URDU STORIES:

اردو ادب اور کہانیوں میں خوش آمدید ۔ قصہ کہانیاں، غزلیں، نظمیں، واقعات، طنزومزاح، لاہور کی پنجابی، کچھ حقیقت کچھ افسانہ، پراسرار خواب والی ٹیکنالوجی، میری فیملی کا ذاتی شجرہ نسب سن 1790ء تا 2023ء۔، قومی پیمانہ، تباہی و زلزلے، دو سو سالہ کیلینڈر، اردو سافٹ وئیر ڈاؤنلوڈ۔

Friday, September 16, 2022

FARAMOSH URDU STORY BY INTEZAR HUSSAIN - فراموش منجانب: انتظار حسین

 

''فراموش''

انتظار حسین


کهانی کا مصنف روزانه صبح کی سیر کےلیے باهر جایا کرتا تھا۔ جس جگه اس کے محلے کی گلیاں ختم ہوتی تھیں تقریباً وہیں سے آبادی بھی ختم ہوجاتی تھی۔ وہیں سے باهر کی طرف ایک لمبی سڑک نکلتی تھی۔ جس پر مصنف سیر کے لیے چل نکلتا۔ سڑک سے تھوڑی دور جاکر محصول چونگی کی چوکی تھی۔ جهاں پر خربوزوں اور ککڑیوں کے ٹوکرے پڑے ہوتے یا دوسری طرف سبزیوں سے لدی ہوئ گدھا گاڑیاں کھڑی نظر آتیں۔ آگے ایک رہٹ تھا اور اس سے آگے ٹیوب ویل اور اس کا سیمنٹ کا بنا ہوا حوض۔ جس میں ٹیوب ویل کا پانی گزرتا تھا، ٹیوب ویل سے بیس تیس قدم کے فاصلے پر ایک چھوٹی سی کوٹھی تھی۔ جس پر چاروں طرف سے سفیدی ہوئی ہوئی تھی۔ کوٹھی کے باهر کسی انجینئیر کے نام کی تختی لگی تھی۔ لیکن بظاهر وه غیر آباد اور پراسرار سی لگتی تھی۔ کیونکه وہاں پر زندگی کے نشان بهت ہی کم نظر آتے تھے۔ کوٹھی سے آگے بهت دور دونوں طرف کھلا میدان تھا۔ اسکے بعد سڑک ایک تیز موڑ کھاتی اور مشن اسکول کی عمارت سامنے آجاتی۔ اس سے خاصی دور اینٹوں کے بھٹے کی چمنیاں نظر آتیں۔ اس کے بعد سڑک کے آگے ریل کی پٹڑی آجاتی جهاں سے ریلوے کی طرف پھاٹک لگا ہوا تھا۔

 

مصنف کا روز کا یه معمول تھا که وه سڑک پر سیر کے لیے نکلتے ہی نیم کے کسی پیڑ سے ایک مسواک توڑ لیتا اور اسے چباتے ہوئے سڑک پر چل نکلتا، جس جگه پر ریل کی پٹڑی سڑک کو کاٹتی وہاں سے وه واپس لوٹ جاتا، یه اس کی آخری حد تھی۔ واپسی پر وه ٹیوب ویل کے حوض سے اپنا منه ہاتھ دھوتا اور چپل اتار کر مٹی میں اٹے پاؤں پانی میں ڈال دیتا تو اسے عجیب سی فرحت محسوس ہوتی۔ کوٹھی کے سامنے سے گزرتے ہوئے کبھی کبھار ایسا ہوتا که اندر سے ایک سفید رنگ کی گیند باهر سڑک پر آگرتی جسے اٹھانے کے لیے ایک نوجوان سا لڑکا جو حلیے سے ملازم لگتا سڑک پر آتا اوربغیر کسی طرف دھیان دیئے گیند اٹھا کر کوٹھی میں داخل ہوجاتا۔ کبھی کبھار ہونے والے صرف اس واقعه سے اندازه ہوتا که کوٹھی غیرآباد نهیں ہے۔ ورنه عام طور پر کوٹھی میں زندگی کے آثار بهت کم نظر آتے۔

 

ایک دن ایک چھوٹا سا عجیب واقعه ہوا۔ مصنف نے دیکھا که کوٹھی کے عین سامنے سے گزرنے والی کالی سڑک پر سفید چاک سے لفظ فراموش لکھا ہوا ہے۔ مصنف وہاں پر یه لفظ لکھا ہوا دیکھ کر ٹھٹھک سا گیا، کیونکه اس لفظ سے اسکی بھی بعض یادیں وابسته تھیں۔ دوسرے دن جب وه سڑک پر سے گزرا تو لفظ فراموش کے حروف کچھ مٹ سے گئے تھے۔

 

چند دن اسی طرح گزر گئے۔ ایک دن مصنف نے دیکھا که کوٹھی کی سفید اور صاف شفاف دیوار پر کالے کوئلے سےلفظ فراموش لکھا ہوا تھا۔ اس نے یه سوچ کر اپنے دل کو تسلی دی که شاید یه کسی شریر بچے کی شرارت کا نتیجه ہے۔ چنانچه سیر سے واپسی کے دوران اس نے دیکھا که ایک ادھیڑ عمر کا شخص جو چهرے سے افسر لگتا تھا اور شب خواہی کا لباس پهنے ہوئے تھا، اپنی نگرانی میں وه لفظ مٹوا رہا تھا۔ دو تین دن بعد مصنف نے اسی مقام پر وه لفظ پھر لکھا ہوا دیکھا۔ ایسا کئ مرتبه ہوا که مصنف جب سیر کے لیے کوٹھی کے پاس سے گزرتا تو وه لفظ دیوار پر موجود ہوتا لیکن واپسی پر وه یا تو مٹایا جاچکا ہوتا یا پھر مٹایا جارہا ہوتا۔ اسی دوران میں مصنف کو اپنے کام کاج کے سلسلے میں شهر سے باهر جانا پڑ گیا۔

 

پندره دن بعد کہیں جا کے اسکی واپسی ہوئ۔ صبح کو وه سیر کے لیے نکلا تو وه لفظ وہاں لکھا ہوا موجود تھا، لیکن کسی نے اسے مٹانے کی کوشش نهیں کی تھی۔ دو تین دن گزر گئے پھر بھی کسی نے اس لفظ کو نهیں مٹایا تھا۔ مصنف نے سوچا که ممکن ہے انجینئیر صاحب کسی لمبے دورے پر نکل گئے ہوں یا پھر ان کا تبادله ہوگیا ہو اور یه بھی ممکن ہے که وه بیمار ہوں۔ بهر حال، یه مسئله حل نه ہوسکا۔ اسی دوران میں بارشوں کا سیزن شروع هوگیا۔


لگاتار بارشیں ہونے لگیں۔ سوکھے ہوئے تالاب بارش کے پانی سے بھر گئے۔ فضا میں نمی کے باعث در و دیوار پر سبز کائ جمنا شروع ہوگئ


انجینئیر صاحب کی کوٹھی پر لکھا ہوا وہی لفظ اسی طرح موجود تھا۔ لیکن اس کے حروف دھندلے پڑ گئے تھے۔ مصنف کو خدشه ہوا که کهیں یه لفظ بالکل ہی نه مٹ جائے۔ دراصل اس لفظ سے اس کو ایک تعلق سا ہوگیا تھا۔ برسات کا موسم ختم ہونے لگا۔ بارش بھی کبھی کبھار ہوتی تھی۔ تالابوں کا پانی کم ہونا شروع ہوگیا تھا۔ لوگوں نے برسات کے موسم میں اپنے مکانوں کی گری ہوئ دیواروں اور چھتوں وغیره کی مرمت کا کام شروع کردیا تھا۔ ایک دن مصنف کو انجینئیر صاحب کی کوٹھی کے احاطے میں بھی چونے کی بوری رکھی ہوئ نظر آئ۔ ظاہر ہے که کوٹھی کے در و دیوار کی بھی سفیدی ہونے والی تھی۔ مصنف کا دھیان فوراً اس لفظ "فراموش" کی طرف گیا۔ یه لفظ خاصا مدھم پڑ چکا تھا۔ لیکن سفیدی کے دوران تو اس نے بالکل ہی مٹ جانے تھا۔ اس خیال سے مصنف کے دل میں اداسی کی ایک لهر دوڑ گئ۔ جس سے اسے بے پناه انس ہوگیا تھا۔ دو تین دنوں میں پوری کی پوری کوٹھی پر سفیدی هوگئ۔ 


لیکن مصنف یه دیکھ کر دنگ ره گیا که جس دیوار پر لفظ فراموش لکھا تھا وہاں پر اس طریقے سے سفیدی کی گئی تھی که اس پر ایک بوند بھی چونے کی نهیں پڑی تھی اور وه لفظ اپنی جگه پر جوں کا توں قائم تھا۔

 

اس کے بعد مصنف کچھ عرصے کے لیے دورے پر نکل گیا۔ واپس آیا اور اس کوٹھی کے پاس سے گزرا تو اس نے دیکھا که کوٹھی کے برآمدے میں  تین چار بچے دھما چوکڑی مچا رہے ہیں اور اندر سے  خواتین انهیں شور و غل کرنے سے منع کرنے کے لیے آوازیں دے رہی تھیں۔ بچوں کو ڈانٹنے کے لیے ایک مردانه آواز بھی آئ۔ مصنف کو بے حد اچھنبا ہوا که اس کوٹھی میں یه نئ زندگی اچانک کیسے اور کهاں سے پھوٹ پڑی۔  خاموش برآمدوں، شیشے والے بند دروازوں اور گونگے کمروں کی کایا کیسے پلٹ گئ۔  اس نے سوچا که ممکن ہے که انجینئیر صاحب کے کهیں سے مهمان آگئے ہوں۔ دوسرے دن اس نے دیکھا که کوٹھی کے باهر والے پھاٹک کے پاس سفیدی کے ڈول ڈرم وغیره رکھے ہوئے ہیں۔ اس نے نظر اٹھا کر دیکھا، واقعی سفیدی ہوچکی تھی۔


اسکی نظریں فوراً اس دیوار کی طرف گئیں جهاں وه لفظ لکھا ہوا تھا۔ مصنف کا دل دھک سے ره گیا۔ دیوار پر سفیدی ہوچکی تھی اور وه لفظ مکمل طور پر مٹایا جاچکا تھا۔۔۔ اور اس سے ضبط نه ہوسکا۔


مالی کوٹھی کی باهر والی دیوار کے ساتھ لگی ہوئ بیلوں کو کاٹ رہا تھا۔ اس نے اسکے قریب جا کر دریافت کیا که کیا آج انجینئیر صاحب کے مهمان آئے ہوئے ہیں؟ مالی نے بتایا که نهیں، نئے انجینئیر صاحب آئے ہیں۔  پهلے والے انجینئیر صاحب پینشن لے کر چلےگئے ہیں۔ مالی نے مصنف کو مزید بتایا که پرانے انجینئیر صاحب کا اب پینشن پر چلے جانا ہی بهتر تھا، کیونکه اب ان کا دماغ ٹھکانے نهیں رہا تھا۔ دراصل انجینئیر صاحب کی کوئ اولاد نهیں تھی۔ انهوں نے ایک لڑکا لے کر پالا تھا، وه اس سے بهت لاڈ پیار کرتے تھے۔ وه لڑکا ہی ان کی زندگی کا محور تھا، وه اسی کو دیکھ کر جیتے تھے۔ نه کسی سے ملتے ملاتے تھے نه کسی کے پاس آتے جاتے تھے۔ بس دفتر سے گھر اور گھر سے دفتر، دو ہی ان کے ٹھکانے تھے۔ اچانک وه لڑکا لو لگنے سے بیمار ہوگیا اور مرگیا۔ انجینئیر صاحب کی دنیا اجڑ گئ۔ وه پھر سے اکیلے ره گئے۔ وه بهت دکھی ہوگئے تھے۔ نوکری سے ان کا دل اچاٹ ہوگیا تھا اور وہ کھوئے کھوئے سے رہنے لگے تھے۔ ان کے دل میں هر وقت اسی لڑکے کا خیال سمایا رہتا تھا۔ انهوں نے اس لڑکے کی ایک ایک چیز کو سنبھال کر رکھا ہوا تھا۔ یه کهه کر مالی نے مصنف کی طرف دیکھے بغیر اپنی قینچی اٹھائ اور بیل کاٹنے میں مصروف ہوگیا۔

 

مصنف جو ہمیشه سیر کے دوران ریل کی پٹڑی کے پاس سے ہو کر واپس آیا کرتا تھا آج اسے یه فاصله اتنا طویل لگا که وه بیزار ہو کر ریل کی پٹڑی کو چھوئے بغیر وہیں سے واپس آگیا۔


 





کمپوزر: کاشف فاروق۔ لاہور سے۔



No comments:

Post a Comment