URDU STORIES:

اردو ادب اور کہانیوں میں خوش آمدید ۔ قصہ کہانیاں، غزلیں، نظمیں، واقعات، طنزومزاح، لاہور کی پنجابی، کچھ حقیقت کچھ افسانہ، پراسرار خواب والی ٹیکنالوجی، میری فیملی کا ذاتی شجرہ نسب سن 1790ء تا 2023ء۔، قومی پیمانہ، تباہی و زلزلے، دو سو سالہ کیلینڈر، اردو سافٹ وئیر ڈاؤنلوڈ۔

Wednesday, September 14, 2022

ROOH KA INTEQAM - KHWAJA HASAN NIZAMI KA AIK SACHA WAQIYA - روح کا انقام ۔ خواجہ حسن نظامی کا سچا واقعہ






رُوح کاانتقام

 

ایک سچا واقعہ خواجہ حسن نظامیؒ کا

 


یہ 1904ء کا ذکر ہے۔ ایک صاحب نے مجھ سے  کہا کہ "درگاہ حضرت خواجہ نظام الدین اولیا رحمتہ اللہ علیہ (دہلی ) کے قریب کوئی کنواں نہیں، جب کہ باؤلی کا پانی کھاری ہے۔ اگر آپ کہیں تو درگاہ کے مشرقی دروازے پر کنواں بنوا دوں"۔ 


میں نے جواب دیا "ہاں صاحب یہاں میٹھے پانی کی بہت تکلیف ہے، شاید کنویں کا پانی میٹھا نکل آئے"۔ ان صاحب نے کہا "مگر یہاں قبریں بہت زیادہ ہیں۔ کنواں کھودا گیا تو قبروں کو توڑنا پڑے گا اور ان کی بےحرمتی ہوگی"۔ میں نے کہا "قبروں کی ہڈیاں دوسری جگہ احتیاط سے دفن کردیں گے، کیوں کہ پانی کی ضرورت بہت زیادہ ہے"۔ یہ کہہ کر میں تو الہٰ آباد چلا گیا اور ان صاحب نے کنواں کُھدوانا شروع کیا۔ قبروں سے ہڈیاں نکلتی تھیں تو دوسری جگہ ادب واحترام سے دفن کرادیتے۔ یہاں تک کہ جب پانی کے قریب پہنچے تو وہاں کسی آدمی کا پورا ڈھانچا نظرآیا۔ سب کو حیرت ہوئی کہ بالائی قبروں کی ہڈیاں ٹوٹی ہوئی تھیں، مگر اتنی گہری جگہ میں یہ پورے آدمی کا ڈھانچہ کیوں کر باقی رہا اور اتنی گہری قبر کس نے بنائی؟ بہرحال اس ڈھانچے کو دیکھ کر مزدور ڈرگئے۔


انھوں نے ان ہڈیوں کو ہاتھا لگانے سے انکار کردیا، تو کنواں کھدوانے والے صاحب خود رسے میں ٹوکرا باندھ کر کنوئیں میں اُترے۔ انھوں نے کھدال ہاتھ میں لے کر ڈھانچے کے گٹھنے پر مار، تاکہ ہڈیاں توڑکر اوپر لے جائیں اور کسی جگہ دفن کردیں۔ کھدال کے مارتے ہی ان کا گورا رنگ کالا ہوگیا اور وہ دیوانوں کی سی باتیں کرنے لگے۔ جو مزدور ان کے ساتھ کنوئیں میں گیاتھا، اس نے ان کو ٹوکرے میں باندھ دیا اور بہت مشکل سے ان کو باہر لایا۔ 


کنوئیں کے پاس بہت سی خلقت جمع ہوگئی۔ سب حیران تھے کہ ابھی تو ان کا رنگ گورا تھا، اب یہ ایسے کالے کیوں کرہوگئے۔ وہ بار بار کہتے تھے "میرے بھانچے کا پاؤں توڑ ڈالا ، میرے بھانجے کا پاؤں توڑ ڈالا"۔ آخر انھیں ان کے گھر میں لے گئے۔ بڑے بڑے عامل بلائے گئے، مگر ان کو کوئی اچھا نہ کرسکا۔ آخر تیسرے دن اس کنوئیں کو بند کردیا گیا۔ سب مٹی اور ہڈیاں اس کنوئیں کے اندر بھردی گئیں اور کنواں زمین کے برابر ہوگیا۔ تب ان صاحب کا رنگ بھی ٹھیک ہوگیا اور دماغ کی خرابی بھی درست ہوگئی۔ 


میں الہٰ آباد کے سفر سے واپس آیا تو میری بیوی نے سارا قصہ مجھے سنایا۔ اس وقت میں اپنے گھر میں پلنگ پر چت لیٹا تھا۔ لیمپ سرہانے رکھا تھا اور میں لیٹا ہوا اخبار پڑھ رہا تھا۔ پلنگ کے نیچے دری پر میری بیوی اور ان کی والدہ بیٹھی چھالیا کتر رہی تھیں اور مجھے قصہ سنارہی تھیں۔ میں پلنگ پر اُٹھ کر بیٹھ گیا اور میں نے اپنی بیوی سے پوچھا "تم سمجھیں وہ کالے کیوں ہوئے اور دیوانے کیوں ہوگئے؟" بیوی نے کہا "کسی بزرگ کامزار تھا۔ انھوں نے بے ادبی کی۔ مزار والوں کی روح نے ان کو قبر توڑنے کی سزا دی اور وہ کالے اور دیوانے ہوگئے، مگر جب ان کے وارثوں نے قبر بند کرادی اور کنواں بھی بند کرادیا تو روح نے تین دن بعد ان کی خطا معاف کردی اور وہ اچھے بھی ہوگئے"۔ 

 

میں نے بیوی سے کہا "نہیں یہ بات نہیں، بلکہ بات یہ ہے کہ مردے کی ہڈیاں صدیوں سے مٹی کے اندردبی ہوئی تھیں اور ہڈیوں کے اندر فاسفورس ہوتا ہے۔ فاسفورس زہریلا ہوگیا تھا۔ جب انھوں نے ڈھانچے پر کھدال ماری توہڈی ٹوٹ گئی اور اس میں سے فاسفورس اڑا جو ان کی ناک میں سانس کے ساتھ گھس گیا اور بدن کے خون میں جذب ہوگیا۔ فاسفورس نے اپنے زہر سے خون کو کالا کردیا۔ خون کالا ہو تو چہرہ بھی کالا ہوگیا اور وہ دیوانے بھی اسی وجہ سے ہوئے کہ ان کے دماغ پر زہریلے فاسفورس نے بُرا اثر کیا۔ اگر روح کچھ کرسکتی ہے تو مجھے سزادیتی، کیوں کہ میں نے ان کو کنواں کھودنے اور قبریں توڑنے کا حکم دیا تھا۔ اگرروح میں کچھ طاقت ہے تو آئے مجھے اپنی طاقت دکھائے اور مجھے سزا دے۔ تم عورتیں کمزور عقیدے کی ہوتی ہو، میں روحوں کے ایسے اثر کو نہیں مانتا"۔


بیوی نے جواب دیا "توبہ کرو، کیسی باتیں کرتے ہو"۔ میں نے کہا "کم ازکم میری عقل تمھاری طرح بودی نہیں ہے"۔ بیوی نے کہا "جانے دو، یہ باتیں چھوڑو، اپنا اخبار پڑھو۔ میں ایسی منکرانہ باتیں سننا نہیں چاہتی"۔ 


میں ہنسا اور اخبار پڑھنے لگا۔ ان باتوں کو پانچ منٹ بھی نہیں ہوئے تھے اور میں چت لیٹا تھا کہ کسی نے میرے پاؤں کے تلوؤں میں جیسے بجلی کا تارلگا دیا۔ بجلی سن سن کرتی میرے تمام بدن میں پھیل گئی اور مجھے ایسی تکلیف ہوئی جس کو الفاظ میں ادا کرنا مشکل ہے۔ میری رگ رگ میں چھریاں چلتی معلوم ہوتی تھیں میں بے تاب ہوکر چیخنے لگا۔


میں نے اپنی چیخوں کی آواز سنی، مگر میری بیوی اور ساس آپس میں باتیں کرتی اور چھالیا کُترتی رہیں۔ انھوں نے میری چیخنے پر توجہ نہ کی۔ تب میں نے بیوی کا نام لے کر چیخنا شروع کیا کہ "حبیب بانو ارے بی! مجھے دیکھو میرا کیا حال ہوگیا۔ مجھے قبر والی روح نے دبالیا۔ میں توبہ کرتا ہوں، پھر کبھی کسی بزرگ کی بے ادبی نہ کروں گا"، مگر میری بیوی نے پھر بھی میری طرف توجہ نہیں دی اور اپنی ماں سے باتیں کرتی رہی۔ میں نے اسی حال میں خیال کیا کہ شاید میرا دل دب گیا ہے اور اس کی وجہ سے یہ تکلیف ہے۔ اس لیے آہستہ سے دائیں رخ کروٹ لی، مگر پھر بھی تکلیف میں کمی نہ ہوئی۔ تب میں نے توبہ کرنی شروع کی اور عہد کیا کہ کبھی روحوں کی بے ادبی نہ کروں گا۔ یہ کہتے ہی وہ کیفیت جو سرسے پاؤں تک چھائی ہوئی تھی پیروں کی طرف جاتی معلوم ہوئی، یہاں تک کہ تھوڑی دیر میں بالکل جاتی رہی۔ میں نے پھر اپنی بیوی کو پکارا تو انھوں نے فوراً جواب دیا، میں نے ان سے کہا "ابھی پانچ منٹ تک میں سخت تکلیف میں مبتلا رہا اور تم کو آوازیں دیں، مگر تم نہ بولیں"۔ بیوی نے کہا "تم تو سوگئے تھے اور اخبار تمھارے ہاتھ سے گرپڑا تھا"۔ میں نے کہا "کیا تم دونوں فلاں فلاں باتیں نہ کررہی تھیں"۔ انھوں نے کہا "ہاں، یہ باتیں ہم نے کی تھیں۔ مگر تمہیں کیسے پتا چلا؟"۔ میں نے کہا "اگر میں سوگیا تھا تو میں نے تمھاری یہ باتیں کیوں کر سنیں؟" الٹا میں نے بھی اس سے یہی سوال جواب کے طور پر پوچھ ڈالا۔ 

 



اب اس سوال کا جواب میری بیوی دے سکی اور نہ ہی میرے پاس خود اس کا کوئی جواب تھا۔

روحانیاتدان کاشف فاروق کا سوال: شاید سائنسدان اور عالمِ دین حضرات اس پر کچھ روشنی ڈال سکیں؟

 



کمپوزر: کاشف فاروق۔ لاہور سے۔

 



No comments:

Post a Comment