ایک کرکٹر کا خط
کرکٹ کے ایک کھلاڑی نے اپنے دادا جان کے بارے میں اپنے دوست کو کچھ اس طرح سے سنایا:۔
سوچتا ہوں، تمہیں کیا لکھوں اور لکھوں تو کس طرح لکھوں؟ وه نه صرف ہمارے گھر کی ٹیم کے کپتان تھے بلکه بہترین اوپنر بھی تھے۔ پچ پر ہمیشه جم کر کھیلے۔ اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا که وه کئ بار سلپ بھی ھوئے، رن آؤٹ ہوتے ہوئے بچے۔ مگر یه تو کرکٹ کے ہر کھلاڑی کے ساتھ ہوتا ہے۔ مگر کھلاڑی تو وه ہے جو گر کر سنبھل جائے۔ دادا جان بھی ایسے ہی کھلاڑی تھے۔ امپائروں نے انہیں باربار سراہا، تماشائیوں نے انہیں خوب داد دی، اس لیے وه کئ مرتبه ذیابطس کے ہاتھوں ایل بی ڈبلیو ہوتے ہوئے بچے۔
پرسوں جب وه پچ پر بیٹنگ کرنے آئے، تو کافی ہشاش بشاش نظر آرہے تھے۔ مضبوط فیلڈنگ کی پروا کیئے بغیر وه اب تک 82 رنز بنا چکے تھے اور ہماری ٹیم کو امید تھی که وه اپنی سینچری ضرور مکمل کرلیں گے۔ مگر افسوس کہ، زیابطس کے اوورز ختم ہوچکے تھے۔ ٹھیک رات کے باره بجے جب آخری بال ره گئ تو بولر نے بال تبدیل کروا دی اور وه اسی آخری بال پر عزرائیل کے ہاتھوں کیچ آؤٹ ہوگئے۔
مالک، مصنف و کمپوزر: کاشف فاروق۔ لاہور سے۔
No comments:
Post a Comment