URDU STORIES:

اردو ادب اور کہانیوں میں خوش آمدید ۞ قصہ کہانیاں ۞ غزلیں ۞ نظمیں ۞ واقعات ۞ طنزومزاح ۞ لاہور کی پنجابی۞ کچھ حقیقت کچھ افسانہ ۞ پراسرار خواب والی ٹیکنالوجی ۞ میری فیملی کا ذاتی شجرہ نسب سن 1790ء تا 2023ء۔ ۞ قومی پیمانہ ۞ تباہی و زلزلے ۞ دو سو سالہ کیلینڈر ۞ اردو سافٹ وئیر ڈاؤنلوڈ ۞۔

SADAT HASSAN MINTO ســـــعـــــــادٺ حــــــــسن منٹو

 







منفرد اور عظیم افسانہ نگار، سعادت حسن منٹو


سعادت حسن منٹو دنیائے اردو ادب میں اب تک اپنی نوعیت کے واحد افسانہ نگار ہیں، ان سے قبل اور ان کے بعد آج تک کسی میں وہ جرات اظہار پیدا نہیں ہوسکی جو منٹو میں تھی۔ زندگی کا بے باک ترجمان اور ایسا قلمکارجس نے سب سے پہلے روایتی راہ سے ہٹ کر اپنا راستہ خود بنایا، معاشرے میں ہر طرح کی منافقت کو اجاگر کیا۔ منٹو کا قلم سفاکیت کی حد تک بے باک تھا،جس سے نہ صرف زندگی کی بھرپور عکاسی کی بلکہ زندگی کے متعلق ایک واضح نقطہ نظر اپنے افسانوں میں پیش کیا۔ منٹو کے افسانے دراصل معاشرے میں پھیلی ناانصافی اور بربریت کے خلاف بانگ درا کی حیثیت رکھتے ہیں۔


منٹو پر مقدمے چلے، مصائب و مسائل کے گرداب میں پھنسے بھی رہے، مگر وہ بھی دھن کے پکے تھے، لگن سچی تھی اور معاشرے کے پسے ہوئے طبقات کی محرومی اور ان کے ساتھ روا رکھی جانے والی زیادتیوں کو منظرعام پر لانے کا ہر صورت عزم کرچکےتھے، جس پر وہ چٹان کی طرح زندگی بھر ڈٹے رہے۔ ’’نقوش ادب‘‘ کی مصنفہ فرزانہ سید کے مطابق ’’سعادت حسن منٹو کا کسی ادبی فرقے سے تعلق نہیں تھا، وہ اپنی طرز کا خود ہی ایک فرقہ تھا۔ منٹو نے حقیقت پر مبنی کہانیاں لکھیں، سچ چونکہ کڑوا ہوتا ہے۔ اس لیے ان کے افسانوں میں تلخی، ترشی اور کڑواہٹ ہے۔‘‘


ممتاز نقاد و محقق ڈاکٹر سلیم اخترکےمطابق’’منٹو نے بہت ہنگامہ خیز زندگی بسر کی، وہ ذہین تخلیق کاروں کے شہر امرتسر کا تھا، ویسے اس کی پیدائش سمبرالہ ضلع لدھیانہ میں ہوئی مگر عمر کا ابتدائی حصہ امرتسر میں بسر کیا، اس لیے اس کے مزاج کی نرمی اور سختی کی وہی متضاد خصوصیات ملتی ہیں جو امرتسر والوں کا شیوہ ہیں اور جن کی بنا پر وہ بے حد مخلص دوست اور بہت خطرناک دشمن بھی ثابت ہوتے ہیں، چنانچہ منٹو میں بھی یہی انتہا پسندی ہے، وہ دوست بنتا تو کھل کر اور دشمنی کرتا تو واضح انداز میں، پھر دلیر مرد تھا، اپنی لڑائی خود لڑتا اور اس کے لیے پالتو قسم کے لوگوں کا سہارا نہ لیتا۔‘‘


سعادت حسن منٹو کے خاندان کا تعلق کشمیری پنڈتوں کی سارسوات برہمن شاخ سے تھا۔ ان کے آبائو اجداد نے منٹو سے تین چار نسلیں قبل اسلام قبول کرلیا تھا اور بیگم صفیہ منٹو کے بقول منٹو کے آبائو اجداد اٹھارویں صدی کے آخر میں کشمیر سے ہجرت کرکے پنجاب میں آباد ہوگئے تھے۔ منٹو کے والد مولوی غلام حسن سب جج کے عہدے پر فائز تھے جبکہ والدہ سردار بیگم ان کی دوسری منکوحہ تھیں۔ بعض سوانح نگاروں کا کہنا ہے کہ منٹو پدرانہ شفقت سے ہمیشہ محرم رہا، اس کمی کو اس کی والدہ نے پورا کیا۔ ابو سعید قریشی نے والد کی سخت گیری کو منٹو کی شخصیت کے مطالعہ میں ایک اہم نفسیاتی نکتہ کے طور پر پیش کیا ہے۔


گویا منٹو کی شخصیت میں بغاوت اور آوارگی کا جو عنصر تھا وہ اسی پدرانہ بے رخی کا نتیجہ تھا لیکن منٹو کی کسی تحریر سے اس بات کا ثبوت نہیں ملتا۔ ڈاکٹر علی ثناء بخاری کے مطابق، منٹو میٹرک میں تین مرتبہ فیل ہوئے، آخرکار درجہ سوم میں میٹرک پاس کیا ،مگر اردو کے پرچے میں پھر بھی فیل ہوگئے۔ پہلے ہندو سبھا کالج امرتسر میں داخلہ لیا، پھر ایم اے او کالج امرتسر میں انٹر کے طالب علم کی حیثیت سے ہی پہنچے، جہاں صاحبزادہ محمود الظفر، فیض احمد فیض، ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر اور اختر حسین رائے پوری اپنے فرائض انجام دے رہے تھے، یہ تمام اساتذہ قلمکار بھی تھے اور انہوں نے آگے چل کر انجمن ترقی پسند مصنفین کی بھی بنیاد ڈالی۔ منٹو کی ذہنی ہم آہنگی کے باعث کچھ عرصہ اطمینان سے منٹو نے وہاں گزارا،اسی دوران 1932ء میں ان کے والد کا انتقال ہوگیا، مگر منٹو نے کالج نہیں چھوڑا لیکن امتحانات میں پاس ہوکر بھی نہیں دیا، البتہ اس کے اندر کا منٹو باہر آنا شروع ہوگیا، اس نے اپنے قلم کا جادو جگانا شروع کردیا۔ دو دفعہ ایف اے میں فیل ہونے کے باعث منٹو کی طبیعت روایتی پڑھائی سے بالکل اچاٹ ہوچکی تھی، البتہ ان دنوں میں وہ باری علیگ سے نیاز مندی حاصل کرچکے تھے۔ 1935ء میں انٹر کیے بغیر علی گڑھ یونیورسٹی جا پہنچے ،مگر چند ماہ بعد ہی یونیورسٹی سے نکال دیے گئے۔ عام تاثر یہ ہے کہ انہیں بیماری (تپ دق) کے باعث یونیورسٹی سے خارج کیا گیا تھا لیکن بقول پروفیسر سجاد شیخ، منٹو کو اس کے انقلابی اور نظام دشمن رویے کی وجہ سے نکالا گیا تھا، چنانچہ علی گڑھ چھوڑ کر واپس لاہور آگئے جہاں باری علیگ نے انہیں صحافت کی طرف لگا دیا۔ پہلے انہیں اخبار ’’پارس‘‘ میں ملازمت ملی،بعدازاں مساوات سے رابطہ ہوا۔ منٹو کی زندگی میں باری علیگ نے بڑا اہم کردار ادا کیا، جس کا اعتراف خود منٹو نے بھی کیا ہے کہ ’’آج میں جو کچھ ہوں باری صاحب کے دم سے ہوں، اگر امرتسر میں ان سے ملاقات نہ ہوتی اور متواتر تین مہینے میں نے ان کی صحبت میں نہ گزارے ہوتے تو یقیناً میں کسی اور راستے پر گامزن ہوتا۔ منٹو جو کبھی تیرتھ رام فیروز پوری کے ناول پڑھا کرتےتھے، باری صاحب کی صحبت کی وجہ سے آسکر وائلڈ (Oscar) اور کٹو ہیوگو (Victor Hugo) کے زیر مطالعہ رہنے لگے اور زیادہ وقت ’’مساوات‘‘ کے دفتر میں گزرنے لگا اور مساوات کے فلمی صفحے کے انچارج بن گئے۔ مذکورہ مصنفین کے ساتھ ساتھ منٹو نے لارڈلٹن، میکسم گورکی، چیخوف، پوشکن، گوگول، دوستو وسکی، والٹیر، اور موپساں کو بھی پڑھ ڈالا، بلکہ ان میں سے بعض کی کتابوں کا ترجمہ بھی کرکے باری صاحب کے حوالے کردیا، بعدازاں منٹو نے ’’ہمایوں‘‘ کے مدیر حامد خان کے تعاون سے روسی ادب سمبر مرتب کیا اور اس کے بعد ’’روسی افسانے‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب مرتب کرکے شائع کی۔ 1936ء میں منٹو کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’آتش پارے‘‘ کے نام سے شائع ہوا، اسی سال انہوں نے ’’عالمگیر‘‘ کا روسی ادب نمبر مرتب کیا۔ منٹو علی گڑھ سے لاہور منتقل ہوگئے تھے لیکن لاہور میں زیادہ عرصہ نہ رہ سکے اور بمبئی چلے گئے، جہاں انہوں نے ہفت روزہ ’’کاروان‘‘ کی ادارت سنبھال لی، اس کے ساتھ ہی دیگر سلسلے بھی جاری رہے۔ بمبئی میں منٹو کا قیام 1935-36ء سے 1948ء تک رہا، اس دوران تقریباً ڈیڑھ سال تک وہ انڈین ریڈیو سے وابستگی کے باعث دہلی میں رہے۔ بمبئی چونکہ اس زمانے میں فلم سازی کا سب سے بڑا مرکز تھا، چنانچہ منٹو نے وہاں مختلف فلم ساز کمپنیوں میں کہانی اور مکالمے لکھنے کا کام بھی کیا، ان میں سروج، مووی نون، امپیریل کمپنی فلمستان اور بمبئی ٹاکیز کے نام اہم ہیں۔ بمبئی ہی میں منٹو کی اپریل1939ء میں صفیہ بیگم سے شادی ہوئی، جن سے تین بیٹیاں نگہت، نزہت اور نصرت پیدا ہوئیں، جبکہ ایک بیٹا عارف بچپن ہی میں وفات پا گیا۔ 1948ء میں منٹو پاکستان آگئے اور لاہور ہی کو اپنا مسکن بنایا۔ یہاں انہوں نے اپنے قریب ترین دوست ممتاز نقاد، دانشور و ادیب صحافی محمد حسن عسکری کے ساتھ مل کر ’’اردو ادب‘‘ نامی پرچہ جاری کیا مگر صرف دو شمارے نکل سکے۔ منٹو کے چھ افسانوں دھاں، کالی شلوار، ٹھنڈا گوشت، کھول دو، اوپر نیچے، درمیان اور بو پر کورٹ میں حکومت کی جانب سے مقدمے دائر کیے گئے۔ احمد ندیم قاسمی کے ’’نقوش‘‘ سمیت کئی دیگر پرچے ضبط اور ان کی اشاعت کو معطل کیا گیا۔ منٹو نے1948ء تا وفات 18جنوری 1955ء اپنے قلم کی مزدوری کو جاری رکھا


سعادت حسن منٹو جدید اردو افسانے میں ایک بڑا اور معتبر نام ہے۔ منٹو نے نہ صرف یہ کہ اس صنف کو نئی جہتوں سے روشناس کرایا بلکہ ایسے مقام پر لاکھڑا کیا کہ جہاں پر اس کا مقابلہ عالم افسانوی ادب سے بڑے فخر اور اعتماد کے ساتھ کیا جاسکتا ہے۔ صرف بیس اکیس سال کی مدت میں دو سو سے زائد انتہائی اعلیٰ اور معیاری افسانے تخلیق کرنے کے علاوہ بے شمار مضامین، خاکے اور ڈیڑھ سو سے زائد ڈرامے تحریر کیے۔



سعادت حسن منٹو: ٹھنڈا گوشت، وہ افسانہ جو منٹو کے لیے بہت گرم ثابت ہوا





اُردو کی متعدد تصانیف ایسی ہیں جن پر مختلف الزامات کے تحت مقدمات چلے، وہ تصانیف ضبط ہوئیں اور بعض مصنفین کو قید و بند یا جرمانے کی صعوبتیں بھی برداشت کرنی پڑیں۔ ان تصانیف میں ڈپٹی نذیر احمد کی ’امہات الامہ‘، منشی پریم چند کی ’سوز وطن‘ اور ترقی پسند افسانہ نگاروں کے مجموعے ’انگارے‘ کے نام سرفہرست ہیں۔ مگر سعادت حسن منٹو تمام مصنفین پر بازی لے گئے۔ قیام پاکستان سے قبل منٹو کے تین افسانوں ’کالی شلوار‘، ’دھواں‘ اور ’بُو‘ پر فحاشی کے الزام میں مقدمات چلے۔ ان مقدمات میں سزائیں بھی ہوئیں لیکن ہر مرتبہ اپیل کرنے پر عدالت میں منٹو اور ان کے افسانوں کو فحاشی کے الزام سے بری کر دیا گیا۔ قیام پاکستان کے بعد سعادت حسن منٹو نے جو پہلا افسانہ تحریر کیا اس کا نام ’ٹھنڈا گوشت‘ تھا۔ یہ ناصرف قیام پاکستان کے بعد منٹو کی پہلی تخلیق تھا بلکہ اپنی مخصوص نوعیت کے اعتبار سے بھی اس کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ منٹو کا یہ شہرہ آفاق افسانہ لاہور کے ادبی ماہنامہ ’جاوید‘ کی مارچ 1949 کی اشاعت میں شائع ہوا تھا۔ روزنامہ ’انقلاب‘ میں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق 30 مارچ کو رسالے کے دفتر پر چھاپہ پڑا اور رسالے کی تمام کاپیاں ضبط کر لی گئیں۔




خبر میں بتایا گیا کہ چھاپے کا سبب ’ٹھنڈا گوشت‘ کی اشاعت تھی۔ اس خبر میں اس بات پر بھی تعجب کا اظہار کیا گیا تھا کہ یہ رسالہ ایک دن پہلے ہی مارکیٹ میں آیا تھا۔ سات مئی 1949 کو حکومت پنجاب کی پریس برانچ نے سعادت حسن منٹو کے علاوہ ’جاوید‘ کے مدیر عارف عبدالمتین اور ناشر نصیر انور کے خلاف ٹھنڈا گوشت کی اشاعت پر مقدمہ درج کروا دیا۔ منٹو نے ٹھنڈا گوشت پر چلنے والے مقدمے کی مکمل روداد اسی نام سے چھپنے والے افسانوی مجموعے کے پیش لفظ میں ’زحمت مہر درخشاں‘ کے نام سے تحریر کی ہے۔ منٹو لکھتے ہیں کہ ’جب میں ہندوستان کی سکونت ترک کر کے جنوری 1948 میں لاہور پہنچا تو تین مہینے تک میرے دماغ کی حالت عجیب و غریب رہی۔ مجھے سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ میں کہاں ہوں؟ ہندوستان میں ہوں یا پاکستان میں۔ بار بار دماغ میں الجھن پیدا کرنے والا سوال گونجتا، کیا پاکستان کا ادب علیحدہ ہو گا؟ اگر ہوگا تو کیسے ہو گا؟‘ وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’وہ سب کچھ جو سالم (غیر منقسم) ہندوستان میں لکھا گیا ہے اس کا مالک کون ہے؟ کیا اس کو بھی تقسیم کیا جائے گا؟ کیا ہندوستانیوں اور پاکستانیوں کے بنیادی مسائل ایک جیسے نہیں؟ کیا ہماری ریاست مذہبی ریاست ہے؟ ریاست کے تو ہم ہر حالت میں وفادار رہیں گے مگر کیا ہمیں حکومت پر نکتہ چینی کی اجازت ہو گی؟ آزاد ہو کر کیا یہاں کے حالات فرنگی عہد حکومت کے حالات سے مختلف ہوں گے؟‘


اس کے بعد منٹو فیض، چراغ حسن حسرت، احمد ندیم قاسمی اور ساحر لدھانوی سے ملے مگر کوئی بھی ان کے سوالات کا جواب نہیں دے سکا۔ اُنھوں نے ہلکے پھلکے مضامین لکھنے شروع کیے جو ’امروز‘ میں شائع ہوئے۔ مضامین کا یہ مجموعہ بعد میں ’تلخ، ترش اور شیریں‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ اسی زمانے میں احمد ندیم قاسمی نے لاہور سے ’نقوش‘ جاری کیا۔ قاسمی صاحب کی فرمائش پر منٹو نے پاکستان میں اپنا پہلا افسانہ ’ٹھنڈا گوشت‘ تحریر کیا۔ منٹو لکھتے ہیں کہ قاسمی صاحب نے یہ افسانہ میرے سامنے پڑھا۔ افسانہ ختم کرنے کے بعد اُنھوں نے مجھ سے معذرت بھرے لہجے میں کہا ’منٹو صاحب، معاف کیجیے، افسانہ بہت اچھا ہے، لیکن نقوش کے لیے بہت گرم ہے۔‘


چند دن کے بعد قاسمی صاحب کی فرمائش پر منٹو نے ایک اور افسانہ لکھا جس کا عنوان ’کھول دو‘ تھا۔ یہ افسانہ نقوش میں شائع ہوا مگر حکومت نے نقوش کی اشاعت چھ ماہ کے لیے بند کر دی۔ اخبارات میں حکومت کے اس اقدام کے خلاف احتجاج ہوا مگر حکومتی حکم اپنی جگہ پر قائم رہا۔ جگدیش چندر ودھاون نے اپنی کتاب ’منٹو نامہ‘ میں لکھا ہے کہ احمد ندیم قاسمی کی معذرت کے بعد منٹو نے ’ٹھنڈا گوشت‘ ادب لطیف کے مدیر چودھری برکت علی کو دے دیا مگر پریس کے انکار کی وجہ سے یہ افسانہ اس رسالے میں شائع نہ ہو سکا۔ اس کے بعد منٹو نے یہ افسانہ ممتاز شیریں کو روانہ کیا مگر اُنھوں نے بھی اسے پسند کرنے کے باوجود چھاپنے سے معذرت کر لی۔ ممتاز شیریں کے بعد عارف عبدالمتین نے اپنے رسالے جاوید کے لیے منٹو سے ’ٹھنڈا گوشت‘ بہت اصرار سے مانگا۔ اس وقت یہ افسانہ ’سویرا‘ کے مالک چودھری نذیر احمد کے پاس تھا چنانچہ منٹو نے ایک رقعہ ان کے نام لکھ دیا ’یہ جاوید والے اپنا پرچہ ضبط کروانا چاہتے ہیں براہ کرم ان کو ٹھنڈا گوشت کا مسودہ دے دیجیے۔‘


عارف عبدالمتین نے یہ افسانہ حاصل کر لیا اور اسے اپنے ادبی رسالے جاوید کے مارچ 1949 کے ایڈیشن میں شائع کر دیا۔ منٹو نے لکھا ہے کہ جاوید پر ایک ماہ بعد چھاپہ پڑا جبکہ انقلاب میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق یہ چھاپہ جاوید کی اشاعت کے اگلے ہی دن پڑ گیا۔ منٹو کا بیان زیادہ درست محسوس ہوتا ہے کیونکہ اس وقت تک جاوید کا شمارہ لاہور اور بیرون لاہور تقسیم ہو چکا تھا۔ جاوید کے دفتر پر یہ چھاپہ پریس برانچ کے انچارج چودھری محمد حسین کی ایما پر مارا گیا تھا اور منٹو لکھتے ہیں کہ ’گو ضعیفی کے باعث چودھری محمد حسین کے ہاتھ کمزور ہو چکے تھے مگر اُنھوں نے زور کا ایک جھٹکا دیا اور پولیس کی مشینری حرکت میں آ گئی۔‘


ٹھنڈا گوشت منٹو کے لیے بہت گرم افسانہ ثابت ہوا، اس نے منٹو جیسے سخت جان کے کس بل نکال کر رکھ دیے۔ معاملہ پریس ایڈوائزری بورڈ کے سامنے پیش ہوا جس کے کنوینر پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر فیض احمد فیض تھے اور بورڈ میں سول اینڈ ملٹری گزٹ کے ایف ڈبلیو بسٹن، زمیندار کے مولانا اختر علی، نوائے وقت کے حمید نظامی، سفینہ کے وقار انبالوی اور جدید نظام کے امین الدین صحرائی شامل تھے۔ چودھری محمد حسین نے بورڈ کے سامنے پرچے کے دیگر باغیانہ اور اشتعال انگیز مضامین پیش کیے مگر بورڈ نے ان الزامات کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا لیکن نزلہ ٹھنڈا گوشت پر گِرا۔ فیض صاحب نے اسے غیر فحش قرار دیا مگر مولانا اختر علی، وقار انبالوی اور حمید نظامی نے اسے ’ملعون‘ قرار دیا۔ فیصلہ یہ ہوا کہ اب معاملہ عدالت پر چھوڑ دیا جائے۔ چند دن بعد منٹو اور جاوید کے ناشر نصیر انور اور مدیر عارف عبدالمتین گرفتار کر لیے گئے۔ منٹو کی ضمانت ان کے دوست شیخ سلیم نے دی، ممتاز شاعر اور ماہر قانون میاں تصدق حسین خالد نے خود بھی مقدمے کی پیروی کرنے کی پیشکش کی جو منٹو نے شکریے کے ساتھ منظور کر لی۔ مقدمہ مجسٹریٹ اے ایم سعید کی عدالت میں پیش ہوا۔ استغاثے کی جانب سے مسٹر محمد یعقوب، محمد طفیل حلیم، ضیا الدین احمد اور چند دیگر افراد پیش کیے گئے۔ صفائی کے گواہان کے لیے 30 افراد کی فہرست پیش کی گئی تو مجسٹریٹ صاحب نے کہا کہ ’میں اتنا ہجوم نہیں بلا سکتا‘ بہت رد و کد کے بعد وہ 14 گواہ بلانے پر تیار ہوئے جن میں کل سات گواہ عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔ ان گواہان میں سید عابد علی عابد، احمد سعید، ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم، ڈاکٹر سعید اللہ، فیض احمد فیض، صوفی غلام مصطفیٰ تبسم اور ڈاکٹر آئی لطیف نے منٹو کے حق میں بیانات قلمبند کروائے۔ عدالت کی جانب سے چار گواہ تاجور نجیب آبادی، آغا شورش کاشمیری، ابو سعید بزمی اور محمد دین تاثیر پیش ہوئے۔ پہلے تین گواہان نے افسانے کو ’ذلیل، گندا اور قابل اعتراض‘ قرار دیا جبکہ ڈاکٹر تاثیر کا کہنا یہ تھا کہ یہ افسانہ ادبی لحاظ سے ناقص ہے لیکن ہے ادبی۔


کچھ ایسے الفاظ ہیں جن کو ناشائستہ کہا جاسکتا ہے لیکن میں فحش اس لیے نہیں کہتا کہ لفظ فحش کی تعریف کے متعلق میں خود واضح نہیں ہوں۔ ان گواہان کے بیانات کے بعد منٹو نے اپنا تحریری بیان داخل کیا۔ جگدیش چندر ودھاون لکھتے ہیں آخر 16 جنوری 1950 کی تاریخ آن پہنچی۔ عدالت نے ملزمان کو فحش افسانہ لکھنے اور چھاپنے کے الزام میں 300 روپے فی کس جرمانہ کی سزا سنائی اور منٹو کو تین ماہ قید جبکہ نصیر انور اور عارف عبدالمتین کو 21، 21 یوم کی قید بامشقت کی سزا سنا دی۔ ملزمان نے اس فیصلے کے خلاف سیشن عدالت میں اپیل کی جہاں مجسٹریٹ عنایت اللہ خان نے ملزمان کی اپیل منظور کرتے ہوئے ماتحت عدالت کا فیصلہ منسوخ کر دیا اور تینوں ملزمان کو باعزت بری کرتے ہوئے ان کا ادا کردہ جرمانہ واپس کرنے کا حکم صادر کر دیا۔ مگر حکومت نے اس فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل دائر کر دی۔ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس محمد منیر اور جسٹس محمد جان نے اپیل کی سماعت کی۔ اُنھوں نے آٹھ اپریل 1952 کو اپنا فیصلہ سنایا۔ یہ فیصلہ بہت مدلل اور وزنی تھا اور فحاشی پر دیے گئے فیصلوں میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ جسٹس محمد منیر نے فحاشی کے بارے میں پیش کی جانے والی ہر دلیل کا بہت واضح جواب دیا اور فیصلے میں لکھا کہ ٹھنڈا گوشت کا خاکہ بے ضرر ہے مگر تفصیلات اور پیرایہ بیان فحش ہیں چنانچہ سعادت حسن منٹو اور ان کے ساتھیوں کو 300 روپے فی کس جرمانہ یا عدم ادائیگی جرمانہ کی صورت میں ایک ماہ قید سخت کی سزا کا حکم سنایا جاتا ہے۔


یوں پاکستان کی ادبی اور عدالتی تاریخ کا یہ منفرد مقدمہ اپنے انجام کو پہنچا۔


ٹھنڈا گوشت کا قضیہ ختم ہوا تو چند برس بعد منٹو ایک اور افسانے ’اوپر، نیچے اور درمیان‘ پر چلائے جانے والی فحاشی کے ایک اور مقدمے کی زد میں آ گئے۔ یہ افسانہ سب سے پہلے لاہور کے اخبار ’احسان‘ میں شائع ہوا۔ اس وقت تک چودھری محمد حسین وفات پا چکے تھے چنانچہ لاہور میں خیریت رہی مگر بعدازاں جب یہ افسانہ کراچی کے ایک پرچے ’پیام مشرق‘ میں شائع ہوا تو وہاں کی حکومت حرکت میں آئی اور منٹو کو عدالت میں طلب کر لیا گیا۔ یہ مقدمہ مجسٹریٹ مہدی علی صدیقی کی عدالت میں پیش ہوا جنھوں نے صرف چند سماعتوں کے بعد منٹو کو 25 روپے جرمانہ کیا، جرمانہ فوراً ادا کر دیا گیا اور یوں اس آخری مقدمے سے بھی منٹو کی خلاصی ہوئی۔ بلراج مین را نے اپنی کتاب ’دستاویز‘ میں لکھا ہے کہ ’مہدی علی صدیقی منٹو کے مداح تھے، اُنھوں نے اگلے روز منٹو کو کافی پینے کی دعوت دی۔ اُنھوں نے کافی کی دعوت کے دوران منٹو سے کہا کہ ’میں آپ کو اس دور کا بہت بڑا افسانہ نگار مانتا ہوں، آپ سے ملنے کا مقصد صرف یہ تھا کہ آپ یہ خیال دل میں لے کر نہ جائیں کہ میں آپ کا مداح نہیں۔‘


منٹو لکھتے ہیں ’میں سخت متحیر ہوا، آپ میرے مداح ہیں تو جناب آپ نے مجھے جرمانہ کیوں کیا؟‘ وہ مسکرائے اور کہا ’اس کا جواب میں آپ کو ایک برس کے بعد دوں گا۔‘


ایک برس بعد مہدی علی صدیقی نے اس مقدمے کی روداد ’پانچواں مقدمہ‘ کے عنوان سے ایک ادبی جریدے ’افکار‘ میں شائع کروائی مگر اس وقت تک منٹو وفات پا چکے تھے۔ مہدی علی صدیقی نے مقدمے کی یہ تمام روداد اپنی خود نوشت سوانح عمری ’بلا کم و کاست‘ میں بھی تحریر کی ہے۔


مہدی علی صدیقی نے اس مضمون میں لکھا کہ ’1954 کے آخری زمانے میں مجھے معلوم ہوا کہ منٹو نے ایک تازہ مجموعہ مضامین شائع کیا ہے جس کا نام ہے اوپر، نیچے اور درمیان۔‘


’مجھے حیرت بھی ہوئی اور خوشی بھی جب لوگوں نے بتایا کہ منٹو نے یہ مجموعہ میرے نام سے معنون کیا ہے۔ ان کی پرخلوص محبت اور بے تکلف اعتبار کا اس سے بہتر ثبوت ملنا مشکل ہے۔ میں ایک غیر معروف سا آدمی خوش ہوں کہ شاید یوں ہی میرا نام 'نوادر ادبی' کے روپ میں کچھ دنوں ادبی دنیا میں رہ جائے۔‘


مالک و مصنف: کاشف فاروق۔




No comments:

Post a Comment