URDU STORIES:

اردو ادب اور کہانیوں میں خوش آمدید ۔ قصہ کہانیاں، غزلیں، نظمیں، واقعات، طنزومزاح، لاہور کی پنجابی، کچھ حقیقت کچھ افسانہ، پراسرار خواب والی ٹیکنالوجی، میری فیملی کا ذاتی شجرہ نسب سن 1790ء تا 2023ء۔، قومی پیمانہ، تباہی و زلزلے، دو سو سالہ کیلینڈر، اردو سافٹ وئیر ڈاؤنلوڈ۔

Friday, September 16, 2022

EINSTEIN - آئینسٹائن, NUCLEAR ATOMIC SCIENTIST - 2005



آئن سٹائن





اپریل 18، 2005 کو دنیا کے ذھین ترین سائنسدان البرٹ آئن سٹائن کی پچاسویں برسی منائ گئ۔ اسکی پیدائش کو 126 سال ہوچکے ہیں اور اسکے مشهور نظریهء اضافیت Theory of realitivity کو جو اس نے 1805ء میں پیش کیا تھا۔ پورے 100 سال گزر چکے ہیں۔ جس خطرناک قوت کو آئن سٹائن نے 100 سال پهلے دریافت کرلیا تھا اس نے اسے 34 سال تک حقیقت کا روپ اس لئیے نہیں دیا که وه بنیادی طور پر ایک معصوم اور بھولا بھالا انسان دوست سائنسدان تھا وه جانتا تھا که اقتدار کے منصب پر بیٹھے ہوئے لوگ اس بے پناه اور خطرناک قوت کو انسانوں کے خلاف استعمال کریں گے اور اس سے ہزاروں لاکھوں کروڑوں انسان اذیت ناک موت کا شکار ہوں گے۔ زمین جھلس کر صدیوں کے لیے بانجھ ہوجائے گی۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر سن 1945ء میں اگرچه جاپان کے شهروں ناگاساکی اور ہیروشیما پر لٹل بوائے اور فیٹ مین نامی ایٹم بم گرائے گئے اور خوفناک تباہی ہوئ۔

اگست 1945ء میں دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر اقوام متحده کا اداره تشکیل دیا گیا۔ دنیا کو ہمیشه کے لیئے پرامن اور مهذب رکھنے کا وعده کرتے ہوئے اقوام متحده کی سیکورٹی کونسل میں امریکه برطانیه فرانس روس اور بعد ازاں 1970ء میں چین کو مستقل رکنیت کے ساتھ ویٹو پاور دیا گیا۔

1945ء میں امریکه ایٹمی قوت بنا۔ 29 اگست 1949ء کو روس نے ایٹمی دھماکه کیا اکتوبر 1952ء کو برطانیه نے ایٹمی دھماکه کیا، فروری 1960ء کو فرانس نے، اکتوبر 1964ء کو چین نے ایٹمی دھماکه کیا۔ مئ 1974ء میں بھارت نے پهلا ایٹمی دھماکه کیا جو ناکام رہا تھا۔ پھر 11 مئ 1998ء کو مزید 5 کامیاب ایٹمی دھماکے کئے جس کے جواب میں پاکستان نے بھی 28 مئ 1998ء کو 6 ایٹمی دھماکے کئے۔




امریکه

کل 1030 دھماکے

روس

کل 715 دھماکے

فرانس

کل 209 دھماکے

برطانیه

کل 45 دھماکے

چین

کل 45 دھماکے

بھارت

کل 6 دھماکے

پاکستان

کل 6 دھماکے



آج آئن سٹائن کی وفات کے 50 سال بعد اس کے نظریه اضافیت کے 100 سال بعد اور اقوام متحده کے قیام کے 60 سال بعد تک کے باوجود لاتعداد ایٹمی ہتھیاروں کے دنیا ایٹمی جنگ سے بچی ہوئ ہے۔ لیکن وه خوفناک اور بهت بڑی قوت جسے آئن سٹائن نے 100 سال پهلے دریافت کرکے پیش کردیا تھا۔ پوری دنیا کی تباہی اور بربادی کا ایک ایسا قیامت خیز لمحه ہے، جو وقت کے تسلسل کے ساتھ مستقبل قریب یا بعید میں ظہور پذیر ہوسکتا ہے۔ اس سوال کا جواب تلاش کیا جاسکتا ہے که آئن سٹائن جیسے انسان دوست سائنسدان نے آخر کیوں یه طاقت امریکه کے حوالے کی تھی۔ یه درست ہے که جرمنی میں ہٹلر کو برسراقتدار آئے ہوئے 6 سال ہوچکے تھے اور چند مہینوں قبل اسنے بوهیمیا اور مورادیه پر قبضه بھی کرلیا تھا۔ اٹلی جرمنی کا اتحادی بن گیا تھا۔ مگر ابھی تک دوسری جنگ عظیم کا باقاعده آغاز نہیں ہوا تھا۔ لیکن ہٹلر کی قوت دیکھ کر دنیا اس کے عزائم کو بھانپ چکی تھی۔ برطانیه جو جرمنی سے مقابلے کی پوری تیاری کرچکا تھا۔ صرف ایک ماه بعد جرمنی کے خلاف اعلان جنگ کرنے والا تھا۔ بحرالکاہل پار امریکه اب بھی یورپ، افریقه، ایشیا سے دور پهلی جنگ عظیم کی طرح دنیا کا سب سے مخلوط دولت مند مضبوط اور طاقتور ملک سمجھا جارہا تھا۔ بلکه پهلی جنگ عظیم کے بعد برطانیه کے مقابلے میں امریکه بحیثیت سپر پاور زیاده معتبر ہوگیا تھا۔ ابھی دوسری جنگ عظیم شروع نہیں ہوئ تھی که یورپ کے بڑے بڑے سائنسدان سرمایه دار انجینئیرز ڈاکٹرز اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے امریکه منتقل ہونے لگے، خصوصاً جرمنی کے یہودیوں کی ایک بڑی تعداد ہٹلر کے ظلم و خوف سے بھاگ کر یهاں پناه لے چکی تھی۔ انهی لوگوں میں دنیا کا ذہین ترین فطین سائنسدان البرٹ آئن سٹائن تھا۔ جو امریکی ریاست نیو جرسی کے شهر پرنسٹن میں مرسر اسٹریٹ کے ایک چھوٹے سے سفید مکان میں رہائش پذیر تھا، جس کا نمبر 112 تھا۔

 اگست کی ایک صبح اس کے مکان پر امریکه کے اہم ترین سائنسدان ایک وفد کی صورت میں آئے۔ سیدھے سادھے آئن سٹائن نے انھیں ڈرائنگ روم میں بٹھایا۔ وه ان کی آمد پر حیران نہیں تھا کیوں که اس وقت اس کی شهرت پوری دنیا میں پھیل چکی تھی اور اسے انسانی تاریخ کا ذہین ترین انسان تسلیم کیا جاچکا تھا۔ دنیا کے بڑے بڑے سائنسدان اس سے مسئلے کا حل پوچھتے تھے۔ آئن سٹائن نے بھی یهی خیال کیا که آج امریکه کے چوٹی کے سائنسدان بھی کسی ایسے ہی سائنسی یا علمی مسئلے کا حل دریافت کرنے آئے ہیں۔ اس نے ان مهمانوں کے بیٹھنے کے بعد اپنے سفید لمبے بالوں کے باوجود کشاده پیشانی پر سلوٹیں ڈالتے ہوئے ابروؤں کو اٹھایا۔ اس کی قدرے بھوری چمکیلی آنکھیں سوالیه نشان بنی ہوئ تھیں۔

اہم ترین سائنسدانوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا ۔ شاید یه تمام اتنی جلدی تمہید کے لیے تیار نہیں۔ اسکی ایک وجه یه بھی ہوسکتی ہے که وه جس مسئلے پر گفتگو کرنے آئے ہیں وه سائنسی ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی تاریخ کا اہم ترین سیاسی مسئله بھی تھا۔ ان مهمانوں میں سے ایک نے آہسته سے کها که آپ نے 1905ء میں جو نظریه پیش کیا تھا، اس پر جرمن سائنسدان بہت تیزی سے کام کرہے ہیں۔ یه سنتے ہی آئن سٹائن کا چهره فق ہوگیا اور وه بے اختیار بولا یه تو بہت برا ہوا۔ دوسرے سائنسدان نے فوراً گرم لوہے پر ضرب لگائ اور دو جرمن سائنسدانوں کا نام لے لیا۔ اس پر آئن سٹائن گھبرا کر بولا، میں ان جرمن سائنسدانوں کی اعلیٰ صلاحیتوں سے واقف ہوں اور پھر تشویشناک سوچوں میں گم ہوگیا۔ کمرے میں سناٹا طاری تھا۔ مهمان سائنسدانوں میں سے ایک بولا اگر آمر ہٹلر کے پاس ایٹم بم آگیا تو وه پاگل پوری دنیا کو تباه کردے گا۔ آئن سٹائن ایک جھٹکے سے چونک پڑا۔ پھر کیا کیا جائے۔ ۔ ۔ وه بولا۔ 

مهمانوں میں سے ایک نے کها که اس سے پهلے که ہٹلر ایٹم بم بنا لے، ہم امریکی ایٹم بم بنا لیں۔ آئن سٹائن نے ایک الجھتے ہوئے انداز میں کها که اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ ایک تباه کن ہتھیار جرمنی کے بجائے امریکه کے پاس آجائے گا اور پھر تباہی تو ہوگی۔ مهمانوں میں سے ایک نے کها که تباہی کے لحاظ سے فرق آجائے گا۔ ہٹلر ایک دیوانه پرست قوم ہے جو جرمنی کے علاوه پوری دنیا کو تباہی میں جھونک دے گا۔ جب که امریکه کے پاس ایٹم بم ہوا تو وه جرمنی کو روک دے گا اور باقی تمام دنیا تباہی سے بچ جائے گی۔

پھر ان سائنسدانوں نے اسے امریکه صدر کو خط لکھنے پر مجبور کردیا۔ امریکی صدر پهلے ہی اسکے خط کے انتظار میں بیٹھے تھے۔ اس کو آئن سٹائن جیسے ذہین ترین انسان کی رضامندی کی ضرورت تھی۔ یه دونوں کام چوٹی کے امریکی سائنسدانوں نے آئن سٹائن کو قائل کرکے انجام دے دیے تھے۔ آئن سٹائن کا یه خط حکم نامه تھا اور اسکے ساتھ ہی انسانی تاریخ میں خطرناک ترین هتھیار ایٹم بم کا امریکی پروجیکٹ Man Hatten شروع کردیاگیا۔

امریکه کی جانب سے اب تک یهی کها جاتا ہے که امریکی ایٹم بم نے جنگ عظیم دوئم کو جلد ختم کردیا، لیکن تجزیه نگاروں کا ایک گروه ایسا ہے که جو امریکه کے اس جواز کو تسلیم نہیں کرتا۔ اس لیے جاپان پر ایٹم بم گرانے کا کوئ جواز نہیں تھا۔ سوائے اس کے که ایٹم بم کی وجه سے امریکه کو اسی وقت پوری دنیا پر برتری حاصل ہوچکی تھی، جو آج تک قائم ہے۔ آج آئن سٹائن کو کوچ کئے 50 سال بیت چکے ہیں۔ ایٹمی جنگ کا خطره دنیا میں پهلے سے کھیں زیاده ہوتا جارہا ہے۔ سوال یه ہے که کیا آئن سٹائن نے جان بوجھ کر یه غلطی کی یا اس معصوم انسان کو ٹریپ کیا گیا؟

آئن سٹائن 14 مارچ 1879ء کو جرمنی کے شهر میونخ سے 85 کلومیٹر دور الم ULM میں پیدا ہوا۔ اس کا باپ ایک ہرمن اور ماں پاولین غریب یهودی تھے۔ 6 سال کی عمر میں آئن سٹائن کو اپنے ماں باپ کے ساتھ میونخ اس لئے منتقل ہونا پڑا که ان کے والدین کا روزگار بهتر نہیں تھا۔ عجیب بات یه ہے که آئن سٹائن بچپن میں بہت کند ذہن مشہور تھا اور اسکول میں نهایت نالائق ترین طالب علم کهلاتا تھا۔ اسکی بنیادی وجه یه تھی که وه کوئ لفظ ادا کرنے سے پهلے اچھی طرح سوچتا تھا۔ اس کے خاندان کے باقی بچے اس کے مقابلے میں بهت شوخ اور چخچل تھے۔ لیکن وه بهت خاموش رہتا تھا۔ ہمیشه سوچتا رہتا تھا۔ فطرت کے مناظر میں کھو جاتا، اس کا ذہن بهت تیزی سے کام کرتا تھا۔ وه جو سوالات کرتا ان کے جوابات دینے والے اسے زندگی میں خال خال هی ملے۔ آئن سٹائن کو فوت ہوئے 50 سال گزر چکے ہیں، لیکن اب تک کی تحقیق کے مطابق ایسے تیز ذہن کا سائنسدان پیدا نہیں ہوا۔ یهی وجه ہے که آئن سٹائن کو اس کے عہد کے لوگ 26 سال تک اسے سمجھ نہیں سکے یعنی اسکے ذہن کی بنت میکانکس آف برین کسی کی سمجھ میں نہیں آسکی۔

بچپن میں اسے بهت نالائق سمجھا جاتا تھا، لیکن اس کی ماں کو یقین تھا که اس کا بچه بهت ذہین ہے۔ اس کے گھر میں اکثر موسیقی کی محفلیں چھٹی کے روز منعقد ہوتی تھیں۔ جس دن موسیقی کا پروگرام ہوتا، بچوں کو جلد سلا دیا جاتا۔ لیکن آئن سٹائن پردوں کے پیچھے چھپ کر سنتا، وه 6 برس کی عمر میں سروں میں تمیز کرسکتا تھا۔ ان ہی دنوں ایک بار ان کے ہاں ایک بے سرا نام نہاد فنکار آیا، سب ہی اسکی موسیقی سے بے زار تھے، لیکن اخلاقاً مهمان سن رہے تھے که پردے کے پیچھے سے آئن سٹائن سے ضبط نه ہوسکا اور اس نے چیختے ہوئے اسے گانے سے منع کردیا۔ اسکی صلاحیتوں کو سمجھتے ہوئے اسکی ماں نے اسے ایک وائلن خرید دیا۔ آئن سٹائن زندگی بھر کبھی کبھار اسے بجا کر لطف اندوز ہوتا تھا۔ اسکے چچا کے روڈی عرف یاکے نے اسے کسی پهچانا، بچپن میں اسے قطب نما لاکر دیا۔ جس کو اسنے انهماک سے جاننے کی کوشش کی۔ یاکے نے ہی اسے الجبرا کے بارے میں بنیادی باتیں بتائیں اور پھر چند دنوں میں ہی اسنے پوری کی پوری کتاب ختم کرڈالی۔ اس نے لڑکپن ہی میں بریٹمین کی قدرتی سائنس پر کتابوں کا سلسله پڑھ لیا۔

اسی زمانےمیں اسکے ہاتھ اقلیدس کی ایک کتاب لگی جو بڑی کلاسوں میں پڑھائ جاتی تھی۔ اس نے نه صرف یه کتاب دو ہفتوں میں پڑھ لی بلکه اسے پوری طرح سمجھ میں آگئ۔ اس کا ذہن اتنا تیز تھا که 1895ء میں صرف 16 سال کی عمر میں اسنے نظریه اضافیت چوتھی ڈائمینشن پر غور شروع کردیا۔ سوچنے کی قوت کے ساتھ ساتھ یه بھی تھا که کسی نکتے پر جب وه سوچتا تو توجه اتنی زیاده مرکوز ہوتی که اسے اردگرد اپنا آپ بھی یاد نه رہتا۔ انہماک کی یه صورت جزب و مستی کی سی ہوتی۔ ایک بار ایسا بھی ہوا که وه کسی سائنسی مسئلے پر کام کررہا تھا، میز پر کاغذات پڑے تھے اور ایک گلدان میں تازه گلدسته تھا۔ ملازم نے اسی دوران کھانا لاکر سامنے رکھا اور بتا کر واپس چلا گیا۔ آدھے گھنٹے بعد ملازم آیا تو اس نے دیکھا که وه کاغذات پر جھکا کھانے کی بجائے پورا گلدسته کھا چکا تھا۔ بچپن سے جوانی تک اسکول و کالج کی سطح پر وه ان مضامین کی طرف توجه نہیں دیتا تھا جو اسکے مطلب کے نہیں ہوتے تھے۔ اکثر اساتذه نے اسے نالائق اور کند ذہن اس لیئے تصور کیا که اس کا ذہن زیاده تیز تھا اور اساتذه اس کے ذہن میں ابھرنے والے سوالات کے جوابات تو کیا اسکی ذہنی سطح کا تصور بھی نہیں رکھتے تھے۔ اسے صرف میونخ کے پروفیسر Ruess نے متاثر کیا تھا۔ جنھیں وه زندگی بھر یاد کرتا تھا۔ کهتا تھا که انھوں نے مجھ میں مطالعه کی عادت کو پخته کیا تھا۔

سن 1905ء کے بعد جب اسے جرمنی میں بہت سے مقامات کے علاوه یورپ کے ممالک میں بھی لیکچرز کے لئے۔ کانفرنسوں اور سیمیناروں میں بلایا جانے لگا تو ایک بار وه میونخ کی کسی کانفرنس میں عالمی شہرت کے حامل سائنسدانوں کے ساتھ آیا۔ وه لباس کے معاملے میں بہت لاپرواه تھا بلکه اس کا حلیه ہمیشه بگڑا رہتا تھا۔ سلوٹوں والا ڈھیلا ڈھالا تھیلا نما سوٹ، لمبے لمبے بال، بڑھی ہوئ مونچھیں۔ اس نے زندگی بھر شیو کے لئے الگ صابن استعمال نہیں کیا۔ وه جس صابن سے نہاتا تھا اسی سے شیو کرتا تھا۔ جوانی تک وه بہت غریب تھا، اسکے یونیورسٹی کے اخراجات اسکے ایک رشته دار نے ادا کئے۔ تعریف کی بات یه ہے که وه جب سوئٹزر لینڈ کی ایک یونیورسٹی میں داخلے کے لئے انٹرویو دینے گیا تو حیاتیات اور نباتات کے ڈائریکٹر ہرزوگ نے کها که تم اوسط درجے سے بھی کم انسان ہو۔ اس لئے تمھیں یهاں داخله نہیں مل سکتا۔ میرے خیال میں تم پهلے اپنی یونیورسٹی اور اسکول کا تعلیمی معیار بہتر کرو، پھر یهاں آنا۔ اسنے ایسا ہی کیا اور پھر یونیورسٹی میں داخله لے لیا۔ اس کا دماغ تیز، ٹانگیں مضبوط تھیں، میلوں پیدل چلتا تھا، نوکری کی تلاش کرتا تھا، اسے پهلی نوکری پینٹ کرنے والے دفتر میں ملی۔ وه طویل عرصے تک تنگ دستی کا شکار رہا، یونیورسٹی کے زمانے میں اسے یونیورسٹی کی ہی ایک فزکس کی لڑکی میلوا میرک سے محبت ہوگئ اور ان میں طے پایا که یونیورسٹی سے فارغ ہوکر شادی کرلیں گے۔ لیکن ابھی یونیورسٹی سے فارغ ہونے میں کافی وقت تھا که میلوا میرک نے ایک دن یه فیصله سنا دیا که شادی فوراً ہونی چاہیئے کیونکه وه حامله ہوچکی ہے اور آئن سٹائن یه جانتا تھا که یه بچه اس کا نہیں ہے۔ اس کی مهربانی اور احسان کے باوجود میلوا میرک نے اس کو وه محبت نہیں دی جس کی اسے تمنا تھی۔ جب آئن سٹائن کی شهرت بڑھنے لگی تو وه اس سے حسد کرنے لگی اور 1929ء میں طلاق لے لی۔ لیکن آئن سٹائن اپنے سابق خاندان کو اخراجات دیتا رہا۔ طلاق سے قبل آئن سٹائن کے بچپن کی دوست ایلاس دو بچوں کی ماں بننے کے بعد بیوه ہوچکی تھی، جس سے آئن سٹائن نے بعد میں شادی کرلی۔ اس کا انتقال 1936 میں ہوا۔ تنها ہوجانے کے بعد سن 1936 سے 1955 تک اس نے سائنس کی دنیا میں تهلکه مچا دیا۔ اس نے پوری دنیا اور کائنات کو کھنگال کر رکھ دیا، لیکن کائنات سے متعلق تمام نظریات کے لئے اس کی سب سے بڑی لیبارٹری اسکا دماغ تھا۔ دنیا کا عظیم دماغ۔ 1905ء سے اس کی شہرت میں اضافه ہوتا چلا گیا۔ وه دنیا کے بہت سے ترقی یافته ممالک میں گیا۔ امریکه میں صدر اس کے استقبال کو آتا تھا۔ سن 1921ء میں اس کو نوبل انعام دیا گیا۔

سن 1948ء میں اسرائیل کے قیام کے بعد اسے یهاں کا صدر بننے کی پیشکش ہوئ، جسے اسنے قبول نہیں کیا۔ سائنس دانوں میں اس کا قد اعتبار سے بہت بلند ہے که اس کا جسم زمین پر رہتا، اور ذہن کهکشاؤں میں۔ جو نظریات زمین پر لاتا انھیں سائنسی قانون بھی بنادیتا۔

یه ایک فطری عمل ہے که مشکل وقت میں انسان اپنی مادری زبان بولتا ھے۔ 76 برس کی عمر میں جب 18 اپریل 1955 میں آدھی رات کے وقت اس کا دم نکل رہا تھا تو اس کے پاس البرٹاروزل نامی نرس موجود تھی جو بدقسمتی سے جرمن زبان نہیں جانتی تھی۔ آئن سٹائن نے اکھڑتی ہوئ سانسوں کے باوجود بہت واضح جرمن الفاظ میں بولنا شروع کیا۔ لیکن ان الفاظ کو کوئ محفوظ نہیں کرسکا۔ وه نجانے اپنے کس نظریے کے بارے میں بولتا ہوا ہمیشه ہمیشه کے لیئے خاموش ہوگیا۔ دانشور سائنسدان اب تک سر پیٹتے ھیں که وه راز جو آئن سٹائن مرتے وقت کهه گیا، وه راز راز ہی ره گئے۔

آئن سٹائن کو دولت دنیاوی شہرت لباس خوراک سے کوئ لگاؤ نه تھا، اس کا تیز رفتار ذہن اور اسکی سوچیں اسے آسودگی دیتی تھیں۔ وه انسان دوست تھا۔ مذہبی لسانی یا نسلی طور پر متعصب بھی نہیں تھا۔ اس نے نظریهء اضافیت کے علاوه کائنات سے متعلق بہت سا علم دنیا کو دیا، جو رہتی دنیا تک انسان کے کام آئے گا۔ اس کی زندگی اور شخصیت کو مدنظر رکھتے ہوئے کها جاسکتا ہے که دوسری جنگ عظیم اور ہٹلر کے کردار نے اسے مجبور کردیا که وه ایٹم بم جیسے طاقتور ترین اور تباه کن ہتھیار کی تیاری کے بارے میں امریکه کو اس راز سے آگاه کردے جو اس نے 1905ء میں پالیا تھا۔

دیگر سائنسدانوں نے اس کے مرنے کے بعد اسکے دماغ کو محفوظ کرلیا اور تحقیقات کے ذریعے معلوم ھوا که اس کے دماغ میں عام انسانوں کے مقابلے میں 2.5% عقل زیاده تھی۔




مالک، مصنف و کمپوزر: کاشف فاروق۔ لاہور سے۔


No comments:

Post a Comment