URDU STORIES:

اردو ادب اور کہانیوں میں خوش آمدید ۔ قصہ کہانیاں، غزلیں، نظمیں، واقعات، طنزومزاح، لاہور کی پنجابی، کچھ حقیقت کچھ افسانہ، پراسرار خواب والی ٹیکنالوجی، میری فیملی کا ذاتی شجرہ نسب سن 1790ء تا 2023ء۔، قومی پیمانہ، تباہی و زلزلے، دو سو سالہ کیلینڈر، اردو سافٹ وئیر ڈاؤنلوڈ۔

Thursday, September 15, 2022

PAKISTAN RAILWAYS KI TAREEKH KA ANHONA WAQIA - 1993 - PAKISTAN RAILWAYS HORROR URDU STORY - پاکستان ریلوے کی تاریخ کا ایک انہونہ واقعہ

پاکستان ریلوے کی تاریخ کا ایک انہونہ واقعہ - 1993ء۔





یہ 1993 کی بات تھی۔ مجھے ٹھیک سے یاد نہیں ہے جمعہ میگزین یا اخبارِ جہاں (جنگ گروپ) میں ایک ڈراؤنا قصہ سچ مچ کا جو کسی پاکستان ریلوے کے ٹرین کے مسافر کے ساتھ پیش آیا تھا۔ اس زمانے میں جمعہ کی چھٹی ہوا کرتی تھی اور اتوار ورکنگ ڈے۔ واقعہ مسافر نے سنایا تھا۔ مسافر نے بتایا کہ میں ایک ٹرین میں بیٹھا تھا سانگلہ ہل جانے کے لیے لاہور سے۔ مجھے ٹرین کا نام اور شہر یا گاؤں کا نام یاد نہیں جہاں میں اترا تھا۔البتہ مجھے کمال پور جانا تھا۔

مسافر نے سنایا: 
"یہ واقعہ جنوری 1993 میں ہی سخت سردیوں کی رات پیش آیا تھا۔ میں لاہور سے ٹرین سے اندرون پنجاب میں سفر کررہا تھا۔ رات کو 10 بجے سب سونے کی تیاریوں میں لگ گئے۔ رات کے تقریباً 2 بجے کے قریب قریب میری آنکھ کھل گئی۔ پتہ نہیں یہ خواب تھا یا سچ مچ میں ہورہا تھا۔ آنکھ کھلنے کے بعد میں نے دیکھا کہ گاڑی میں گھٹا ٹوپ اندھیرا چھایا ہوا ہے اور آس پاس کوئی بھی مسافر موجود نہیں ہے۔ جو میرے ساتھ تھے وہ غائب تھے۔ میں ہی اکیلا ہوں۔ میں گھبرا گیا۔ میں نے برتھ سے اٹھ کر دیکھا تو نیچے میرا بیگ پڑا تھا۔ مگر پورا ڈبہ خالی تھا۔ میں جلدی سے پچھلے ڈبے کی طرف گیا۔ وہاں بھی پورا ڈبہ خالی تھا۔ پھر میں دو تین ڈبے کراس کرکے سب سے آخری ڈبے میں پہنچا تو اس میں بھی کوئی نہ تھا۔ گاڑی خالی تھی۔ میں نے اندھیرے میں دیکھا کہ آخری ڈبے کے آخری درمیان والے دروازے سے پیچھے ریلوے لائن نظر آرہی ہے اور چاروں طرف رات کا گھٹا ٹوپ اندھیرا چھایا ہوا ہے۔ آس پاس گھنا جنگل ہے۔ پھر میں واپس اپنے ڈبے میں پہنچا۔ میں نے سوچا انجن کی طرف چلتے ہیں شاید وہاں کوئی مسافر موجود ہو۔ اسی طرح میں اگلے تمام ڈبوں میں انجن کے پاس تک پہنچ گیا۔ راستے میں تمام ڈبے خالی ملے۔ انجن کی آواز اور روشنی بالکل نہیں تھی۔ یعنی انجن کا شور ہی نہیں تھا۔ لگتا تھا جیسے انجن بھی خالی ہے۔

پھر میں اور زیادہ ڈر گیا اور بھاگ کر واپس اپنے ڈبے میں آگیا۔ میں گاڑی رکنے کا انتظار کرنے لگا۔ پھر چند گھنٹوں بعد گاڑی کی بریک لگنے کی آواز آئی۔ گاڑی کی رفتار آہستہ ہوتی گئی۔۔۔ اور پھر وہ ایک چھوٹے سے کسی اسٹیشن پر رک گئی۔ رات کے چار بج چکے تھے۔ سخت سردی تھی۔ یہ کسی گاؤں کا اسٹیشن تھا۔ میں نے غنیمت جانا یہیں اتر گیا۔ یہ ایسا اسٹیشن تھا جس کا پلیٹ فارم ہی نہیں تھا۔ میں کھیتوں جیسی جگہ پر اترا۔ سامنے اندھیرے میں میں نے دیکھا تو ایک عمارت نظر آئی۔ یہ اسٹیشن کی عمارت تھی۔ میں عمارت کے اندر داخل ہوا تو وہاں بھی اندھیرا تھا اور کوئی بھی موجود نہ تھا۔ موٹی موٹی دیواریں تھیں جیسے کسی قلعے کی ہوتی ہیں۔ یہ کوئی گمنام اسٹیشن تھا۔ پھر میں وہاں سے اپنا بیگ لے کر باہر کی طرف آیا اور عمارت سے باہر آنے کے بعد پیچھے مڑ کر جو دیکھا تو حیران رہ گیا۔ گاڑی بالکل غائب ہوچکی تھی اپنے آپ۔ اس کے چلنے کی آواز تک نہ آئی۔ ریلوے لائن مجھے عمارت کے باہر آنے کے بعد بھی نظر آرہی تھی۔ کیونکہ اس اسٹیشن کا پلیٹ فارم ہی نہیں تھا۔ پھر میں نے کچھ دور جا کر دوبارہ عمارت کی طرف دیکھا تو ایک بار پھر حیران رہ گیا۔ پہلی دفعہ جب اسٹیشن کی عمارت دیکھی تھی تو بلکہ یہ کہو کہ میں جب عمارت کے اندر ہی تھا اس کی باقاعدہ چھت تھی، لیکن جب مڑ کر دیکھا تو عمارت بالکل ہی کھنڈر نما نظر آئی۔ یعنی کھنڈر میں اپنے آپ تبدیل ہوگئی اور اس کی چھت بھی غائب ہوچکی تھی۔ یہ دیکھ کر میں بہت ڈر گیا۔ پھر میں جلدی جلدی کھیتوں میں سے ہو کر آ گے کی طرف بڑھا۔ اسٹیشن کی عمارت کے باکل ساتھ دو تین پیپل اور بڑ کے گھنے ترین درخت تھے۔جو سردی کی تیز ہوا سے سائیں سائیں کررہے تھے اور خوف میں مزید اضافہ کررہے تھے۔

آگے پہنچا تو دیکھا کہ سامنے کوئی پکی سڑک ہے۔ وہاں سڑک پر کچھ دیر ادھر ادھر دیکھا۔ کوئی بھی نہیں تھا۔ پھر تھوڑی دیر بعد دور سے ایک گاڑی کی لائٹیں نظر آئیں۔ جب گاڑی قریب آئی تو وہ کوئی ویگن تھی۔ میں نے اس کو رکنے کا ہاتھ دیا۔ اس میں سوار ہوگیا۔ مجھے آس پاس کا کچھ اندازہ نہ تھا کہ میں کہاں ہوں۔ میں نے کنڈکٹر سے کہا کہ شہر تک جانا ہے۔ اس نے پوچھا "سانگلہ ہل؟" پھر مجھے کچھ اندازہ ہوا کہ میں کہاں ہوں۔مجھے دراصل سانگلہ ہل کے پاس ہی جانا تھا، کمال پور گاؤں۔ میں نے کہہ دیا ہاں۔ پھر صبح 6 بجے کے قریب میں سانگلہ ہل پہنچا۔ وہاں ایک چھوٹے سے ہوٹل میں ٹھہرا۔ کچھ دن طبیعت بہت بوجھل رہی۔ میں نے سوچا کہ یہ واقعہ میں کسی ریلوے والے کو سناتا ہوں۔ یہ سوچ کر میں 5 دن بعد اپنے کام سے فارغ ہوکر سانگلہ ہل اسٹیشن پہنچا۔ وہاں ایک گارڈ کو یہ سارا قصہ سنایا۔ اس نے مذاق سمجھا۔ میں نے اس کو کہا کہ آپ میرے ساتھ چلیں میں آپ کو اسی گاؤں کی طرف لے چلتا ہوں جہاں میں اترا تھا۔ یہ سن کر وہ پریشان ہوگیا۔ پھر راضی ہوگیا۔ میں اسے ساتھ لے کر دن کے اجالے میں اسی گاؤں کے آس پاس پہنچا۔میں نے وہی درخت دیکھ کر علاقہ کو پہچان لیا۔ پھر میں گارڈ کے ساتھ اسی کھنڈر نما عمارت کے سامنے پہنچ گیا۔ میں نے اسے وہی عمارت بتائی تھی۔ پھر میں نے اس کو کہا میرے ساتھ تھوڑا اور آگے چلے۔ وہاں آگے جاکر میں نے وہی کھیت دیکھے۔ جب میں ٹرین سے اترا تھا تو کھیت جیسی زمین تھی۔

میں نے گارڈ کو کہا کہ میں ٹرین سے ٹھیک اسی جگہ اترا تھا۔ گارڈ نے ماننے سے انکار کردیا۔ میں نے کہا آپ اتنی دور میرے ساتھ آئے ہیں تو کچھ تجربہ تو کرلیں۔ میں نےا س کو کہا کہ ریلوے اسٹیشن زیادہ دور بھی نہیں ہے۔ وہاں سے کچھ چار پانچ مزدور بلوا کر اسی کھیت اور اسی عمارت کے پاس زمین کی کچھ کھدائی کروا کر دیکھ لو۔ گارڈ نے کچھ سوچ کر کہہ دیا ٹھیک ہے میں بلوا لیتا ہوں۔ پھر ہم دونوں دوبارہ اسٹیشن گئے اور وہاں سے پانچ مزدور لے آئے۔ مزدوروں کو کہا کہ یہاں چار سے پانچ فٹ تک کھدائی کرو۔ انہوں نے میرے کہنے پر چار سے پانچ فٹ کھدائی کردی۔ جیسے ہی آخری گینتی چلی تو ٹھک سے ایسی آواز پیدا ہوئی جیسے لوہا لوہے سے ٹکراتا ہے۔ میں نے اچھی طرح مٹی صاف کروانے کو کہا۔ جیسے ہی مٹی صاف ہوئی تو زیر زمین پانچ فٹ ایک پراسرار صدیوں پرانی زنگ آلود عجیب و غریب ٹوٹی پھوٹی سی ریلوے لائن برآمد ہوئی۔ میں نے مزید کھدائی چوڑی کروائی تو مکمل ٹریک سامنے آگیا۔

یہ ساری کہانی سننے اور دیکھنے کے بعد گارڈ حیران رہ گیا۔۔۔ اور میں خود بھی۔ پھر ہم سب واپس اسٹیشن چلے گئے اور پرانے ریکارڈ نکالنے کی کوشش کرنے لگے۔ میں تو اپنے شہر لاہور واپس آگیا۔ مگر گارڈ مزید دلچسپی لینے لگا۔ میں نے اپنے گھر کا فون نمبر بھی اس کو دے دیا تھا۔ پھر تقریباً مہینے بعد مجھے لاہور کے ریلوے ہیڈ کواٹر گڑھی شاہو سے کسی آفیسر کا فون آیا۔ انہوں نے بتایا کہ ہم نے بہت محنت سے ایک نتیجہ نکالا ہے۔ کچھ پرانے نقشے ملے ہیں ریلوے کے جو انگریز دور کے ہیں۔ ان میں یہی ایک ریلوے لائن ظاہر کی گئی ہے جو سانگلہ ہل کے آس پاس سے گزرتی تھی۔ پھر بعد میں انگریزوں نے اسے بند کردیا تھا۔ پھر آہستہ آہستہ وقت کے ساتھ ساتھ یہی لائن مٹی میں دبتی چلی گئی۔ میں نے یہ مکمل نتیجہ نکالا کہ جب میں ٹرین میں لاہور سے سوار ہوا تھا تو آنکھ لگتے ہی مجھے جنات اٹھا کر لے گئے تھے اور اپنی کسی گاڑی میں سوار کردیا تھا۔ یہ ایک جناتی ٹرین تھی جو شاید پراسرا ٹریک پر آج بھی رواں دواں ہے"۔

واقعہ اخذ جنگ اخبارِ جہاں یا جمعہ میگزین۔ جنوری 1993ء۔۔۔



مالک، مصنف و کمپوزر: کاشف فاروق۔ لاہور سے۔

No comments:

Post a Comment