنس بمبئ میں ہوئ اس کے لیے قائداعظم نے اپنا ہمت افزا پیغام بھیجا جسے سن کر حاضرین نے خوشی کے نعرے لگائے اور اس جوش سے تالیاں بجائیں که سارا پنڈال گونج اٹھا۔ انجمن ترقی اردو نے حکومتِ ہند سے نئ دہلی میں اپنی عمارت کے لیے ایک خطء اراضی خریدا تھا جس کے لیے میں جگه جگه چنده جمع کر رہا تھا۔ اس سلسلے میں حضور نظام نواب پیر مئیر عثمان علی نظام حیدرآباد سے بهت اچھا عطیه ملنے کی توقع تھی۔ میں نے قائداعظم سے حضور نظام کے نام ایک سفارشی خط دینے کی درخواست کی۔ آپ نے فرمایا که خط لکھنا مناسب نهیں۔ کیونکه لوگوں نے پهلے ہی مجھے بدنام کررکھا ہے که حضور نظام مجھے چھ لاکھ روپے سالانه دیتے ہیں۔ تاہم آپ نے فرمایا که عنقریب میں حیدرآباد جانے والا ہوں۔ اس وقت اعلٰی حضرت سے امداد کے لیے بالمشافه کهوں گا۔

قائداعظم حیدرآباد دکن گئے اور انھوں نے حضور نظام سے اس سلسلے میں بات بھی کی لیکن افسوس که جو امیدیں حضور نظام سے تھیں وه پوری نه ہوئیں۔ حضرت قائداعظم کے اس دورهء حیدرآباد کی بهت اہم اور دلچسپ تفصیلات بابائے اردو سے ملتی ہیں۔ حیدرآباد کا ہوائ اڈه شهر سے کوئ 15 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے، ہزارہا آدمی قائداعظم کے استقبال کے لیے ہوائ اڈه اور راستوں پر موجود تھے دو انگریزوں نے قائداعظم کو جهاز سے اپنی پٹرول گاڑی میں سوار کیا اور انھیں بڑی مشکل سے اس ہجوم سے نکال کر لے گئے۔ دوسرے دن سه پهر کو دارالسلام حیدرآباد دکن میں قائداعظم کی تقریر تھی۔ تقریباً ایک لاکھ کا مجمع تھا۔ انھوں نے بهت صاف اور اچھی اردو میں تقریر کی۔ یه تقریر 45 منٹ کی تھی۔ اس کے بعد انهوں نے انگریزی میں تقریر کرنی شروع کی۔ دوسرے دن میں نے انھیں ایسی اچھی اردو تقریر کرنے پر مبارکباد دی۔ تو جواباً انھوں نے کها که "آپ اردو کے ماسٹر ﴿استاد﴾ ہیں" میں نے انھیں کها که "اب آپ کبھی یه نه کهیے که میری اردو تانگه والی اردو ہے"۔ اس پر وه مسکرائے۔

قیام پاکستان کے بعد حکومت سندھ نے انجمن ترقی اردو کو ایک اچھی عمارت دے دی۔ انجمن کے ارکان چاهتے تھے که حضرت قائداعظمؒ اس نئے دفتر کا افتتاح فرمائیں۔ وه رضامند بھی ہوگئے۔ لیکن انھیں پهلے گوناگوں مصروفیات نے اور پھر موت نے آن گھیرا اور وه ہم سے ہمیشه کے لیے جدا ہوگئے۔

کسی بھی ملک کی شناخت، اس کی علمی و ادبی سرمائے اور تہذیب و ثقافت سے ہوتی ہے۔ تہذیب و ثقافت میں زبان بھی شامل ہے۔ قومی تشخص اور پہچان کے لیے زبان کا ہونا لازمی ہے۔ جب پاکستان کی بات ہوگی تو قومی زبان اردو کا نام آئے گا اور جہاں اردو کا نام آئے گا، وہیں بابائے اردو مولوی عبدالحق کا ذکر بھی ضرور ہوگا کیوں کہ اردو اور مولوی صاحب لازم و ملزوم ہیں۔

بابائے اردو مولوی عبدالحق کی 57ویں برسی 16 نومبر 2018ء کو منائی گئی۔ مولوی عبدالحق 16 نومبر 1870ء کو بہار کے ضلع غازی آباد کے قبضہ یاپور میں پیدا ہوئے۔ وہ انجمن ترقی اردو کے بانی تھے جو علی گڑھ میں 1903ء میں قائم ہوئی تھی۔ مولوی عبدالحق نومبر 1947ء کو پاکستان آئے۔ ان کا ادبی ورثہ اردو ڈکشنری بورڈ میں موجود  ہے انہوں نے کراچی میں ایک اردو کالج قائم کیا۔ مولوی عبدالحق برصغیر پاک وہند کے عظیم مفکر، محقق، ماہر لسانیات اور معلم تھے۔ حکومت پاکستان کی جانب سے انہیں صدارتی اعزاز برائے حسن کارکردگی سے نوازا گیا۔

وہ کینسر کے باعث 16 اگست 1961ء کو کراچی میں وفات پاگئے تھے۔

اردو کو پاکستان کی قومی زبان بنانے والے ہراول دستے کے سالار مولوی عبدالحق ہی تھے۔مولوی صاحب کی اردو کے لیے جدوجہد کوئی ایک دن، مہینہ یا سال پر مشتمل نہیں ہے بلکہ یہ برس ہا برس کی عزم و ہمت کی ایک ایسی داستان ہے جس کے لیے جتنے بھی الفاظ قرطاس پر منتقل کیے جائیں، کم ہیں۔ مولوی صاحب ایک شخصیت نہیں، ادارہ تھے۔

اُنھوں نے اردو زبان کی ترویج و اشاعت کے لیے جتنی کوششیں تنِ تنہا کی ہیں، اتنی تو ادارے مل کر بھی نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے اُنھیں آہنی ارادوں، مضبوط اعصاب، بلا کی خود اعتمادی اور غیر معمولی صلاحیتیں دے کر پیدا کیا تھا۔ اُنھوں نے اردو زبان کی اہمیت کو پہچانا اور اس کے فروغ اور جائز مقام دلوانے کے لیے تن من دھن سے کوششیں کیں۔

وہ بلاشبہ کاروانِ اردو کے سرخیل کہے جاسکتے ہیں اور یہی اُن کا مقصدِ حیات بھی تھا۔ اس معاملے میں وہ کبھی کسی سے سمجھوتا نہیں کرتے تھے، نہ حکمرانِ وقت سے، نہ زمانے کے فرعونوں سے۔ وہ اپنی دھن کے پکّے اور لگن کے سچے تھے۔ مولوی عبدالحق غیر منقسم ہندوستان، میرٹھ (ہاپڑ) میں 1870ء میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے آبائی علاقے میں حاصل کی اور پھر علی گڑھ چلے گئے جہاں سے بی اے کیا۔ وہیں رہتے ہوئے سرسیّد احمد خان کے قریب ہوگئے۔ سرسید احمد خاں بھی اردو کے لیے جوشاں تھے۔

ان کے علمی و ادبی معاملات میں ساتھ کی وجہ سے بہت کچھ سیکھا اور ان کی شخصیت سے متاثر ہوئے۔ مختلف شہروں میں ملازمتیں کیں۔ حیدرآباد دکن میں رہے اور وہاں مدرسہ آصفیہ میں ہیڈ ماسٹر کے عہدے پہ فائز رہے۔ اورنگ آباد میں محکمہ تعلیمات کے صدر مہتمم رہے۔ حیدرآباد دکن میں موجود جامعہ عثمانیہ کے موسسین میں شامل رہے۔ آپ کا شمار جامعہ عثمانیہ کے معماروں اور منصوبہ سازوں میں ہوتا ہے۔

وہاں ایک بین الاقوامی معیار کا دارالترجمہ قائم کیا جس کے پہلے ناظم بنے ، جسے مولوی صاحب نے جدید سائنسی انداز میں منظم کیا اور دنیا بھر کے تمام علوم و فنون کا اردو ترجمہ کروایا۔ جامعہ عثمانیہ میں تمام تدریس اردو میں ہوا کرتی تھی اس جامعہ کو ایک ماڈل اردو یونی ورسٹی کے طور پر چلا کر ثابت کیا کہ اردو ایک ایسی بھرپور زبان ہے جس میں تمام علوم و فنون کی تعلیم نہایت کامیابی سے دی جاسکتی ہے اور بعد میں یہ بات جامعہ عثمانیہ کے فارغ التحصیل طلبہ نے دنیا میں بہترین ڈاکٹر، انجینئر، سائنس دان، فلسفی اور دانش ور بن کر ثابت کی۔

بلکہ قیامِ پاکستان کے بعد ایک نئے ملک میں مختلف اہم شعبوں کے عہدوں پر خدمات انجام دیں۔ مختلف اداروں کے سربراہوں سے لے کر تعلیمی ادارے قائم کرنے والوں میں شامل رہے۔ ان میں میں معروف سرجن سیّد عبداللہ حسینی (لیاقت نیشنل اسپتال)، ڈاکٹر رضی الدین (سائنس دان)، پروفیسر سیّد اکبر حسنی، ڈاکٹر نعمت اللہ شریف، خواجہ معین الدین (ڈراما نگار) شاہ بلیغ الدین وغیرہ۔مولوی صاحب کا اصل کام انجمن ترقی اردو سے وابستگی ہے جب تک وہ ہندوستان میں رہے، انجمن کی ترقی کے لیے کوشاں رہے۔

اردو کا مقدمہ لڑتے رہے، دامے درمے قدمے سخنے ہر طرح سے اس کو صحیح مقام دلوانے کی کوششیں کرتے رہے۔ حکمرانوں، سیاست دانوں، دانش وروں تمام مکاتبِ فکر سے تعلق رکھنے والی شخصیات کو اردو کے لیے خطوط لکھے، ملاقاتیں کیں، لمبے لمبے سفر کیے، اپنی تمام کتابیں انجمن کو دے دیں، پیسے جمع کیے، نادار طلبہ کی مدد کی، انجمن کی شاخیں کھولیں، اردو مدرسے قائم کیے۔ اُنھوں نے اردو کے لیے کہاں سرفروشی نہیں دکھائی۔ انجمن ترقی اردو ایک چھوٹے سے ادارے سے لے کر ہندوستان کے طول و عرض پر پھیل گئی۔ مولوی صاحب نے خود کو اردو کے لیے وقف کردیا تھا اور ایک فریضے کی طرح اردو کی خدمت کا کام انجام دیا۔

نوجوانوں کو انجمن اور اردو سے جوڑا۔ ان کا مقصد صرف اردو کا تحفظ اور ترقی تھا۔ مولوی صاحب ایک بہترین محقق، شان دار لغت نویس، بے باک نقاد، اعلیٰ پائے کے مدیر، مکتوب نگار، خاکہ نگار، کالم نگار اور اردو کا کون سا ایسا شعبہ نہ تھا جس پر اُنھوں نے خامہ فرسائی نہ کی ہو۔ اُنھوں نے جس شعبے کا انتخاب کیا، اس کو بامِ عروج پر پہنچایا۔قیامِ پاکستان کے بعد قائداعظم کی درخواست پر پاکستان ہجرت کی۔

تقسیم کے وقت انجمن کا دفتر دہلی میں تھا۔ حالات حوصلہ شکن تھے، انجمن کی اچھی خاصی بربادی ہوچکی تھی۔ ان مایوس کن حالات میں بچے کھچے علمی اثاثے کے ساتھ پاکستان تشریف لائے۔ یہاں آکر انجمن ترقی اردو کا احیا کیا اور ازسرِنو اسے ترقی دینے میں جُت گئے اور اسے اردو کا ایک فعال اور اہم ادارہ بنا دیا۔ مولوی صاحب صرف ایک ہی سمت پر نظر مرکوز نہیں رکھتے تھے۔ ان کی نظر ہر طرف رہتی تھی۔ ان کے ذہن میں حیدرآباد دکن کی جامعہ عثمانیہ بھی تھی اور پھر مولوی صاحب کی دیرینہ خواہش تھی کہ عثمانیہ کی طرز پر پاکستان میں بھی ایک جامعہ ہو جہاں تمام علوم کی تعلیم اردو میں دی جائے۔

قائداعظم محمد علی جناح نے ڈھاکہ میں اپنے خطبے میں فرمایا تھا کہ، ''پاکستان کی قومی زبان صرف اردو ہوگی۔'' مولوی صاحب کے پیشِ نظر یہی مقصد تھا کہ اردو کو پاکستان میں ہر جگہ نافذ کیا جائے کیوں کہ یہی ایک ایسی زبان ہے جو پورے ملک میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ اسی لیے اُنھوں نے اردو کالج قائم کیا جہاں ذریعۂ تعلیم اردو رکھی گئی۔ یہ تجربہ بہت کامیاب رہا۔ بعد ازاں اس کالج کو اس وقت انجمن کے منتظم جمیل الدین عالی صاحب کی کوششوں سے جامعہ کا درجہ ملا۔ پاکستان میں ان کے علمی سرمائے کے علاوہ انجمن ترقی اردو پاکستان اور وفاقی جامعہ اردو ایسے کارنامے ہیں جہاں سے تشنگانِ علم ہر وقت فیض اٹھا رہے ہیں۔ مولوی صاحب کے کارنامے اور خدمات کا احاطہ کرنا مشکل ہی نہیں، تقریباً ناممکن ہے۔

اُنھوں نے خود ایک بار کہا تھا:

''تصویر جس قدر بڑی، شان دار اور نفیس ہوتی ہے، اسے اسی قدر پیچھے ہٹ کر دیکھنا پڑتا ہے تاکہ اس کے خدوخال واضح طور پر نمایاں ہوسکیں اور صناع کے کمال اور تصویر کے حسن و قبح کا صحیح اندازہ ہوسکے۔ یہی حال بڑے لوگوں کا ہے جنھوں نے دنیا میں کسی نہ کسی حیثیت میں کار ہائے نمایاں انجام دیے ہیں۔'' مولوی صاحب کے اپنے الفاظ ہی یہ کہنے کے لیے کافی ہیں کہ ان کی خدمات کا احاطہ کرنا کتنا مشکل ہے۔ آج وہ حیات ہوتے تو خود دیکھ لیتے کہ اُن کا ادارہ انجمن ترقی اردو کس طرح اردو کی خدمت کر رہا ہے۔ اور جیسے ان کی خواہش تھی کہ یہاں یہ کام سائنسی انداز سے ہوں تو انجمن میں بھی کتابوں، رسالوں، تحقیقی مجلّوں کی کمپوزنگ سے لے کر پرنٹنگ تک تمام مراحل انجمن میں ہی انجام دیے جا رہے ہیں۔



مالک، مصنف و کمپوزر: کاشف فاروق۔ لاہور سے۔

No comments:

Post a Comment