پاکستان بلکہ دنیا بھر میں امیری اور غریبی کی دیوار
کچھ عرصہ پہلے میں ایک مشہور فرانسیسی مفکر پیرے جوزف
(Francois Leclerc du Tremblay)
کو پڑھ رہا تھا تو ان کے جملے نے مجھے چونکا دیاتھا۔ وہ جملہ تھا کہ ساری جائیداد چوری کا مال ہوتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں سبھی امیر چور‘ڈکیت ہیں۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے‘ ایسا میں سوچتا تھا، لیکن اب جبکہ دنیا میں، میں غریبی اور امیری کی دیوار دیکھتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ اس فرانسیسی انارکسٹ مفکر کی بات میں کچھ نہ کچھ سچائی ضرور ہے۔ کارل مارکس کے داس کیپٹل اور خاص طور پر کمیو نسٹ مینی فیسٹوکو پڑھتے ہوئے میں نے آخر میں یہ جملہ بھی دیکھا کہ مزدوروں کے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں ہے، صرف ان کی زنجیروں کے علاوہ۔ اب ان دونوں جملوں کا پورا مطلب سمجھ میں تب آنے لگتا ہے جب ہم دنیا کے امیر اور غریب ممالک اور لوگوں کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنے لگتے ہیں۔ امیر‘ امیر کیوں ہے اور غریب‘ غریب کیوں ہے اس سوال کا جواب ہم تلاش کرنے چلیں تو معلوم پڑے گا کہ امیر‘ امیر اس لئے نہیں ہے کہ وہ بہت ذہین ہے یا وہ بہت زیادہ محنتی ہے یا اس پر قسمت مہربان ہے۔ اس کی امیری کا راز اس چالاکی میں چھپا ہوتا ہے جس کے دم پر مٹھی بھر لوگ پیداوار کے وسائل پر قبضہ کرلیتے ہیں اور محنت کش لوگوں کو اتنی مزدوری دے دیتے ہیں تاکہ وہ کسی طرح زندہ رہ سکیں۔ یوں تو ہر شخص اس دنیا میں خالی ہاتھ آتا ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ ایک شخص کا ہاتھ ہیرے موتیوں سے بھرا رہتا ہے اور دوسرے کے ہاتھ اینٹ‘ پتھر ہی ڈھوتے رہتے ہیں؟ ہماری سماجی بندوبست اور قانون وغیرہ اس طرح بنے رہتے ہیں کہ وہ اس عدم مساوات کو غیر اخلاقی یا غیر منصفانہ بھی نہیں مانتا۔ اس وقت دنیا میں کل جتنی بھی دولت ہے اس کا صرف دو فیصد حصہ 50 فیصد لوگوں کے پاس ہے جبکہ 10 فیصد امیروں کے پاس 76 فیصد حصہ ہے۔
آکسفم کی اس سال کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں سماجی عدم مساوات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور گزشتہ برس 2023ء کے دوران ارب پتی افراد کے اثاثوں میں 12 فیصد کا اضافہ ہوا جبکہ غربت کا شکار دنیا کی قریب نصف آبادی کو مزید 11 فیصد کا نقصان ہوا۔ آکسفم نے اس سال 2023ء کے شروع میں جاری کی گئی رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ کورونا وبا کے باعث معاشی طور پر متاثر ہونے والے دنیا کے ایک ہزار ارب پتی افراد نے اپنے معاشی نقصان کا ازالہ صرف نو مہینے میں پورا کر لیا جبکہ دنیا کے غریب ترین لوگوں کو اپنا معاشی نقصان پورا کرنے میں ایک دہائی لگ سکتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق دنیا کے ایک ہزار سفید فام ارب پتی افراد کے مقابلے میں کورونا وبا کے باعث غریب ہوجانے والے افراد کو واپس نارمل زندگی میں لوٹنے میں 14 گنا زیادہ طویل عرصہ لگے گا۔ جنوبی ایشیا کے غریب ترین خطے میں 101 ارب پتی افراد کو مارچ سے 174 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے جو کووڈ19 کے باعث غربت کے شکار 9 کروڑ 30 لاکھ کو فی کس ایک ہزار 800 ڈالر فراہم کرنے کے لیے کافی ہیں۔ اگر دنیا کی کل آمدنی سب لوگوں کو برابر برابر بانٹ دی جائے تو ہر آدمی لکھ پتی بن جائے گا۔ ان کے پاس 62 لاکھ 46 ہزار روپے کی جائیداد ہوگی۔ ہر آدمی کو تقریباً سوا لاکھ روپے مہینے کی آمدنی ہو جائے گی لیکن اصلیت کیا ہے؟ اب انڈیا میں 50 فیصد لوگ ایسے ہیں جن کی آمدنی صرف ساڑھے چار ہزار روپے مہینہ ہے۔ یعنی ڈیڑھ سو روپے یومیہ۔ کروڑوں لوگ ایسے ہیں جن کی آمدنی 100روپے روزانہ بھی نہیں ہے۔ انہیں روٹی، کپڑا ، مکان بھی ٹھیک سے دستیاب نہیں ہے۔ تعلیم، طب اور تفریح تو دور کی بات ہے‘ انہیں لوگوں کی محنت کے دم پر اناج پیدا ہوتا ہے، کارخانے چلتے ہیں اور متوسط اور اعلیٰ طبقے کے لوگ ٹھاٹ کرتے ہیں۔ امیری اور غریبی کی یہ کھائی بہت گہری ہے۔ اگر دونوں کی آمدنی اور خرچ کا تناسب ایک اور دس کا ہو جائے تو خوشحالی چاروں طرف پھیل سکتی ہے۔
اکثر و بیشتر لوگ کہا کرتے ہیں کہ غریبوں سے ہمدردی کرنا چاہیے اور یہ بھی کہتے ہیں کہ غریبی بہت اچھی چیز ہے، بہت اچھی بات ہے، اسلام غریبی میں پھلا پھولا ہے، کبھی کسی غریب کو دیکھا تو کہا ہائے ہائے، کبھی غریب کو دیکھا تو بات بھی نہیں کی، کبھی ساتھ بیٹھنے بھی نہیں دیا، بعض لوگ ساتھ میں لیوا کر کہیں جانے کے لئے تیار نہیں، بعض لوگ بات کرنے کے لئے بھی تیار نہیں، بعض لوگ بات سننے کے لئے بھی تیار نہیں اس وجہ سے بسا اوقات غریب کے دل سے آہ نکلتی ہے اور وہ اپنی قسمت پر روتا ہے۔ لیکن جب کسی دوسرے کو اپنے سے بھی زیادہ خستہ حالت میں دیکھتا ہے تو کچھ تسلی ہوتی ہے، اسے کچھ جینے کا حوصلہ ملتا ہے۔ کہنے کو تو ہر امیر ہر دولتمند یہ بات کہتا ہے کہ پیسہ ہاتھ کا میل ہے آج میرے ہاتھ کل کسی اور کے ہاتھ پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دولتمند ہوتے ہی مزاج کیوں بدل جاتا ہے، رہن سہن کیوں بدل جاتا ہے غریبوں سے گھٹن کیوں ہونے لگتی ہے
معلوم یہ ہوا کہ یہ بات وہ ایک محاورے کے طور پر کہہ رہا ہے، دکھاوے کے لئے کہہ رہا ہے حقیقت میں اسے اس بات کا یقین ہے کہ آج میرے پاس پیسہ ہے تو سب کچھ ہے میں جو چاہوں کرسکتا ہوں حکومت بھی غریبی کے خاتمے کا نعرہ بلند کرتی ہے بلکہ پوری دنیا غریبی کے خاتمے کی بات کرتی ہے لیکن جب سے دنیا قائم ہوئی ہے تب سے امیری و غریبی دونوں ہیں۔ اس لیے کہ یہ نظام الٰہی ہے اور ویسے بھی یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ دنیا میں ہر شخص ایک برابر ہوتا تو دنیا میں کیسے امن و امان قائم رہتا۔ دنیا کے جتنے ممالک ہیں ہر ملک میں وزیراعظم ایک ہوتا ہے ملک کی پوری عوام وزیراعظم نہیں ہوتی، پوری عوام صدر نہیں ہوتی، پوری عوام فوج نہیں ہوتی، پوری فوج جنرل نہیں ہوتی۔ جب دنیاوی سطح پر یہ نظام قائم ہے کہ ہر آدمی ایک برابر نہیں ہے تو پھر قدرت کے قانون کو کیسے چیلنج کیا جاسکتا ہے؟
اگر قدرت نے سب کو ایک برابر کیا ہوتا تو سب ووٹ مانگتے پھر ووٹ دیتا کون، سب رکشے پر بیٹھتے پھر رکشہ چلاتا کون اس وجہ سے قدرت نے حقوق العباد کا قیام کیا یعنی بندوں کا بندوں پر بھی حق ہے اور دل و دماغ دیکر سوچنے سمجھنے اور فیصلہ لینے کی صلاحیت سے انسان کو قدرت نے نوازا ورنہ اللہ کے خزانے میں کوئی کمی نہیں وہ چاہے تو پل بھر میں سارے کے سارے انسانوں کو مالدار بنادے۔ اس کے خزانے میں کمی نہ ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہمیں روز نظر آتی ہے کہ پوری دنیا کے انسانوں کا چہرہ الگ الگ ہے، آنکھوں کا لینس الگ ہے۔ ہاتھوں کا فینگر الگ الگ ہے۔ یہ تینوں چیزیں اس بات کا اعلان کررہی ہیں کہ قدرت کے خزانے میں کوئی کمی نہیں ہے۔
اگر قدرت تمہیں چھپر پھاڑ کر دے سکتی ہے تو چمڑی ادھیڑ کر لے بھی سکتی ہے اس لئے غریبوں کو حقارت کی نظر سے نہ دیکھو، غریبوں کا دل نہ دکھاؤ۔ فرعون لاؤلشکر سمیت دریائے نیل میں غرق کردیا گیا، قارون خزانہ سمیت زمین میں دھنسا دیا گیا، نمرود کو ایک مچھر کے ذریعے ہلاک کر دیا گیا، شداد کو خود اس کی بنوائی ہوئی جنت کی چوکھٹ پر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ پھر آج کا انسان کس کھیت کی مولی ہے جو یہ سوچ رہا ہے کہ ہم مالدار ہیں تو ہمارا بال باکا نہیں ہوسکتا۔ ایک دولتمند کے گھر میت ہوتی ہے۔ پورے شہر میں جنگل کی آگ کی طرح خبر پھیل جاتی ہے۔ اس کی آخری رسومات میں لوگوں کا ازدہام ہے۔ تاحد نگاہ جم غفیر ہے۔ بڑے بڑے امراء، رؤوسا، حکمراں سب کے سب آئے ہوئے ہیں۔ ارتھی اور جنازہ بھی کاندھے پر نہیں گاڑیوں پر رکھ کر لے جایا جارہا ہے لیکن آخر میں اسے مٹی میں ہی دفن کردیا جاتا ہے۔
اس کے برعکس، ایک غریب گھرانے میں موت ہوتی ہے کسی کو پتہ بھی چلتا ہے تو اسے کوئی حیرت نہیں ہوتی۔ وقت مقررہ پر اس کے قریبی ساتھی رشتہ دار کاندھے پر اٹھاتے ہیں جنازہ۔ آخری رسومات ادا کرتے ہیں اور اسی مٹی میں اسے بھی دفنا دیا جاتا ہے۔
دنیا میں رہنے کا طریقہ الگ الگ، سوسائٹی الگ الگ، نہ دولتمند کے ساتھ ایک دو لوگ دوچار دن قبر میں سونے کے خواہشمند ہوئے نہ غریب کے ساتھ تو پھر یہی احساس وقت رہتے کیوں نہیں ہوتا؟ جب آخری وقت ہوتا ہے تو غلطی کی معافی تلافی کی جاتی ہے۔ آخر یہی کام صحتمند رہتے ہوئے کیوں نہیں کیا جاتا؟ کتنی رشتہ داریاں بگڑجاتی ہیں امیری اور غریبی کے نام پر۔ کتنی دوستیاں ختم ہو جاتی ہیں امیری اور غریبی کے نام پر۔ نکاح، شادی بیاہ اور دوستیوں کو بہت مشکل بنادیا گیا ہے اور زنا کو آسان بنا دیا گیا ہے امیری اور غریبی کے نام پر۔ جہیز کا بازار بھی لگایا جاتا ہے اور جہیز کی آڑ میں موت کے گھاٹ بھی اتار دیا جاتا ہے۔ پھر بھی کہا جاتا ہے کہ غریبی بڑی اچھی چیز ہے۔ ایک طرف کوئی مخمل کے بستر پر سوتا ہے دوسری طرف کوئی اخبار بچھا کر فٹپاتھ پر سوتا ہے۔ زندگی کا گذر بسر تو دونوں کا ہورہا ہے لیکن ایک کا آرام سے دوسرے کا تکلیف سے مگر آج کے حالات پہ نظر دوڑا نے سے یہ بات تو واضح ہوجاتی ہے کہ انسانوں کی بھیڑ میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
مگر انسانیت میں کمی آتی جارہی ہے۔ غریبی کے خاتمے کا خواب دیکھا کر سیاست تو خوب کی جاتی ہے مگر غریبوں کو راحت پہنچانے کے لیے کچھ بھی نہیں کیا جاتا۔ اب تو دینی، سیاسی، سماجی غرضیکہ ہر شعبے، ہر میدان میں امیری اور غریبی کی دیواریں مزید اونچی کی جا رہی ہیں اور معاشرے میں بھی دولتمند کو ہی ہر میدان میں ترجیح دی جاتی ہے۔ چاہے وہ جاہل ہی کیوں نہ ہو۔ اب تو یہاں تک ہونے لگا ہے کہ سردیوں میں کسی کو کمبل دیدئے اور بیماریوں میں کسی کو دوچار پھل دے دئیے تو اس کی تصویر کھینچا کر ایسے وائرل کیا جاتا ہے کہ اس غریب کا جینا مشکل ہوجاتا ہے یعنی دو پیسہ ہاتھ میں اس کے رکھ کر اس کی خودداری چھین لی جاتی ہے اور حد تو یہ ہے کہ ایسی مکاری، فریبی چال والی بیماری مسلمانوں کے اندر بھی بہت زیادہ پائی جاتی ہے۔
زکوٰۃ کی رقم دے کر بھی بہت سے لوگوں کو اس وقت تک چین نہیں ملتا جب تک کہ چار آدمی سے بتا نہ دیں۔ حالانکہ اسلامی تاریخ میں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا ایک واقعہ ملتا ہے کہ انہوں نے ایک غریب آدمی کے پاس امدادی رقم بھیجی تو یہ کہہ دیا تھا کہ ان سے یہ نہ بتانا کہ یہ رقم کس نے دی ہے، ان سے تم بھلے سلام کرنا لیکن میرا سلام نہ کہنا، ہوسکے تو ان کے ہاتھ میں رقم نہ دیکر ان کی طرف بڑھاتے ہوئے ان کے قریب رکھ دینا۔ وہ صاحب جب رقم دیکر واپس آئے تو حضرت عائشہ صدیقہ سے پوچھا کہ آپ نے اپنا سلام کہنے سے کیوں منا کیا اور دوسری بات یہ کہ پیسہ ہاتھ میں دینے سے کیوں منا کیا تو حضرت عائشہ نے کہا کہ تم میرا سلام کہتے تو ہوسکتا ہے کہ وہ پھر کبھی ایسی حالت میں ہوتے کہ انہیں پھر امداد کی ضرورت پڑتی اور مجھ تک پیغام یہ سوچ کر نہیں پہچا تے کہ ان کے پاس سے ایک بار امدادی رقم اچکی ہے اس لیے میں نے یہ سوچا کہ انہیں معلوم ہی نہ ہو کہ یہ رقم عائشہؓ نے بھیجی ہے اور ہاتھ میں نہ دینے کے لیے اس وجہ سے کہا کہ تم ہاتھ میں دیتے تو ہوسکتا تھا کہ ان کا ہاتھ نیچا ہوتا اور تمہارا ہاتھ اوپر ہوتا تو کہیں تمہارے دل میں یہ خیال نہ پیدا ہوجاتا کہ لینے والے کا ہاتھ نیچے اور دینے والے کا ہاتھ اوپر ہے تو کہیں تم تکبر نہ کر بیٹھتے۔
بہت سے علماء کرام نے بیان کیا ہے کہ حضرت عائشہ نے اپنے بھانجے عروہ سے یہ رقم بھیجی تھی بہر حال اس واقعے سے امدادی سامان و رقم کا پرچار پرسار کرنے والوں کو عبرت حاصل کرنا چاہیئے بلکہ اس واقعے سے ہر خاص و عام کو سبق حاصل کرنے کی ضرورت ہے اس لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین جو مالدار تھے وہ اپنی دولت سے جنت کا سامان خریدا کرتے تھے اور آج کا مسلمان بھی مدارس سے لیکر خانقاہوں تک صرف مرغ و ماہی کا انتظام کرنے والوں اور مٹھیوں کو موٹی موٹی رقم سے گرم کرنے والوں کو اہمیت دیتا ہے اور غریب مریدین تک کو قریب تک بیٹھنے کی جگہ نہیں دیتا کوئی بڑے حوصلے سے دعوت دیتا ہے تو اس کے وہاں جانے سے کتراتے ہیں اور کسی کے وہاں اس انداز سے جاتے ہیں کہ کھانے کے بعد دسترخوان پر ہاتھ اٹھاکر اجتماعی دعا تک کرتے ہیں کیا اس سے غریبوں کو ٹھیس نہیں لگتی، کوئی آپ کو نذرانہ دے تو اس سے مصافحہ کریں اور گلے بھی لگائیں اور کوئی ہاتھ بڑھائے تو اسے اشاروں اشاروں میں کہیں ہاں ٹھیک ہے ٹھیک ہے تو کیا اس غریب مرید کو ٹھیس نہیں پہنچے گی۔ پھر بھی اسٹیج سے خطابت کے انداز میں کہیں کہ غریبی بڑی اچھی چیز ہے تو دنیا چاہے کچھ بھی کہے میں تو یہی کہوں گا کہ ایسا کرنے والا پیر نہیں بلکہ روٹی توڑ فقیر ہے، یہ واعظ نہیں بلکہ یہ ایک شعبدہ باز ہے اس کا انداز خطاب ایک فن ہے فن اس سے بڑھ کر کچھ نہیں –
مالک و مصنف: کاشف فاروق۔
...
No comments:
Post a Comment