URDU STORIES:

اردو ادب اور کہانیوں میں خوش آمدید ۔ قصہ کہانیاں، غزلیں، نظمیں، واقعات، طنزومزاح، لاہور کی پنجابی، کچھ حقیقت کچھ افسانہ، پراسرار خواب والی ٹیکنالوجی، میری فیملی کا ذاتی شجرہ نسب سن 1790ء تا 2023ء۔، قومی پیمانہ، تباہی و زلزلے، دو سو سالہ کیلینڈر، اردو سافٹ وئیر ڈاؤنلوڈ۔

Monday, August 29, 2022

TITANIC KESE DOOBA - TITANIC KI TABAHI KA PURASRAR WAQIA - ٹائی ٹینک کیسے ڈوبا؟ ٹائی ٹینک جہاز کی تباہی کا پراسرار واقعہ - 2016ء

 



 ٹائی ٹینک کیسے ڈوبا؟ ٹائی ٹینک جہاز کی تباہی کا پراسرار واقعہ - یہ آرٹیکل 2016ء میں لکھا گیا تھا


کیا آپ کو معلوم ہے کہ ٹائی ٹینک بحری جہاز جو کہ 1912ء میں 14 اور 15 اپریل کی درمیانی شب کو سمندر میں ڈوب گیا تھا (آج 104 سال ہوگئے)۔ اس کے متعلق اس جہاز کے مالک نے کیا دعویٰ کیا تھا؟

 یہ ایک مشہور برطانوی مسافر بحری جہاز تھا جواپنے پہلے ہی سفر کے دوران ایک برفانی تودے سے ٹکرا کر ڈوب گیا تھا۔ اس حادثے میں ہلاک ہونے والے ٭1512٭ افراد شامل تھے۔ ٹائٹینک نے امریکی شہر نیویارک کے لیے اپنے سفر کا آغاز برطانوی شہر ساؤتھمپن سے 10 اپریل 1912ء کو کیا تھا اور یہ شمالی بحر اوقیانوس میں ڈوب گیا تھا۔ اسکا ملبہ اب بھی سمندر میں 3800 میٹر گہرائی میں موجود ہے۔ اپنے سفر کے آغاز کے چوتھے اور پانچویں روز کی درمیانی شب اس میں سوار 1512 مسافروں کی زندگی کا چراغ اس وقت گُل ہوگیا جب یہ سمندر کا بادشاہ برف کے گالے آئیس برگ سے ٹکرا کر دوٹکڑے ہوگیا۔ لائف بوٹس کے ذریعے ٹائی ٹینک کے صرف  724 مسافرزندہ بچ پائے۔

چونکہ اس کے متعلق یہی مشہور تھا کہ یہ کبھی نہیں ڈوبے گا اس لئے اس پر زندگی بچانے والی کشتیاں بہت کم رکھی گئی تھیں۔ اگر لائف بوٹس زیادہ ہوتی تو سارے لوگ بچ سکتے تھے۔ کیونکہ اس جہاز کو ٹکر کے بعد ڈوبنے میں تقریبا 2 گھنٹے 40 منٹ لگے تھے۔

 کہا جاتا ہے مرنے والوں کی تعداد 1512 سےبھی کافی زیادہ تھی کیونکہ جن لوگوں کی جہاز کے عملے سے جان پہچان تھی۔ ان میں سے بھی بہت سے لوگ ٹکٹ کے بغیر اس پر سوار ہو گئے تھے جن کا کوئی ریکارڈہی موجود نہیں۔

 بچنے والوں میں سے کمپنی کا مالک " اسمے " بھی شامل تھا جو خواتین اور بچوں اور ڈوبتے جہازکو چھوڑ کر ایک کشتی کے ذریعے نکل گیا۔ اس خودغرضی پر وہ پوری زندگی نفرت کا نشانہ بنا رہا۔ اسے ” ٹائی ٹینک کا بزدل ترین شخص کہا جاتا تھا۔“ اس کا نام ”Brute Ismy“ تھا۔ " اسمے " اکتوبر 1937ء کو گوشہ تنہائی میں چل بسا۔ دوسری طرف جہاز کا ڈرائیور ایڈورڈ جان سمتھ بیشترعملے کے ساتھ خواتین اور بچوں کو بچانے کی کوشش میں خود ڈوب کر انسانیت پراحسان کر گیا۔ وہ آخری آدمی تھا جس نے جہاز سے چھلانگ لگائی تھی۔ اس کے بارے میں لائف بوٹ کے چلانے والے نے بتایا تھا کہ ایک آدمی آخری کشتی کی طرف تیرتے ہوئے ہوئے لپکا تو ایک مسافر نے کہا ”یہ پہلے ہی اوور لوڈہے“ اس پرتیراک پیچھے ہٹ گیا اور کہا  

"All right boys. Good luck and God bless you"


یہ جہاز کا ڈرائیور 62 سالہ ایڈورڈ جان سمتھ تھا۔  دوسروں پر اپنی جاں نچھاور کرنے کے عظیم جذبے کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لئے اس کا مجسمہ سٹیفورڈ میں نصب کیا گیا ہے۔

 اس جہاز کے بارے میں اس کی تیاری مکمل ہونے پراخبار میں آرٹیکل چھپا تھا کہ کبھی نہ ڈوبنے والا بحری جہاز تیا ر ہوگیا ہے۔

اس کے مالک نے تو یہ دعویٰ کردیا تھا ”اسے طوفانِ نوح توکیا ،خدا بھی نہیں ڈبوسکتا“ (نعوذباللہ)۔

 

یہ وہ دعویٰ تھا جو لنگر اٹھانے کے موقع پر اسکے مالک "بروٹے اسمے" نے کیا تھا۔ اس نے ٹائی ٹینک کو جدید، خوبصورت، آرام دہ، پرتعیش اور مضبوط بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ خدا کا نام لے کر سمندر میں کشتی ڈال دی جائے تو وہ منہ زور موجوں سے بچ کر نکل سکتی ہے لیکن تکبر سے سمندر میں اتاراجانے والادیو ہیکل جہاز بھی ممکن ہے کنارے نہ لگ سکے۔ یہی کچھ ٹائی ٹینک کے ساتھ ہوا۔ ٹائی ٹینک نے اپنی تخلیق کے بعد محض چار دن کا سفر ہی کیا اور قیامت تک کے لئے غرور کرنے والوں کے لئے عبرت کی نشانی بن گیا۔

 کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس ٹائی ٹینک میں ایک ممی جا رہی تھی جو اہرام مصر سے لوڈ کی گئی تھی۔ اسی وجہ سے یہ جہاز ڈوبا تھا۔

کچھ لوگ یہ بھی کہتے تھے کہ ہم مان نہیں سکتے کہ یہ جہاز دو حصوں میں ڈوبا۔ یہ معمہ 1985ء تک اسی طرح پراسرار بنا رہا۔ سن 85ء میں اس کا ملبہ پہلی بار دریافت ہوا۔ اس کو دریافت کرنے والوں نے اس کی تصاویر بنائی تو پھر لوگوں کو معلوم ہوا کہ یہ دو حصوں میں تقسیم ہوکر ڈوبا تھا۔ اس پر کئی فلمیں بن چکی ہیں۔ ایک تو 1958ء میں بنی تھی جس کا نام تھا   A NIGHT TO REMEMBER   .... یہاں کلک کیجیئے اور اس فلم میں جہاز کو دو حصوں میں ڈوبتے نہیں دیکھایا گیا کیونکہ اس وقت جہاز کا ملبہ دریافت نہیں ہوا تھا۔

 مزید فلموں کے لیے یہاں کلک کیجیئے





مالک، مصنف و کمپوزر: کاشف فاروق۔ لاہور سے۔ 

 

تصاویر اور دوسری معلومات













۔۔۔۔



No comments:

Post a Comment