URDU STORIES:

اردو ادب اور کہانیوں میں خوش آمدید ۔ قصہ کہانیاں، غزلیں، نظمیں، واقعات، طنزومزاح، لاہور کی پنجابی، کچھ حقیقت کچھ افسانہ، پراسرار خواب والی ٹیکنالوجی، میری فیملی کا ذاتی شجرہ نسب سن 1790ء تا 2023ء۔، قومی پیمانہ، تباہی و زلزلے، دو سو سالہ کیلینڈر، اردو سافٹ وئیر ڈاؤنلوڈ۔

Friday, September 16, 2022

DEHSHATGARDI KA KHATMA 2008-2022 - دہشت گردی کا خاتمه


پہلا حصہ مورخہ09-04-2008۔ کو اپ لوڈ کیا

دہشت گردی کا خاتمه




آج 03-04-2008 کی یه خبر بهت خوش آئیند ہے که ہمارے فوجی سربراه جنرل اشفاق کیانی صاحب وزیر اعظم ہاؤس گئے اور وزیراعظم صاحب سے بشمول حکومت میں شامل سیاسی قیادت سے بات چیت کی۔ یه ایک بڑی تبدیلی ہے، کیونکه پهلے تمام میٹنگز 3 ایچ کیو میں ہوتی تھیں، دراصل پستی حکومت عوام کی نمائنده نه تھی۔ وه لوگ بظاهر تو الیکٹڈ تھے، مگر سلیکٹڈ۔

شنید ہے که فوجی قیادت نے دہشت گردی کے بارے میں امریکی و اپنی سابقه پالیسی کے بارے میں حکومت کو بریف کیا ہے۔ فوجی قیادت کا فرض پورا ہوچکا۔ اب یه ہمارے سیاست دانوں کا کام ہے که وه اس مسئله کو آپس میں بیٹھ کر صلح مشورے سے اس کا حل نکالیں اور عوامی رائے کا احترام کریں۔ عوامی رائے یهی ہے که امریکه کے ڈالروں کو نه دیکھا جائے اپنی عزت نفس کو دیکھا جائے۔ اگر ہم متحد رہیں گے تو امریکه ہمارا کچھ نه بگاڑ سکے گا۔ ایرانی صدر احمدی نژاد کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ ہم نے دیکھا که ایرانی صدر اپنے موقف پر ڈٹ گئے کیونکه انکے پیچھے عوام تھی۔ ان کو پیچھے سے مکمل سپورٹ تھی۔ اب ہماری قیادت کو بھی عوامی سپورٹ ہے۔ ہمیں اپنے ملک کو بچانا ہے۔ جن کو ہم دہشت گرد کهتے ہیں دراصل یه ہمارے ہی بھائ ہیں جب ہم ان پر ظلم کریں گے تو وه انتقام تو لیں گے ہی۔ ہمیں امن کی ضرورت ہے۔ ہم نے اپنے ملک کو ترقی کی شاهراه پر گامزن کرنا ہے۔ اس لیے ہمیں دوسرے کے مفادات کی جنگ نهیں لڑنی چاہیے۔

کهتے ہیں که ان تشدد پسندوں کی قیادت القاعده کرہی ہے، مگر یه تو سوچیے القاعده والے کون ہیں۔ یه وہی لوگ تو ہیں جنهوں نے روس کے خلاف افغان جنگ میں حصه لیا تھا۔ اس وقت تو ہم سب ان کو مجاہد کهتے تھے۔ ان کو خوب اسلحه بارود دیکر جنگ میں جھونکتے تھے۔ اس وقت وه ہمارے بھائ تھے۔ مگر اب ہم انهیں دہشت گرد کهتے ہیں، اب ان لوگوں کی حالت ایسی ہے که وه نه تو واپس اپنے ملکوں میں جاسکتے ہیں اور نه ہی ہم انهیں اپنے ملک میں رہنے کی اجازت دے رہے ہیں۔ حالانکه سنا ہے که یهاں انهوں نے رشته داریاں بھی کرلی ہیں۔ وه اب ہمارے شهری بن چکے ہیں۔ لهٰذا اس سلسلے میں عرض کروں گا که قبائلی سرداروں سے بات چیت کی جائے۔ فوج کو فوراً واپس بلایا جائے اور هر قسم کے حملے بند کیئے جائیں بلکه تمام لوگوں کو عام معافی دی جائے۔ امریکه سے صاف کهه دیا جائے که اب ہم تمهاری پالیسی پر عمل نهیں کرسکتے۔ ہم اپنے مسائل خود ہی حل کریں گے۔ دوسری طرف افغانستان کے صدر حامد کرزئ سے بھی بات چیت کی جائے وه طالبان سے روابط بڑھائیں اگر افغانستان میں بھی تمام گروه اور قبائل آپس میں متحد ہوجاتے ہیں پھر وہاں سے بھی امریکه کو نکالنا مشکل نه ہوگا۔

حالات یه بتا رہے ہیں که وہاں کرزئ صاحب کو ملک و قوم کیلیے قربانی دینا ہوگی کیونکه شاید طالبان انھیں کبھی قبول نه کریں۔ ہم دوسرے ملکوں کے معاملات میں مداخلت تو نهیں کرسکتے۔ مگر چونکه ہماری سرحدیں ملی ہوئ ہیں اس لئیے صرف مشترکه پالیسی ہی کامیاب ہوسکتی ہے۔ اصل مسئله یهی ہے که امریکه اس خطے سے اپنا بوریا بستر گول کرے۔

پاکستان میں امن تبھی ہوگا جب افغانستان میں بھی امن ہوگا، دونوں ملکوں کے رشتے بهت پرانے ہیں اور قبائلی علاقوں میں رہنے والے لوگوں کی آپس میں رشتے داریاں ہیں۔ طالبان کے دور حکومت میں ہمارے افغانستان سے بهت اچھے مراسم تھے اور وه بڑا پر امن دور تھا۔ ہم دوباره طالبان رہنماؤں سے بات چیت کا سلسله شروع کرسکتے ہیں۔کسی طرح انهیں اس بات پر آماده کرلیں که وه موجوده افغان قیادت سے تعلقات ہموار کریں اور حکومت کا حصه بن جائیں۔ جب وہاں بھی عوامی قیادت ہوگی، پھر امریکه کو نکالنا کوئ مشکل کام نه ہوگا۔

عراق میں کیا ہورہا ہے؟؟؟ آج اگر امریکه واپس چلا جائے تو وہاں بھی امن ہوجائے گا۔ کیونکه تاریخ گواه ہے مسلمان کبھی غیر کا قبضه برداشت نهیں کرسکتا۔ اس لیئے ہمیں افغانستان کو بھی ساتھ لیکر چلنا ہوگا۔ تب ہی اس خطے میں دیر پا امن قائم ہوگا۔


منجانب: کاشف فاروق۔ لاہور سے۔
دوسرا حصہ مورخہ28-12-2014۔ کو اپ لوڈ کیا

دہشت گردی کا خاتمه اور وجوہات
کتنے جلدی حالات تبدیل ہوگئے ہیں۔ پہلے ہم عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے دھرنوں میں مگن تھے۔ میڈیا پر ہر وقت دھرنوں اور مذاکرات کے بارے میں گفتگو ہوتی تھی۔ کچھ لوگ مزے لیتے تھے اور روزانہ عمران خان اور قادری کی تقریریں سنا کرتے تھے اور کچھ لوگ ان دھرنوں سے ذہنی طور پر ماؤف ہوگئے تھے۔ لگتا تھا جیسے اس ملک میں اور کوئی مسئلہ ہی نہ ہو۔ پھر عمران خان کے جلوسوں میں فائرنگ شروع ہوگئی۔ کچھ کارکن شہید ہوگئے۔ اس طرح جلوسوں میں شدت آگئی اور حالات خطرناک حد تک خراب ہونے لگے۔ اچانک 16 دسمبر 2014ء کو دہشت گردی کا بہت بڑا واقعہ ہوگیا۔ جس نے پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا۔ غم اور غصہ کی ایک لہر نہ صرف پاکستان بلکہ ساری دنیا میں دوڑ  گئی۔ معصوم بچوں کو بے دردی سے شہیدکردیا گیا۔ عمران خان بھی دھرنوں سے واپس آگئےاور سیاست کا رخ ایک دم تبدیل ہوگیا۔ کل جو ایک دوسرے کے دشمن بنے ہوئے تھے آج ایک ہی میز پر بیٹھ گئے۔ اسے کہتے ہیں یک جہتی۔

 

میڈیا نے بھی اپنی میزیں سجا لیں اور خوب بحث و مباحثہ شروع ہوگیا۔ سب لوگ اپنی اپنی تجاویز دے رہے ہیں کہ دہشت گردی پر کس طرح قابو پایا جائے۔ کچھ لوگوں کی باتوں سے ایسا لگتا ہے گویا کہ وہ طالبان کے ہمدرد ہوں اور کچھ لوگ کھل کر طالبان کی مخالفت کرتے ہیں۔ کچھ ایسے بھی ہیں جو گول مول بات کرتے ہیں یعنی کہ وہ خوف زدہ ہیں اور طالبان کا نام زبان پر نہیں لاتے۔ انکو ہم منافقین کہہ سکتے ہیں۔ بہرحال، یہ بہت اچھی بات ہے کہ کھل کر ٹی وی چینلز پر بحث و مباحثہ ہورہا ہے۔ لیکن ظاہر ہے ہر آدمی کو تو ٹی وی چینلز پر نہیں بلایا جاتا کہ وہ اپنی رائے کا اظہار کریں کچھ لوگ اخبارات کے ذریعے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ وہاں بھی سب کے خطوط یا مضامین تو شائع نہیں ہوتے۔ میرے خیال میں حکومت ایک تھنک ٹینک بنائے۔ جو عوام میں جا کر ان سے بھی انکی آراء معلوم کرے۔ بعض اوقات اَن پڑھ لوگ بھی ایسی ایسی باتیں کرجاتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ بہرحال اس ناچیز کی ناقص رائے یہ ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی تو جاری رکھی جائے۔ مگر وجوہات کا بھی تعین کیا جائے۔ کیونکہ ہم وقتی طور پر تو کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔ مگر جب تک ہم دہشت گردی کے محرکات پر قابو نہیں پاتے یہ جاری رہے گی۔ خواہ کسی شکل میں ہو۔ چوری، ڈاکے بھی تو دہشت گردی ہے۔ اب آتے ہیں وجوہات کی طرف۔ میرے تجزیے کے مطابق دہشت گردی کی چار بڑی وجوہات ہیں:۔


 1) مذہبی فرقہ واریت              2) بے روزگاری           3) نا انصافی              4) قبل از وقت آزادی۔


(1)مذہبی فرقہ واریت 

جب ہمارا ملک پاکستان معرضِ وجود میں آیا تھا اس وقت مذہبی جماعتوں کی سیاست میں مداخلت نہ تھی۔ آہستہ آہستہ مذہبی جماعتیں طاقت پکڑتی گئیں اور سیاست میں وارد ہوگئیں۔ یہیں سے کام خراب ہوگیا۔ جو ملک قائدِاعظمؒ نے سب لوگوں کے لیئے بنایا تھا وہ صرف مسلمانوں کا ہوکر رہ گیا۔ قادیانیت کے فتنے کے بعد مذہبی جماعتوں نے طاقت پکڑنی شروع کردی اور حکومت کے ہر کام میں مداخلت شروع کردی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ شروع میں شعیہ اور سنی حضرات مل جل کر محرم کی تقریبات منعقد کرتے تھے۔ دودھ و شربت کی سبیلیں لگتی تھیں۔ دال والے نان تقسیم ہوتے تھے۔ ہم سنی بچے سب مل کر کھاتے تھے اور جلوس کے ساتھ ساتھ کربلا گامے شاہ تک جاتے تھے۔ شعیہ اور سنی کی کوئی تفریق نہ تھی۔ مگر آہستہ آہستہ مذہبی جماعتوں نے اپنے مدارس قائم کرنا شروع کردیے۔ اس وقت بھی لوگوں کو یہ نامعلوم تھا کہ دیوبندی کیا ہوتا ہے اور بریلوی کیا ہوتا ہے۔ فقط سنی مدرسہ کہلاتا تھا۔ مگر بعد کے آنے والے سالوں میں تفریق پید اہوتی گئی اور ہر دو فرقوں نے اپنے اپنے مدرسے بنالیے۔ مسجدوں پر لکھا جانے لگا کہ کون سے فرقے کی ہے۔ مدرسے قائم ہونے سے پہلے مذہبی تعلیم مساجد میں دی جاتی تھی۔ صرف قرآن پاک پڑھایا جاتا تھا۔ نماز پڑھنا سکھایا جاتا تھا اور اسی طرح وضو کرنا۔ اس کے بعد بچے اسکول جاتے تھے۔ مگر اب تو بات اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ ایک دوسرے کی مساجد میں نماز پڑھنے سے اجتناب کرتے ہیں۔ جب مساجد کا یہ حال ہے پھر مدارس کا کیا حال ہوگا؟؟؟ سب اپنے اپنے فرقے کو درست سمجھتے ہیں۔ اب حال یہ ہوگیا ہے کہ "شعیہ کافر" کے نعرے جگہ جگہ دیواروں پر عام لکھے ہوتے ہیں۔ پہلے تو یہ کہتے تھے کہ یہ ہمارا "کلمہ گو" مسلمان بھائی ہے۔ مگر اب بات کلمہ سے بہت آگے چلی گئی ہے۔ یعنی صرف مسلمان ہونا ہی کافی نہیں بلکہ مومن ہونا بھی لازمی ہے۔ ورنہ دائرہ اسلام سے خارج۔ بھئی مسلمان تو ہوجانے دوپھر مومن بھی بن جائیں گے۔ کیوں دائرہ اسلام سے خارج کرتے ہو۔ شعیہ سنی فرقوں کے بعد ایک اور فرقہ "اہلِ حدیث" کے بارے میں سنا جانے لگا۔ اب وہ بھی اپنی مساجد کے باہر اہل حدیث لکھتے ہیں۔ مجھے تو دیوبندی، بریلوی اور اہل حدیث تینوں مساجد میں نماز پڑھنے کا اتفاق ہوا ہے۔ میں نے کبھی یہ نہ سوچا کہ میں کس فرقے کی مسجد میں جاؤں۔ جہاں اتفاق ہوا نماز پڑھ لی۔ بھئی تھوڑا سا ہی تو فرق ہے۔ لیکن کیا یہ اعلان کرنا ضروری ہے کہ یہ مسجد فلاں فلاں فرقے کی ہے۔ سعودی عرب میں تو ایک مسجد میں کئی کئی جماعتیں ہوجاتی ہیں۔ یہاں بھی ہر مسجد میں اسکی اجازت ہونی چاہیے۔ ایک فرقے کی نماز کے بعد اسی مسجد میں دوسرے فرقے کی نماز کی اجازت ہونا چاہیے۔ مساجد تو اللہ کا گھر ہوتی ہیں۔

 

سب سے بہتر یہی ہے کہ مساجد کے باہر کسی فرقے کا نام نہ لکھا جائے۔ مساجد کا بھی ایک سیلاب آگیا ہے۔ ایک ہی محلے میں دو دو قدم کے فاصلے پر لوگوں نے پرائیویٹ مساجد بنا لی ہیں۔ اگر تحقیقات کی جائیں تو بے شمار مساجد قبضہ کے زمین پر ہونیکا انکشاف ہوگا۔ ایسی ناجائز مساجد کے بارے میں اسلام کیا کہتا ہے؟ میں نے تو یہی پڑھا ہے کہ مسجد نبوی کی زمین ہمارے نبینے خرید فرمائ تھی جسکا معاوضہ ایک صحابی نے ادا کیا تھا (اگر میں غلط نہیں)۔ مساجد میں یہ اضافہ محض فرقوں کی تقسیم کی وجہ سے ہے۔ فرقہ پرستی کو کم کرنے کے لیے اردو میں خطبہ کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ یا پھر حکومتی ادارہ تمام مساجد کو تیار شدہ خطبات مہیا کیا کرے۔ جس میں کسی قسم کی شیرانگیزی نہ ہو۔ تاکہ کوئی فرقہ مسجد کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال نہ کرسکے۔ آج کل دیکھا گیا ہےکہ جیسے ہی مُحرم یا عید میلاد النبی کے تہوار آتے ہیں، مولانا حضرات مساجد میں کھلے عام جذبات کو مجروح کرنے والی باتیں کرتے ہیں۔ وہ یہ نہیں سوچتے کہ ان ہی کی مسجد میں مختلف فرقے کے لوگ بھی موجود ہیں۔ وہ مسجد کو ذاتی پراپرٹی سمجھ کر کھل کر مخالف فرقوں کا مذاق اڑاتے ہیں۔ اسکے بعد آتے ہیں مدارس کی طرف۔ ایک زمانہ تھا جب مدارس صرف یتیم بچوں کے لیے قائم ہوتے تھے۔ لوگ انکو قربانی کی کھالیں دیتے تھے اور خود جا کر انکے اداروں میں پہنچاتے تھے۔ اسی طرح ذکوٰۃ، صدقات بھی دیتے تھے۔ یعنی لوگ ہر طرح سے مالی امداد کرتے تھے۔ انکے مہتمم عموماً سائیکلوں یا تانگوں میں سفر کرتے تھے۔ آجکل کے مدارس ایک طرح سے کمرشل ادارے بن گئے ہیں۔ بڑی بڑی بلڈنگز، بڑی بڑی موٹر کاریں انکے زیرِ استعمال ہیں۔ اداروں کے باہر بڑے بڑے بورڈ لگے ہوتے ہیں۔ جن پر ادارے کا نام لکھا ہوتا ہے۔ ساتھ ہی ڈیمانڈ لکھی ہوتی ہے یعنی یہاں پر زکوٰۃ، صدقات،فطرات،خیرات وصول کی جاتی ہے۔ بڑی عید کے موقع پر بڑے بڑے بینرز لگائے جاتے ہیں۔ پوسٹر چھپوائے جاتے ہیں کھالوں کی وصولی کے لیے۔ جبکہ شروع کے دنوں  میں اشتہار بازی نہیں کی جاتی تھی۔ لوگ اپنی خوشی سے نزدیکی مدرسے میں جا کر اپنے  عطیات دیتے تھے۔


 سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آجکل کے مہتمم اتنے امیر کبیر کیسے ہوگئے؟ جبکہ وہ بچوں کو نہ صرف مفت تعلیم دیتے ہیں۔ بلکہ خوراک، لباس، رہائش بھی فری دیتے ہیں۔ بڑے بڑے کاروباری لوگ جب زندگی کے آخری دور میں پہنچتے ہیں تو خیرات دینا شروع کردیتے ہیں۔ جتنا ٹیکس نہیں دیتے۔ اس سے زیادہ خیرات دیتے ہیں اور وہ بھی فرضی نام پرتاکہ ٹیکس حکام کی نظروں سے بچے رہیں۔ اسکے علاوہ باہر سے بھی چندے آتے ہونگے۔ یعنی فارن ایکسچینج کی صورت میں مہتمم کے ذاتی نام پر یا  پھر ادارے کے نام پر۔حکومت کبھی بھی انکی پوری آمدن کا سراغ نہیں لگا سکتی کیونکہ ایک کااروباری آدمی کی طرح یہ لوگ بھی اپنے اکاؤنٹس میں ہیرا پھیری کرتے ہونگے۔اگر یہ پابندی لگا دی جائے کہ عوام اپنی خیرات، زکوٰۃ، صدقات صرف بیت المال میں جمع کرائیں تو اس پر عمل کروانا مشکل ہوگا۔ کیونکہ عوام کو حکومت پر اعتماد نہ ہوگا۔ یہ ہوسکتا ہے کہ عوام کو ترغیب دی جائے کہ وہ اپنے چندے وغیرہ ہسپتالوں کو دیں، عبدالستار ایدھی کو دیں یا کسی اور خیراتی ادارے کو دیں۔ پھر انکی طاقت کم ہوسکتی ہے۔ دوسرے یہ کہ ان مدارس کو مجبور کیا جائے کہ وہ دینی تعلیم کے علاوہ دنیاوی تعلیم یعنی سائنس وغیرہ بالکل انہی خطوط پر پڑھائیں جیسا کہ عام تعلیمی اداروں میں پڑھائی جاتی ہے اور یہ بھی عام تعلیمی اداروں کی طرح یونیورسٹیز اور متعلقہ بورڈ میں اپنی رجسٹریشن کروائیں۔ اسناد اور ڈگریز متعلقہ ادارے ہی جاری کریں ۔ مدارس کو سرٹیفیکیٹ اور ڈگری جاری کرنے کا اختیار نہیں ہونا چاہیے۔ محض مُلا اور مفتی نہ پیدا کیے جائیں۔ آجکل فتووں کی بھرمار ہورہی ہے۔ اس کام کے لیے صرف حکومتی ادارہ ہی مجاز ہونا چاہیے۔ یہ لوگ ذرا ذرا سی بات پر کُفر کے فتوے دے دیتے ہیں جس کا انہیں اختیار نہیں ہونا چاہئیے۔ ورنہ وہی طالبان والا اسلام پھیلے گا۔

 

(2)بے روزگاری:-

ہمارے ملک میں بیروزگاروں کی تعداد روزبروز بڑھتی جارہی ہے۔ ڈاکٹرز، انجینئیرز، ایم بی ایز، ہاتھوں میں ڈگریاں لیئے پھر رہے ہیں اور کوئی نوکری نہیں مل رہی۔ ماں باپ بھی پریشان ہیں۔ جن بچوں کی سفارش ہوتی ہے انہیں تو کہیں نہ کہیں نوکری مل جاتی ہے۔ مگر ایک بڑی تعداد ایسے بچوں کی ہے جو کہ غریب ہیں اور یہی انکا جُرم ہے۔ انکی نہ کہیں جان پہچان ہے اور نہ ہی کوئی ریفرینس۔ ایسے لوگ یا تو خودکشی کر لیتے ہیں یا پھر چوری ڈاکے شروع کردیتے ہیں۔ اسی طرح جان بچاتے بچاتے دہشت گردوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ جو انہیں معاوضہ بھی دیتے ہیں اور سیکورٹی بھی۔ اس کے بعد انکی واپسی ناممکن ہوجاتی ہے۔ وہ ایک ٹریپ میں پھنس جاتے ہیں۔ جہاں سے فرار  ہونا  ناممکن ہوتا ہے۔ پھر وہ خوفناک دہشت گرد بن جاتے ہیں۔ لہٰذا بے روزگاروں کے بارے میں حکومت کو سنجیدگی سے سوچنا پڑے گا۔

(3)ناانصافی:۔ 

جب کسی سچے آدمی کو انصاف نہ ملے توپھر وہ باغی ہوجاتا ہے۔ یہ بات معمولی نہیں ہے۔ آپ خود سوچیں اگر قاتل رہا ہوجائیں تو مقتول کے وارثوں کا کیا حال ہوگا۔ قاتل دوبارہ انکی زندگی اجیرن کردیں گے۔ مجرموں کو پکڑنے کی بجائے پولیس معصوموں کو تنگ کرنا شروع کردے تو انکا کیا حال ہوگا۔ جب کسی سچے انسان کو فوری انصاف نہ ملے پھر وہ اس معاشرے کو لات مار کر کسی دوسری طرف جا سکتا ہے۔ خود انصاف حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔ چاہے قتل کرنا پڑے۔ اغواء کرنا پڑے، چوری، ڈاکے ڈالنا پڑیں۔ انصاف نہ دیکر ہم مزید دہشت گرد پیدا کررہے ہیں۔ لہٰذا حکومت کو فوری اور صحیح انصاف فراہم کرنے کے لیے اقدامات کی ضرورت ہے۔

 

(4)قبل از وقت آزادی

 میرا تجربہ یہ کہتا ہے کہ ہم نے انگریز سے آزادی لینے میں بہت جلدی کی۔ ہم ایک  Premature born baby  کی طرح وقت سے پہلے پیدا ہوگئے ہیں۔ وقت سے پہلے پیدا ہونے والے بچہ کو انکیوبیٹر میں رکھا جاتا ہے۔ اسکی مصنوعی نشوونما کی جاتی ہے۔ پھر کہیں جا کر وہ زندہ بچ پاتا ہے۔ ہم نے اپنے آپ کو بچانے کے لیے کیا کِیا۔ 25 سال بعد ہی آدھے سے بڑا حصہ گنوا دیا۔ اب باقی آدھا بچانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔  ہمیں مزید 25 سال تک آزاد نہیں ہونا چاہیے تھا اور اس دوران مسلمانوں کو تعلیم کی طرف خاص توجہ دینا چاہیے تھی۔ انگریز نے کوئی ہمیں زنجیروں میں جکڑ کر رکھا ہوا تھا جو ہم آزاد ہوگئے۔ یہ سوچو آزادی کے وقت جو کچھ بھی ہمیں ملا وہ انگریزوں کا ہی بنایا ہوا تھا۔ مثال کے طور پر ریلوے کا نظام ہی دیکھ لیں۔ انگریز کےجانے کے بعد ہم نے کیا اضافہ کیا اور کیا برباد کیا۔ ابھی ہمیں سائنس و ٹیکنالوجی میں بہت کچھ سیکھنا تھا۔ مگر ہم نے انگریز کو جوتے مار کر نکال دیا۔ اب ہمیں ہر کام کی آزادی مل گئی ہے۔ جگہ جگہ تھوکنے، کوڑا کرکٹ پھینکنے کی، آپس میں لڑنے اور فتنہ و فساد پھیلا نے کی آزادی۔ قانون ہم کوئی نہ بنا سکے۔ گالی انگریز کو دیتے ہیں۔یہ کیسی آزادی ہے۔ کیا ہم اب امریکہ کے غلام نہیں ہیں؟ ساؤتھ افریقہ کو دیکھیں کتنی ترقی کی ہے۔ انگریز کو بھی نہیں بھگانا پڑا اور آزادی بھی مل گئی۔ قبل از وقت آزادی ہی کا نتیجہ ہے کہ آج کل مذہبی منافرت زوروں پر ہے۔ پہلے ہم ہندوؤں سے لڑ لیتے تھے۔ اب آپس میں لڑ رہے ہیں۔  



تیسرا حصہ مورخہ18-10-2022۔ کو اپ لوڈ کیا

۔۔۔ مگر دہشت گردی میں اضافہ
مگر ہمارے ملک میں روز بروز دہشت گردی بڑھتی جا رہی ہے۔دہشت گردوں نے خاص طور پر بلوچستان کو نشانہ بنا رکھا ہے۔ حد ہو گئی لگا تار دھماکے ہو رہے ہیں۔پہلے وکیلوں پر پھر پولیس ٹریننگ سنٹر اور اسکے بعد درگاہ پر۔آخر یہ کس کی ذمہ داری ہے؟ صوبائی حکومت یا مرکزی حکومت کی یا دونوں کی۔اب تو اس بات میں کوئی شک نہیں رہا کہ  ’را‘ نے اپنے جھنڈے گاڑ دئیے ہیں۔لازمی طور پر ہر اہم محکمے میں اپنے جاسوس پھیلا دئیے ہونگے، کیونکہ بغیر جاسوسی کے دہشت گردی ناممکن ہے۔حالانکہ ہم سب یہ جانتے ہیں کہ انڈیا نے ’ سی پیک ‘ منصوبے کو ناکام بنانے کیلئیے کروڑوں ڈالر کی رقم بھی مخصوص کر دی ہے۔مگر پھر بھی ہماری سیکورٹی ناکام نظر آ رہی ہے۔یہ پیسہ جو حکومت سیکورٹی کے نام پر خرچ کر رہی ہے، کہاں جا رہا ہے؟؟؟ فوج قربانیا ں دے رہی ہے اور حکومت لوٹ مار کر رہی ہے۔ان تمام باتوں کے علاوہ ایک اور بات پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ کہیں ہمارے آلات ہی تو ناکارہ نہیں ہیں۔ دیکھنے میں آ رہا ہے کہ ہم لوگ سستی چیزوں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں، چاہے وہ چار دن بھی نہ چلیں۔ جب معاملات جان اور مال کی حفاظت کے ہوں پھر اس میں کسی قسم کی رو رعایت کی ضرورت نہیں رہتی۔حادثات کے بعد اکژ دیکھنے میں آتا ہے کہ کیمرے،  سکینر ز، میٹل ڈیٹکٹر ز وغیرہ کام ہی نہیں کر رہے تھے پھر ایسا مال خریدنے کا کیا فائدہ۔اس قسم کے آلات کی خرید میں کسی قسم کی رو رعایت کی ضرورت نہیں۔یہ صرف اور صرف جاپان، امریکہ، اور مغربی یورپین ممالک سے ہی خریدنا چاہئیے اور صرف پرانی مشہور کمپنیوں سے جو کم از کم پانچ سال کی فری سروس دیں اور اسکے بعد بھی ٹھیکے پر سروس دیتے رہیں۔ہوتا یہ ہے کہ حکومتی کارندے خود اپنی کمپنیاں راتوں رات بنا لیتے ہیں، مال سپلائی کرتے ہیں اور غائب ہو جاتے ہیں۔ آجکل ہمارے ملک میں دو نمبر مال بھی بہت بک رہا ہے۔ چائنا کا مال یورپ کے نام سے بیچا جاتا ہے۔ اسکی وجہ یہ ہے کو امریکا، یورپ اور جاپان کی کمپنیاں اپنی پروڈکٹ چائنا میں تیار کرواتے ہیں، پھر وہیں سے آ گے ایکسپورٹ کر دیتے ہیں۔ مگر چونکہ برانڈ نام انہی ملکوں کا ہوتا ہے،یہ لوگ انہی ملکوں کے نام سے بیچتے رہتے ہیں۔ اسکا تدارک ممکن ہے کہ سپلائرز سے سرٹیفیکیٹ آف اوریجن اور بل آف لیڈنگ طلب کیا جائے، جو انہی ممالک کا ہو جنکا مال یہ لوگ بیچ رہے ہوتے ہیں۔دوسرے ملک میں کرپشن بھی بہت بڑھ گئی ہے۔جب حکمران لوٹ مار کریں گے پھر افسران اور کلرک کیوں پیچھے رہیں۔ ہم خود یہ کہتے ہیں کہ دہشت گردی کا تعلق کرپشن سے ہے، پھر ہم کرپشن کو کیوں قابو نہیں کرتے۔شائد ہم کرپشن کو کبھی دور نہیں کر سکتے، کیونکہ ہم سب ہی کرپٹ ہیں۔ جب محکمہ ء اینٹی کرپشن ہی کرپٹ ہوگاپھر کون کرپٹ کو پکڑے گا۔حکمران بھی کرپٹ آتے رہیں گے، جب تک کہ انتخابی نظام درست نہیں کر دیا جاتا۔لہٰذا ہم کہ سکتے ہیں کہ چونکہ کرپشن اور دہشت گردی کا چولی دامن کا ساتھ ہے، اس لئیے دہشت گردی دور نہیں ہو سکتی۔

کچھ عرصہ قبل 2016ء کے آس پاس ملک میں دہشت گردی کافی کم ہو گئی تھی اور عوام نے سکون کا سانس لیا تھا مگر اب ایک دم دو بارہ تیزی آگئی ہے 2017ء میں۔شائد یہ دہشت گردوں کی پالیسی ہو۔کچھ دھماکے کئے پھر خاموشی اختیار کر لی کیونکہ حکومت ہر واقعہ کے بعد متحرک ہو جاتی ہے اور پکڑ دھکڑ شروع کر دیتی ہے۔مگر کچھ عرصہ بعد سیکیورٹی والے سست پڑ جاتے ہیں اور دہشت گردوں کو موقع مل جاتا ہے۔دراصل اسکی ایک وجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ حکومت نے پہلے پہل کراچی کو ہدف بنایا اور ملک کے باقی حصوں کو فراموش کر دیا۔ نتیجہ کے طور پر کراچی کے دہشت گردوں نے سندھ کے دوسرے حصوں اور پنجاب میں چھپنا شروع کر دیا۔ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ پورے ملک میں بلاامتیاز کارروائی کی جاتی، پھر دہشت گردوں کو چھپنے کا قطعی موقع نہ ملتا۔ بلکہ ایک طرح سے کومبنگ آپریشن کیا جاتا۔ شمال سے جنوب اور جنوب سے شمال اسی طرح مشرق سے مغرب اور مغرب سے مشرق۔دراصل حکومت کو اس معاملے میں ٹانگ نہیں اڑانا چاہئیے تھی۔ تمام کام فوج پر چھوڑنا چاہیئے تھا کیونکہ میدان جنگ میں فوج ہی پالیسی بناتی ہے۔ حکومت کو ان معاملوں کا کیا پتہ۔دراصل ہمارے سیاست دانوں میں اتفاق ہی نہ تھا اور سب اپنے اپنے مفادات کی جنگ لڑ رہے تھے۔ہو سکتا ہے کچھ حلقے فوج کو ناکام دیکھنا چاہتے ہوں اور عوام کی نظروں سے گرانا چاہتے ہوں، اسی لئے فوج کو آزادی سے پالیسی نہ بنانے دی گئی۔پہلے تو حکومت یہ کام شرو ع ہی نہیں کرنا چاہتی تھی مگر چونکہ فوج کو عوام کی تائید حاصل تھی انہوں نے کار روائی شروع کردی۔حالات نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ہمارے ملک میں دو طرح کی دہشت گردی کی جارہی ہے۔ ایک ٹارگٹ کلنگ، اغوا برائے تاوان اور بنکوں میں ڈاکیوغیرہ۔ اس قسم کی دہشت گردی کراچی میں کی جا رہی تھی اور ان لوگوں کا تعلق ایک سیاسی جماعت سے کہا جاتاتھا۔ ان لوگوں کو دھماکوں سے کوئی غرض نہ تھی۔ مگر آہستہ  آہستہ وہاں بھی دھماکے ہونے لگے کیونکہ ملک کے دوسرے حصوں سے بھاگ کر دہشت گرد وں نے کراچی میں جائے پناہ ڈھونڈ لی۔دوسری قسم کے دہشت گرد وہ ہیں جو باقائدہ تربیت یافتہ ہیں اور کسی کے اشاروں پر خود کش حملے اور بارودی د ھماکے کر رہے ہیں۔اب حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ ملک کا کوئی بھی حصہ محفوظ نہیں کہا جا سکتا۔یہ بات بھی ثابت ہو چکی ہے کہ یہ دہشت گرد افغانستان اور بھارت سے داخل ہوتے ہیں۔ان لوگوں کو مکمل مالی اور تکنیکی سپورٹ حاصل ہے۔ان دہشت گردوں کا تعلق مذہبی جماعتوں سے بھی جوڑا جاتا ہے اور یہ بات صحیح بھی معلوم ہوتی ہے کیونکہ انہی جماعتوں نے شروع میں آپریشن کی مخالفت کی تھی۔  اس قسم    کے دہشت گرد عموماً  جنونی ہوتے ہیں، انکو بچوں اور بوڑھوں کا کوئی خیال ہی نہیں ہوتا۔ اب یہ سلسلہ بزرگوں کے مزارات تک پھیل چکا ہے۔ یہ جاننا کوئی مشکل کام نہیں کہ انکی سپورٹرز کونسی جماعیتیں ہیں۔ ایسی کونسی جماعتیں ہیں جو مزاروں پر جانے والوں کو مشرک اور کافر کہتے ہیں۔ ایسی کونسی بیرونی طاقتیں ہیں جو ان جماعتوں کی سپورٹرز ہیں  اور انکی فنا نسنگ کر تے ہیں مگر ہم مجبور ہیں ،کچھ نہیں کر سکتے۔ہمارے اسی قسم کے اختلافات سے دشمن بھر پور فائدہ اٹھا رہا ہے۔ ہمیں تمام تر اختلافات بھول کر ملک کی فکر کرنا چاہئیے۔اگر ملک ہی سلامت نہ ہوگا پھر کہاں کا مشرک اور کہاں کا مسلمان۔سب بھول جائو، مشر ک اور مسلم کا فیصلہ اللہ تعلی کی ذات ہی کرے گی، ہم اور آپ کون ہوتے ہیں کسی کو کافر اور مشرک کہنے والے۔ذرا  سورۃ  کافرون  کا ترجمہ پڑھئیے۔ہماری خارجہ پالیسی ہی ناکام ہو چکی ہے۔افغانستان ہم پر الزام تراشی کرتا ہے اور ہم افغانستان پر۔ دراصل افغانستان پر انڈیا کا اثرو رسوخ بہت زیادہ بڑھ چکا ہے اور وہ اسی کی زبان بولتا ہے۔ہم لوگ ایک دوسرے پر اعتماد کرتے ہی نہیں۔اگر وہ نہیں کرتا تو نہ کرے۔ ہمیں ایمانداری اپنانی چاہئیے اور اپنے حصہ کا کام کرنا چاہئیے۔افغانستان سے بات چیت جاری رکھنا چاہئیے۔ آخر ایک دن اسکی سمجھ میں یہ بات آ ہی جائیگی۔ پاک افغان بارڈر پر خار دار تاریں لگائی جا سکتی ہیں۔ خندقیں کھو دی جا سکتی ہیں، مشترکہ آپریشن بھی کئیے جا سکتے ہیں۔ افغانستان کی مدد کے بغیر ہم کامیاب نہیں ہو سکتے۔ اللہ افغان لیڈروں کو دوست اور دشمن کی تمیز عطا فرمائے۔ آمین۔

پچھلے دنوں 2015ء کے آس پاس سعودی عرب نے اسلامی ممالک پر مشتمل ایک فوجی اتحاد کا اعلان کیا تھا جس میں پاکستان کا نام بھی شامل تھا۔اب جنگی مشقیں بھی شروع ہو گئی ہیں۔کہا یہ جا رہا ہے کہ اب باقائدہ داعش کے خلاف شام میں فوجیں بھیجی جایئں گی۔ اس اتحاد میں ایران، یمن،لبنان شامل نہیں ہیں۔ بڑی اچھی بات ہے کہ تقریباً تمام اسلامی ممالک داعش کا خاتمہ کرنا چاہتے ہیں۔ مگر لگتا ایسا ہے کہ دراصل  یہ ممالک بشارالاسد کی حکومت بھی ختم کرنا چاہتے ہیں۔شام میں جب فوجیں بھیجی جائیں گی  تو کیا بعید ہے کہ یہ شام کے باغیوں کو ساتھ ملا کر سرکاری فوجوں پر بھی حملہ نہ کر دیں۔ دوسری طرف ترکی بھی کردوں کا خاتمہ کر رہا ہے، یعنی ایک تیر سے دو شکار ۔حالانکہ یہ قوم سلطان نورالدین زنگی اور سلطان صلاح الدین ایوبی جیسے مجاہدین کی وارث ہے۔ترکی نے کردوں کوآزادی کا وعدہ بھی پورا نہیں کیا۔ اگر ان ممالک نے داعش کے علاوہ بشارالاسد کی فوجوں کے خلاف بھی محاذ کھول دیا پھر یہ ایک عالمی جنگ کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے۔ ایران بھی اپنے اتحادیوں کے ساتھ میدان جنگ میں اتر جائے گا۔ پھر پاکستان کی کیا پوزیشن ہو گی؟ یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہے کہ امریکہ اور مغربی طاقتوں کی یہ شدید خواہش ہے کہ مشرق وسطیٰ میں جنگ چھڑ جائے اور ایک بڑی جنگ چھڑے جسے تیسری عالمی جنگ کہا جائے کیونکہ وہ یہ ہرگز نہیں چاہیں گے کہ تیسری عالمی جنگ اب کبھی یورپ میں ہو۔ دوسری عالمی جنگ سے لے کر آج تک وہاں جنگی سائرن نہیں بجے، یہ تاریخ گواہ ہے اور تمام اسلامی ممالک اس کی لپیٹ میں آجائیں، تاکہ ان کا اسلحہ خوب فروخت ہو اور یہ ٹکڑے ٹکڑے بھی ہو جائیں۔ ان حالات میں تو روس بھی امریکا کے ساتھ مل گیا ہے۔ گویا تمام بڑی طاقتیں اسلامی ممالک کو بے وقوف بنانے میں کامیاب نظر آتی ہیں۔ کیونکہ اب واحد خطرہ ـ  :اسلام: ہے۔مگر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے عرب ممالک خود ہی یہ جنگ شروع کرنا چاہتے ہوں تاکہ قیمتیں آسمان پر پہنچ جائیں۔سوال یہ ہے کہ پاکستان کو کیا فائدہ ہو گا؟ ہم جیسے غریب ممالک تو مارے جائینںگے۔ اس لئے پاکستان کو ایک ایٹمی قوت ہوتے ہوئے اسلامی ممالک کو یہ بات سمجھانا چاہیئے۔ کیا یہ اچھا نہ ہوگا کہ ہر ملک داعش کا مقابلہ خود کرے جیسا کہ ہم کر رہے ہیں!!! جنرل راحیل شریف نے یہ نہایت عقلمندی سے فیصلہ کیا تھا کہ ہم یمن میں داعش کے خلاف براہِ راست جنگ نہیں کریں گے بلکہ دفاعی حکمتِ عملی اختیار کریں گے۔ ایک تو پاکستان کے پاس اتنا پیسہ نہیں ہے کہ وہ جنگیں کرتا پھرے، پھر سارا پیسہ جنگوں میں اگر لگا دیا جائے تو عوام بھوکی مر جائے گی۔ آج 2022ء میں بھی وہی یمن کے باغی داعش والے سعودیہ پر میزائل داغ دیتے ہیں جس کو پاکستان کا دفاعی  نظام فضاء میں ہی تباہ کردیتا ہے۔


مالک و مصنف: شیخ محمد فاروق۔
کمپوزر: کاشف فاروق۔ لاہور سے۔

No comments:

Post a Comment