URDU STORIES:

اردو ادب اور کہانیوں میں خوش آمدید ۔ قصہ کہانیاں، غزلیں، نظمیں، واقعات، طنزومزاح، لاہور کی پنجابی، کچھ حقیقت کچھ افسانہ، پراسرار خواب والی ٹیکنالوجی، میری فیملی کا ذاتی شجرہ نسب سن 1790ء تا 2023ء۔، قومی پیمانہ، تباہی و زلزلے، دو سو سالہ کیلینڈر، اردو سافٹ وئیر ڈاؤنلوڈ۔

Friday, September 16, 2022

MAULANA JALA UD DEEN ROOMI 2007 and 2024 - مولانا رومی اور هم عصر معاشره ۔ شمس تبریز کا ساتھ

 







مولانا رومی اور هم عصر معاشره


مولاناجلال الدین رومی کی شخصیت اور ان کا کالام دونوں ہی کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ چھبیس ھزار چھ سو چھیاسٹھ اشعار پر مبنی ان کی مشہور زمانہ مثنوی تصوف اور عشق الہٰی کے جملہ موضوعات کو انہتائی سادگی روحانی اور عام فہم انداز مین بیان کرتی ہے۔ عشق الہٰی اور معرفت کے انہتائی مشکل و پیچیده نکات سلجھانے کے لیے مولانا نے سبق آموز حکایات و قصے کہانیوں سے مدد لی ہے جو بھی لکھا ہے قرآن و حدیث نبوی سے اس کی سند بھی بیان کی جاتی ہے۔ اس لیے آج آٹھ سو سال گزر جانے کے باوجود ان کے کلام کی اہمیت و افادیت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ مولانا جلال الدین رومی الملقب بہ مولوی معنوی سن باره سو سات میں بلخ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد بزرگوار بہاؤ الدین اپنے دور کے مشہور علماء میں شمار کیئے جاتے تھے، حتی کے ان حلقۂ درس میں حاکم وقت خوارزم شاه بھی شرکت کیا کرتے تھا۔ وحشی منگولوں کے حملوں کے منڈلاتے خطرات کے پیش نظر مولانا کے خاندان نے بلخ کو خیر باد کہا اور پناه کی تلاش مین اناطولیہ کی راه لی۔ راستے میں نیشاپور میں رکے جہاں مشہور صوفی بزرگ عطار نیشا پوری سے ملاقات کی۔ عطا بڑے قیافہ شناس تھے۔ جلال الدین رومی کو دیکھ کر سمجھ گئے کہ آگے چل کر یہ بچہ عشق و معرفت کی دنیا میں دھوم مچا دے گا۔ چنانچہ انهوں نے بہاؤ الدین کو ان کی تربیت پر خصوصی توجہ دینے کی ہدایت کی۔ حج کی سعادت حاصل کرتے ہوئے بہاؤ الدین اناطولیہ پہنچے جہاں کے سلجوتی حاکم علاءالدین کیقباد نے انکا پرتپاک استقبال کیا۔ قونیہ میں بہاؤ الدین نے ایک مدرسے میں تدریس شروع کی اور بہت جلد مشہور ہوگئے۔ ان کے انتقال کے بعد مولانا رومی نے والد کی گدی سنبھال لی۔ حلقۂ درس میں شریک ہونے والے حاکم وقت اور اعیان دولت ان سے بےانتہا عقیدت رکھتے تھے۔ 

مولانا کی زندگی بڑے سکون سے گزر رہی تھی کہ  ایک دن گرمیوں کی صبح وه حوض کے پاس معمول کے مطابق درس دے رہے تھے۔ ایک خوانچہ فروش حلوه بیچتا ہوا مدرسے کے احاطے میں آگیا۔ اپنے اطراف اور ماحول سے بےپرواه اور بے خبر اس جگہ جا کر کھڑا ہو گیا جہاں مولانا تدریس میں مشغول تھے۔ خوانچہ فروش نے تعجب سے پوچھا کہ یہ سب کیا ہے؟  یہ سب کیا ہورہا ہے؟ مولانا نے بڑے تحمل سے کہا یہ  تم نہیں جانتے جاؤ، اپنا کام کرو۔ وه آگے بڑھا اور کتاب مولانا کے ہاتھ سے لے کر اٹھا اور حوض میں پھینک دی۔ مولانا نے کہا "یہ تم نے کیا کیا؟" اس نے کہا "میں نے تو کچھ بھی نہیں کیا"۔ یہ کہہ کر اس نے حوض سے کتاب نکال کر رومی کو دی۔ رومی نے حیرت سے پوچھا، یہ کیا ہے؟ اب باری اس کی تھی، یہ تم نہیں جانتے یہ کہہ کر اس نے اپنا خوانچہ اٹھایا اور اسی طرح صدا لگاتا ہوا باہر چلا گیا۔ یہ حضرت شمس تبریز تھے۔ مولانا رومی، شمس تبریز کو اپنے ساتھ لے آئے۔ انهوں نے علم کی انتہائی اعلیٰ منازل طے کررکھی تھیں۔ اب عشق الہٰی و معرفت کے سفر کا آغاز کیا جس مین قدم قدم پر انهیں اپنے مرشد شمس تبریز کی راه نمائی حاصل تھی۔ مولانا رومی نے رفتہ رفتہ اپنا رابطہ اپنے ماحول اور گردو پیش سے منقطع کرلیا۔

بس وه تھے اور شمس تبریز کی صحبت۔ یہ صورت حال ان کے شاگردوں کے لیے کسی طرح بھی قابل قبول نہ تھی۔ چنانچہ  شمس تبریز ان کے نزدیک ایک متنازع شخصیت بن گئے۔ شاگردوں و عقیدت مندوں کے بدلتے ہوئے تیور دیکھ کر ایک رات اچانک حضرت شمس تبریز غائب ہوگئے۔ بعض روایات کے مطابق انھیں شہید کردیا گیا۔

شمس تبریز کی جدائی مولانا رومی کے لیے ناقابل برداشت تھی۔ اپنے مرشد کے فراق میں خود و ارفتگی کے عالم میں انهوں نے فی البدیہیہ شعر کہنا شروع کردیئے۔ یوں عرفان و آگہی کی مضبوط ترین دستاویز مثنوی تخلیق ہوئی۔ 

مولانا رومی اور شمس تبریز ایک دوسرے سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔ دونوں صوفیائے کرام تھے اور دونوں ہی ہم جنس پرست تھے۔ دونوں نے صوفیائے کرام ہونے کے باوجود شادیاں نہیں کی تھیں۔ اس کے باوجود اللہ ان سے خوش تھا اور راضی تھا۔ تاہم یہ سننے میں آتا ہے کہ شمس تبریز نے بعد میں شادی کرلی تھی۔ لیکن بیوی کے ساتھ وقت نہیں گزرا تھا۔

اس مثنوی کے علاوه مولانا رومی کا دیوان کبیر، جو چالیس هزار اشعار پر مشتمل ھے، جس میں بائیس شعری مجموعے بشمول دیوان شمس تبریز عربی، ترکی اور یونانی زبانوں میں ان کا کلام۔ تصوف پر ایک کتاب فی مافیه، مجالس سبع اور مکتوبات، ایسی کتابیں هیں جو ان کے نام کو صوفیانه ادب میں همیشه روشن اور تابنده رکھیں گی۔

ہر سال 17 دسمبر کو مولانا کا عرس [شب عروس] کے نام سے قونیه میں منعقد کیا جاتا ہے۔



اس سال یعنی سن 2007ء کو ان کی ولادت کی 800 سالہ تقریبات کے طور پر منایا جارہا ہے۔ مئی کے مہینے میں یونیسکو نے استنبول میں ایک شاندار کانفرنس کا اہتمام کیا تھا۔ پچھلے سال  2006ء میں اسی مہینے میں تہران میں بھی ایک بین الاقوامی سیمینار منعقد ہووچکا ہے۔ قارئین مولانا سلوک کی اس منزل پر پہنچ چکے تھے کہ انهیں ہر طرف الله ہی کا جلوه نظر آتا تھا، جو قرآن کی آیت [الله نور السموات و الارض] کی گویا تفسیر ہے۔ وه حسن و زیبائی کے کائناتی، ملکاتی اور الہامی تصور کے علم بردار تھے۔ الله تعالی نے محبت رسول الله سے شیفتگی کے اس مرتبے پر پہنچ چکے تھے، جہاں ان کی اپنی ہستی معدوم ہوچکی تھی۔



 

کیا آپ مولانا رومی اور شمش تبریز کے عشق کے بارے میں جانتے ہیں؟


 


مولانا رومی اور شمس تبریز کی دوستی‘ ان کی محبت اور ان کا عشق سات سو برس کے بعد بھی پراسراریت کی دھند میں کھویا ہوا ہے۔مختلف محققین اس رشتے کی حقیقت اور معنویت کے بارے میں متفق نہیں ہیں۔ بعض کا خیال ہے وہ عشق روحانی تھا‘ بعض کا گمان ہے وہ رومانوی تھا‘ بعض کو یقین ہے وہ جذباتی تھا اور بعض کا خیال کہ ایسے عشق کا تجزیہ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ وہ انسانی اور روحانی عشق کی اس معراج پر تھا جہاں فنا اور بقا آپس میں بغلگیر ہو جاتے ہیں۔ میرا ایک شعر ہے ایک چاہت جو عارضی سی لگے اس کی تاثیر جاودانی ہے۔ اس چاہت کی تاثیر یہ ہے کہ اکیسویں صدی میں بھی ساری دنیا کے سنت‘ سادھو اور صوفی اس تیرھویں صدی کے عشق کے پھلوں سے فیضیاب ہو رہے ہیں۔ 1244 میں مولانا رومی کی جب شمس تبریز سے ملاقات ہوئی تو ان کی عمر 37 برس اور شمس تبریز کی عمر 60 برس تھی۔ اس وقت تک مولانا رومی ایک مستند و معتبر عالم بن چکے تھے۔ ان کا خطبہ سننے سینکڑوں ہزاروں لوگ جمع ہوتے تھے۔ ان کے شاگردوں کی فہرست طویل تھی۔ وہ اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ ایک خوشحال‘ باعزت اور کامیاب زندگی گزار رہے تھے۔ ان تمام تر خوشیوں اور شادمانیوں کے باوجود ان کے من میں ایک کمی تھی ۔دل میں ایک خلش تھی۔ذہن میں ایک کسک تھی۔ وہ کسی ایسی شخصیت سے ملنا چاہتے تھے جو ان کی ذات کے نہاں خانوں میں دبی عشق کی چنگاری کو بس ایک نگاہ سے شعلہ بنا دے۔ 


بقول اقبال:


خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کر دے کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں۔


اور پھر ان کی ملاقات ایک درویش سے ہوئی جس کا نام شمس تبریز تھا۔ اس درویش نے رومی کی پرسکون زندگی میں ایک ہلچل‘ ایک اضطراب اور ایک طوفان برپا کر دیا۔ رومی کی زندگی کے پرسکون تالاب میں شمس نے ایک ایسا کنکر پھینکا جس کی لہریں وقت کے ساتھ ساتھ دور دور تک پھیل گئیں۔ رومی اس درویش سے اتنا متاثر ہوئے کہ وہ اسے اپنے گھر لے آئے اور شب و روز اس کی قربت اور صحبت میں گزارنے لگے۔ وہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ علمی و روحانی مکالمے میں اتنے محو رہتے کہ انہیں نہ کھانے کی فکر ہوتی نہ سونے کی۔ رومی نے جب اپنے خاندان اور اپنے شاگردوں کو نطر انداز کرنا شروع کیا تو وہ شمس سے پہلے رشک پھر حسد کرنے لگے۔شمس کو جب اس حسد کا اندازہ ہوا تو وہ ایک دن پراسرار طریقے سے غائب ہو گئے۔


پہلے تو رومی کی بیوی بچے اور شاگرد بہت خوش ہوئے کہ ان کا رقیب چلا گیا ہے لیکن جب انہوں نے رومی کو داغ مفارقت کی وجہ سے بہت دکھی‘ غمزدہ‘ دن رات آہیں بھرتے اور آنسو بہاتے دیکھا تو وہ بھی پریشان ہو گئے۔ رومی نے اپنے بڑے بیٹے سلطان ولد سے کہا کہ وہ شمس کو تلاش کرے اور واپس لے کر آئے۔ سلطان ولد سارا شہر اور سارا ملک تلاش کرتے رہے لیکن شمس نہ ملے ۔ آخر انہیں پتہ چلا کہ شمس ترکی سے شام جا چکے ہیں۔ انہوں نے شام جا کر شمس کی منت سماجت کی تو وہ لوٹ آئے۔ رومی اور شمس کا نہ ختم ہونے والا مکالمہ پھر شروع ہوا اور حالات بد سے بدتر ہونے لگے۔ شمس نے دوبارہ جانے کا فیصلہ کیا تو رومی نے شمس کی شادی اپنی منہ بولی بیٹی کیمیا سے کر دی۔ لیکن اس شادی نے حالات مزید گھمبیر کر دیے کیونکہ اس منہ بولی بیٹی سے ان کا چھوٹا بیٹا علاؤ الدین عشق کرتا تھا اور شادی کرنا چاہتا تھا۔ اب علاؤ الدین شمس سے حسد کرنے لگا۔ نفسیاتی طور پر یہ حقیقت اہمیت کی حامل ہے کہ جوں جوں رومی شمس سے جذباتی طور پر قریب آتے گئے رومی اپنی بیوی سے رومانوی طور پر دور ہوتے گئے اور شمس بھی اپنی نو بیاہتا بیوی کیمیا سے ازدواجی تعلقات نہ قائم کر سکے۔


شمس سے عشق کے بعد رومی کی خاندانی اور سماجی زندگی میں اتنے مسائل پیدا ہوئے کہ آخر ایک دن شمس گھر کے پچھلے دروازے سے باہر گئے اور کبھی لوٹ کر نہ آئے۔ بعض محققین کا خیال ہے کہ علاؤ الدین نے حسد کی آگ میں جل کر شمس کو قتل کروا دیا۔
شمس کی پرسرار گمشدگی کے بعد رومی بہت دکھی ہوئے اور ایک طویل عرصے تک دیوانوں کی طرح گلیوں اور بازاروں میں انہیں تلاش کرتے رہے۔ آخر ایک دن انہیں احساس ہوا کہ شمس مرے نہیں ان کے اندر زندہ ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے شاعری شروع کی اور اپنے پہلے دیوان کا نام بھی  دیوانِ شمس تبریز رکھا۔ اس کے بعد شاعری کا سلسلہ دراز ہو گیا اور انہوں نے مثنوی مولائے روم کے ہزاروں اشعار تخلیق کیے جو عارفانہ شاعری کا قیمتی سرمایہ ہیں۔ شمس نے پیشین گوئی کی تھی کہ رومی کے اندر ایک شاعر چھپا ہے۔ دیوانِ شمس تبریز اور مثنوی رومی نے اس پیشین گوئی کو صحیح ثابت کیا۔ اسی لیے رومی فرماتے ہیں:

 

مولوی ہر گز نہ شد مولائے روم

تا غلامِ شمسِ تبریزے نہ شد


شمس تبریز نے رومی کو اس پل سے متعارف کروایا جس سے گزر کر شریعت کے پرستار طریقت کی منازل کا خیر مقدم کرتے ہیں۔


مولانا رومی کی وفات کے سات سو سال بعد بھی ان کا کلام مشرق و مغرب میں مقبول ہو رہا ہے۔ UNESCO نے 2007 میں مولانا رومی کی بین الاقوامی سطح پر 800 ویں سالگرہ منائی۔ رومی کے سات اقوال کا ترجمہ حاضر ہے:۔


1۔ تمہیں محبت کو تلاش کرنے کی ضرورت نہیں۔ تمہیں ان دیواروں کو گرانے کی ضرورت ہے جو تم نے اپنے اور محبت کے درمیان کھڑی کر رکھی ہیں۔


2۔ تم جس کی تلاش میں ہو وہ بھی تمہاری تلاش میں ہے۔


3۔ کل میں زیرک تھا ساری دنیا کو بدلنا چاہتا تھا ۔ آج میں دانا ہوں خود کو بدلنا چاہتا ہوں۔


4۔ جدائی ان کے لیے ہے جو آنکھوں سے پیار کرتے ہیں۔ دل سے محبت کرنے والوں کے لیے جدائی کوئی معنی نہیں رکھتی۔


5۔ زخم وہ کھڑکی ہےجس سے روشنی داخل ہوتی ہے۔


6۔ دل کے دروازے پر اس وقت تک چوٹیں کھاتے رہو جب تک وہ کھل نہ جائے۔


7۔ دل ایک سمندر ہے۔ اس کی گہرائیوں میں اپنے آپ کو تلاش کرو۔

 

رومی کی زندگی اور ان کی شمس سے عشق کے حوالے سے پچھلے چند سالوں میں جو کتابیں چھپی ہیں ان میں سے چند ایک مندرجہ ذیل ہیں:۔

 

1- THE FORTY RULES OF LOVE : NOVEL OF RUMI BY ELIF SHAFAK.

2- ME AND SHAMS: AUTOBIOGRAPHY OF SHAMS TRANSLATED BY WILLIAM CHITTICK.

3- RUMI: PAST AND PRESENT, EAST AND WEST BY FRANKLIN LEWIS .

4- DIVAN E SHAMS TABREZ TRANSALATED BY RA NICHOLSON.

 

علامہ اقبالؒ نے اپنی پہلی منظوم فارسی مشنوی ’’اسرار خودی‘‘میں مولانا جلال الدین رومی اور حضرت شمس تبریزی کی ملاقات کا ذکر بڑے دلنشیں پیرائے میں کیا ہے وہ لکھتے ہیں کہ مولانا جلال الدین رومیؒ بڑے پائے کے عالم تھے اور ان کے شاگردوں کا حلقہ بڑا وسیع تھا۔جب وہ درس کا سلسلہ شروع کرتے تو ان کے اردگرد کتابوں کے ڈھیر لگے ہوئے ہوتے جن میں محفوظ اسرار ورموز کی تشریح وہ ایسے دلکش انداز اور خوبصورتی سے کرتے کہ سامعین دم بخود ہوکر اس سے مستفید ہوتے ایک دن شمس تبریز جب اپنے مرشد حضرت شیخ کمال الدین رحمۃ اللّٰہ علیہ کے فرمان کے مطابق مولانا کے مکتب کا پتہ پوچھتے آپ کے درس کی محفل میں آئے تو دیکھا کہ مولانا حسب معمول پانی کے ایک بڑے حوض کے کنارے درس وتدریس میں مصروف ہیں۔آپ نے از راہ مذاق انجان بن کر مولانا سے پوچھا آپ کیا درس دے رہے ہیں اور یہ  قیل وقیاس وہم اور استدل لال کیا ہے؟مولانا فرمانے لگے:۔


’’قال ما از فہم تو بالا تراست‘‘


یعنی میری گفتگو آپ کی سمجھ میں آنے کی نہیں۔گویا یہ عقل مندوں کی بڑی بڑی باتیں ہیں۔ان پر ہنسنے کی بجائے آپ یہاں سے چلے جائیں کیوکہ یہاں آپ جیسے کم علموں کا کوئی کام نہیں۔کہتے ہیں اس پر شمس تبریز ؒنے بے دھیانی میں چند بڑی کتابیں اٹھا کر پانی کے حوض میں پھینکنی شروع کردیں مولانا بڑے ناراض ہوئے اور سخت غصے میں شمس تبریزے سے کہا اے بے خبر۔تمہیں کیا معلوم ان کتابوں میں علم ومعرفت کے کتنے خزینے پوشیدہ   تھے جنہیں تو نے ضائع کر دیا شمس تبریزی تھوڑی دیر مولانا کی جلی کٹی سنتے رہے مگر پھر آہستہ آہستہ ان کتابوں کو پانی کے حوض سے نکالنا شروع کر دیا۔ جب مولانا جلال الدین رومی نے دیکھا کہ کتابوں پر پانی کا ذرہ برابر بھی اثرنہیں اور وہ ویسے کی ویسی خشک اور اپنی اصلی حالت میں ہیں تو حیرت اور ندامت کے ملے جلے جذبات سے پوچھا کہ اے درویش یہ کیا ہے؟ شمس تبریزؒ نے کہا:


’’حال مااز فہم تو بالا تراست‘‘


یعنی وہ تمہارا ’’قال‘‘ (گفتگو) تھی جو بقول تمہارے میری عقل سے بالا تھی اور یہ میرا ’’حال‘‘ (روحانی قوت) ہے جو تمہاری سمجھ سے ماوراء ہے۔

بظاہر اس وقت تک مولانا روم ’’قال‘‘ کے تو بڑے ماہر تھے مگر ’’حال‘‘ کے عشق کی سوختہ سامانیوں اور روحانی عشق کے مضراب کے نغموںکی سرشاری سے بے خبر تھے جونہی شاہ شمس تبریزی کی نگاہ آتش افروز سے سامنا ہوا ان کے حلقہ ارادت میں اس طرح بندھے چلے آئے کہ خود فرماتے ہیں:


مولوی ہرگز نشد مولائے روم

تا غلامے شمس تبریزی نشد


یعنی روم کا یہ مولوی اس وقت تک صحیح عالم نہیں بن سکا جب تک کہ وہ شمس تبریز کے حلقہ ادارت میں نہیں آیا۔ چند برس قبل جب ہم نے کوئٹہ کے ادبی تنظیم  ’’قلم قبیلہ‘‘ کے اجلاس سے وزیر اعظم کے خطاب کی خبریں پڑھیں تو ہمیں مذکورہ بالا واقعہ اپنی تمام تفصیلات کے ساتھ دیا  آیا وزیراعظم نے کتاب سے ہمارے ٹوٹتے ہوئے رشتے اور اس کے نتیجے میں جنم لینے والے منفی معاشرتی رویوں کی روک تھام کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ’’کتاب کلچر کا فروغ تمام مثبت اقدار اور رویوں کے فروغ کی بنیاد بن سکتا ہے لہذا اس کتاب کلچر کو فروغ دینے کے لیے معاشرے کے ہر فرد اور تمام حلقوں کو فراغ دلی کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے ۔ جناب وزیراعظم کے فرمان کے مطابق کتاب کلچر کو فروغ دینے کے لیے  ضروری ہے کہ اول تو اہل قلم کی معاشرے میں بھرپور پذیرائی ہو دوسرا قلم کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جائے اور تیسرا اہل قلم کو ان کی جائز مزدوری سے محروم نہ رکھا جائے چوتھا کتابوں کی اشاعت اور ترسیل کو سہل بنایا جائے ناشر اور کتب فروش مصنف کی کاوش کا پورا معاوضہ ادا کریں کتاب کی اشاعت کے لیے ضٗروری وسائل اور ان کی آسان دستیابی ارزاں نرخوں پر میسر ہو اس وقت کتاب کی اشاعت جہاں ایک مسئلہ ہے وہاں سب سے بڑا  مسئلہ کتابوں کی بھاری قیمتیں ہیں ذرائع ابلاغ کے شارٹ کٹ کی وجہ سے قاری اور کتاب کا رشتہ ان کے اپنے بیان کے مطابق ٹوٹ چکا ہے اسے بحال کرنے کے لیے یا تو کتب کی قیمت کم کرنے کے ساتھ لوگوں میں مطالعہ کی عادت کو فروغ دینا ہے یا اجتماعی سطح پر ایسے انتظامات کی ضرورت ہے کہ لوگ سرے سے کچھ خرچے بغیر کتاب تک رسائی حاصل کرسکیں اور اس کا بہترین حل ملک میں موجودہ لائبریریوں کو زیادہ سے زیادہ کتب فراہم کرنا اس کی رکنیت فیس میں کمی کرنا ہے مگر ہمارے ہاں تو ’’قال‘‘ سے آگے بڑھ کر ’’حال‘‘ تک پہنچنے کا مرحلہ ہی نہیں آتا۔ کتنی حیرت کی بات ہے کہ نیشنل سترز سمیت جو شعبے یا محکمے ملک بھر میں لائبریوں کی خدمات کو عوام کی دہلیز تک پہنچانے پر مامور ہیں وہ بذات خود زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔کچھ حکمران بھی فیضی اور کبھی ابو الفضل سے نہ صرف کتابیں لکھواتے تھے بلکہ ان کے قلمی نسخے تیر کروا کر کثیر تعداد میں اس لیے تقسیم کرواتے رہے کہ معاصر تاریخ کی کوئی تفصیل وقت کے اندھیروں میں گم نہ ہو جائے مگر ہمیں بھی شاید آج پھر کسی شمس تبریز کی ضرورت ہے جو ہمارے قال کو حال میں بدل دے اور ہم کتاب سے ٹوٹے ہوئے اپنے رشتے کو پھر سے بحال کرنے کے قابل ہوسکیں اور اس کا فیصلہ بہرحال حکومت  نے کرنا ہے جتنی جلدی وہ فیصلہ کرسکیں گے اسی تیزی کے ساتھ ان کے فرمان کے مطابق کتاب کے ساتھ قاری کے رشتے کو استوار کرنے میں مدد ملے گی۔

 

مولانا رومی کی محبت 


 

علم کا معاملہ کچھ اس طرح ہے کہ اسے جتنا خرچ کیا جائے اتنا ہی بڑھتا ہے اور اس کے چوری ہونے کا بھی کوئی ڈر نہیں۔ مولانا رومی کی علمیت و معرفت کے حوالے سے مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب فرماتے ہیں کہ ’آج اگر ہم مالدار ہیں اور ہمارے پاس بہت دولت ہے تو ہم سوچتے ہیں کہ ہمیں کیا ضرورت ہے کہ االلہ والوں کی جوتیاں اٹھائیں، لیکن میرے دوستو! آج یہاں مثنوی کا درس ہورہا ہے، یہ صاحب مثنوی مولانا جلال الدین رومی کون شخص تھے؟ تو جناب مولانا رومی شاہ خوارزم کے سگے نواسے تھے، بادشاہ کا نواسہ تھا یہ شخص، یہ غریب ملّا نہیں تھا کہ سوچا ہو کہ چلو پیری مریدی کرلیں۔ کچھ دکان چمکائیں تاکہ نذرانے اور حلوے مانڈے آئیں، ان کے پاس اتنی دنیا تھی کہ بخاری پڑھانے کے لیے جب پالکی پر چلتے تھے تو طلباء پیچھے پیچھے جوتے لے کر دوڑتے ہوئے چلتے تھے، اتنا اعزاز حاصل تھا۔


حضرت شمس الدین تبریزی رحمتہ االلہ علیہ نے دعا کی کہ اے خدا شمس تبریز کا وقت آخر معلوم ہوتا ہے۔ میرے سینے میں آپ کی محبت کی آگ کی جو امانت ہے کوئی بندہ ایسا عطا فرما کہ اس کے سینے میں امانت کو منتقل کردوں، کوئی ایسا سینہ عطا کردے جو اس قیمتی امانت کا اہل ہو، الہام ہوا کہ اے شمس الدین! قونیہ جاؤ، میرا ایک بندہ جلال الدین رومی ہے میری محبت کی آگ کی اس امانت کو جو زمین و آسمان سے زیادہ قیمتی ہے اس کے سینے میں منتقل کردو، اس کا سینہ اس کے قابل ہے۔ اور اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ امانت زمین و آسمان سے زیادہ قیمتی کیوں ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین و آسمان نے انکار کر دیا تھا۔ زمین و آسمان جیسی عظیم القامت مخلوق نے جن امانت کو اٹھانے سے انکار کردیا، االلہ کے عاشقوں کے دل نے اسے قبول کرلیا جو ڈیڑھ چھٹانک کا ہے مگر اس کو ڈیڑھ چھٹانک کا نہ سمجھو۔ حضرت مولانا رومیؒ فرماتے ہیں۔


در فراخ عرصۂ آں پاک جاں

تنگ آید عرصۂ ہفت آسماں


 االلہ والوں کی جانوں میں، ان کے قلوب میں اتنا پھیلاؤ اتنی وسعت ہے کہ ساتوں آسمان کی وسعت اس کے سامنے تنگ ہوجاتی ہے کیوں کہ وہ االلہ کے خاص بندے ہیں۔ االلہ ان کے قلب میں ایسی وسعت پیدا کردیتا ہے کہ ساتوں آسمان اس کے قیدی معلوم ہوتے ہیں۔ تو مولانا رومی رحمتہ االلہ علیہ نے اپنے کو نہیں دیکھا کہ میں کیا ہوں، جب شمس الدین تبریزی کا بستر شاہ خوارزم کے نواسے نے سر پر رکھا تو ایک شعر کہا تھا:۔


ایں چنیں شیخ گدائے کوبکو

عشق آمد لا ابالی فَاتّقُوْا


میں اتنا بڑا شیخ اور عالم تھا کہ آج االلہ کے عشق نے مجھے یہ شرف بخشا کہ گلی در گلی شمس الدین تبریز کی غلامی کررہا ہوں لیکن یہ ان کی غلامی نہیں تھی االلہ ہی کی غلامی تھی۔ االلہ ہی کے لیے مٹایا تھا اپنے آپ کو، اہل االلہ کا اکرام وہی کرتا ہے جس کے دل میں االلہ کی طلب اور پیاس ہوتی ہے۔


حضرت شمس الدین تبریزی کی چند دن کی صحبت کے بعد مولانا رومی پر حق تعالیٰ نے علم کے دریا کھول دیے۔ اہل االلہ کی صحبت و خدمت و تربیت کی برکت سے جو االلہ والا ہوجاتا ہے تو اس کے علم اور غیر تربیت یافتہ عالم کے علم میں کیا فرق ہوتا ہے؟ اس کی مثال اس طرح ہے حضرت تھانوی فرماتے ہیں کہ ایک حوض کھودیے اور اس میں پانی بھر دیجیے اور پھر نکالتے رہیے تو یہ پانی زیادہ عرصہ تک نہیں چلے گا، ہاں اگر اتنی کھدائی کی جائے کہ سوتہ جاری ہوجائے، زمین کے نیچے سے پانی نکل آئے تب اس حوض کا پانی ختم نہیں ہوگا۔ یہ مثال ان االلہ والوں کے لیے ہے جو االلہ والوں کی جوتیاں اٹھانے سے، گناہوں سے بچنے سے، ذکر و فکر کے دوام سے، یعنی وہ سوچتے رہتے ہیں کہ آسمان و زمین و سورج و چاند کا کیا مقصد ہے، ان کا پیدا کرنے والا کون ہے؟ اس کا ہم پر کیا حق ہے، یہ نہیں کہ کھاؤ پیو اور مست رہو۔


مولانا رومی جب صاحب نسبت ہوئے تو ساڑھے اٹھائیس ہزار اشعار االلہ نے ان کی زبان سے نکلوائے اور جس پر نظرعنایت کی صاحب نسبت ہوگیا، مولانا رومی فرماتے ہیں کہ جب میں شعر کہتا ہوں تو بعض وقت سوچتا ہوں کہ اس کا قافیہ کیا ہوگا:۔


قافیہ اندیشم و دلدار من

گویدم من دیش جزدیدار من


جب قافیہ سوچتا ہوں تو میرا محبوب آسمان سے آواز دیتا ہے کہ اے جلال الدین مت سوچ، بس میری طرف متوجہ رہ، مثنوی تو میں لکھوا رہا ہوں، میں ہی مضامین و قوافی الہام کروں گا۔ جب مثنوی کے چھ موٹے موٹے دفتر مکمل ہوگئے، ساڑھے اٹھائیس ہزار اشعار ہوگئے اور سیکڑوں قصے شاعری میں سما گئے تو االلہ تعالیٰ نے اس کتاب کے الہامی ہونے کے ثبوت میں اپنے آفتاب علم کی محاذات کو مولانا رومی کے قلب سے ہٹالیے، یعنی علوم و معارف کے جو واردات غیبیہ حق تعالیٰ کی جانب سے آرہے تھے بند ہوگئے تو مولانا سمجھ گئے کہ اب مثنوی ختم ہو رہی ہے اور حق تعالیٰ اس آخری قصے کو ادھورا رکھنا چاہتے ہیے۔ فرمایا کہ میرے چاہ باطن کا چشمہ خشک ہوگیا لہٰذا اب میرا آبِ سخن خاک آلود آرہا ہے یعنی گفتگو میں اب نور نہیں، لہٰذا اب اپنی زبان پر مہر سکوت لگاتا ہوں۔ اس شعر میں ان کے اس خیال کی وضاحت کچھ اس طرح ہے:۔


چوں فتاد از روزن دل آفتاب

ختم شد و االلہ اعلم بالصّواب


میرے دریچہ قلب کے سامنے االلہ کے علم کا جو آفتاب مضامین اتقاء کر رہا تھا وہ قلب کے محاذات سے افق میں ڈوب گیا اور اس کے بعد مولانا کا آفتاب بھی ڈوب گیا۔ اور غروب ہی کے وقت دفن بھی ہوئے۔


حضرت شمس الدین تبریزی رحمتہ اﷲ علیہ نے دعا کی کہ اے خدا شمس تبریز کا وقت آخر معلوم ہوتا ہے۔ میرے سینے میں آپ کی محبت کی آگ کی جو امانت ہے کوئی بندہ ایسا عطا فرما کہ اس کے سینے میں امانت کو منتقل کردوں، کوئی ایسا سینہ عطا کردے جو اس قیمتی امانت کا اہل ہو، الہام ہوا کہ اے شمس الدین ! قونیہ جاؤ، میرا ایک بندہ جلال الدین رومی ہے میری محبت کی آگ کی اس امانت کو جو زمین و آسمان سے زیادہ قیمتی ہے اس کے سینے میں منتقل کردو، اس کا سینہ اس کے قابل ہے۔ اور اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ امانت زمین و آسمان سے زیادہ قیمتی کیوں ہے؟  اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین و آسمان نے انکار کر دیا تھا۔ زمین و آسمان جیسی عظیم القامت مخلوق نے جن امانت کو اٹھانے سے انکار کردیا، ﷲ کے عاشقوں کے دل نے اسے قبول کرلیا جو ڈیڑھ چھٹانک کا ہے مگر اس کو ڈیڑھ چھٹانک کا نہ سمجھو۔ حضرت مولانا رومیؒ فرماتے ہیں:۔


؎ در فراخ عرصۂ آں پاک جاں

تنگ آید عرصۂ ہفت آسماں


اللہ والوں کی جانوں میں، ان کے قلوب میں اتنا پھیلاؤ اتنی وسعت ہے کہ ساتوں آسمان کی وسعت اس کے سامنے تنگ ہوجاتی ہے کیوں کہ وہ ﷲ کے خاص بندے ہیں۔ اللہ ان کے قلب میں ایسی وسعت پیدا کردیتا ہے کہ ساتوں آسمان اس کے قیدی معلوم ہوتے ہیں تو مولانا رومی رحمتہ اﷲ علیہ نے اپنے کو نہیں دیکھا کہ میں کیا ہوں، جب شمس الدین تبریزی کا بستر مولانا رومیؒ( شاہ خوارزم کے نواسے) نے سر پر رکھا تو ایک شعر کہا تھا:۔


؎ ایں چنیں شیخ گدائے کوبکو

عشق آمد لا ابالی فَاتّقُوْا


میں اتنا بڑا شیخ اور عالم تھا کہ آج اللہ کے  عشق نے مجھے یہ شرف بخشا کہ گلی در گلی شمس الدین تبریز کی غلامی کررہا ہوں لیکن یہ ان کی غلامی نہیں تھی ﷲ ہی کی غلامی تھی۔ ﷲ ہی کے لیے مٹایا تھا اپنے آپ کو، اہل ﷲ کا اکرام وہی کرتا ہے جس کے دل میں ﷲ کی طلب اور پیاس ہوتی ہے۔ حضرت شمس الدین تبریزیؒ کی چند دن کی صحبت کے بعد مولانا رومی پر حق تعالیٰ نے علم کے دریا کھول دیے۔ مولانا رومیؒ جب صاحب نسبت ہوئے تو ساڑھے اٹھائیس ہزار اشعار ﷲ نے ان کی زبان سے نکلوائے اور جس پر نظرعنایت کی صاحب نسبت ہوگیا۔


ایک دفعہ شاہ شمس تبریز، مولانا رومی کے مکتب میں چلے گئے وہ کچھ کتابوں کا مطالعہ کر رہے تھے۔ تو شاہ شمس تبریز پوچھتے ہیں کہ ایں چیست“ کہ یہ کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ”ایں آں عِلم است کہ تو نمی دانی“ کہ یہ وہ علم ہے جِس کو تو نہیں جانتا۔۔ تھوڑی دیر بعد اُنکو کوئی حاجت ہوئی ،مولانا رومی کو باتھ رُوم میں چلے گئے مُڑ کے آئے تو شاہ شمس نے وہ کتابیں اُٹھا کے پانی کے حوض میں ڈالدیں۔ اب وہ پوچھتے ہیں یہاں میری کتابیں تھیں کِدھر گئیں۔ شاہ شمس نے کہا کہ میں نے پانی کے حوض میں ڈال دیں۔ انہوں نے کہا میرے قیمتی نسخے تھے۔ ضائع ہو گئے ہونگے۔ اُنہوں نے کہا گبھراتے کیوں ہو ابھی نِکالتا ہوں، جب نکالیں تو وہ اُسی طرح خُشک تھیں ۔ اُس وقت مولانا رُومی نے کہا کہ ایں چیست تو شاہ شمس نے کہا کہ ”ایں آں علم است کہ تُو نمی دانی“ کہ یہ وہ علم ہے ،جِس کو تُم نہیں جانتے۔



حضرت شمس تربریزؒ کے محبت کے 40 اصول



1- ہم خدا کے بارے میں جو گمان رکھتے ہیں، وہ دراصل ہماری اپنی شخصیت کے بارے میں ہمارے گمان کا ایک عکس ہوتا ہے۔اگر خدا کے ذکر سے ذہن میں محض الزام اور خوف ہی ابھرے تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ خوف اور الزام تراشی ہمارے اپنے سینے کی گھٹن میں پنپ رہی ہے۔ اور اگر خدا ہمیں محبت اور شفقت سے چھلکتا ہوا دکھائی دے، تو یقیناّ ہم بھی محبت اور شفقت سے چھلک رہے ہیں۔


2۔ سچائی کا راستہ دراصل دل کا راستہ ہے دماغ کا نہیں۔ اپنے دل کو اپنا اولین مرشد بناؤ، عقل کو نہیں۔ اپنے نفس کا سامنا اور مقابلہ کرنے کیلئے دل کی مدد لو کیونکہ تمہاری روح پر ہی خدا کی معرفت کا نزول ہوتا ہے۔عقل و دل و نگاہ کا مرشدِ اولیں ہے عشق عشق نہ ہو تو شرع و دیں، بتکدہِ تصورات۔


3۔ قرآن پڑھنے والا ہر شخص، قرآن کو اپنے فہم و ادراک کی گہرائی کے مطابق ہی سمجھ پاتا ہے۔ قرآن کی فہم کے چار درجات ہیں۔ پہلا درجہ ظاہری معانی ہیں اور زیادہ تر اکثریت اسی پر قناعت کئے ہوئے ہے۔ دوسرا درجہ باطنی معانی کا ہے۔ تیسرا درجہ ان باطنی معنوں کا بطن ہے۔ اور چوتھا درجہ اس قدر عمیق معنوں کا حامل ہے کہ زبان انکے بیان پر قادر نہیں ہوسکتی چنانچہ یہ ناقابلِ بیان ہیں۔ علماء و فقہاء جو شریعت کے احکامات پر غوروخوض کرتے رہتے ہیں، یہ پہلے درجے پر ہیں۔ دوسرا درجہ صوفیہ کا ہے، تیسرا درجہ اولیاء کا ہے۔ چوتھا درجہ صرف انبیاء مرسلین اور انکے ربانی وارثین کا ہے۔ پس تم کسی انسان کے اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق اور اس تعلق کی نوعیت کو اپنے قیاس سے جاننے کی فکر نہ کیا کرو۔ ہر شخص کا اپنا اپنا راستہ ہے اور اظہارِ بندگی کی ایک اپنی نوعیت ہے۔ خدا بھی ہمارے الفاظ و اعمال کو نہیں بلکہ ہمارے دلوں کو دیکھتا ہے۔ یہ مذہبی رسوم و رواج بذاتِ خود مقصود نہیں ہیں۔ اصل چیز تو دل کی پاکیزگی ہے۔


4۔ تم کائنات کی ہر شئے اور ہرشخص میں خدا کی نشانیاں دیکھ سکتے ہو کیونکہ خدا صرف کسی مسجد، مندر یا کسی گرجے اور صومعے تک محدود نہیں ہے۔ لیکن اگر پھر بھی تمہاری تسلی نہ ہو تو خدا کو کسی عاشقِ صادق کے دل میں ڈھونڈھو۔


5 ۔ عقل اور دل، دو مختلف چیزیں ہیں۔ عقل لوگوں کو کسی نہ کسی بندھن میں جکڑتی ہے اور کسی چیز کو داؤ پر نہیں لگاتی، لیکن دل ہر بندھن سے آزاد ہوکر اپنا آپ داؤ پر لگا دیتا ہے۔ عقل ہمیشہ محتاط اور پھونک پھونک کر قدم رکھتی ہے کہ دیکھو کسی کیفیت کا زیادہ اثر مت لینا۔ لیکن دل کہتا ہے کہ مت گھبراؤ، ہمت کرو اور ڈوب جاؤ کیفیت میں۔ عقل آسانی سے اپنا آپ فراموش نہیں کرتی جبکہ عشق تو بکھرجانے اور فنا ہوجانے کیلئے ہمہ وقت تیار ہے۔ اور خزانے بھی تو ویرانوں میں ملبے تلے ملتے ہیں۔ ایک شکستہ دل میں ہی تو خزانہ مدفون ہوتا ہے۔


6 ۔ دنیا کے زیادہ تر مسائل الفاظ اور زبان کی کوتاہیوں اور غلط معانی اخذ کرنے سے جنم لیتے ہیں۔ چنانچہ کبھی بھی الفاظ کی ظاہری سطح تک خود کو محدود مت کرو۔ جب محبت اور عشق کے میدان میں قدم رکھتے ہیں تو الفاظ بیان اور زبان و اظہار اپنی اہمیت کھو بیٹھتے ہیں۔ وہ جو کسی لفظ سے بیان نہ ہوسکے، اسکو صرف خاموشی سے ہی سمجھا جاسکتا ہے۔


7 ۔ تنہائی اور خلوت ، دو مختلف چیزیں ہیں۔ جب ہم تنہا اور اکیلے ہوتے ہیں تو اس غلط فہمی میں مبتلا ہوجانا بہت آسان ہوجاتا ہے کہ ہم سیدھے رستے پر ہیں۔ لیکن خلوت یہی ہے کہ آدمی تنہا ہوتے ہوئے بھی تنہا نہ ہو۔ بہتر ہے کہ ہماری تنہائی کسی ایسے شخص کے دم قدم سے آباد ہو جو ہمارے لئے ایک بہترین آئینے کی حیثیت رکھتا ہو۔ یاد رکھو کہ صرف کسی دوسرے انسان کے دل میں ہی تم اپنا درست عکس دیکھ سکتے ہو اور اور تمہاری شخصیت میں خدا کے جس مخصوص جلوے کا ظہور ہورہا ہے، وہ صرف کسی دوسرے انسان کے آئینہِ قلب میں تمہیں دکھائی دے گا۔


 8۔  زندگی میں کچھ بھی ہوجائے، زندگی کتنی ہی دشوار کیوں نہ لگنے لگے، مایوس کبھی مت ہونا۔ یقین رکھو کہ جب ہر دروازہ بند ہوجائے تب بھی خداوندِ کریم اپنے بندے کیلئے کوئی نہ کوئی نئی راہ ضرور کھول دیتا ہے۔ ہر حال میں شُکر کرو۔ جب سب کچھ اچھا جارہا ہو، اس وقت شکر کرنا بہت آسان ہے لیکن ایک صوفی نہ صرف ان باتوں پر شکر گذار ہوتا ہے جن میں اسکے ساتھ عطا اور بخشش کا معاملہ گذرے، بلکہ ان تمام باتوں پر بھی شکر ادا کرتا ہے جن سے اسے محروم رکھا گیا۔ عطا ہو یا منع، ہر حال میں شُکر۔


9 ۔ صبر اس بات کانام نہیں ہے کہ انسان عضوِ معطل ہوکر بے بسی کے ہاتھوں برداشت کے عمل سے گذرتا رہے۔ بلکہ صبر کا مطلب یہ ہے کہ انسان اتنا دور اندیش اور وسیع نگاہ کا حامل ہو کہ معاملات کے انجام پر نظر رکھتے ہوئے رب پر بھروسہ رکھے۔ صبر کیا ہے؟ صبر یہ ہے کہ جب تم کانٹے کو دیکھو تو تمہیں پھول بھی دکھائی دے۔ جب رات کے گُھپ اندھیرے پر نظر پڑے تو اس میں صبحِ صادق کا اجالا بھی دکھائی دے۔ بے صبری یہ ہے کہ انسان اتنا کوتاہ بین اور کم نظر ہو کہ معاملے کے انجام پر نظر ڈالنے سے قاصر رہ جائے۔ عاشقانِ الٰہی صبر کا دامن کبھی ہاتھ سے نہیں چھوڑتے، کیونکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ پہلی کے باریک چاند کو ماہِ کامل میں تبدیل ہونے کیلئے کچھ وقت ضرور گذارنا پڑتا ہے۔


10 ۔ مشرق، مغرب، شمال ، جنوب۔۔۔ان سب سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ تمہارے سفر کی سمت کوئی بھی ہو، بس یہ دھیان ضرور رہے کہ ہر سفر، ذات کا داخلی سفر ضرور بنے۔ اگر تم اپنی ذات کے اندرون میں ایک مقام سے دوسرے مقام تک کا باطنی سفر کرو تو تمہارے ساتھ یہ پوری کائنات اور جو کچھ اس سے ماوراء ہے، وہ بھی شریکِ سفر ہوجاتے ہیں۔


11۔  جس طرح ایک ماں کو بچے کی پیدائش کیلئے درد و کرب کے مرحلے سے گذرنا پڑتا ہے، اسی طرح ایک نئی شخصیت کو جنم دینے کیلئے تکالیف سے ضرور اٹھانی پڑتی ہیں۔ جس طرح ایک دن کو اپنی روشنی پوری شدت کے ساتھ بکھیرنے کیلئے، شدیدگرمی اور حدت برداشت کرنی پڑتی ہے، اسی طرح محبت بھی دکھ اور درد کے بغیر تکمیل کو نہیں پہنچ سکتی۔


12-  محبت کی تلاش ہمیں تبدیل کرکے رکھ دیتی ہے۔ راہِ عشق میں ایسا کوئی مسافر نہیں گذرا جسے اس راہ نے کچھ نہ کچھ پختگی نہ عطا کی ہو۔ جس لمحے تم محبت کی تلاش کا سفر شروع کرتے ہو، تمہارا ظاہر اور باطن تبدیلی کے عمل سے گذرنا شروع ہوجاتا ہے۔


13-  آسمان پر شائد اتنے ستارے نہ ہوں جتنے دنیا میں جھوٹے اور ناقص شیوخ پائے جاتے ہیں۔ تم کبھی بھی کسی سچے مرشد کو کسی ایسے مرشد سے مت ملانا جو نفس کا پجاری ہو اور اپنی ذات کا اسیر ہو۔ ایک سچا مرشد کبھی بھی تمہیں اپنی ذات کا اسیر بنانے کی کوشش نہیں کرے گا اور نہ ہی اپنے نفس کیلئے تم سے تابعداری اور تعریف و تو صیف کا تقاضا کرے گا۔ بلکہ اسکے برعکس وہ تمہیں تمہاری اصل اور حقیقی شخصیت سے متارف کروائے گا۔ سچے اور کامل مرشد تو کسی شیشے کی مانند شفاف ہوتے ہیں تاکہ خدا کا نور ان میں سے کامل طور پر چِھن کر تم تک پہنچ سکے۔


14۔ زندگی میں جو بھی تبدیلی تمہارے راستے میں آئے، اسکے استقبال کیلئے تیار رہو، اسکی مزاحمت مت کرو بلکہ زندگی کو اس بات کا موقع دو کہ تم میں سے گذر کر اپنا راستہ بناسکے۔ اس بات کی فکر مت کرو کہ زندگی میں نشیب و فراز آرہے ہیں۔ تمہیں کیا پتہ کہ آنے والی تبدیلی تمہارے حق میں بہتر ہے یا موجودہ حالت؟


15۔ ہر انسان ایک تشنہءِ تکمیل فن پارہ ہے۔جسکی تکمیل کیلئے خدا ہر انسان کے ساتھ داخلی اور خارجی طور پر مصروفِ کار ہے ۔ یہ ایک مسلسل عمل ہے۔ خدا ہم میں سے ہر ایک کے ساتھ انفرادی سطح پر معاملہ کرتا ہے کیونکہ انسانیت ایک بیحد لطیف اور نفیس مصوری کا شہکار ہے جس پر ثبت کیا جانے والا ہر ایک نقطہ پوری تصویر کیلئے یکساں اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔


 16۔ ایک بلند و برتر ذات اور ہر طرح کے نقص سے پاک خدا سے محبت کرنا بظاہر تو آسان سی بات معلوم ہوتی ہے۔، لیکن اس سے کہیں زیادہ مشکل بات یہ ہے کہ انسان اپنے ابنائے جنس سے محبت کرے جن میں ہر طرح کی کمزوریاں اور خامیاں پائی جاتی ہیں۔ یاد رکھو کہ انسان اسی کو جان سکتا ہے جس سے وہ محبت کرنے پر قادر ہو۔ محبت کے بغیر کوئی معرفت معرفت نہیں ہوتی۔ جب تک ہم اللہ کی تخلیق سے محبت کرنا نہیں سیکھتے، تب تک ہم اس قابل نہیں ہوسکتے کہ اللہ سے حقیقی طور پر محبت کرسکیں اور اسکو جان پائیں۔


 17۔ اصل ناپاکی تو اندر کی ناپاکی ہے۔ باقی سب تو آسانی سے دُھل جاتا ہے۔ گرد و غبار کی بس ایک ہی قسم ہے جو پاکیزہ پانی سے صاف نہیں ہوپاتی، اور وہ ہے نفرت اور تعصب کے دھبے، جو روح کو آلودہ کردیتے ہیں۔ تم ترکِ دنیا سے اور روزے رکھنے سے اپنے بدن کا تزکیہ تو حاصل کرسکتے ہو، لیکن قلب کا تزکیہ صرف محبت سے ہی ہوگا۔


18۔ پوری کی پوری کائنات ایک انسان کے اندر موجود ہے۔ تم اور تمہارے ارد گرد جو کچھ تمہیں دکھائی دیتا ہے، تمام چیزیں خواہ تمہیں پسند ہوں یا ناپسن، تمام لوگ خواہ تم ان کیلئےرغبت رمحسوس کرتے ہو یا کراہت، یہ سب کے سب تمہارے اپنے اندر کسی نہ کسی درجے میں ملیں گے۔ چنانچہ، شیطان کو باہر مت دیکھو، بلکہ اپنے اندر تلاش کرو۔ شیطان کو ئی ایسی غیر معمولی قوت نہیں جو تم پر باہر سے حملہ آور ہوتی ہے ، بلکہ تمہارے اندر سے ابھرنے والی ایک معمولی سی آواز کا نام ہے۔ اگر تم پوری محنت اور دیانت سے کبھی اپنی ذات کے روشن اور تاریک گوشوں کو دیکھنے کے قابل ہوجاؤ تو تم پر ایک عظیم اور برتر شعور کا دریچہ کھلے گا۔ جب کوئی شخص اپنے آپ کو جان لیتا ہے تو وہ اپنے رب کو بھی جان لیتا ہے۔


19۔  اگر تم چاہتے ہو کہ لوگ تمہارے ساتھ اپنے برتاؤ کو اور رویے کو تبدیل کردیں، تو اسکے لئے پہلے تمہیں اس رویے کو تبدیل کرنا ہوگا جو تم اپنے آپ کے ساتھ روا رکھے ہوئے ہو۔ جب تک تم اپنے آپ سے پورے خلوص سے اور پوری طرح محبت کرنا نہیں سیکھتے، بہت مشکل ہے کہ تمہیں محبت نصیب ہو۔ اورجب یہ مرتبہ حاصل ہوجائے تو پھر ہر اُس کانٹے کیلئے بھی شکر گذار رہو جو تمہارے راستے میں پھینکا جائے۔ کیونکہ یہ اس بات کی علامت ہے کہ تم پر عنقریب پھول بھی نچھاور ہونگے۔


 20۔  اس بات پر پریشان مت ہو کہ راستہ کہاں لیکر جائے گا، بلکہ اپنی توجہ اپنے پہلے قدم پر رکھو۔ یہی تمہاری زمہ داری ہے اور یہی سب سےمشکل کام ہے۔ جب پہلا قدم اٹھالیا، تو پھر اسکے بعد ہر شئے کو اپنے قدرتی انداز میں کام کرنے دو اور تم دیکھو گے کہ راستہ خودبخود کھلتا جائے گا۔ بہاؤ کے ساتھ مت بہو، بلکہ خود ایک لہر بن جاؤ جسکا اپنا ایک بہاؤ ہوتا ہے۔


21۔ اس نے ہم سب کواپنی صورت پر پیدا کیا ہے لیکن اسکے باوجود ہم سب ایک دوسرے سے مختلف اور یکتا و ممتاز ہیں۔ کوئی بھی دو انسان ایک جیسے نہیں۔ کوئی بھی دو دل یکساں طور پر نہیں دھڑکتے۔ اگر وہ چاہتا تو کہ سب لوگ ایک جیسے ہوجائیں، تو وہ انکو ایک جیسا ہی بناتا۔ چنانچہ اب ان اختلافات کی توہین و تنقیص کرنا اور اپنے افکار کو دوسروں پر مسلط کرنے کی کوشش کرنا دراصل پروردگارِ عالم کی قضا و قدر اور بلند پایہ حکمت کی توہین کے مترادف ہے۔


22۔  جب اسکا سچا چاہنے والا کبھی میکدے میں جا پہنچے، تو وہ میکدہ اسکے لئے محراب و مصلے کی صورت اختیار کرلیتا ہے، لیکن اگر کوئی بہکا ہوا مئے خوار مسجد میں بھی چلا جائے تو وہ اسکے لئے میخانہ بن جاتی ہے۔ جو کچھ بھی ہم کرتے ہیں اس میں اصل کردار تو ہمارے دل کا ہے، ہمارے اندر کا ہے ، ظاہر کا نہیں۔ صوفی لوگوں کو انکے حلئے اور انکی وضع قطع سے نہیں جانچتے۔ جب ایک صوفی کسی پر اپنی نگاہ جماتا ہے تو وہ دراصل اپنی دونوں آنکھوں کو بند کرچکا ہوتا ہے اور ایک تیسری آنکھ سے(جو اسکے قلب میں ہے) اس منظر کے اندر کا جائزہ لے رہا ہوتا ہے۔


23۔ -  زندگی تو ایک ادھار کی مانند ناپائیدار ہے اور اصل حقیقت کا ایک دھندلا سا خاکہ اور نقل۔ صرف بچے ہی اصل حقیقت کی بجائے کھلونوں سے بہلتے ہیں۔ لیکن اسکے باوجود، لوگ کھلونوں پر فریفتہ ہوتے ہیں یا بے قدری سے انہیں توڑ ڈالتے ہیں۔ اس زندگی میں ہر قسم کی انتہاؤں سے دور رہو، کیونکہ انتہاپسندی تمہارے اندرونی توازن کو بگاڑ دیتی ہے۔ صوفی اپنے رویوں میں انتہا پسند نہیں ہوتے بلکہ متوازن اور نرم ہوتے ہیں۔


24۔  پروردگار کی سلطنت میں انسان کو بہت خاص مقام و مرتبہ حاصل ہے۔ اللہ نے کہا ، " اور میں نے اسکے اندر اپنی روح میں سے پھونک دیا"۔ ہم میں سے ہر ایک کو اس قابلیت کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے کہ وہ اسکا خلیفہ بن سکے۔ اپنے آپ سے پوچھو کہ کیا تمہارے اعمال اسکے خلیفہ جیسے ہیں؟ یاد رکھو کہ ہم پر لازم ہے کہ ہم اس رحمانی روح کو (جو ہم میں پھونکی گئی ہے) کو اپنے اندر دریافت کریں ، پہچانیں اور اسکے ساتھ جئیں۔


25۔  جنت اور دوزخ کے بارے میں فکرمند رہنا چھوڑدو کیونکہ جنت اور دوزخ یہیں ہیں اسی لمحہءِ موجود میں۔ جب بھی ہم محبت محسوس کرتے ہیں، جنت کا ایک زینہ طے کرتے ہیں اور جب بھی نفرت ، حسد اور جھگرے میں پڑتے ہیں، دوزخ کی لپٹوں کی زد میں ہوتے ہیں۔ کیا اس سے بھی بد تر کوئی دوزخ ہوسکتا ہے جب کوئی شخص اپنے دل کی گہرائیوں میں یہ احساس پائے کہ اس سے کوئی بیحد غلط اور برا کام سرزد ہوگیا ہے۔ اس شخص سے پوچھ کردیکھو وہ تمہیں بتائے گا کہ دوزخ کسے کہتے ہیں۔ اور کیا اس سے بڑی بھی کوئی جنت ہوسکتی ہے جب کسی شخص پر خاص لمحات میں وہ سکینت نازل ہوتی ہے جب اس پر کائنات کے دریچے کشادہ ہوتے ہیں اور انسان اپنے رب کے ساتھ قرب کی حالت میں ابدیت کے اسرار سے ہمکنار ہوتا ہے؟ پوچھو اس شخص سے، وہ تمہیں بتائے گا کہ جنت کیا ہوتی ہے۔


26۔ کائنات ایک وجودِ واحد ہے۔ یہاں ہر کوئی اپنے اپنے واقعات کے غیر مرئی دھاگوں سے ایک دوسرے کے ساتھ لپٹا ہوا ہے۔ ہم سب جانے انجانے میں ایک خاموش مکالمے کا حصہ ہیں۔ کسی کو دکھ نہ دو، نرمی اور شفقت کا برتاؤ رکھو، کسی کی پیٹھ پیچھ اسکی برائی مت کرو خواہ ایک بے ضرر سا جملہ ہی کیوں نہ ہو۔ الفاظ جو ایک بار ہماری زبانوں سے نکل آتے ہیں، وہ کبھی فنا نہیں ہوتے بلکہ ایک لامحدود وسعت میں ہمیشہ کیلئے محفوظ ہوجاتے ہیں اور اپنے مقرر وقت میں واپس ہم تک آن پہنچتے ہیں۔ بالآخر،کسی بھی آدمی کی تکلیف، ہم سب کو ایک اجتماعی دکھ میں مبتلا کرجائے گی اورکسی بھی آدمی کی خوشی ہم سب کے ہونٹوں پر مسکان کا باعث بنے گی۔


27۔ یہ دنیا اس برفانی پہاڑ کی طرح ہے جہان بلند کی گئی ہر آواز، پہاڑوں سے ٹکرا کر بازگشت کی صورت میں واپس ہم تم پہنچتی ہے۔ جب بھی تم کوئی اچھی یا بری بات کرو گے، تم تک واپس ضرور پلٹ کر آئے گی۔ چنانچہ اب اگر تم کسی ایسے شخص کیلئے برے کلمات منہ سے نکالو، جو ہر وقت تمہارا برا سوچتا رہتا ہے، تو یہ اس معاملے کو اور بھی گھمبیر بنادے گا اور تم منفی قوتوں کے ایک نہ ختم ہونے والے چکر میں گھومتے رہو گے۔ بجائے اسکے کہ تم اسکے لئے کچھ برا کہو، چالیس دن تک اسکے لئے اچھا سوچو اور اچھی بات منہ سے نکالو، تم دیکھنا کہ چالیس دن بعد ہر شئے مختلف محسوس ہوگی، کیونکہ تم پہلے جیسے نہیں رہے اور اندر سے تبدیل ہوگئے۔


28۔ ماضی ایک تعبیر ہے ایک نقطہ نظر ہے، جبکہ مستقبل مایا (Illusion) ہے ، ایک سراب ہے۔ دنیا ایک خطِ مستقیم کی شکل مین وقت کے دھارے میں سے نہیں گذرتی جو ماضی سے مستقبل کی طرف جا رہا ہو، بلکہ وقت ہمارے اندر سے بتدریج پھیلتے ہوئی لامتناہی قوسوں  (Spirals)  کی صورت میں گذرتا ہے۔ ابدیت لامحدود وقت کو نہیں بلکہ وقت سے ماورا ہونے کا نام ہے۔ اگر تم ابدی روشنی کے حامل ہونا چاہتے ہو تو ماضی اور مستقبل کو اپنے ذہن سے نکال دو اور فقط لمحہءِ موجود میں باقی رہو۔ یہ لمحہءِ موجود ہی سب کچھ تھا اور سب کچھ ہے اور ہمیشہ رہے گا۔


29۔  تقدیر کا یہ مطلب نہیں کہ تمہاری زندگی کو مکمل طور پر باندھ کر رکھ دیا گیا ہے۔ ہر بات کو مقدر پر چھوڑ دینا اور کائنات کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کی کوئی کوشش نہ کرنا ،محض جہالت کی علامت ہے۔ کائناتی موسیقی ہر طرف سے پھوٹ رہی ہے اور اسکے چالیس مختلف درجات ہیں۔ تمہارا مقدر وہ درجہ ہے جس پر تم اپنا ساز بجا رہے ہو۔ ہوسکتا ہے کہ تمہارا ساز تبدیل نہ کیا جاسکے، لیکن اس ساز سے جو نغمہ اور جو دُھن تم نکالتے ہو اسکا انحصار صرف اور صرف تم پر ہے۔


30۔  سچا صوفی ایسا فرد ہے کہ اگر اس پر کوئی ناحق تہمت لگائی جائے، اور ہر سمت سے اس پر ملامت کی بوچھاڑ ہو، تب بھی وہ صبر کے ساتھ یہ سب جھیلتا ہے اور تنقید کرنے والوں کے خلاف ایک لفظ منہ سے نہیں نکالتا۔ وہ الزام کے جواب میں الزام نہیں لگاتا۔ اورکوئی اسکا مخالف اور دشمن حتیٰ کہ "غیر" ہو بھی کیسےسکتا ہے جب اس کے نزدیک کسی غیر کا کوئی وجود ہی نہیں۔ وہ تو خود اپنے نفس سے معدوم ہے، چنانچہ وہ کسطرح کسی کو اپنا دشمن یا مخالف سمجھے جب وہاں صرف اور صرف ایک ہی واحد ذات کی جلوہ نمائی ہے؟


31۔  اگر تم اپنا ایمان مضبوط کرنا چاہتے ہو تو اسکے لئے تمہیں اپنے اندر کی سختی دور کرنا ہوگی۔ چٹان کی طرح مضبوط ایمان کیلئے کسی پرندے کے پروں سے بھی زیادہ نرم دل درکار ہے۔ زندگی میں بیماریاں، حادثات ، نقصان ، تمناؤں کا ٹوٹنا اور اس قسم کے کئی دیگر معاملات ہمارے ساتھ اسی لئے پیش آتے ہیں تاکہ ہمیں رقتِ قلب عطا کریں، ہمیں خودغرضیوں سے نکالیں، نکتہ چینی کے رویے تبدیل کریں اور ہمیں کشادہ دلی سکھائیں۔ کچھ لوگ تو سبق سیکھ کر نرم ہوجاتے ہیں اور کچھ لوگ پہلے سے بھی زیادہ سخت مزاج اور تلخ ہو جاتے ہیں۔ حق تعالیٰ کے قریب ہونے کیلئے ضروری ہے کہ ہمارے قلوب اتنے کشادہ ہوں کہ تمام انسانیت اس میں سما سکے اور اسکے بعد بھی ان میں مزید محبت کی گنجائش باقی رہے۔


32۔  کوئی امام، کوئی پادری، کوئی ربی اور اخلاقی و مذہبی قائدین میں سے کوئی بھی تمہارے اور تمہارے رب کے بیچ حائل نہیں ہونا چاہئیے۔ حتیٰ کہ تمہارا ایمان اور تمہارا روحانی مرشد بھی نہیں ۔ اپنے اقدار اور اصولوں پر ضرور یقین رکھو، لیکن انکو دوسروں پر مسلط مت کرو۔اگر تم لوگوں کے دلوں کو توڑتے رہتے ہو، تو کوئی بھی مذہبی فریضہ انجام دینا تمہارے لئے سود مند نہیں ۔ ہر قسم کی بت پرستی سے دور رہو کیونکہ یہ تمہاری روحانی بینائی کو دھندلا دے گی۔ صرف اپنے رب کو اپنا مرشدِ حقیقی سمجھو۔ علم اورمعرفت ضرور حاصل کرو، لیکن ان علوم و معارف کو اپنی زندگی کا مقصد مت بناؤ۔


33۔  اس دنیا میں جہاں ہر کوئی کسی نہ کسی مقام پر پہنچنے اور کچھ نہ کچھ بننے کی جدو جہد کرتا ہے، حالانکہ یہ سب کچھ ایک دن اسے یہیں چھوڑنا پڑجاتا ہے، ایسے میں تم صرف اور صرف نایافت اور نیستی کو اپنا مقصد قرار دو۔ زندگی میں اتنے سبک بن جاؤ جتنا کہ صفر کا ہندسہ ہوتا ہے۔ ہم ایک برتن کی طرح ہیں۔ برتن پر خواہ کتنے ہی نقش و نگار کیوں نہ ہوں، لیکن اسکا کارآمد ہونا صرف اس خلا کی وجہ سے ہے جو اسکے اندر ہے، یہ خلا ہی اسے برتن بناتا ہے اور یہی نایافت اور خلا ہمیں بھی درست رکھتے ہیں۔ کسی مقصد کا حصول ہمیں متحرک نہیں رکھتا ، بلکہ یہی خالی پن کا شعور ہے جو ہمیں رواں دواں رکھتا ہے۔


34۔  سرِ تسلیم خم کرنے اور راضی برضا رہنے کا یہ مطلب نہیں کہ ہم بے عمل ہوکر عضوِ معطل ہوجائیں اور نہ ہی یہ جبریت (Fatalism) یا تعطیل (Capitulation)ہے۔ بلکہ یہ تو اسکے بالکل برعکس ہے۔ اصل قوت تسلیم و رضا میں ہے، ایسی قوت جو ہمارے اندر سے پھوٹتی ہے۔ وہ لوگ جو زندگی کی الوہی(Divine) حقیقت کے سامنے سرِ تسلیم خم کردیتے ہیں، و ہ ایسے دائمی سکون اور سکینت میں رہتے ہیں کہ اگر سارا جہان موج در موج فتنوں میں مبتلا ہوجائے تب بھی اس سکون میں کوئی خلل نہیں پڑتا۔


35۔  اس دنیا میں جہاں ہم رہ رہے ہیں، یکسانیت اور ہمواریت ہمیں آگے لیکر نہیں جاتی، بلکہ مخالفت اور تضاد آگے لیکر جاتا ہے۔ اور دنیامین جتنے بھی متضاد امور ہیں، وہ سب ہم میں سے ہر ایک کے اندر بھی پائے جاتے ہیں۔ چنانچہ ایک مومن کیلئے ضروری ہے کہ اپنے اندر کے کافر سے ضرور ملے۔ اور ایک کافر کو بھی اپنے اندر کے خاموش مومن کو دریافت کرنا چاہئیے۔ ایمان ایک تدریجی سفر ہے جسکے لئے اسکے مخالف یعنی بے یقینی کا ہونا لازم ہے تاوقتیکہ انسان، انسانِ کامل کے مقام تک جاپہنچے۔


36۔  دنیا عمل اور اسکے ردعمل کے اصول پر قائم ہے۔ نیکی کا ایک قطرہ یا برائی کا ایک ذرہ بھی اپنا ردعمل یا نتیجہ پیدا کئے بغیر نہیں رہتے۔ لوگوں کی سازشوں، دھوکہ دہیوں اور چالبازیوں کا خوف مت کھاؤ ۔ اگر کوئی تمہارے لئے جال تیار کر رہا ہے تو یاد رکھو کہ اللہ بھی خیر الماکرین ہے اور سب سےاچھامنصوبہ ساز ہے۔ ایک پتا بھی اسکے علم اور اجازت کے بغیر نہیں ہلتا۔ بس اللہ پر سادگی کے ساتھ اور پوری طرح یقین رکھو۔ وہ جو کچھ بھی کرتا ہے، بہت خوبصورت طریقے سے کرتا ہے۔


37۔ خدا بہت باریک بین اور بڑا ہی کاریگر گھڑی ساز ہے۔ اتنا درست کہ زمین پر ہر چیز اپنے مقررہ وقت پر وقوع پذیر ہوتی ہے۔، نہ ایک لمحہ وقت سے پہلے اور نہ ایک لمحہ تاخیر سے۔ اور یہ عظیم گھڑی، بغیر کسی استثناء کے، سبھی کیلئے بالکل ٹھیک اور درست طور پر کام کرتی ہے۔ ہر ایک کیلئے محبت اور موت کا ایک لمحہ مقرر ہے۔


38۔  کوئی حرج نہیں اگر زندگی کے کسی بھی مرحلے میں ہم اپنے آپ سے یہ سوال پوچھیں کہ" کیا میں اپنا طرزِ زندگی اور اپنی روش بدلنے کیلئے تیار ہوں؟ کیا میں اپنا آپ بدلنے کیلئے تیار ہوں؟"۔ اگر دنیا میں ہماری زندگی کا ایک دن بھی گزرے ہوئے دن کے مساوی گذرے تو بڑی حسرت کا مقام ہے۔ ہر لمحہ ، ہر آن ، اورہر سانس کے ساتھ ہمیں اپنی تجدید کرتے رہنا چاہئیے،نیاجنم لیتے رہنا چاہئیے۔ اور نیا جنم لینے کیلئے ایک ہی طریقہ ہے۔۔۔موت سے پہلے مرجانا۔


39۔ جزو تبدیل ہوتا رہتا ہے، لیکن اسکا کُل ویسے کا ویسا ہی رہتا ہے۔ دنیا سے جب بھی کوئی چور ڈاکو رخصت ہوتا ہے، اسکی جگہ لینے کیلئے ایک نیا شخص پیدا کردیا جاتا ہے۔ اور ہر صالح اور ولی کے رخصت ہونے پر کوئی دوسرا صالح اور ولی اسکی جگہ سنبھال لیتا ہے۔ اس طریقے سے بیک وقت ہر شئے تبدیل ہوتی جاتی ہے لیکن مجموعی حقیقت میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔


40۔ محبت کے بغیر زندگی بے معنی ہے۔ مت سوچو کہ مجھے کس قسم کی محبت کی تلاش ہے؟ روحانی یا جسمانی، ملکوتی یا ناسوتی، مشرقی یا مغربی۔۔۔ محبت کی یہ تقسیم مزید تقسیم پیدا کرتی ہے۔ محبت کا کوئی عنوان نہیں ہوتا ، نہ ہی کوئی مخصوص تعریف (Definition)۔ یہ تو ایک سادہ، اور خالص چیز ہے بس۔ محبت آبِ حیات بھی ہے، اور آتش کی روح بھی ہے۔ جب آتش آب سے محبت کرتی ہے، تو کائنات ایک مختلف روپ اور نئےانداز میں ظہور پذیر ہوجاتی ہے:۔


مولوی ہرگز نہ باشد مولائے روم

تا غلامِ شمس تبریزی نہ شد


اردو: جب تک مولانا روم کو شمس تبریزی کی صحبت اور غلامی نصیب نہ ہوئی اس وقت تک وہ فقط مولوی تھے۔ شمس تبریزی کی صحبت نے انہیں مولوی سے مولائے روم بنا دیا۔


مولانا روم ؒ مزید فرماتے ہیں:


یک زمانہ صحبت با اولیا

بہتر از صد سالہ طاعت بے ریا۔


اردو: اولیاء اللہ کی صحبت میں گزارا ہو ایک لمحہ سو سالہ کی بے ریا عبادت سے بہتر ہیں۔


 

مرتب : کاشف فاروق۔ لاہور سے۔



مغربی لکھاری جناب مسٹر بزنجو کا آرٹیکل



یہاں ہاتھیوں پہ ایک حالیہ مضمون میں، یوگیجولین جو لوگ یوگا کرتے ہیں لکھتے ہیں کہ مولانا رومی، جو 12ویں صدی کے پرجوش شاعر اور صوفیانہ تھے، کو شاید اس لیے قتل کیا گیا تھا کہ وہ ہم جنس پرست تھے۔ میں نے سنا ہے کہ کچھ اسکالرز اور مصنفین، بشمول کولمین بارکس، کہ رومی کے پیارے استاد شمس کو قتل کر دیا گیا تھا۔ میں نے اس سے پہلے یہ افواہ بھی سنی ہے کہ رومی اور شمس ہم جنس پرستوں سے محبت کرنے والے تھے، خاص طور پر مصنف اور روحانی کارکن اینڈریو ہاروی، جو خود کھلے عام ہم جنس پرست ہیں۔ یہ خیال، کہ رومی کا محبوب درحقیقت اس کا ہم جنس پرست عاشق شمس تھا، متنازعہ ہو گیا ہے۔ جو بات متنازعہ نہیں وہ یہ ہے کہ رومی کو کبھی قتل نہیں کیا گیا۔ ان کا انتقال 17 دسمبر 1273 کو قدرتی وجوہات کی بنا پر ہوا۔ ان کی موت طبعی تھی۔


کولمین بارکس لکھتے ہیں، ’’5 دسمبر 1248 کی رات جب رومی اور شمس باتیں کر رہے تھے، شمس کو پچھلے دروازے سے بلایا گیا۔ وہ باہر چلا گیا، پھر کبھی نظر نہیں آیا۔ غالباً، اسے رومی کے بیٹے علاء الدین کی ملی بھگت سے قتل کیا گیا تھا۔ اگر ایسا ہے تو شمس نے واقعی صوفیانہ دوستی کے استحقاق کے لیے اپنا سر دے دیا۔ چونکہ اپنے گرو، خدا کو، الہی کے لیے، خوشی سے مرنے کے لیے اپنا سر دینے کی یہ تصویر کیونکہ روح موت سے نہیں ڈرتی، کبیر اور میرا بائی کی شاعری میں بھی عام ہے، ہندوستانی بھکتی صوفیانہ، جن کی جنگلی اور چھیدنے والی محبت کی شاعری رومی کی شاعری سے ملتی جلتی ہے۔ بہت سے طریقوں سے روحانی علوم کی تاریخوں میں، یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے کہ روحانی گروہوں اور مذہبی احکامات کے ارکان حسد، لڑائی جھگڑے، غداری، حتیٰ کہ قتل کا اظہار کرتے ہیں۔ مہاتما بدھ کے ایک شاگرد نے مبینہ طور پر اسے قتل کرنے کی کوشش کی تھی اور ہم سب یسوع کی کہانی اور یہوداہ کے ذریعہ اس کے دھوکہ سے واقف ہیں۔


عصر حاضر میں، میرے اپنے گرو، آنند مورتی، کو سیاسی طور پر حوصلہ افزائی کے الزام میں جھوٹے طور پر قید کر دیا گیا تھا۔ ایک ہندوستانی گرو کے لیے یہ غیر معمولی بات ہے، اس نے ذات پات کے نظام کے خلاف بات کی اور یہاں تک کہ اس نے تجویز کیا کہ سرمایہ داری انسان دشمن ہے اور اسے مزید تعاون پر مبنی معیشت سے بدلنا چاہتا ہے۔

 

نتیجتاً اس نے سیاست دانوں، امیروں اور برہمن پجاریوں کو بھی ناراض کیا اور اس سے جان چھڑانے کی سازش رچی گئی۔ 8 سال بعد، 1979 میں، جیل میں زہر دینے کے بعد، وہ مغربی وکلاء کی مدد سے تمام الزامات سے آزاد ہوا جنہوں نے اس مقدمے کو "سیاسی طور پر محرک" قرار دیا۔ یہ سب ستر کی دہائی میں ہوا، جب اندرا گاندھی کئی اپوزیشن رہنماؤں اور ترقی پسند تنظیموں پر پابندیاں لگا کر، جیلوں میں ڈال کر اور تشدد کا نشانہ بنا کر آمرانہ طاقتوں کے ساتھ ہندوستان پر حکومت کر رہی تھی۔ لہٰذا، روحانی حلقوں میں تنازعہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ لیکن رومی کے خلاف حسد کیوں، جو صرف الٰہی کی پرجوش محبت کی حمایت کرتا نظر آتا تھا؟ کیا واقعی اس کی وجہ رومی اور شمس ہم جنس پرستوں سے محبت کرنے والے تھے؟ ذاتی طور پر، میں سمجھتا ہوں کہ رومی اور شمس کا ہم جنس پرست ہونا عصر حاضر کا ایک بڑا پروجیکشن ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہم جنس پرست ہونا بذات خود ایک مسئلہ ہے، لیکن اس معاملے میں میرے خیال میں اس کا امکان نہیں ہے۔ مغرب میں، ہمارے ہاں گرو/شاگرد کے رشتے کی وہ روایت نہیں ہے جو ہم تصوف، تنتر اور مشرق کی دیگر پرجوش روایات میں دیکھتے ہیں۔ اس لیے ہم حد سے زیادہ شکی اور بے اعتمادی کا شکار ہو جاتے ہیں۔


ہم اکثر جنسی لحاظ سے اس قسم کی قربت کو مساوی کرتے ہیں، حالانکہ یہ بالکل بھی نہیں ہے۔ یہ کہ کچھ معاصر گرو واقعی اپنے شاگردوں کے ساتھ جنسی تعلقات رکھتے تھے اس سے الجھن بڑھ جاتی ہے۔ پنے استاد کے لیے محبوب اور عاشق جیسی اصطلاحات کا استعمال مغرب میں عام نہیں ہے۔ مغربی تصوف میں بات کرنے کے لیے کوئی بھکتی روایت نہیں ہے (سوائے، شاید، کچھ سیاہ بپتسمہ دینے والے گرجا گھروں میں!) جو کہ تصوف اور یوگا میں پائی جانے والی متوازی ہے۔ ہم صرف گلے نہیں لگاتے، ہاتھ پکڑتے ہیں اور مغرب میں اپنے پجاریوں کی آنکھوں میں دیکھتے ہیں جس طرح سے ان پرجوش مشرقیوں نے صدیوں سے کیا ہے۔ نہ ہی مرد سڑکوں پر ہاتھ پکڑ کر چلتے ہیں جیسا کہ ہندوستان اور ایران میں لوگ کرتے ہیں جہاں رومی رہتے تھے۔ مغرب کی روحانی شاعری میں بھی جنسی تصویر کشی کی کوئی روایت نہیں ہے۔ مشرق میں، جنسی ملاپ بھی اندرونی خوشیوں، تانترک کنڈلینی توانائیوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ ہمارے پاس کوئی گہری روایت نہیں ہے جس میں "شراب" اور "شرابی" اور "ٹیورن" جیسے الفاظ شرابی کی روحانی حالتوں کو ظاہر کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں مغرب میں خدا کو اس طرح بلند کرنے کی روایت نہیں ہے جس طرح وہ مشرق میں کرتے ہیں۔ وہ جنگلی یوگا تال آہستہ آہستہ ہمارے پاس آ رہے ہیں، لیکن وہ ابھی تک ہماری ہڈیوں اور ہمارے خون میں نہیں ہیں۔ ہم ابھی بھی ان تالوں کے لیے روحانی طور پر بہت ڈرپوک ہیں۔ جب ہم مغربی باشندے حقیقی معنوں میں اپنے جسموں کو چھوڑتے یا داخل ہوتے ہیں تو وہ منشیات، سیکس اور راک اینڈ رول کے دوران ہوتا ہے۔ شاید ہی ہم خدا یا اپنے استاد سے اس طرح محبت کرتے ہیں جس طرح رومی یا کبیر یا میرا بائی سے کرتے تھے۔ آخری بار جب آپ کیرتن کے دوران ٹرانس میں فرش پر گرے تھے جس طرح وہ ہندوستان میں کرتے ہیں؟ دوسرے لفظوں میں، ہم ان لوگوں پر اعتماد نہیں کرتے جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ خدا سے اس طرح بات کر رہے ہیں جس طرح رام کرشن نے ماں کالی سے بات کی تھی، جس طرح میرا بائی نے اپنے پیارے کرشن سے بات کی تھی اور محبت کی تھی۔ ہم نے ایسے لوگوں کو یہاں کے اداروں میں رکھا ہے۔ ہندوستان میں، انہیں بعض اوقات سنت قرار دیا جاتا ہے۔ (سنت یعنی صوفی)۔


ہندوستان میں، سادھو سڑکوں پر برہنہ رقص کرسکتے ہیں اور پھر بھی انہیں مقدس سمجھا جاتا ہے۔ ہماری کیلونسٹ تقویٰ میں، ہم مغربی چرچ میں بہت دیر تک ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔ ہم ان لوگوں پر اعتماد کرتے ہیں جو ایک ہی وقت میں سمجھدار اور اندرونی تصاویر سے بات کرتے ہیں۔ یہ کہہ کر کہ آوازیں صرف پاگل لوگوں کو سنائی دیتی ہیں، یا شاعری میں جنسی تصویر کشی صرف جنس کی نمائندگی کرتی ہے، ہم روحانیت کی ایک پوری روایت کو نظر انداز کر دیتے ہیں جس کا اظہار صوفیانہ مغرب میں بھی ہوتا ہے، سینٹ جان، سینٹ فرانسس اور ٹریسا آف اویلا جیسے لوگوں میں۔ سچ تو یہ ہے کہ بعض اوقات یہ لوگ واقعی پاگل ہوتے ہیں، لیکن بعض اوقات وہ نہیں ہوتے۔ بعض اوقات انہیں عرفان کہا جاتا ہے۔ میں نے بہت سے لوگوں کو فرش پر لڑھکتے، خوشی سے روتے اور اندرونی نظاروں سے بات کرتے دیکھا ہے۔ جہنم میں نے خود کیا ہے اور ہم میں سے کوئی بھی ادارہ جاتی نہیں ہے، ابھی تک نہیں، لہٰذا رومی کی اپنے پیارے استاد شمس کے لیے محبت کو ہم جنس پرستوں کے رشتے سے جوڑنا شاید اتنا ہی غلط ہے جتنا کہ رام کرشن کی روحانی ذہانت، جسے آج بہت سے ہندوستانی اسکالرز شعور کا آئن اسٹائن سمجھتے ہیں، ایک بڑبڑاتے پاگل سے جوڑ دیتے ہیں۔ یہ، میرے خیال میں، تخفیف پسندی اس کی بدترین ہے۔ یہ، میرے خیال میں، آپ کی پیٹھ پر رینگنے والے کیڑے کے ساتھ ایک ہلکی کنڈلینی کے بیدار ہونے کے مترادف ہے یا اس کے برعکس، رینگنے والے کیڑے کو کنڈلینی سمجھنا۔ ایک پروجیکشن کے سوا کچھ نہیں۔ اندرونی دنیا حقیقی بھی ہے اور غیر حقیقی بھی۔ یہ سب منحصر ہے، اور بعض اوقات، صرف وہی لوگ جو سفر کر چکے ہیں فرق بتا سکتے ہیں۔ لہذا، ایک عجیب طریقے سے، میں یہ تجویز کرتا ہوں کہ وہ لوگ جو رومی کے قد کے روحانی صوفی کی بھرپور اندرونی دنیا کو صرف ہم جنس پرست ہونے تک کم کرتے ہیں (حقیقت میں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ وہ ہم جنس پرست تھا یا ہے، یقینا) اس کے برعکس جو وہ سوچتے ہیں کہ وہ کر رہے ہیں۔ وہ اس کی تصویر کو صاف کرتے ہیں۔ وہ صوفیانہ شعور کے مکمل اسپیکٹرم کو صرف جسم کے دائرے تک محدود کر کے اسے روکتے ہیں۔ روح جسم میں رہتی ہے اور وہ محبت کے دل میں رہتی ہے۔ یہ زمین میں رہتا ہے اور آسمان میں رہتا ہے۔ یہ لطیف ہے اور یہ ناقص ہے۔ رومی کے معاملے میں، روح آزادانہ طور پر تمام حدود کو پار کرتی ہے۔ یہ جسم میں رہتا تھا اور دماغ میں رہتا تھا۔ لیکن جب اس نے شمس سے محبت کی تو اس نے اپنے درد مند روحانی دل کے ساتھ ایسا کیا، بالکل اسی طرح جس طرح میرا بائی نے اپنے اندرونی کرشن سے محبت کی تھی۔ کیوں؟ رومی کی زیادہ تر محبت کی شاعری شمس کی موت کے بعد کے سالوں میں لکھی گئی اور میرابائی کی محبت کی شاعری کرشنا کے ورنداون کے کھیتوں میں چلنے کے تقریباً دو ہزار سال بعد لکھی گئی۔


شمس کی پراسرار گمشدگی کے بعد اس کی تلاش میں، رومی کو بالآخر احساس ہوا "میں کیوں تلاش کروں؟ میں وہی ہوں جیسا کہ وہ۔ اس کا جوہر میرے ذریعے بولتا ہے۔ میں اپنے آپ کو ڈھونڈ رہا ہوں"۔ اپنے آپ کو ڈھونڈتے ہوئے، ہمیں کبھی کبھی ایسے گائیڈ، گرو، صوفیاء کی ضرورت ہوتی ہے جو ہم سے پہلے راستے پر چل چکے ہوں۔ بالآخر، روحانی سفر ہم جنس پرستوں (یا ہم جنس پرست) عاشق کو تلاش کرنے کے بارے میں نہیں ہے، بلکہ صرف اپنے آپ سے محبت کرنے کے بارے میں ہے۔ خود کو تلاش کرنے کے بارے میں۔



رائٹر: رمیش بزنجو(مغرب  سے)۔


ترجمہ: کاشف فاروق۔ لاہور سے۔





مالک، مصنف و کمپوزر: کاشف فاروق۔ لاہور سے۔


No comments:

Post a Comment