اٹلی کی ایک پراسرار گمشدہ ٹرین کا معمہ
8 مئی 2024ء
قارئین آج میں آپ کے سامنے ایک ایسا ناقابل فراموش اور انہونہ واقعہ آپ کی خدمت لایا ہوں جو 1911ء میں پیش آیا تھا۔ جس کی گتھی آج 2024ء تک نہیں سلجھ سکی۔ یہ کہانی دراصل ٹائم مشین یا ٹائم ٹریولنگ سسٹم سے تعلق رکھتی ہے۔ جس کو شاید پاکستان کے لوگ زیادہ نہ جانتے ہونگے اور سمجھ بھی نہ سکتے ہونگے۔
یہ کہانی سن 1845ء کے وقت میں ٹائم مشین کے ذریعے اٹلی کے لوگوں تک پہنچی حیران کن طور پر جب 1926ء کا سن آیا۔ آپ بھی پڑھ کر حیران ہونگے کہ دراصل کہانی کیا تھی!!! کہانی ذرا نہایت سمجھداری سے پڑھنی ہے تبھی آپ کو کچھ معلوم ہوگا کہ ٹائم ٹریولنگ سسٹم کیا ہے!!!
کہانی یہ ہے کہ مورخہ 14 جون 1911ء اور بعض جریدوں کے مطابق 14 جولائی 1911ء کو اٹلی کی ایک پرایئویٹ کمپنی اپنا ایڈورٹائزمنٹ کمپین لے کر روم کے شہر سے اپنے پہلے سفر پر روانہ ہورہی تھی کا نام تھا زناٹی کمپنی۔ اس کمپنی نے اپنے نام سے ایک ٹرین چلائی جس کا نام رکھا زناٹی ٹرین۔ اس ٹرین میں اٹلی کے سب سے امیر ترین لوگوں کو سوار کیا گیا تاکہ اس کی شہرت ہوسکے۔ مگر یہ کوئی نہیں جانتا تھا کہ یہ مسافر کسی ایسے سفر پہ جارہے ہیں جس کی کوئی منزل ہی نہیں ہے۔ یہ ٹرین صرف 3 ڈبوں کی ایک ریل کار تھی جس میں ایک اسٹیم انجن لگا ہوا تھا۔ اس ٹرین میں 100 مسافر اور عملے کے 6 افراد سوار تھے کل 106۔ بعض روایات کے مطابق مسافروں سمیت کل 104 اور کچھ کے مطابق 109 افراد سوار تھے۔ یہ لوگ پہاڑی مقام پر سیر کے لیے نکلے جن کو لیمبارڈ کے پہاڑ کہتے ہیں۔ ان پہاڑوں کے درمیان ایک لمبی سرنگ تھی جس میں سے ٹرین کو گزرنا تھا۔ یہ ایک کلومیٹر لمبی سرنگ تھی۔
جب ٹرین سرنگ کے منہ پر پہنچی تو وہاں سفید رنگ کے بادل چھائے ہوئے تھے جن میں سے عجیب و غریب قسم کی آوازیں اور چیخیں سنائی دے رہی تھیں۔ ٹرین کے آخری ڈبے کے 2 مسافر بادل دیکھ کر ڈر گئے اور خطرے کو بھانپتے ہوئے چلتی گاڑی سے کود گئے۔ پہلے تو وہ ہانپتے کانپتے اپنے گھر پہنچے۔ کچھ دن تک تو انہیں یاد ہی نہیں رہا کہ ان کے ساتھ کیا ہوا تھا۔ جب ان کے ہوش و حواس بحال ہوئے تو ان دونوں نےا یک دوسرے سے رابطہ کیا اور روم کے ریلوے اسٹیشن پہنچ گئے اور اپنی کہانی سنائی کہ کیسے وہ دونوں مسافر ٹرین سے کودے اور کیونکر کودے۔ انہوں نے خود کو اس ٹرین کا مسافر بتایا اور اس دھواں والے سفید بادلوں اور چیخنے چلانے کی آوازوں کا ذکر کیا۔ انہوں نے اپنے ٹکٹ ریلوے والوں کو دکھائے جس پر ریلوے والوں نے باقاعدہ تصدیق کی کہ یہ مسافر اسی ٹرین کے ہی ہیں۔ واقعہ ہوتے ہی پہلے تو ریلوے والوں نے یہ سمجھا کہ شاید ٹرین کا کوئی حادثہ ہوگیا ہے۔ ان کا عملہ جائے وقوعہ پر پہنچا تو انہوں نے دیکھا کہ سرنگ کے اندر ٹرین کا کوئی وجود ہی نہیں ہے۔
ریلوے والوں نے اگلے ریلوے اسٹیشن والوں سے معلومات لیں تو انہوں نے بتایا کہ ٹرین نے سرنگ کراس ہی نہیں کی ہے، کیونکہ یہ اگلے اسٹیشن پہنچی ہی نہیں۔ ریلوے والوں نے یہ کنفرم کردیا کہ ٹرین سرنگ کے اندر ہی کہیں "غائب" ہوگئی ہے۔ بعداذاں اس سرنگ کو ریلوے والوں نے دونوں اطراف سے دیوار کی چنائی کرکے بند کردیا جو دوسری جنگِ عظیم تک بند رہی اور معاملے کو فائلوں میں بند کردیا۔ کافی دنوں تک ریلوے پولیس اور دیگر عملہ واقعہ کے بارے میں گفتگو کرتے رہے لیکن اس واقعہ کی گتھی نہ سلجھ سکی۔یہ واقعہ اس زمانے کے اخبارات میں باقاعدہ شائع بھی ہوا۔ ان لاپتہ مسافروں کے لواحقین افسردہ ہوگئے۔ اس دوران پہلی عالمی جنگ چھڑ گئی۔ اس جنگ میں فضائی جنگی طیاروں کا استعمال نہ ہوا کیونکہ اس زمانے میں فضائی جنگی طیارے ایجاد ہی نہیں ہوئے تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ جب دوسری عالمی جنگ شروع ہوئی تو اس جنگ میں پہلی بار فضائی جنگی طیارے استعمال میں لائے گئے۔ اس جنگ میں امریکہ و برطانیہ کی فضائی بمباری اٹلی پہ ہوئی تو اس سے سرنگ کے دونوں اطراف میں بنی دیوار گر گئی، لیکن ٹریکس آج بھی اسی جگہ موجود ہیں اپنی اصلی حالت میں اور وہاں آج کے جدید دور میں بھی ٹرین سروس بند ہے۔ اس ٹرین کی پراسرار گمشدگی پر اٹلی کے تمام لوگ حیران رہ گئے تھے۔ بعد میں بات آئی گئی ہوگئی تھی اور لوگ اس واقعہ کو بھول گئے۔
مگر دوستو کہانی ابھی یہیں ختم نہیں ہوئی، پھر یہ ہوا کہ 15 سال بعد جب سن "1926" آیا تو اسی ٹرین کے لاپتہ مسافروں میں سے کسی کے "رشتہ دار" کو ایک "پراسرا قسم کی کوئی دستاویز" ملی جو "میکسیکو کے ایک پاگل خانے" کے سائکیٹرسٹ نے جاری کی تھی۔ اس نے اس واقعہ کا ذکر لکھا تھا جو 1911ء میں پیش آیا تھا اور ہو بہو انہی 104/106 مسافروں کی طرف اشارہ کرتا تھا۔ مگر حیران کردینے والی بات یہ تھی کہ یہ وا قعہ 1845ء کی تاریخوں میں درج تھا۔ جب یہ اٹلی کی ریلوے انتظامیہ تک بات پہنچی تو پورے اٹلی میں ایک بار پھر طوفان مچ گیا۔
اس کے علاوہ مزید یہ کہ ایک اور دستاویز اٹلی کے شہر روم کی کسی خانقاہ سے ملی۔ خانقاہ دراصل ایک عبادت گاہ ہوتی ہے جہاں روحانی پیشوا بیٹھ کر روحانی مسائل حل کرتے اور برزخ میں موجود روحوں کا تذکرہ کرتے ہیں اور روحوں سے کام لینے والے عملیات بھی کرتے ہیں، ہوتی ہے۔ خانقاہ والی دستاویز میں جو واقعہ لکھا تھا وہ آج سے 300 سال پرانے دور کا ذکر تھا کہ لوہے کے پہیوں والی کوئی مشین آکر کہیں سے ہماری خانقاہ کے سامنے رکی۔ اس میں سے کچھ مسافر عجیب و غریب لباس میں ملبوس اترے۔ انہوں نے کچھ کھانے پینے کی چیزیں ہماری خانقاہ کے سامنے دکانوں سے خریدیں اور دوبارہ اسی لوہے کی مشین میں سوار ہوگئے۔ اس مشین کے کل 3 ڈبے تھے اور ایک بڑی سی مشین تھی جس میں سے سیاہ رنگ کا دھواں فضاء میں اٹھ رہا تھا اس کو لے کر روانہ ہوگئی اور نجانے کہاں غائب ہوگئی۔ یہ مشین اس وقت ایک کچے راستے سے گزر رہی تھی۔۔۔
یہ خانقاہ والا واقعہ ایک مشکوک واقعہ تھا۔ مگر یہ واقعہ درج تھا 16 ویں صدی عیسوی، سن 1700ء کچھ کی تاریخ میں۔ اس کے برعکس میکسیکو کے پاگل خانے میں یہی واقعہ درج تھا جو 1911ء میں ٹرین گمشدگی کا ہوا تھا۔۔۔ وہ حیرانکن طور پر سن ''1845'' کی تاریخ میں درج تھا۔۔۔ یہی ایک سب سے بڑی چونکا دینے والی بات تھی۔۔۔ جس کی گتھی آج تک نہ سلجھ سکی۔
میکسیکو والا واقعہ اس جریدے میں یہ لکھا تھا "کچھ پاگل نما لوگ اچانک کہیں سے پراسرار طریقے سے لائے گئے، ان کو لانے والا کون تھا یہ معلوم نہ ہوسکا، وہ آئے کیسے تھےاور کچھ عرصہ پاگل خانے داخل بھی رہے، ایک دن اچانک پھر غائب بھی ہوگئے۔ وہ کہاں چلے گئے یہ بھی معلوم نہ ہوسکا۔ ان کی کل تعداد 104 / 106 بتائی۔ ان کی حالت سے صاف لگ رہا تھا کہ وہ کوئی مسافر ہی ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ کون ہیں اور کہاں سے آئے ہیں تو سب نے ایک ہی جواب دیا کہ ہم اٹلی کے شہر روم سے آئے ہیں اور زناٹی ٹرین کے مسافر ہیں۔ جب کہ اٹلی سے میکسیکو کا فاصلہ 10 ہزار کلومیٹر ہے اور سمندری راستہ ہے۔ جہاں آج تک کوئی ٹرین زیرِ سمندر نہیں چل سکی۔ ۔۔ اور یہ کہ وہ لوگ ذہنی طور پر پاگل نظر آرہے تھے لہٰذا کسی نے ان کی بات کو نہ مانا اور ان کی اس بات کو بےبنیاد قرار دے دیا اور واقعہ کو دستاویز میں تحریر کرکے فائلوں میں بند کردیا۔ مگر ایک حیران کردینے والی بات یہ بھی ہوئی کہ ان مسافروں میں سے ایک کے پاس سے سگریٹ کا ڈبہ بھی برآمد ہوا جس کے اوپر سن 1907ء لکھا ہوا تھا اور اس میں باقاعدہ ایک سگریٹ بھی تھی۔ اس کا نام ڈن ہل سگریٹ تھا۔ ڈن ہل ایک انگریز تھا جو انگلینڈ میں 1872ء میں پیدا ہوا تھا وہ اس سگریٹ کا مالک تھا۔ جبکہ اس وقت سن 1845ء چل رہا تھا۔ پاگل خانےوالوں نے اس سے وہ چھین لیا اور اس کو میکسیکو کے سرکاری میوزیم میں رکھوا دیا اور اس کی تصاویر اتروا کے اور مسافروں کی بھی تصاویر اتروا کے اخبارات میں خبر شایع بھی کروا دی اور وہ اخبار آج بھی میکسیکو کے اسی سرکاری میوزیم میں 1845ء کی تاریخ میں موجود ہے۔ یہ دستاویز میکسیکو کے پاگل خانے کے ایک سائیکیٹرسٹ کی جانب سے شائع ہوئی تھی۔ لوگ اس سگریٹ کے ڈبے کو اسی وقت یا زمانے سے دیکھتے آئے ہیں آج تک۔
جب 1926ء میں یہ دستاویز و کاغذات گمشدہ ریلوے مسافروں کے رشتے داروں کے ذریعے سامنے آئیں تو ایک بار پھر اٹلی میں طوفان مچ گیا۔ یہ واقعہ ان کے لیے حیران کن تھا۔
میکسیکو کی اتنظامیہ نے دیکھا کہ ابھی تو سن 1907 آیا ہی نہیں یہ تو 1845 ہے۔ انہوں نے اٹلی کی ریلوے سے بات کی کہ کوئی ٹرین زناٹی نام کی چلائی آپ نے تو انہوں نے انکار کردیا کہ ایسی کوئی ٹرین ایجاد ہی نہیں ہوئی۔۔۔ کیونکہ ابھی سن 1845ء چل رہا تھا جبکہ ٹرین 1911ء میں ایجاد ہوئی تھی۔ اس کے باوجود میکسیکو کے پاگل خانے کے عملے نے یورپ و امریکہ سے چلنے والی تمام سمندری کمپنیوں سے بھی پوچھ لیا کہ کوئی 104 یا 106 یا 109 مسافر پاگلوں والے، سمندر سے تو نہیں آئے تو سب نے انکار کردیا۔
کچھ لوگوں نے یہ دعوی بھی کیا کہ انہوں نے یہ ٹرین انڈیا، اٹلی، روس، جرمنی، رومانیہ،پولینڈ اور یوکرین میں دیکھی اور سب نے یہ ٹرین 1991 میں ہی دیکھنے کا دعویٰ کیا۔ ایک نئی بات یہ بھی معلوم ہوئی کہ یہ یوکرین کے شہر پولٹووا کے اسٹیشن پر رات کے وقت رکی، اسی وقت جب دیکھی تھی 1991ء میں، تو لوگوں نے یہ دیکھا کہ ایک اور نیا مسافر جو علاقے کا کوئی مشہور گھوسٹ ہنٹر تھا آخری ڈبے میں سوار ہوگیا اور یوں وہ بھی اسی ٹرین کا حصہ بن گیا۔ وہ گھوسٹ ہنٹر بھی آج تک لاپتہ ہے اور یہ واقعہ تو زیادہ پرانا بھی نہیں ہے 1991ء کا ہے۔ پھر یہ ٹرین 5 منٹ رک کر دوبارہ دھند کے اندھیرے میں کہیں غائب ہوگئی۔ اس کے رکنے اور روانہ ہونے کا ریلوے والوں کو معلوم ہی نہ ہوسکا، کیونکہ وہ ظاہر ہی دھند میں ہوئی تھی اور غائب بھی دھند میں۔ نہ اس کی کوئی ٹریکنگ انتظامیہ کے سامنے آئی۔ روس کی ان ریاستوں میں سخت سردی اور دھند پڑتی ہے۔ وہ ٹرین کے لوہے کے ڈبے انجن سمیت تب سے آج تک غائب ہے۔ کسی نے یہ ٹرین کھیتوں میں سے بغیر آواز کے گزرتے دیکھی اور ایسی جگہ سے دیکھی جہاں دور دور تک ریلوے ٹریک کا نام و نشان ہی نہ تھا۔ وہاں پالتو مرغیاں چر رہی تھیں۔ وہ ٹرین ان مرغیوں کو روندتے ہوئے اوپر سے گزر گئی مگر مرغیاں نہ ڈریں نہ مریں۔ لوگ کہتے ہیں کہ وہ ٹائم ٹریول کر کے پچھلے زمانے میں پہنچ گئی۔ دوستو نیٹ پہ سرچ کرنا زناٹی ٹرین اٹلی۔ یہ سچ مچ کا ایک واقعہ ہے۔
کئی سوالات پیدا ہوتے ہیں جن میں سے ایک کا بھی جواب نہیں ہے کسی کے بھی پاس۔ ان مسافروں کے رشتہ دار آج بھی زندہ ہیں اور اب تو پتا نہیں ان کی کونسی پیڑھی چل رہی ہوگی اور وہ یقیناً اپنے گمشدہ رشتہ داروں کی نیاز فاتح تک دلاتے ہونگے!!! جبکہ وہ ٹرین ٹائم ٹریول کرکے سچ مچ میں کسی ایسی دنیا میں پہنچ چکی ہے جس کا آج تک کوئی سراغ نہیں مل سکا۔
سوالات یہ پیدا ہوتے ہیں:۔
× وہ مسافر کس حال میں ہونگے؟
× ان پر کیا بیت رہی ہوگی؟
× کیا وہ زندہ ہوں گے؟
× اگر وہ مر چکے ہیں تو کیا ان کی قبر ہوگی؟
× اگر قبر ہوگی تو کیا ان کا ہوائی قبرستان ہوگا؟ جبکہ وہ انسان تھے جنات نہیں تھے، کیونکہ جنات کے تو ہوائی قبرستان ہوتے ہیں۔
یہی وہ حیرت انگریز واقعہ ہے جس کی گتھی آج تک نہیں سلجھ سکی۔ اٹلی کی ریلوے نے اس ٹرین کے انجن کا اسٹیچو تیار کرکے اسی وقت سے جب سے وہ لاپتہ ہوئی تھی آج تک نمائش کے لیے روم کے ریلوے اسٹیشن کے باہر رکھا ہوا ہے۔
مالک و مصنف: کاشف فاروق۔ لاہور سے۔
۔۔۔
No comments:
Post a Comment