URDU STORIES:

اردو ادب اور کہانیوں میں خوش آمدید ۔ قصہ کہانیاں، غزلیں، نظمیں، واقعات، طنزومزاح، لاہور کی پنجابی، کچھ حقیقت کچھ افسانہ، پراسرار خواب والی ٹیکنالوجی، میری فیملی کا ذاتی شجرہ نسب سن 1790ء تا 2023ء۔، قومی پیمانہ، تباہی و زلزلے، دو سو سالہ کیلینڈر، اردو سافٹ وئیر ڈاؤنلوڈ۔

Friday, September 16, 2022

QAUMI MUFAAD AUR PAKISTAN - سب سے پہلے قومی مفاد

  مورخه 8-اپریل-2008۔

سب سےپهلے قومی مفاد

 


آج سے کافی عرصہ بعد قلم اٹھایا ہے۔ دعا گو ہوں! کہ جو بھی لکھوں صحیح لکھوں۔ بہرحال کوشش ہے ملک کی صورت حال کے مطابق اپنی پہلی کوشش میں اپنی نئ حکومت کو چند مفید مشورے دینا چاہتا ہوں۔ ہمارا ملک اس وقت معاشی اعتبار سے بدحال ہے۔ مہنگائی کا وہ عالم ہےکہ غریب تو غریب متوسط طبقے کیلیے بھی زندگی گزارنا نہایت مشکل ہورہاہے۔ ہمارے ملک میں دیکھا گیا ہے کہ جب نئ حکومت آتی ہے تو پچھلی حکومت کو ملک کی بدحالی کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ چند دنوں تک تو نئ حکومت خوب دعوے اور وعدے کرتی ہے۔ اسکے بعد وہی چال مستانی۔ غریب عوام بیچارے پستے ہی رہتے ہیں۔ دراصل میں یه سمجھتا هوں که هم لوگ ذاتی مفادات کے پیچھے اپنے وعدے پورے نهیں کرتے۔ سوال پیدا ہوتا ہے که ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اسکا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ قیادت غریب یا متوسط طبقے کے پاس نہیں آتی۔

پاکستان کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ سواۓ ابتدائی دور کے عموماً قیادت جاگیردارون زمینداروں اور صنعت کاروں کے ہاتھ میں رہی ہے۔ اسکے علاوہ فوج نے بھی حکومت پر قبضہ کرکے ملک کو نقصان پہنچایا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے، ملک کی سیاسی پارٹیوں میں الیکشن ہونا چاہیئں اور قیادت عوام سے آنا چاہیے نه کہ اوپر سے نامزدگیاں ہوں۔ دوسرے یہ که الیکشن میں امیدواروں کا تعلق بلحاظ معاشرتی طبقات ہونا چاہیے۔

مثال کے طور پر ہم اپنے ملک کی آبادی کو اسطرح تقسیم کرسکتے ہیں:

  • جاگیردار، زمیندار طبقه 5 فیصد
  • اپر مڈل کلاس طبقه 15 فیصد
  • لوئر مڈل کلاس طبقه 20 فیصد
  • غریب طبقه 60 فیصد
ہر جماعت پابند ہوکہ وہ اپنے امیدوار بالحاظ معاشرتی طبقات نامزد کرے اس سے ایک فائدہ خود جماعتوں کو ہوگا کہ وہ مضبوط ہوں گی کیونکہ انکی جڑیں عوام میں ہونگی۔ دوسرے یہ کہ آبادی کے تمام طبقات کی آواز اسمبلی میں پہنچے گی اور عوام کے مسائل حل ہونگے۔ جبکہ سینیٹ صرف ایسے ممبران پر مشتمل ہو جو مختلف شعبه جات کے ماهرین ہوں۔ مثلاً ڈاکٹرز، انجینئیرز، وکلاء، زراعت پیشه، وغیره۔

اب میں آتا ہوں اصل موضوع کی طرف یعنی اپنی موجودہ مشکل صورت حال میں مسائل کا حل:

عدلیہ کی بحالی اور آزادی: اسکے لیے پہلے ہی اعلان ہوچکا ہے کہ یہ پارلیمنٹ کے ذریعے حل ہوگا۔ اسمیں صرف یہ اضافہ کروں گا کہ عدلیہ کو انتظامیہ سے بالکل آزاد کیا جائے۔ تاکہ ججز پر کسی قسم کا دباؤ نہ ہو اور وہ اپنے فیصلے آزادی سے قانون و آئین کے مطابق کریں اس سلسلے میں دوسرے ممالک کے آئین کا بھی مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔

مہنگائی پر کنٹرول: سب سے پہلے تو یہ کہوں گا کہ ارکان پارلیمنٹ وزراء افسران کے اللے تللے بند کیئے جائیں۔ انتظامی اخراجات کم سے کم کیئے جائیں۔ میری رائے ہے کہ ماشاء الله ہمارے اکثر وزراء ارکان پارلیمنٹ پہلے ہی سونے کا چمچہ منہ میں لیکر پیدا ہوئے ہیں۔ اگر وہ خود رضاکارانہ طور پر یہ اعلان کردیں کہ وہ قومی خزانے سے کسی قسم کی تنخواہ الاؤنس اور مراعات نہ لیں گے تو یہ قوم پر احسان ہوگا۔ اگر یه لوگ ساده زندگی بسر کرنے کا عهد کرلیں تو نہ صرف انکا بھلا ہوگا بلکہ قوم بھی سادہ زندگی کی طرف لوٹ آئے گی۔ کے پرافٹ کو کنٹرول کیا جائے کیونکہ یہ آئیل کمپنیاں بے تحاشہ منافع کمارہی ہیں جو کہ انکی سالانہ رپورٹ میں ظاہر کیا جاتا ہے۔ لیکن ساتھ ہی ایندھن کے استعمال میں بچت کی جائے۔ گاڑیوں کی امپورٹ پر پابندی لگائی جائے۔ بینک لون پر گاڑی کی خرید پر پابندی لگائ جائے۔ ہمارے ہاں گاڑی پارک کرنے کی جگہ نہیں ہے مگر گاڑیوں میں ہر روز اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔ جیسا کہ دوسرے ممالک میں ہوتا ہے لوگ پبلک ٹرانسپورٹ سے سفر کریں۔ عوام کے لیے خاطر خواہ بسوں و ویگنوں کا انتظام کیا جائے۔ بلکہ شہروں کے گنجان آباد علاقوں میں گاڑیاں لیجانے پر پابندی ہونی چاہییے۔ شہروں کے اطراف میں حدود مقرر کی جائیں تاکہ رش پر قابو پایا جائے۔ ان حدوں میں پارکنگ پلازے تعمیر کیئے جائیں۔ وہاں سے آگے سفر جاری رکھنے کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ کا اتنظام ہونا چاہیئے۔ اس تجویز پر عمل کرنے سے آپ اندازہ لگالیں کتنی بچت ہوگی۔ جب تیل کا استعمال ہی ہم کم کردیں گے پھر تیل کا بل خود ہی کم ہوجائیگا۔

دیکھا یہ گیا ہے کہ امیر لوگوں کے پاس گاڑیوں کی ایک فلیٹ ہوتی ہے۔ گھر کے ہر فرد کے لیے ایک گاڑی ضرور ہوتی ہے۔ سودا سلف خریدنے کے لیے ایک گاڑی اور ڈرائیور، کالج اسکول جانے کے لیے علحیده ایک گاڑی، بسا اوقات ہر لڑکے لڑکی کو کالج جانے کے لیے علیحدہ گاڑیاں ہوتی ہیں، یہ فضول خرچی نہیں ہے تو پھر کیا ہے؟؟؟ اگر یہ لوگ ملک و قوم کا خیال کریں تو اپنے بچوں کو بسوں میں کالج بھیج سکتے ہیں۔ آخر غریب ماں باپ بھی تو اپنے بچوں کو سائیکلوں، بسوں اور ویگنوں میں بھیجتے ہیں، وہ کیسے بھیجتے ہیں؟؟؟ وه بھی تو انسان ہیں، کوئی بادشاہ سلامت تو ہیں نہیں۔ اس طرح ٹریفک بھی کم رہے گی، سڑکوں پر رش کم ہوگا۔ سن 80 کی دہائی میں آپ کو یاد ہوگا کہ آبادی برائے نام ہی ہوا کرتی تھی، سڑکیں سنسان سی لگا کرتی تھیں۔ ایک پرسکون سا ماحول ہوا کرتا تھا۔ اب تو ہر طرف طوفان ہی طوفان سا مچا ہوتا ہے۔

سڑکوں کے دونوں اطراف سائیکل ٹریک بنائے جائیں۔ جیسا کہ دوسرے ممالک میں ہوتا ہے۔ اسطرح سائیکل سوار بھی محفوظ رہے گا اور حادثات بھی کم ہونگے۔ اسی چیز کے لیے سب کو قربانی دینا ہوگی یعنی ذاتی مفاد پر قومی مفاد کو ترجیح۔

کاروباری اوقات میں تبدیلی بھی ہونی چاہیئے۔ صبح 9 بجے سے شام 6 بجے تک۔ ہمارے ملک مین عجیب ہی رواج ہے۔ دن کے گیاره بجے دکانیں کھلتی ہیں اور رات 12 بجے تک کاروبار ہوتا ہے۔ اندازہ لگائیے ایسے اوقات کار سے بجلی بہت ضائیع ہوتی ہے۔ جب ہمارے پاس مطلوبہ بجلی ہی نہیں ہے تو ہمیں بجلی بچانا ہوگی۔ انڈسٹری کو البته بجلی بچانا ہوگی۔

یه که امپورٹ اور ایکسپورٹ میں توازن رکھیں بلکه امپورٹ کا بل کم کریں۔ فضول چیزوں کی امپورٹ بند کی جائے۔ ملکی چیزوں کی حوصله افزائی کی جائے۔ آج کل معمولی چیز بھی چین سے درآمد کی جارہی ہے، جبکه اسکی کوالٹی انتهائ گھٹیا ہے۔ ہمارے ملک میں اس سے بدرجه بهتر چیز بنائ جاسکتی ہے۔ ایکسپورٹ بھی اسطرح کی جائے که پهلے ملک کی ضروریات پوری ہوں پھر سرپلس مال ایکسپورٹ کیا جائے۔

کھانے پینے کی اشیاء جب تک ایکسپورٹ ہوتی رہے گی جب تک مهنگائی کم نهیں ہوسکتی۔ کم از کم کھانے پینے کی اشیاء ایکسپورٹ نهیں ہونی چاہئیں۔ خود اگائیں خود ہی کھائیں کی پالیسی سب سے اچھی ہے اس طرح غریب کو بھی کم از کم روٹی تو ملے گی ۔ ۔ ۔

دہشت گردی کا خاتمه: اس کے لیے امریکه نواز پالیسی کو خیرباد کهنا ہوگا۔ ساری دنیا میں دہشت گردی پھیلانے کی ذمه داری امریکه پر عائد ہوتی ہے۔ جسے ہم دہشت گردی کهتے ہیں وه دراصل ایک ایکشن کا ری ایکشن ہے۔ اگر آج ہم ایک خود مختار ملک بن جائیں اور امریکه کےگوش گزار کریں که بھائ اب یه جنگ بند کریں اور جو پیسه آپ یهاں ضائع کررہے ہیں۔ وه اپنی عوام کی بھلائ پر خرچ کریں تو آپکا ملک تو خوشحال ہوگا ہی لیکن معتوب ملکوں میں بھی خوشحالی آجائیگی۔




مالک و مصنف: شیخ محمد فاروق۔
کمپوزر: کاشف فاروق۔ لاہور سے۔

No comments:

Post a Comment