URDU STORIES:

اردو ادب اور کہانیوں میں خوش آمدید ۔ قصہ کہانیاں، غزلیں، نظمیں، واقعات، طنزومزاح، لاہور کی پنجابی، کچھ حقیقت کچھ افسانہ، پراسرار خواب والی ٹیکنالوجی، میری فیملی کا ذاتی شجرہ نسب سن 1790ء تا 2023ء۔، قومی پیمانہ، تباہی و زلزلے، دو سو سالہ کیلینڈر، اردو سافٹ وئیر ڈاؤنلوڈ۔

Tuesday, September 13, 2022

MERE ZAMANE KA LAHORE - LAKSHMI CHOWK BEFORE PRE-PARTITION - لکشمی چوک: قیامِ پاکستان سے قبل ۔ میرے زمانے کا لاہور۔ مرتب: کاشف فاروق

 


لکشمی چوک: قیامِ پاکستان سے قبل

میرے زمانے کا لاہور




تاریخی عمارات کی طرح لاہور کے بعض خاص چوک اور بازار بھی اہمیت کے حامل ہیں لیکن لکشمی چوک کی رونق کو تو سبھی سراہتے ہیں۔ یہ چوک ریلوے سٹیشن سے آنے والی میکلوڈ روڈ، شملہ پہاڑی سے آنے والی ایبٹ روڈ اور نسبت روڈ کے درمیان میں واقع ہے۔ لکشمی چوک کا نام لکشمی بلڈنگ کی وجہ سے رکھا گیا ہے۔ یہ بلڈنگ 1935ء کو ہندوستان کی ایک مشہور کمپنی، لکشمی انشورنس کمپنی نے خریدی۔ اس کمپنی نے لاہور میں ایک اور عمارت مال روڈ پر لکشمی کے نام سے تعمیر کی۔ اس طرح کی ایک عمارت لکشمی بلڈنگ کے نام سے کراچی میں بھی موجود ہے۔

لکشمی چوک اردگرد کی آبادیوں گوالمنڈی، قلعہ گوجرسنگھ، فلیمنگ روڈ اور بیڈن روڈ سے 5 فٹ نشیب میں ہے لہٰذا ان آبادیوں کا تمام گندا پانی اس طرف ہی آتا تھا۔ چنانچہ 1935ء میں ہی ایک انگریز انجینئر مسٹر ہاول نے لکشمی چوک سے شام نگر (چوبرجی) میں واقع گندے انجن (پمپنگ سٹیشن) تک زیر زمین سیوریج بچھایا تا کہ اس سے ملحقہ علاقوں تک کا پانی کھیتوں میں دینے کے علاوہ سپرد راوی کیا جاسکے۔ ان دنوں شام نگر کے پیچھے کھیت ہوتے تھے جو دریائے راوی تک تھے۔

اسی علاقہ میں مغلیہ دور میں اورنگ زیب کی بیٹی زیب النساء نے ایک بہت بڑا باغ بنوایا تھا جس کا دروازہ چوبرجی تھا۔ قیام پاکستان سے قبل اس چوک میں لکشمی بلڈنگ کے علاوہ چوک کے اردگرد مزید عمارات بھی تھیں جن میں گیتابھون، برسٹل ہوٹل، ویسٹ انڈین ہوٹل, مانسرور ہوٹل اور کچھ فلمی دفاتر شامل تھے جبکہ سینماؤں میں کیپٹل، نشاط، اوڈین، پیلس، رٹز، پر بھارت (صنوبر یا ایمپائر) اور جسونت (مون لائٹ) شامل تھے۔ مسلمانوں کا ایک ہوٹل کنگ سرکل ہوتا تھا جہاں فلمی اداکار یا تکنیک کار بیٹھتے تھے اور وہ تانگوں یا گاڑی کے ذریعے سٹوڈیوز جاتے تھے۔ 1940ء سے قبل یہ ایک بے رونق چوک تھا جبکہ رائل پارک ایک کھلا میدان تھا جہاں ٹیلے اور اکھاڑے تھے۔

1935ء میں جب ہندوستان میں جارج پنجم کی سلور جوبلی منائی گئی تو اس میدان میں ایک بڑی نمائش کا اہتمام کیا گیا۔ یہاں پر رائل سرکس نے بھی ڈیرہ لگایا تو اس میدان کو رائل پارک کہا جانے لگا۔ رائل پارک میں بعدازاں کچھ لوگوں نے عمارات بھی تعمیر کرلیں۔ صرف 6، 7 عمارتیں مسلمانوں کی تھیں۔ رائل پارک میں داخل ہوتے ہی دائیں طرف مائیکل آرٹسٹ کی دکان تھی۔ اس کے ساتھ بی آر چوپڑا جرنلسٹ (جو بھارت کے مشہور فلم ساز اور ہدایت کار بنے) کا اوکے پریس تھا۔

رائل پارک میں عمارتوں کی تعمیر 1940ء اور 1945ء کے درمیان مکمل ہوچکی تھی۔ اس وقت رائل پارک میں صرف دو فلمساز ادارے، ایک میاں رفیع اختر اور دوسرا اے کے جان کا بلال پروڈکشن تھا۔ "آزاد" بھی ایک آرٹسٹ تھے جو فلمی پوسٹر بنایا کرتے تھے۔ انہوں نے میو سکول آف آرٹس (موجودہ نیشنل کالج آف آرٹس) سے فارغ ہو کر سب سے پہلا پوسٹر فلم ''پہلے آپ" کا تیار کیا تھا۔ وہ اپنے کیریئر کی تلاش میں بمبئی تک بھی گئے اور شہرت حاصل کی لیکن ان کی شخصیت کو چار چاند قیام پاکستان کے بعد لگے۔ یہاں انہوں نے ہر دوسری فلم کا پوسٹر ڈیزائن کیا۔ ان کے علاوہ موجد، اختر، منظور اور ایس خان بھی پوسٹر کی تیاری میں خاصی محنت کرتے تھے۔

ان دنوں لکشمی چوک میں سرشام رونق بحال ہو جاتی تھی۔ اس چوک کے ریستورانوں میں گپ شپ لگانے کے لئے فنکار جمع ہو جاتے تھے۔ جن میں پران، رضا میر، سریش، اوم پرکاش، سلیم رضا، ایم اسماعیل، امرناتھ، ایم اجمل، ڈاکٹر نارنگ، مجنوں، آئی ایس جوہر، عزیز کاشمیری، قتیل شفائی، ظہیر کاشمیری، ڈی این مدھوک، جے کے نند، ایم جے رانا، اشرف خان، احسان بی اے، قمر اجنالوی اور بابا جی اے چشتی قابل ذکر ہیں۔

یہ اس زمانے کی یادیں باقی رہ گئیں ہیں۔ اسی سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان بنانا یا تقسیمِ ہند کچھ ٹھیک نہیں تھا۔

یہ لوگ حیدر اور اشرف پان فروشوں کے مستقل گاہک تھے۔ ولی صاحب کی پران سے یہیں ملاقات ہوئی تھی اور انہوں نے اپنی فلم یملا جٹ میں انہیں بطور ولن کاسٹ کیا تھا۔ 1947ء میں لکشمی چوک کی رونق عارضی طور پر اجڑی لیکن جب یہاں دوبارہ فلمی کاروبار شروع ہوا تو رونق پھر بحال ہوگئی۔

 

لکشمی انشورینس کمپنی کی لکشمی چوک پر واقع اصل عمارت





آرٹیکل: "میرے زمانے کا لاہور "۔ مرتب: کاشف فاروق


لاہور کے بارے میں ایک بات اور بتا دیں کہ سن 1985ء تک شہر کی آبادی برائے نام تھی۔ شہر سنسان رہتا تھا۔ یہاں کے چڑیا گھر میں جب شیر دہاڑتا تھا تو پورے شہر میں اس کی آواز گونجتی تھی۔ یہ بزرگوں کو ضرور معلوم ہوگا۔


لاہور کئی حوالوں سے ایک تاریخ ساز شہر مانا جاتا ہے۔ ایک وقت میں ادبی مجالس، فلمی ستاروں کی محفلیں، تاریخی تحاریک، ثقافتی ورثہ، عظمت رفتہ کی کھلی کتابوں کی مانند بلند و بالا عمارتیں اور مقامی لوگوں کی غیر رسمی نشستیں یہاں کی اصل پہچان ہوا کرتی تھیں۔  

ادب، سیاست، گائیکی اور فلم انڈسٹری سے تعلق رکھنے والوں سمیت دیگر شعبوں کے قابل ذکر نام اسی شہر میں پنپ کر آسمان کی اونچائیوں پر پہنچے اور درخشاں تارے بن کر ہمیشہ کے لیے امر ہو گئے۔  

لیکن پھر ایک ایسا وقت بھی آیا جب صنعتی انقلاب اور جدیدیت نے اس شہر کے حقیقی حسن کو کسی حد تک مسخ دیا، تاہم اب بھی لاہور کے اکثر تاریخی مقامات، چوک چوراہوں اور عمارتوں کے دریچوں سے جھانک کر دیکھا جائے توانسان لاشعوری طور پر عہد رفتہ میں کھو جاتا ہے۔

لاہور کا مشہور لکشمی چوک اسی  حقیقت کی عکاسی کرتا ہے جہاں بیسویں صدی میں پاکستانی فلم انڈسٹری نے عروج کا ایک بے مثال دور دیکھا۔ ریلوے سٹیشن سے آنے والا میکلورڈ روڈ، لاہور پریس کلب شملہ پہاڑی سے آنے والا ایبٹ روڈ اور نسبت روڈ کا منہ اسی چوک میں آکر کھلتا ہے۔ چوک کے عین سامنے ایک خوبصورت اور بلند و بالا لکشمی بلڈنگ آج بھی قائم و دائم ہے جو  راہ گیروں کو اپنے ماضی کی داستان سنا رہی ہے۔

 اسی بلڈنگ میں ماضی کی  نامور سیاسی و مذہبی شخصیت  تحریک پاکستان کے راہنما مولانا عبدالستار نیازی رہائش پزیر تھے۔ ان کی یہ رہائش گاہ بے شمار تحریکوں  کا مرکز رہی ہے۔

آفتاب ظفر بٹ پینسٹھ سالوں سے  لکشمی چوک کے رہائشی ہیں ۔ انہوں نے لکشمی چوک کے نشیب و فراز اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں۔ مقامی رہائشی آفتاب ظفر نے کہا کہ ’اس لکشمی بلڈنگ کے بالکل سامنے اور چوک کے عین وسط میں  ایک فوارہ ہوا کرتا تھا۔‘

پچھتر سالوں سے یہاں مقیم محمد نیاز کے مطابق 'اس فوارے میں روشنیاں ہوا کرتی تھیں۔ اکثر نامور اداکار یہاں آکر چائے کی پیالی ہاتھ میں تھامے  محو گفتگو ہو جایا کرتے تھے

وہ اداکار یہاں آتے تھے کہ تصور بھی نہیں:۔

لکشمی بلڈنگ کے بالکل سامنے دائیں جانب رائل پارک ہے جو فلم انڈسٹری کا گڑھ ہوا کرتا تھا۔ ماضی میں رائل پارک  اداکاروں، فلمسازوں، ہدایت کاروں،  پروڈیوسرز اور فلم رائٹرز کے معمول کی بیٹھک کے لئے  مرکزی حیثیت رکھتا تھا ۔ فلم سازی اور  اخراجات کے علاوہ فلموں کے متعلق ہر قسم کی  گفتگو اسی مقام پر کی جاتی تھی۔

 رائل پارک کے ارد گرد سینما، عمارتیں، رنگارنگ اور لذیذ کھانے اور فلمی پوسٹرز ہر وقت نمایاں دکھائی دیتے تھے۔  

یہاں کے رہائشی عبدالمجید  مشہور و معروف اداکار یوسف خان کے ساتھ ہوتے تھے ۔ انہوں نے یوسف خان  کے ساتھ ایک فلم میں پولیس والے کا کردار بھی نبھایا ہے ۔

ایک رہائشی عبدالمجید نے کہا کہ  رائل پارک  میں  سارے فلمی اداکار اور ہدایت کار آ کر بیٹھتے تھے اور  فلم کے متعلق گفتگو کرتے تھے۔

انہوں نے  اپنے سامنے  موجود  عمارتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا  'یہاں 750  کے قریب فلمی دفتر تھے۔ ہر دفتر میں کوئی نہ کوئی ضرور موجود رہتا تھا۔

رائل پارک  کے ارد گرد یوسف خاں، اعجاز، امان اللہ اور دیگر معروف اداکاروں کے دفتر موجود تھے اور رائل پارک میں  نشاندہی کے لئے ان کے ناموں سے منسوب بورڈ بھی لگے ہوتے تھے۔'  

مقامی لوگوں کے مطابق یہاں اداکارہ ہما، عقیل بٹ، میڈم نور جہاں، اعجاز صاحب، ندیم، شبنم، آسیہ، سلطان راہی، منور ظریف، رنگیلا، اجمل،  قوی، فردوس، عالیہ  سمیت دیگر نامور اداکاروں کا آنا جانا رہتا تھا۔

محمد نیاز چونکہ پاکستان بننے سے قبل  یہاں پیدا ہوئے اور آج تک  اسی چوک کے ایک کنارے پر قائم دکان میں  لکڑیوں کا کام کرتے ہیں۔ سو انہوں نے لکشمی چوک پر پچھلے 75 سالوں میں  آتے جاتے موسموں کے رنگ اپنی نگاہوں سے دیکھے ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ  'رائل  پارک میں  وہ اداکار آتے تھے کہ ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔ ندیم، شبنم، ضیاء کشمیری، سلطان راہی، انجمن،  سمیت سارے پرانے اداکاروں کا مرکز یہی مقام تھا۔'

ماضی کے جمگتے رائل پارک میں اب ایک بھی فلم دفتر نہیں:-

   تاہم موجودہ رائل پارک  کسی بھی صورت ماضی کی طرح پررونق نہیں رہا۔ گلی کے  آغاز پر ایک دو نوجوان ٹیلے پر پھل فروخت کر رہے ہیں جبکہ  بڑی  گلی سے اندر داخل ہوتے ہی مرکزی مقام خالی نظر آتا ہے ۔ آج کل   ہر شام کو  مقامی افراد یہاں پانی کا چھڑکاؤ کرتے ہیں تاکہ  دھول نہ اٹھے ۔

اسی گلی کے اختتام پر بائیں  جانب  چند مقامی  ضعیف افراد  نوجوانوں کے ساتھ بیٹھ کر خوش گپیاں لگا رہے ہوتے ہیں۔  اس مرکزی مقام سے تین   مزید شاخیں نکلیں ہیں، جہا ں آج کل ایک بھی فلمی دفتر موجود  نہیں ہے۔ 

تینوں گلیوں میں  پرنٹنگ، بائینڈنگ اور پریس کا کام ہو رہا ہے۔ بائیں  جانب گلی میں  آگے چل کر ایک دو فلمی پوسٹرز ضرور مل جاتے ہیں لیکن وہ  کسی اشتہاری مہم  کا حصہ معلوم ہوتے ہیں۔ 

فلموں کی فیکٹری میں بوسیدگی کا ڈیرہ:-

رائل پارک کی  اسی گلی کے ذریعے باہر نکلنے کے بعد  نیو ایج ہوٹل  سامنے نظر آتا ہے، بائیں جانب  آگے چل کے دو خستہ حال سینماء آج بھی موجود ہیں۔   اوڈین سینماء  اور کیپٹل سینماء  ایک دوسرے کے بالکل آمنے سامنے موجود ہیں۔

  آج بھی یہاں فلموں کی نمائش ہوتی ہے اور لوگ یہاں آکر  یاد ماضی میں کھو جاتے ہیں۔  سینماء کے اندر کرسیاں  بوسیدہ ہوگئیں ہیں  اور چاروں طرف    مضر  صحت دھواں  انسانی  غفلت کی نشاندہی کر رہا ہے ۔ ہر چند کہ یہ دونوں سینما  اپنی  اصل حالت میں قائم ہیں لیکن   غیر متعلقہ افراد کی غیر ضروری سرگرمیوں کی وجہ سے  اس کا حسن ماند پڑ گیا ہے۔

لکشمی چوک میں سروں کی تعداد فلم کی کامیابی کا معیار:-

مقامی دکاندار محمد ارشد  لکشمی چوک میں  پینتالیس سالوں سے دوکان چلا رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ  پہلے جب سینما میں شو ختم ہوتا تو  سڑک کے ہر پار سر ہی سر نظر آتے تھے۔ محمد ارشد رائل پارک کو  فلموں کی فیکٹری قرار دیتے ہیں،  محدود رہ گیا ہے۔

 آفتاب ظفر بٹ نے سنیماؤں اور ہوٹلوں  کے متعلق بتایا 'نشاط سینما ابھی ہوٹل بن گیا ہے۔ صنوبر اور رتن سینماء کو مسمار کر دیا گیا ہے۔ گلستان اور میٹروپول سینما  آج بھی مخدوش حالت میں موجود ہیں  ۔ محفل سینما کو تھیٹر میں تبدیل کر دیا گیا ہے جبکہ مبارک سینماء مکمل طور پر ختم ہوگیا ہے۔'

یہاں کے رہائشی   محمد نیاز  کیبل  کنکشن اور موبائل کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ ان کے مطابق موبائل کے آنے سے  سینما کی اہمیت ختم ہو گئی ہے۔

وہ بتاتے ہیں 'اب یہاں افراتفری بڑھ گئی ہے۔ سکون کا ماحول نہیں رہا، بے روزگاری میں اضافہ ہوگیا ہے اور لوگ مصروف ہو گئے ہیں۔'

 آفتاب ظفر بٹ نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 'رونقیں انسانوں سے ہوتی ہیں جب انسان چلے جائیں تو رونقیں ختم ہو جاتی ہیں۔ اب وہ انڈسٹری ہی ختم ہوگئی ہے تو یہاں کوئی بھی نہیں بیٹھتا۔‘


کمپوزر: کاشف فاروق۔ لاہور سے۔


No comments:

Post a Comment