URDU STORIES:

اردو ادب اور کہانیوں میں خوش آمدید ۔ قصہ کہانیاں، غزلیں، نظمیں، واقعات، طنزومزاح، لاہور کی پنجابی، کچھ حقیقت کچھ افسانہ، پراسرار خواب والی ٹیکنالوجی، میری فیملی کا ذاتی شجرہ نسب سن 1790ء تا 2023ء۔، قومی پیمانہ، تباہی و زلزلے، دو سو سالہ کیلینڈر، اردو سافٹ وئیر ڈاؤنلوڈ۔

Friday, September 16, 2022

ENTRY TEST AAKHIR JWAZ KIA HAI - انٹری ٹیسٹ ۔ آخر کیا جواز ہے؟

سن 2006ء۔


انٹری ٹیسٹ ۔۔۔۔۔۔۔۔ آخر کیا جواز ہے؟




انجینئیرنگ یونیورسٹیز اور میڈیکل کالجز میں انٹری ٹیسٹ کا آغاز ایک سابق وزیر اعلٰی پنجاب نے کیا۔ لیکن اب ہر ڈیپارٹمنٹ میں داخلے کے لیے لازمی قرار دے دیا گیا ہے۔ انٹری ٹیسٹ کو رٹا سسٹم کے نجات دھنده کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے۔ لیکن دراصل اس کا مقصد مخصوص طبقے سے مفادات کا تحفظ تھا۔ کیونکه روز بروز انجینئیرنگ میڈیکل و بزنس مینیجمنٹ میں داخلے کے خواہشمند طلباء طالبات کی تعداد میں اضافه ہورہا ہے۔ لیکن حکومت نے بزنس مینیجمنٹ میڈیکل انجینئیرنگ و دیگر یونیورسیٹیز کی تعداد میں اضافه کرنے کے بجائے انٹری ٹیسٹ کا شوشه چھوڑ دیا ہے۔ ہر سال یونیورسٹیز کی کمی کے باعث طلباء 70 سے 80 فیصد نمبر حاصل کرنے کے باوجود داخلے سے محروم رہتے تھے اور حکومت کی بدنامی کا باعث بن رہے تھے۔ اس لیئے ان کا بندوبست کرتے ہوئے انٹری ٹیسٹ کے کامیاب تجربے کو ہر شعبه تعلیم میں لازمی قرار دے دیا گیا۔ اس کے علاوه انٹری ٹیسٹ بیوروکریٹس سول و ملٹری سرمایه داروں اور جاگیرداروں بچوں کے لیئے یونیورسٹیز میں داخلے کا آخری چور دروازه ہے اب جہاں تک رٹا سسٹم سے نجات کا تعلق ہے۔ رٹا لگانے والے طلباء بمشکل پاس ضرور ہوتے ہیں۔ لیکن وه اس معیار تک نہیں پھنچ پاتے که یونیورسٹی کا میرٹ بنالیں۔


انٹری ٹیسٹ کا مقصد واقعی اگر رٹے سے نجات ہے تو امتحانات ہی میں معروضی سوالات کی تعداد میں اضافه کردیا جائے تاکه رٹے و انٹری ٹیسٹ دونوں ہی سے چھٹکارا مل جائے۔ اس مرتبه پهلی بار معروضی سوالات 19 فیصد سے کم کرکے 60 فیصد کردئے گئے اور رٹے کے خاتمے کے لیئے راه ہمواری کی گئ۔ لیکن انٹری ٹیسٹ کو پھر بھی ختم نہیں کیا گیا۔ امتحانات میں معروضی سوالات میں اضافه کے بعد انٹری ٹیسٹ بالکل بلاجواز ہے۔ اس سے صاف ظاهر ہوتا ہے که انٹری ٹیسٹ کا مقصد رٹالائزیشن کا خاتمه نہیں بلکه رٹا سسٹم کا خاتمه تو بس انٹری ٹیسٹ کے لئے ایک بے وزن دلیل ہے اور درپرده اس کے کچھ اور مقصد ہیں۔

چونکه انٹری ٹیسٹ امتحانات کے 3 ماه بعد لیا جاتا هے۔ اس لئے طلباء کو دوباره تیاری کرنا پڑتی ئے۔ مسلسل ذہنی اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس طرح طلباء و طالبات کی 12 سے 14 ساله محنت و مستقبل کا دارومدار ایک سے دو گھنٹے میں لئے جانے والے انٹری ٹیسٹ پر ہوتا ہے جو سٹوڈینٹ انٹری ٹیسٹ میں اچھے نمبر نہیں حاصل کرپاتے انہیں امتحانات میں اچھے نمبر ہونے کے باوجود داخله نہیں دیا جاتا۔ انٹری ٹیسٹ سے یه بات بھی سامنے آتی ہے که وزارت تعلیم کو اپنے تعلیمی اداروں اور اساتذه جن پر هر سال اربوں اور بے بجٹ خرچ کیا جاتا ہے پر اعتماد نہیں ہے اور بورڈ و یونیورسٹی کو بھی اپنی ہی جاری کرده ڈگری پر اعتماد نہیں ہے اور انٹری ٹیسٹ پر زیاده اعتماد ہے۔ ہر سال جب بھی یونیورسٹیز میں داخلوں کے لیئے انٹری ٹیسٹ لئیے جاتے ہیں تو اساتذه طلباء اور ان کے والدین سراپا احتجاج ہوتے ہیں، مضاهرے کرتے ہیں، ایڈیٹر صاحبان کو خطوط لکھتے ہیں اور اخبارات بھی صحیح حقائق حکومت تک پہنچانے کے لیے ماهرین تعلیم کا فورم منعقد کراتے ہیں۔ انٹری ٹیسٹ میں چونکه سوالات آؤٹ آف کورس شامل کئے جاتے ہیں اور وقت بھی محدود ہوتا ہے۔ اسلیئے انٹری ٹیسٹ وہی طلباء بہتر طریقے سے پاس کرسکتے ہیں جنھوں نے کسی اکیڈمی سے انٹری ٹیسٹ کی تیاری مکمل کی ہو۔ اس کا مطلب هرگز یه نہیں که اکیڈمی والے طلباء کو کتابیں ازبر کردایتے ہیں۔ پچھلے دو سالوں میں انجینئیرنگ یونیورسٹیز میں داخل ہونے والے طلباء کے اعداد و شمار اکٹھے کئے  گئے تو پتا چلا که وه طلباء داخله حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں جنھوں نے ایف ایس سی کے امتحانات میں اچھے نمبر حاصل کئے ہوں یعنی انٹری ٹیسٹ سے کوئ خاطر خواه نتائج برآمد نہیں ہو رہے بلکه ایف ایس سی میں اچھے نمبر ہونے کے باوجود بہت سے طلباء انٹری ٹیسٹ میں کم نمبر ہونے کے باعث داخلے سے محروم ره جاتے ہیں۔ دونوں صورتوں میں انٹری ٹیسٹ کا نقصان ہی ہے۔ ہمارے ہاں ٹیلنٹ کو انٹری ٹیسٹ کے ذریعے ضائع کیا جارہا ہے۔

انٹری ٹیسٹ کے علاوه ایک اور بڑا مسئله جو که سٹوڈینٹس کو درپیش ہے وه یه ہے که بی ایس سی جنرل کے طلباء کی مخصوص سیٹیں تین سال پهلے ختم کردی گئیں ہیں جس کے بی ایس سی کے طلباء کے لیئے چوائس ختم ہوگئ ہے۔ اس بارے میں ڈاکٹر محمد عارف بٹ ڈین فیکلٹی آف انجینئیرنگ اینڈ ٹیکنالوجی پنجاب یونیورسٹی کی کاوشیں قابل تعریف اور قابل تقلید ہیں کیونکه پورے پاکستان میں صرف انھوں نے بی ایس سی کے طلباء کے لئے سیٹیں بحال رکھی ہوئ ہیں۔


مالک و مصنف: شیخ محمد فاروق۔
کمپوزر: کاشف فاروق۔ لاہور سے۔

No comments:

Post a Comment