URDU STORIES:

اردو ادب اور کہانیوں میں خوش آمدید ۔ قصہ کہانیاں، غزلیں، نظمیں، واقعات، طنزومزاح، لاہور کی پنجابی، کچھ حقیقت کچھ افسانہ، پراسرار خواب والی ٹیکنالوجی، میری فیملی کا ذاتی شجرہ نسب سن 1790ء تا 2023ء۔، قومی پیمانہ، تباہی و زلزلے، دو سو سالہ کیلینڈر، اردو سافٹ وئیر ڈاؤنلوڈ۔

Friday, September 16, 2022

QUAID E AZAM AUR URDU - MOLVI ABDUL HAQ - قائداعظم اور مولوی عبدالحق

 


 


قائداعظم اور اردو ۔ قائداعظم اور مولوی عبدالحق

یه سبق مولوی عبدالحق نے تحریر کیا ہے وه کهتے ہیں که میں غیر سیاسی آدمی ہوں چنانچه قائداعظم سے میری ملاقات اردو کے حوالے سے ہوئیں۔ بابائے اردو نے یه یاداشتیں صیغه واحد متکلم میں قلم بند کیں ہیں یعنی "میں" سے مراد مولوی عبدالحق کہتے ہیں:۔

سب سے پہلے 1937 میں قائداعظم کا خط میرے نام آیا جس میں اردو کے حوالے سے میری قومی خدمت کا اعتراف کیا گیا تھا۔ اور مجھے لکھنؤ میں منعقد ھونے والے مسلم لیگ کونسل کے اجلاس میں دعوت دی گئی تھی۔ تاکہ میں قائداعظم سے مل سکوں۔ اس کے ایک دو روز بعد ہی علامہ اقبالؒ اور میاں بشیر احمد نے مجھے خطوط کے ذریعے تاکید کی کہ میں ضرور مسٹر جناح سے ملوں۔ قائداعظمؒ سے میری ملاقات کی تحریک غالباً ڈاکٹر علامه اقبالؒ نے کی ہوگی۔

انھیں شاید اندیشه تھا کہ میں اہلِ کانگریس یا ہندی والوں سے کوئ ایسا سمجھوتہ نہ کرلوں جو اردو والوں کے حق میں مفید نه ہو۔ میں عبدالرحمٰن صدیقی کے ہمراہ لکھنؤ گیا جو مسلم لیگ کونسل کے ممبر تھے صدیقی صاحب کے ہمراہ قائداعظم سے میری ملاقات ہوئ اور انھوں نے اردو کے معاملے میں مجھے تعاون کرنے کو کہا چنانچه میں نے انھیں اپنے تعاون کا یقین دلایا۔ ہم اردو کے بارے میں ایک قرار دار بھی لکھ کر ساتھ لے گئے تھے۔وه ہم نے قائداعظم کو پیش کی انهوں نے شروع سے آخر تک پڑھا اور پسند فرمایا۔ دوسرے دن مسلم لیگ کونسل کا اجلاس تھا اجلاس میں یه قرارداد پیش کی جانی تھی۔ لیکن میں اسے پیش نه کرسکتا تھا۔ کیونکه میں کونسل کا ممبر نه تھا۔ چنانچه یه قرارداد جناب عبدالرحمٰن صدیقی صاحب نے پیش کی۔اس قرارداد میں یه فقره بھی تھا که مسلم لیگ کی آفیشل زبان اردو ہوگی۔

کونسل کے بعض ارکان نے اس قرارداد کے حق میں اور بعض نے اس کے خلاف رائے دی۔ آخر اس قرارداد کے متزکره بالا فقرے کو اس طرح بدل دیا گیا که " هر ممکن کوشش کی جائے گی که اردو تمام ہندوستان کی عام زبان ہوجائے گی"۔ سن 1939 میں انجمن ترقی اردو دہلی منتقل ہوگئ۔ اور 1945 میں مولوی سید ہاشمی کی درخواست پر قائداعظمؒ انجمن میں تشریف لائے اور ہمارے ساتھ لنچ کیا۔

اس موقع پر ڈاکٹر ضیاء الدین مرحوم نواب زاده لیاقت علی خان سید حسین امام اور چند اور صاحبان کو بھی دعوت دی گئ تھی۔ قائداعظم لنچ سے پهلے آگئے دیر تک باتیں کرتے رہے اور انجمن کی مطبوعات وغیره کا معائنه کیا۔ میں نے انھیں انجمن کی انگریزی اردو لغات اور سر سید احمد خان کی اردو یونیورسٹی کی تجویز کی ایک نقل نظر کی، جو وه ساتھ لے گئے۔ کچھ دنوں بعد انھیں اینگلو عربک کالج کے طلبه نے کالج میں تقریر کی دعوت دی۔ اس دعوت سے قبل انھیں رات کا کھانا بھی دیا گیا۔ کھانے کے بعد قائداعظم نے مجھ سے کها که انھوں نے سب سے پهلی اردو کی تقریر بنگال کے کسی مقام پر کی۔ اس مجمع میں هزاروں آدمیوں کا مجمع تھا۔ جن میں سے انگریزی جاننے والے تقریباً 500 اور اردو جاننے والے تقریباً ڈیڑھ هزار تھے۔ اس موقع پر قائداعظم نے فرمایا که میری اردو تانگه والے کی اردو ہے۔

سن 1946ء میں مسلم لیگ کونسل کا ایک اجلاس دہلی میں ہوا اس اجلاس میں سرفیروز خان نون نے اپنی تقریر اردو کے بجائے انگریزی میں کرنے پر اصرار کیا اور اس کا جواز یه پیش کیا که مسٹر جناح بھی انگریزی میں تقریر کرتے ہیں۔ اس پر قائداعظم نے صریح اور صاف لفظوں میں فرمایا که "سر فیروز خان نون نے میرے پیچھے پناه لی ہے لهٰذا میں اعلان کرتا ہوں که پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہوگی"۔

فروری 1946ء میں انجمن ترقی اردو کی سالانه کانفرنس بمبئ میں ہوئ اس کے لیے قائداعظم نے اپنا ہمت افزا پیغام بھیجا جسے سن کر حاضرین نے خوشی کے نعرے لگائے اور اس جوش سے تالیاں بجائیں که سارا پنڈال گونج اٹھا۔ انجمن ترقی اردو نے حکومتِ ہند سے نئ دہلی میں اپنی عمارت کے لیے ایک خطء اراضی خریدا تھا جس کے لیے میں جگه جگه چنده جمع کر رہا تھا۔ اس سلسلے میں حضور نظام نواب پیر مئیر عثمان علی نظام حیدرآباد سے بهت اچھا عطیه ملنے کی توقع تھی۔ میں نے قائداعظم سے حضور نظام کے نام ایک سفارشی خط دینے کی درخواست کی۔ آپ نے فرمایا که خط لکھنا مناسب نهیں۔ کیونکه لوگوں نے پهلے ہی مجھے بدنام کررکھا ہے که حضور نظام مجھے چھ لاکھ روپے سالانه دیتے ہیں۔ تاہم آپ نے فرمایا که عنقریب میں حیدرآباد جانے والا ہوں۔ اس وقت اعلٰی حضرت سے امداد کے لیے بالمشافه کهوں گا۔

قائداعظم حیدرآباد دکن گئے اور انھوں نے حضور نظام سے اس سلسلے میں بات بھی کی لیکن افسوس که جو امیدیں حضور نظام سے تھیں وه پوری نه ہوئیں۔ حضرت قائداعظم کے اس دورهء حیدرآباد کی بهت اہم اور دلچسپ تفصیلات بابائے اردو سے ملتی ہیں۔ حیدرآباد کا ہوائ اڈه شهر سے کوئ 15 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے، ہزارہا آدمی قائداعظم کے استقبال کے لیے ہوائ اڈه اور راستوں پر موجود تھے دو انگریزوں نے قائداعظم کو جهاز سے اپنی پٹرول گاڑی میں سوار کیا اور انھیں بڑی مشکل سے اس ہجوم سے نکال کر لے گئے۔ دوسرے دن سه پهر کو دارالسلام حیدرآباد دکن میں قائداعظم کی تقریر تھی۔ تقریباً ایک لاکھ کا مجمع تھا۔ انھوں نے بهت صاف اور اچھی اردو میں تقریر کی۔ یه تقریر 45 منٹ کی تھی۔ اس کے بعد انهوں نے انگریزی میں تقریر کرنی شروع کی۔ دوسرے دن میں نے انھیں ایسی اچھی اردو تقریر کرنے پر مبارکباد دی۔ تو جواباً انھوں نے کها که "آپ اردو کے ماسٹر ﴿استاد﴾ ہیں" میں نے انھیں کها که "اب آپ کبھی یه نه کهیے که میری اردو تانگه والی اردو ہے"۔ اس پر وه مسکرائے۔

قیام پاکستان کے بعد حکومت سندھ نے انجمن ترقی اردو کو ایک اچھی عمارت دے دی۔ انجمن کے ارکان چاهتے تھے که حضرت قائداعظمؒ اس نئے دفتر کا افتتاح فرمائیں۔ وه رضامند بھی ہوگئے۔ لیکن انھیں پهلے گوناگوں مصروفیات نے اور پھر موت نے آن گھیرا اور وه ہم سے ہمیشه کے لیے جدا ہوگئے۔



مالک، مصنف و کمپوزر: کاشف فاروق۔ لاہور سے۔

No comments:

Post a Comment