URDU STORIES:

اردو ادب اور کہانیوں میں خوش آمدید ۔ قصہ کہانیاں، غزلیں، نظمیں، واقعات، طنزومزاح، لاہور کی پنجابی، کچھ حقیقت کچھ افسانہ، پراسرار خواب والی ٹیکنالوجی، میری فیملی کا ذاتی شجرہ نسب سن 1790ء تا 2023ء۔، قومی پیمانہ، تباہی و زلزلے، دو سو سالہ کیلینڈر، اردو سافٹ وئیر ڈاؤنلوڈ۔

Friday, September 16, 2022

ANDHI TRAIN KA SAFAR - MAY 1994 STORY - اندھی ٹرین کا سفر

 




اندھی ٹرین کا سفر

مئی 1994ء کی کہانی

ہوا ا یوں که ڈاکیا گھر میں ایک لفافه پھینک گیا۔ میں نے کھولا تو وه ایک دعوتی کارڈ تھا۔ گوجرانواله میں ایک ادبی جلسه ہو رہا تھا جس میں شرکت کے لیے مجھے بلایا گیا تھا۔ جلسے کی تاریخ تھی پندره اکتوبر 1993ء۔  اتفاق سے مجھے چوده کو لاہور جانا تھا۔ میں نے پروگرام بنایا که چوده کو اپنے شهر منڈی بهاؤالدین سے سیدھا لاہور چلا جاؤں گا اور وہاں سے پندره کو گوجرانواله جاکر جلسے میں شرکت کروں گا۔ چنانچه چوده کو میں بیگ اٹھا کر صبح سویرے گھر سے نکلا اور ویگن میں بیٹھ کر دن کے دس بجے لاہور پهنچا۔ وه دن لاہور ہی میں گزارا۔ اگلے دن کے باره بجے گوجرانواله روانه ہوگیا۔ کیونکه جلسے کا وقت تین بجے تھا۔ دو بجے کے قریب گوجرانواله پهنچا اور سیدھا ایک حمام خانے میں جا گھسا اور نها دھو کر کپڑے بدل ڈالے۔ گوجرانواله کے اردو بازار میں میرے ایک عزیز دوست کی دکان ہے۔ میں نے سوچا که بیگ اس کی دکان میں رکھ دوں۔ جلسے سے واپسی پر لے لوں گا۔ تانگه میں بیٹھ کر دکان پهنچا تو دوست نے گرم جوشی سے استقبال کیا بیگ وہاں رکھنے اور چائے پینے کے بعد میں وہاں سے چل پڑا۔ تین بجنے والے تھے جلسه جی ٹی روڈ پر پاکستان نیشنل سنٹر مین تھا۔ میں نیشنل سینٹر گیا جلسے میں شرکت کی۔۔ آخر میں کھانے پینے کا دور چلا ابھی لوگ کھا پی ہی رہے تھے که میں وہاں سے کھسک آیا۔ ہال سے باهر نکلا تو هر طرف گھپ اندھیرا تھا اب پتا چلا که رات کافی ہوچکی ہے۔ آسمان پر کالے بادل چھائے ہوۓ تھے اور بجلی بھی چمک رہی تھی۔ ہوا بھی فر فر چل رہی تھی۔ بارش کسی بھی لمحے ہوسکتی تھی۔ یه دیکھ کر میں گھبرا گیا جلدی جلدی سڑک کے کنارے آکھڑا ہوا که کوئ وین آئے تو اس میں بیٹھوں۔ دور سے کسی گاڑی کی لائٹیں نظر آئیں مگر قریب آنے پر پتا چلا که وه تو کسی کی کار ہے۔ کافی دیر تک کوئ وین نه آئ۔ اوپر سے بارش تیز ہونے کا خطره تھا که کهیں میرے دوست دکان بند کرکے نه چلے گئے ہوں۔ تیز ہوا اور بارش نے مجھے پریشان کردیا تھا۔ میں دعا مانگنے لگا که الله میری دو دعائیں قبول فرما کم از کم ایک گھنٹا بارش نه برسا اور جب تک میں اپنے دوست کی دکان پر نه پهنچ جاؤں وه دکان بند کرکے نه جائے۔ خدا اپنے گنهگار بندوں کی بھی دعائیں سنتا ہے۔ بارش بھی بند ہوگئ اور ہوا کا زور بھی کم ہوگیا۔ میں جی ٹی ایس کے اڈے کے راستے چل پڑا بازار کی اکثر دکانیں بند تھیں مگر میرے دوست کی دکان کھلی تھی۔


رات کے دس بجے کا وقت تھا میں نے دکان سے اپنا بیگ لیا اس وقت مجھے کوئ بس یا وین نهیں مل سکتی تھی اسلئے ٹرین سے جانے کا فیصله کیا اور ریلوے اسٹیشن پهنچ گیا۔ یهاں آکر معلوم ہوا که لاله موسیٰ جانے والی گاڑی تو باره بجے آئے گی۔ لاله موسیٰ سے منڈی بهاؤالدین کے لیے گاڑی بدلنا پڑتی ہے کیونکہ وہ ایک جنکشن ہے۔ لیکن اب مجھے کوئ فکر نهیں تھی۔ پلیٹ فارم پر کئ مسافر تھے اگر چه میں کافی دیر پیدل چل چکا تھا لیکن ایک جگه ٹک کر بیٹھنا میری عادت نهیں۔ جب گاڑی کے آنے کا وقت ہوا تھا میں نے ٹکٹ خریدا کیونکه اس سے پهلے اس کی کھڑکی بند تھی۔ عین آدھی رات کے باره بجے گاڑی دھڑ دھڑاتی آگئ۔ اس گاڑی کا نام تو اب مجھے یاد نهیں لیکن یه ضرور یاد ہے که اس جیسی ریل گاڑی میں نے پهلے کبھی نهیں دیکھی تھی۔ انجن اور گارڈ کے ڈبے کے سوا باقی تمام ڈبوں میں گھٹا ٹوپ اندھیرا چھایا هوا تھا۔ مزے کی بات یه که ایک دو مسافروں کے علاوه کوئ اور اس گاڑی میں سوار نه ہوا۔ اس کی وجه یه تھی که اس گاڑی کو لاله موسیٰ جا کر ختم ہوجانے تھا اور دوسری گاڑی سوا باره بجے آنے تھی۔

گاڑی کی سیٹیں اکھڑی هوئ دروازے ٹوٹے ہوئے، غرض هر چیز تباه حال تھی۔ پلیٹ فارم پر لگے بلبوں کی روشنی میں میں نے دیکھا که کسی ڈبے میں ایک مسافر ہے کسی میں دو۔ اکثر ڈبے بالکل خالی پڑے ہیں۔ میں بھی ایک خالی ڈبے میں سوار ہوگیا۔ ایک سیٹ پر بیگ رکھا اور اس کے سامنے والی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر بعد جب گاڑی اسٹیشن کی حدود سے باهر نکلی تو ڈبے میں رہی سهی روشنی بھی ختم ہوگئ۔ اب میں اتنے گھپ اندھیرے میں سفر کررہا تھا که ہاتھ کو ہاتھ سجھائ نهیں دیتا تھا۔ گاڑی کے اندر بھی اندھیرا اور باهر بھی۔ ایسے میں گاڑی کے چلنے سے ایک پراسرار سا ماحول پیدا هوگیا تھا۔



پانچ دس منٹ گزر گئے مجھے نیند آنے لگی۔ اچانک اس ڈبے میں ایک کھردری سی آواز گونجی۔ "ڈاہڈی ترہیه پئ لگی ہے [بهت سخت پیاس لگی ہے]" میں حیرت و خوف سے اچھل پڑا۔ اس ڈبے میں میرے سوا تو کوئ اور مسافر نه تھا پھر یه آواز کس کی تھی؟ جلد ہی وه آواز پھر گونجی۔ "اوئے اک گھونٹ پانی دا تے پیا چھڈ ظالما ڈاہڈی ترہیه پئ لگی اے۔ [ایک گھونٹ پانی کا تو پلادے ظالم بهت سخت پیاس لگی هے]"۔ اب میں نے سوچا که کوئ مسافر اس ڈبے میں موجود ہے جسے میں اندھیرے میں نهیں دیکھ سکا ہوں گا۔ میں نے بھی اندھیرے میں آواز لگائ "کون ہے! جسے اتنی سردی میں پیاس لگ رہی ہے؟"۔ وہی آواز پھر آئ "میں ۔ ۔ ۔ میں مرنیں ایں پئ۔ [میں مر رہی ہوں]"۔ تب مجھے محسوس ہوا که یه تو کوئ عورت ہے۔ اتنے میں گاڑی کی رفتار ہلکی ہوگئ اور پھر وه ایک چھوٹے سے اسٹیشن پر رک گئ۔ یه اسٹیشن کسی گاؤں کا تھا اس لیے سنسان پڑا تھا۔ وہاں صرف ایک بلب جل رہا تھا جس کی ہلکی ہلکی روشنی گاڑی کے ڈبے میں داخل ہورہی تھی۔۔ اب میں نے دیکھا که مجھ سے دو تین سیٹوں کے فاصلے پر ایک بهت موٹی سے عورت بیٹھی ہے۔ اس نے اپنے گلے میں بڑے بڑے دانوں کی مالا ڈال رکھی تھی۔ سر کے بال کھلے ہوئے تھے اور چهر بهت خوفناک لگ رہا تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے کوئ جادوگرنی ہو۔ گاڑی کے رکتے ہی وه دروازے کی طرف بڑھی اور نیچے اتر گئ۔ سامنے پلیٹ فارم پر ایک نل لگا ہوا تھا وه سپڑ سپڑ کر کے پانی پینے لگی اور ڈھیر سارا پانی پی کر پھر ڈبے میں بیٹھ گئ۔ اس اسٹیشن سے نه تو کوئ مسافر اترا اور نه ہی سوار ہوا۔ اسی وقت ریلوے گارڈ نے ہمارے ڈبے میں جھانک کر کها "تم دونوں کسی ایسے ڈبے میں بیٹھ جاؤ جهاں دو چار اور بھی مسافر ہوں۔ یهاں کوئ چور اچکا آسکتا ہے"۔ میں تو خاموش ہی رہا عورت نے غصے سے کها "سن ایتھے ساڈا کائ ناں کھاندا پیا [سن یهاں همارا کوئ کچھ نهیں بگاڑ سکتا]"۔ گارڈ نے کندھے اچکائے اور سیٹی بجاتا ہوا اپنے ڈبے کی طرف چلا گیا۔ گاڑی آهسته آهسته رینگنے لگی۔ 

اب پھر چاروں طرف اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔ چند ہی منٹ گزرے ہوں گے که اس عورت نے پھر آواز لگائ "ڈاہڈی ترہیه پئ لگی اے [بهت سخت پیاس لگی ہے]"۔ میں زور زور سے ہنسنے لگا۔ یه عورت ہے یا کوئ بلا۔ سردی سے میرے دانت بج رہے تھے اور اسے باربار پیاس لگے جارہی تھی۔ وه تھوڑی تھوڑی دیر بعد یهی فقره دهراتی رہی۔ میں اسے پاگل خیال کیے بیٹھا رہا۔

 کچھ ہی دیر بعد گاڑی پھر ایک چھوٹے سے اسٹیشن پر رک گئی۔ وه عورت پھر نیچے اتری اور پلیٹ فارم پر لگے نل سے منه لگا کر غٹ غٹ کر کے پانی پینے لگی۔ جب تک گاڑی کھڑی رہی وه پانی پیتی رہی۔ اس اسٹیشن سے ایک لنگڑا مسافر بھی ہمارے ڈبے میں آچڑھا۔ اس نے بغلوں میں بیساکھیاں دبا رکھیں تھیں وه کھٹ کھٹ کرتا ہوا آیا اور میرے سامنے کی ایک سیٹ پر بیٹھ گیا۔

 گاڑی کے حرکت کرتے ہی وه عورت بھی پانی کا پیچھا چھوڑ کر ڈبے میں آگئ۔ لنگڑا مسافر غور سے مجھے دیکھے جارہا تھا۔ اب اس ڈبے میں تین مسافر تھے۔ جب گاڑی چلی اور هر طرف گھپ اندھیرا هوگیا تو لنگڑے نے اپنی بیساکھیاں ایک طرف رکھیں اور میری طرف بڑھا اور بولا بابو صاحب دو روپے تو دینا۔ میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر ایک طرف جھٹک دیا اور بولا "پرے ہٹو"۔ بس پھر اس نے دونوں ہاتھوں سے میری گردن پکڑ لی اور لگا زور زور سے بھیچنے۔ اس کے ہاتھوں کی طاقت دیکھ کر میں حیران ره گیا۔ مجھے سانس لینا مشکل ہورہا تھا۔ ہاتھ پاؤں سن ہوگئے تھے۔ 

ایسے میں پچھلی سیٹ سے اس عورت کی آواز آئ "ڈاہڈی ترہیه پئ لگی اے [بهت سخت پیاس لگی ہے]"۔ ایسے وقت میں بھی مجھے ہنسی آگئ۔ میں نے بڑی مشکل سے اس لنگڑے کے ہاتھوں کو پکڑ کر پیچھے ہٹایا اور گھٹی گھٹی آواز میں بولا "چھوڑو مجھے، میں تمھیں دو روپے دیتا ہوں"۔ اس نے میری گردن چھوڑ دی۔ میں نے جیب میں ہاتھ ڈال کر ایک نوٹ نکالا۔ اندھیرے میں پتا نه چلا که نوٹ دو کا ہے پانچ کا یا دس کا، بهر حال میں نے وه نوٹ جلدی سے اس لنگڑے کو دے دیا اور وه اپنی سیٹ پر جا بیٹھا۔ اسی وقت پیچھے سے پیاسی جادوگرنی کے قدموں کی چاپ سنائ دی۔ وه غسل خانے کا دروازه کھولنے کی کوشش کررہی تھی۔ مگر دروازه نهیں کھل رہا تھا۔ وه اس پر مکے اور لاتیں برسانے لگی۔ ڈبے میں دھڑام دھڑام کی آوازیں گونجنے لگیں۔ لنگڑے نے زور سے آواز لگائ "کیا بات ہے مائ"۔ عورت نے بھی چیخ کر جواب دیا "اؤئے ایدھا بوہا نئیں لتھدا پیا۔ ایدھے وچ تے لگدا اے کائ بندا موا پیا جے [اس کا دروازه نهیں کھل رہا اس میں تو لگتا ہے کوئ آدمی مرا پڑا ہے]"۔ یه کهه کر وه پھر دروازے پر ٹکریں مارنے لگی۔ مگر دروازه نهیں کھل رہا تھا۔ لنگڑے نے بیساکھیاں اٹھائیں اور غسل خانے کی طرف چل پڑا۔ اب وه دونوں دروازه کھولنے کی کوشش کررہے تھے مگر وہ نهیں کھل رہا تھا۔ عورت ٹکریں مارنے کے ساتھ ساتھ چیخ بھی رہی تھی "یاتے کائ بند موا پیا جے یا فر جن بھوت ایدھے وچ وڑیا ہویا اے [یا تو کوئ آدمی مرا پڑا ہے یا پھر جن بھوت اس میں گھسا ہوا ہے]"۔ 

وه دونوں مسلسل دروازے پر لاتیں اور مکے برسارہے تھے۔ اچانک دروازه کھل گیا اور اس عورت کی آواز "گونجی اوئے ایدھے وچ تے کائ شے وی ناں اے [اس میں تو کوئ چیز بھی نهیں ہے]"۔ لنگڑے نے کها "مائ یه رروازه ویسے ہی جام ہوگیا تھا۔ گاڑی پرانی ہے ناں!" عورت نے کها "چنگا فیر پراں ہٹ! مینوں پانی پی لین دے۔ ڈاہڈی ترہیه پئ لگی اے [اچھا پھر پیچھے ہٹو مجھے پانی پینے دو بهت سخت پیاس لگی ہے]"۔ مگر غسل خانے میں پانی نهیں تھا عورت کی غصے بھر آواز گونجی "اوئے ایدھے وچ تے قطرک پانی وی ناں اے میں ترہیه نال مرنیں ایں پئ [اس میں تو ایک قطره پانی بھی نهیں ہے میں پیاس سے مرر رہی ہوں]"۔ یه کهه کر وه اپنی سیٹ پر آبیٹھی اور لنگڑا بھی۔

گاڑی چلے جارہی تھی دھڑم دھڑم دھام دھام چھک چھک۔ اچانک اس عورت نے بلند آواز سے عالم لوہار کا کوئ گانا گانا شروع کردیا۔ پانچ منٹ بعد اس نے گانا بند کیا تو لنگڑا مسافر عطاء الله عیسیٰ خیلوی کی نقل اتارنے لگا۔ آخر گجرات کا اسٹیشن آگیا۔ وہاں وه عورت بھی اتر گئ اور لنگڑا بھی۔ اسٹیشن پر کافی روشنی تھی۔ وه دونوں اسٹیشن کے دروازے سے نکل کر باهر جارہے تھے۔ ان عجیب و غریب مسافروں کی جدائ سے میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔

بهر حال، گاڑی چل پڑی۔ مجھے تو لاله موسیٰ جانےتھا۔ گجرات کے بعد ایک چھوٹا سا اسٹیشن اور آیا اور پھر لاله موسیٰ آگیا۔ یهاں گاڑی سے اترنے والا میں اکیلا مسافر تھا۔ دوسرے ڈبوں میں جو مسافر ہوں گے وه پهلے ہی کهیں اتر گئے ہوں گے۔ گاڑی سے اتر کر بیگ ہاتھ میں لیے پل کی طرف بڑھا اور چڑھ کر باهر آگیا جهاں پر دوسرے درجے کا مسافر خانه ہے۔ ٹکٹ گھر اور معلومات کی کھڑکی بھی یهیں ہے۔ اس وقت رات کے دو بج رہے تھے۔ میں نے انکوئری سے پتا کیا تو معلوم ہوا که سرگودھا جانے والی گاڑی تو اڑھائ بجے آرہی ہے۔ سرگودھا کے راستے میں منڈی بهاؤالدین آتی ہے۔ میں نے ٹکٹ جیب میں ڈال لیا۔ مسافر خانے میں تین چار مسافر چادریں اوڑھے بیٹھے تھے۔ سردی خاصی بڑھ گئ تھی اور لاله موسیٰ کی سردی تو ویسے بھی بهت مشهور ہے۔ میں نے بیگ میں سے چادر نکالی اور اوڑھ لی۔ مسافر خانے کے باهر ٹهلنے لگا۔ اتنے میں ایک تانگه آکر مسافر خانے کے باهر رکا۔ اس میں پوری ایک فیملی بیٹھی تھی۔ وه لوگ نیچے اترے۔ ایک آدمی نے ٹکٹ خریدا اور قلی کے سر پر سامان رکھ کر وه لوگ پلیٹ فارم کی طرف چل دیے۔ چند اور مسافر بھی پلیٹ فارم کی طرف جانے لگے میں بھی ساتھ ہولیا۔ یهاں کوئ خطره نه تھا۔ میں ایک ٹی سٹال سے چائے لے کر پینے لگا۔ آدھی رات کو اڑھائ بجے جب گاڑی آئ تو میں اس میں سوار ہوگیا۔ اس میں روشنی بھی تھی اور مسافر بھی بهت سے تھے۔ پونے چار بجے گاڑی منڈی بهاؤالدین کے اسٹیشن پر رکی اور صبح کے چار بجے میں اپنے گھر کے دروازے پر دستک دے رہا تھا۔




مالک، مصنف و کمپوزر: کاشف فاروق۔ لاہور سے۔

No comments:

Post a Comment