URDU STORIES:

اردو ادب اور کہانیوں میں خوش آمدید ۔ قصہ کہانیاں، غزلیں، نظمیں، واقعات، طنزومزاح، لاہور کی پنجابی، کچھ حقیقت کچھ افسانہ، پراسرار خواب والی ٹیکنالوجی، میری فیملی کا ذاتی شجرہ نسب سن 1790ء تا 2023ء۔، قومی پیمانہ، تباہی و زلزلے، دو سو سالہ کیلینڈر، اردو سافٹ وئیر ڈاؤنلوڈ۔

Friday, September 16, 2022

LAHORE KA GOGRAFIA - GEOGRAPHY OF LAHORE - BY PITRAS BUKHARI - لاهور کا جغرافیه ۔ از پطرس بخاری

 

لاهور کا جغرافیه
از پطرس بخاری





تمهید

تمهید کے طور پر صرف اتنا عرض کرنا چاہتا ہوں که لاہور کو دریافت ہوئے اب بهت عرصه گزر چکا ہے۔ اس لیے دلائل و براہین سے اس کے وجود کو ثابت کرنے کی ضرورت نهیں۔ یه کهنے کی اب ضرورت نهیں که کرے کو دائیں سے گھمایئے حتی که ہندوستان کا ملک آپ کے سامنے آکر ٹههر جائے۔ پھرفلاں طول البلد، عرض البلد کے مقام القطاع پر لاہور کا نام تلاش کیجیئے۔ جهاں یه نام کره پر موقف ہو وہی لاہور کا محل وقوع ہے۔ اس تحقیقات کو مختصر مگر جامع الفاظ میں بزرگ یوں بیان کرتے ہیں که لاہور، لاہور ہے۔ اگر اس پتے سے آپ کو لاہور نهیں مل سکتا تو آپ کی تعلیم ناقص اور آپ کی ذہانت فاتر ہے۔

محل وقوع

ایک دو غلطیاں البته ضرور رفع کرنا چاہتا ہوں که لاہور پنجاب میں واقع ہے، لیکن پنجاب اب پنج آپ نهیں رہا۔ اس پانچ دریاؤں کی زمین میں اب صرف ساڑھے چار دریا بہتے ہیں اور جو نصف دریا ہے وه تو اب بهنے کے قابل ہی نهیں رہا۔ اسی کو اصطلاع میں راوی ضعیف کهتے ہیں۔ ملنے کا پته یه ہے که شهر کے قریب دو پل بنے ہوئے ہیں، ان کے نیچے ریت میں یه دریا لٹا رہتا ہے۔ بهنے کا شغل عرصے سے بنا ہے یه بتانا مشکل ہے اس لیے شهر دریا کے کنارے پر واقع ہے یا بائیں کنارے پر، لاہور تک پهنچنے کے لیے کئ راستے ہیں، لیکن دو ان میں سے بهت مشهور ہیں ایک پشاور سے آتا ہے دوسرا دہلی سے، وسطی ایشیا کے حمله آور پشاور کے راستے، اور یوپی کے حمله آور دہلی کے راستے وارد ہوتے ہیں۔ اول الذکر اہل سیف کهلاتے ہیں   اور غزنوی یا غوری تخلص کرتے ہیں اور اس میں ید طولٰی رکھتے ہیں۔

حدود و اربع

کها جاتا ہے که کسی زمانے میں لاہور کا جغرافیه حدود و اربع بھی ہوا کرتا تھا، لیکن طلباء کے سهولت کے لیے میونسپلٹی نے اسے منسوخ کردیا ہے اب لاہور کے چاروں طرف لاہور ہی لاہور واقع ہے اور روز بروز واقع تر ہورہا ہے۔۔۔۔۔۔۔ ماهرین کا اندازه ہے که دس بیس سال کے اندر اندر لاہور ایک صوبے کا نام ہوگا جس کا دارالخلافه پنجاب ہوگا۔ یوں سمجھیئے  که لاہور ایک جسم ہے جس کے هر حصے پر ورم نمودار ہورہا ہے لیکن هر ورم مواد فاسد سے بھرا ہے، گویا یه وسیع عارضه ہے جو اس جسم کا لاحق ہے۔

آب و ہوا

لاہور کی آب و ہوا کے متعلق طرح طرح کی روایات مشهور ہیں، جو تقریباً سب غلط ہیں۔ حقیقت یه ہے که لاہور کے باشندوں نے حال ہی میں یه خواہش ظاهر کی تھی که اور شهروں کی طرح ہمیں بھی آب و ہوا دی جائے، میونسپلٹی بڑی بحث و تمحیص کے بعد اس نتیجے پر پهنچی که اس ترقی کے دور میں جبکه دنیا میں کئ ممالک کو ہوم رول مل رہا ہے اور لوگوں میں بیداری کے آثار پیدا ہو رہے ہیں، لاہور کی یه خواہش ناجائز نهیں بلکه ہمدردانه غور و حوض کی مستحق ہے۔ لیکن بدقسمتی سے کمیٹی کے پاس ہوا کی قلت تھی اس لیے لوگوں کو ہدایت کی گئ که مفاد عامه کے پیش نظر اہل شهر پر ہوا کا بے جا استعمال نه کریں بلکه جهاں تک ہوسکے، کفایت شعاری سے کام لیں۔ چنانچه لاہور میں عام ضروریات کے لیے ہوا کی بجائے گرد اور خاص خاص حالات میں دھواں استعمال کیا جاتا ہے۔ کمیٹی نے جابجا دھواں اور گرد کے مهیا کرنے کے لیے لاکھوں مرکز کھول دیئے ہیں، جهاں یه مرکبات مفت تقسیم کیئے جاتے ہیں۔ امید کی جاتی ہے که اس سے نهایت تسلی بخش نتائج برآمد ہوں گے۔

بہم رسانی آب و ہوا کے لیے ایک اسکیم عرصے سے کمیٹی کے زیر غور ہے، یه اسکیم نظام سقے کے وقت چلی آتی ہے، لیکن مصیبت یه ہے که نظام سقے کے اپنے ہاتھ کے لکھے ہوئے مسودات بعض تو تلف ہوچکے ہیں اور جو باقی ہیں ان کے پڑھنے میں بهت دقت پیش آرہی ہے، اس لیے ممکن ہے که تحقیق و تدقیق میں بھی چند سال اور لگ جائیں، عارضی طور پر پانی کا یه انتظام کیا گیا ہے که فی الحال بارش کے پانی کو حتی الوسع شهر سے باهر نکلنے نهیں دیتے، اس میں کمیٹی کو بهت کامیابی ہوئ ہے۔ امید کی جاتی ہے که تھوڑے ہی عرصے میں هر محلے کا اپنا ایک دریا ہوگا جس میں رفته رفته مچھلیاں پیدا ہوں گی۔ اور هر مچھلی کے پیٹ میں ایک انگوٹھی ہوگی جو رائے دهندگی کے موقع پر هر رائے دهنده پهن کر آئے گا۔

نظام سقے کے مسودات سے اس قدر ضرو ثابت ہوا ہے که پانی پهنچانے کےلیے ایک نه ایک دن یه گیسیں ضرور مل کرپانی بن جائیں گی۔ چنانچه بعض تلوں میں اب بھی چند قطرے روزانه ٹپکتے ہیں، اہل شهر کو ہدایت کی گئ ہے که اپنے اپنے گھڑے تلوں کے نیچے رکھ دیں تاکه عین وقت پر تاخیر کی وجه سے کسی کی دل شکنی نه ہو، شهر کے لوگ اس پر بهت خوشیاں منارہے ہیں۔

ذرائع آمدورفت

جو سیاح لاہور تشریف لانے کا اراده رکھتے ہیں ان کو یهاں کے آمد و رفت کے ذرائع کے متعلق چند ضروری باتیں ذہن نشین کرلینی چاہئیں، تاکه وه یهاں کی سیاحت سے کماحقه اثر پزیر ہوسکیں۔ جو سڑک بل کھاتی ہوئ لاہور کے بازاروں میں سے گزرتی ہے، تاریخی اعتبار سے بهت اہم ہے۔ یه وہی سڑک ہے جو شیر شاه سوری نے بنوائ تھی۔ یه آثار قدیمه میں شمار ہوتی ہے اور بے حد احترام کی نظروں سے دیکھی جاتی ہے۔ چنانچه اس میں کسی قسم کا ردودبل گواره نهیں کیا جاتا۔ وه قدیم تاریخی گڑھے اور خندقیں جوں کی توں موجود ہیں جنهوں نے کئ سلطنوں کے تختے الٹ دئیے   تھے۔ آج کل بھی کئ لوگوں کے تختے یهاں الٹتے ہیں اور عظمت رفته کی یاد دلا کر انسان کو عبرت سکھاتے ہیں۔ بعض لوگ زیاده عبرت پکڑنے کے لیے ان تختوں کے نیچے کهیں کهیں دو ایک پیسے لگا لیتے ہیں اور سامنے دو ہل لگا کر ایک گھوڑا ٹانگ دیتے ہیں۔ اصطلاح میں اس کو تانگه کهتے ہیں، شوقین لوگ اس پر موم جامه منڈھ لیتے ہیں تاکه پھسلنے میں سهولت ہو اور بهت زیاده عبرت پکڑی جاسکے۔ اصل اور خالص گھوڑے لاہور میں خوراک کے نام آتے ہیں، قصابوں کی دونوں پر انهیں کا گوشت بکتا ہے اور زین کس کر کھایا جاتا ہے۔ تانگوں میں ان کے بجائے بناسپتی گھوڑے استعمال کئیے جاتے ہیں بناسپتی گھوڑے شکل و صورت میں دم دار ستارے سے ملتے جلتے ہیں۔ کیونکه ان گھوڑوں کی ساخت میں دم زیاده اور گھوڑا کم پایا جاتا ہے حرکت کے وقت اپنی دم کو دبا لیتا ہے اور ضبط نفس سے اپنی رفتار میں ایک سنجیده اعتدال پیدا کرتا ہے تاکه سڑک کا هر تاریخی گڈھا اور تانگے کا هر ہچکوله اپنے نقش پر ثبت کرتا جائے اور آپ کا هر ایک قدم لطف اندوز ہوسکے۔

قابل دید مقامات

لاہور میں قابل دید مقامات مشکل سے ملتے ہیں، اسکی وجه یه ہے که لاہور کی هر عمارت کی بیرونی دیواریں دوهری بنائ جاتی ہیں۔ پهلے اینٹوں اور چونے سے دیواریں کھڑی کردی جاتی ہیں پھر اس پر اشتهار کا پلستر کردیا جاتا ہے جو دبازت میں رفته رفته بڑھ جاتا ہے۔ شروع شروع میں چھوٹے سائز کے مبهم اور غیر معروف اشتهارات چپکا دیے جاتے ہیں، مثلاً اہل لاہور کو مژده یا اچھا سستا مال، اس کے بعد اشتهاروں کی باری آتی ہے، جن کے مخاطب اہل علم و سخن فهم لوگ ہوتے ہیں مثلاً گریٹ درزی ہاؤس یا سٹوڈنٹس کے لیے نادر موقع، یا کهتی ہے ہم کو خلق خدا غائبانه کیا۔ رفته رفته گھر کی چار دیواری مکمل ڈائرکٹری کی صورت اختیار کرلیتی ہے، دروازے کے اوپر بوٹ پالش کا اشتهار دائیں طرف تازه مکھن ملنے کا پته درج ہے، بائیں طرف حافظ کی گولیوں کا بیان ہے، اس کھڑکی کے اوپر انجمن خدام ملت کے جلسے کا پروگرام ہے، اس کھڑکی پر مشهور لیڈر کے خانگی حالات باوضاحت بیان کردئے گئے ہیں۔ عقبی دیوار پر سرکس کے تمام جانوروں کی فهرست ہے اور اصطبل کے دروازے پر مس نغمه جان کی تصویر اور ان کے حالات گنوا رکھے ہیں۔ یه اشتهارات بڑی سرعت سے بدلتے رہتے ہیں اور هر نیا مژده اور نهر نئ دریافت یا ایجاد یا انقلاب نسیم کی ابتلا چشم زدن میں هر ساکن چیز پر لیپ کردی جاتی ہے، اسی لیے عمارتوں کی ظاهری صورت هر لمحه بدلتی رہتی ہے، اور انکو پهچاننے میں خود شهر کے لوگوں کو بڑی دقت پیش آتی ہے۔

لیکن جب سے لاہور میں دستور رائج ہوا ہے که بعض اشتهاری کلمات پخته سیاہی سے خود دیوار پر نقش کردیئے جاتے ہیں یه دقت بهت حد تک رفع ہوگئ ہے، ان دائمی اشتهاروں کی بدولت اب یه خدشه باقی نهیں رہا که کوئ شخص اپنایا اپنے کسی دوست کا مکان صرف اس لیے بھول جائیں که پچھلی مرتبه چارپائیوں کا اشتهار لگا تھا اور لوٹتے وقت تک وہاں اہالیان لاہور کو تازه اور سستے جوتوں کو مژده سنایا جارہا ہے چنانچه اب وثوق سے کها جاسکتا ہے که جهاں بحرف جلی محمد علی دندان ساز لکھا ہے وہاں ڈاکٹر اقبال رہتے ہیں، خالص گھی کی مٹھائ امتیاز علی تاج کا مکان ہے، کرشنا بیوٹی کریم شالامار باغ کو اور کھانسی کا مجرب نسخه جهانگیر کے مقبرے کو جاتا ہے۔

صنعت و حرفت

اشتهاروں کے علاوه لاہور کی سب سے بڑی صنعت رساله سازی ہے اور سب سے بڑی انجمن سازی ہے، هر رسالے کا نمبر خاص نمبر ہوتا ہے اور عام نمبر صرف خاص خاص موقعوں پر شائع کیئے جاتے ہیں۔ عام نمبر میں مس سلوچنا اور مس کجن کی تصاویر بھی دی جاتی ہیں۔ اس سے ادب کو بهت فروغ ملتا ہے اور فن تنقید ترقی کرتا ہے۔ لاہور کے هر مربع انچ میں ایک انجمن موجود ہے، پریزیڈنٹ البته چوڑے ہیں۔ اس لیے فی الحال صرف دو تین اصحاب ہیں، چھ اہم فرض ادا کررہے ہیں چونکه ان انجمنوں کے اغراض و مقاصد مختلف ہیں، اس لیے بسا اوقات ایک ہی صدر صبح کسی مذہبی کانفرنس کا افتتاح کرتا ہے سه پهر کو کسی سینما کی انجمن میں مس نغمه جان کا تعارف کراتا ہے اور شام کو کسی کرکٹ ٹیم کے ڈنر میں شامل ہوتا ہے۔ اس سے ان کا مطمع نظر وسیع رہتا ہے۔ تقریر عام طور پر ایسی ہوتی ہے جو تینوں موقع پر کام آسکتی ہے، چنانچه سامعین کو بهت سهولت رہتی ہے۔

پیداوار

لاہور کی سب سے مشهور پیداوار یهاں کے طلباء ہیں جو بهت کثرت سے پائے جاتے ہیں اور هزاروں کی تعداد میں وساور کو بھیجے جاتے ہیں۔ فصل شروع سرما میں بوئ جاتی ہے اور عموماً اواخر بهار میں پک کر تیار ہوتی ہے۔ طلباء کی کئ قسمیں ہیں جن میں چند مشهور ہیں۔ قسم اول جمالی کهلاتی ہے، یه عام طور پر درزیوں کے یهاں تیار ہوتے ہیں، بعد ازاں دھوبی اور پھر نائ کے پاس بھیجے جاتے ہیں اور اس عمل کے بعد کسی ریستوران میں ان کی نمائش کی جاتی ہے۔ غروب آفتاب کے بعد ہی سینما یا سینما کے گرد و نواح میں۔

رخ روشن کے آگے شمع رکھ کر وه یه کهتے ہیں

ادھر جاتا ہے دیکھیں یا ادھر آتا ہے پروانه


شمعیں کئ ہوتی ہیں، لیکن سب کی تصویر ایک البم میں جمع کرکے اپنے پاس رکھ چھوڑتے ہیں اور تعطیلات میں ایک ایک کو خط لکھتے ہیں۔

دوسری قسم جلالی طلباء کی ہے۔ ان کا شجره جلال الدین اکبر سے ملتا ہے۔ اسلیے ہندوستان کا تخت و تاج ان کی ملکیت سمجھا جاتا ہے۔ شام کے وقت چند مصاحبوں کا ساتھ لیئے نکلتے ہیں اور جو دو سخا کا خم لنڈھاتے پھرتے ہیں، کالج کی خوراک انهیں راس نهیں آئ، اس لیے ہوسٹل میں فردکش نهیں ہوتے۔

تیسری قسم خیالی طلباء کی ہے۔ یه اکثر روپ، اخلاق، اور آواگون، اور جمهوریت پر باواز بلند تبادله خیالات کرتے پائے جاتے ہیں اور آفرینش اور نفسیاتی غیبی کے متعلق نئے نئے نظریئے پیش کرتے رہتے ہیں۔ صحت جسمانی کی ارتقاء انسانی کے لیے ضروری سمجھتے ہیں۔ اس لیے علی الصباح پانچ چھ ڈنیٹر پیلتے ہیں اور شام کو ہوسٹل کی چھت پر گھرے سانس لیتے ہیں۔ گاتے ہیں لیکن بے سرے ہوتے ہیں۔

چوتھی قسم خالی طلباء کی ہے۔ یه طلباء کی خالص ترین قسم ہے۔ ان کا دامن کسی قسم کی آلائش سے تر ہونے نهیں پایا۔ کتابیں، امتحانات، مطالعه اور اسی قسم کے خدشات کبھی ان کی زندگی میں داخل نهیں ہوتے جس معصومیت کو لے کر وه کالج پهنچتے ہیں، اس آخر تک ملوث نهیں ہونے دیتے اور تعلیم اور نصاب اور درس کے ہنگاموں میں اسی طرح زندگی بسر کرتے ہیں، جس طرح بتیس دانتوں میں زبان رہتی ہے۔

پچھلے چند سالوں سے طلباء کی ایک اور قسم بھی دکھائ دینے لگی ہے، لیکن ان کو اچھی طرح دیکھنے کے لیے محدب شیشے کا استعمال ضروری ہے۔ یه وه لوگ ہیں جنهیں ریل کا ٹکٹ نصف قیمت پر ملتا ہے اور اگر چاہیں تو اپنی انا کے ساتھ زنانے ڈبے میں سفر بھی کرسکتے ہیں اور انکی وجه سے اب یونیورسٹی نے کالجوں پر شرط عائد کردی ہے که آئندہ صرف وہی لوگ پروفیسر مقرر کیئے جائیں جو دودھ پلانے والے جانوروں میں سے ہوں۔

طبعی حالات

لاہور کے لوگ بهت خوش طبع ہیں۔

 

سوالات کے جوابات دیں

لاہور تمهیں کیوں پسند ہے؟ مفصل لکھو۔

لاہور کس نے دریافت کیا اور کیوں؟ اس کے لیے سزا بھی تجویز کرو؟

میونسپلٹی کی شان میں ایک قصیده مدحیه لکھو۔





 







کمپوزر: کاشف فاروق۔ لاہور سے۔









No comments:

Post a Comment