دوست چار حروف سے بنتا ہے
د
و
س
ت
اور ان چار حروف سے ہمارے بڑے بزرگوں نے چار خاصیت بتائی ہیں
دیانتدار
وفادار
سچا
تابعدار
یہ چار چیزیں دو لوگوں کے درمیان ایک دوسرے کے لیئے ہوں تو وہ ایک دوسرے کے دوست ہوتے ہیں۔
کچھ لوگ دوستی کی تعریف اس طرح کرتے ہیں کہ جب دو لوگ ایک دوسرے کو اچھی طرح جانتے ہوں اور ایک دوسرے پر اعتماد کرتے ہوں تو وہ دونوں آپس میں دوست ہوتے ہیں۔
دوستی ایک دوسرے کو خوش رکھنے کا نام ہے۔ ایک دوسرے کی پرواہ کرنے کا نام ہے۔ مگر یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اس کے لیئے وقت اور لگن دونوں درکار ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے کی سوچ پہ متفق ہونے کا نام دوستی ہے۔ دوست وہ ہوتا ہے جو ہر وقت آپ کے لیئے تیار ہو۔ آپ اس کو رات میں کسی بھی وقت فون کریں تو وہ ضرور پریشانی میں آ جائے گا کہ کو ئی مسلئہ ہو گیا ہے اور وہ اس وقت اپنے آپ کو آپ کے لیئے پوری طرح حاظر کر دے گا۔ دوست وہ ہوتا ہے جس کو آپ اپنا ہر راز دیتے ہیں صرف اس وجہ سے کہ آپ اس پہ اعتماد کرتے ہیں۔ حالانکہ آپ کا اس کے ساتھ کو ئی خونی رشتہ نہیں ہوتا پھر بھی وہ آپ کے سب سے زیادہ قریب ہوتاہے۔ ﷲ تعالیٰ نے ہر انسان کو دوسرے انسان سے مختلف بنایا ہے۔ ہر انسان کی اپنی ایک الگ پہچان ہے۔
انسان کے انگلیوں کے نشان نہیں ملتے۔ انسان کی انکھ کی پتلی کا رنگدار حصے کے نشان نہیں ملتے اور انسان کے خیالات کسی دوسرے انسان سے سو فیصد نہیں ملتے۔ مگر جب کسی انسان کے خیالات کسی دوسرے انسان کے ساتھ ساٹھ فیصد تک مل جائیں تو وہ اچھے دوست بن سکتے ہیں۔
میری اپنی ایک سوچ ہے کہ دینا کا کوئی بھی رشتہ تب تک مکمل نہیں ہو سکتا جب تک اس رشتے میں دوستی کا عنصر نہ پایا جائے کیونکہ آپ دوستانہ ماحول میں اپنے والد یا والدہ یا کوئی بھائی یا پھر آپ اپنے شریک حیات میاں/ بیوی سے کو ئی بھی بات کر سکتے ہیں جو کہ غیر دوستانہ ماحول میں ان کے لیئے ناگوار ہو سکتی ہے۔
دوستی سے سب رشتوں میں اعتماد اور مضبوطی پیدا ہوتی ہے۔ بس آپ سمجھ لیں کہ ہر رشتے کی انتہا دوستی ہوتی ہے۔ کسی کے ساتھ اپنے دکھ سکھ بانٹنے کا نام دوستی ہے۔ سادہ سے لفظوں میں کہوں تو دوست کے بغیر زندگی ایک غلطی ہے یا زندگی ناممکن ہے کیونکہ جب بھی آپ اپنی زندگی میں مایوس ہوتے ہیں یا حوصلہ ہار جاتے ہیں تب آپ کو اٹھانے کے لیئے آپ کا دوست اگے بڑھتا ہے۔ بنا دوستوں کے زندگی تھمی رہے گی زندگی معذور ہو گی۔ یہ تو ہو گیا دوستی کا ایک سادہ سا تعارف۔
میرا یہ لکھنے کا مقصد کچھ اور ہے۔ میں اس مضمون وہ خدشہ بتانے جا رہا ہوں جو ہو سکتا ہے اگر ہم نے اس پر توجہ نہ دی تو نتیجہ کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ انسان پاگل بھی ہوسکتا ہے۔
اب آپ دیکھیں کہ یہ اتنی ساری خاصیات ہمارے معاشرے میں سے کس طرح ناپید ہوتی جا رہی ہیں۔ اب دوستی کا معیار بدل گیا ہے۔ ہر چیز نمائشی ہے۔ اب وہ بڑے بزرگوں والا دوست نہیں ملتا چراغ لے کے ڈھونڈنے سے بھی۔ اب دوست کے حروف کا مطلب کچھ اور ہو گیا ہے۔
د سے دولتمند
و سے وسائل والا
س سے ساکھ دار (رقم دے سکتا ہو)
ت سے تخت بخت والا
میرے کہنے کا مطلب تو آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے کہ اب جو دوست ڈھونڈے جاتے ہیں ان میں صرف امیری ہی دیکھی جاتی ہے۔ اب انسان یہ نہیں سوچتا کہ اس کو کسی کے ساتھ مخلص ہونا ہے۔ وہ بس اب یہ سوچتا ہے کہ وقت کو اچھے اور شاہانہ طریقے سے کیسے گزارنا ہے۔ لوگوں کا معیار بلند اور ذہنیت پست ہو گئی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ آنے والے وقت میں دوست کا لفظ صرف کتابوں تک ہی محدود رہ جائے گا۔ اس کی جگہ ایک نیا لفظ معاشرے میں آئے گا وقت گزار کا۔ اب لوگ ایک دوسرے کو وقت اس لیئے نہیں دیتے کہ ان کو دوست سے خوشی ملتی ہے۔ وہ وقت اس لیئے دیتے ہیں کہ ان کا وقت گزر جاتا ہے اور جب وہ مصروف ہوتے ہیں تو وہ بظاہر جس کو دوست کہہ رہے ہوتے ہیں اس سے جان چھڑانے کے بہانے تلاش کرتے ہیں۔
مجھے معلوم ہے کہ زندگی بہت مصروف ہو گئی ہے انسان کے پاس خود کے لیئے وقت نہیں ہے۔ یہ ایک اچھا جملہ ملا ہوا ہے آج کل لوگوں کو۔ ارے اگر آپ خود کو انسان کہتے ہیں تو انسان ہونے کا مطلب بھی تو سمجھیں۔ دوسروں کے لیئے جینا ہی آپ کے انسان ہونے کا پختہ ثبوت ہے۔ اب یہ ایک چھوٹے سے جملےمیں ساری بات ہے۔ ہمارا پاکستان کا معاشرہ شاید دنیا میں رشتوں کے اعتبار سے کسی اچھے درجے پہ ہوتا ہو گا مگر مغرب کے معاشرے میں رشتوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ وہاں شاید دوستی کا کچھ اور ہی مطلب ہوگا۔ اب ہمارے معاشرے میں دوستی کے رشتے کو کم کرنے کے لیئے جو کچھ کیا جا رہا ہے وہ میں آپ کو بتانے لگا ہوں کیونکہ میرا یہ مضمون انٹرنیٹ پہ ہی شائع ہو گا تو میں آپ کو انٹرنیٹ کی ہی چند مثالیں دوں گا
سب پہلے تو مغرب والوں نے ویب سائٹ بنائی۔ نام انہوں نے بہت سوچ کے رکھا جال والی جگہ۔ مگر یہ جال انہوں نے اتنا خوبصورت بنایا کہ ہر انسان اس کی طرف کھنچتا ہی چلا گیا اور آخر وہ اس جال کے شکنجے میں آگیا تو اس کی معاشرتی قدریں گرنے لگیں۔ اس کی سوچ کا انداز بدل گیا۔ اس کی ترجیحات بدل گئیں۔ اب ویب سائٹ پہ دوستیاں ہونے لگیں۔ جیسے کہ آپ کے سامنے فیس بک ہے۔ اب ہر پاکستانی جو فیس بک استعمال کرتا ہے وہ اس بات پہ اتفاق کرتا ہے کہ فیس بک پہ ننانوے فیصد جھوٹ ہے۔ مگر پھر بھی یہاں پہ دنیا کی کسی بھی جگہ کے مقابلے میں سب سے زیادہ دوستیاں ہوتی ہیں۔ اب ان دوستیوں کا معیار دیکھیں کہ ایک دوسرے کو دوست بناتے ہیں اور پانچ منٹ بعد دوستی ختم ہو جاتی ہے۔ دوستی کی زندگی کتنی چھوٹی ہو گئی ہے اور اس دوستی میں نہ اعتماد ہوتا ہے نہ ہی اس میں کسی کی پرواہ ہوتی ہے نہ ہی کوئی اپنی دوستی پہ مان کر سکتا ہے نہ ہی ایک دوسرے کو سچ مچ میں دیکھا ہوتا ہے۔ انسان ایک ڈبے کے سامنے بیٹھ کے دوست بناتا ہے اور ایسے دوست جن کی کچھ دیر بعد جنس بھی بدل سکتی ہے۔ ایسی دوستی جو جھوٹ سے شروع ہوتی ہے اور کسی کڑوے سچ پہ ختم ہو جاتی ہے۔ سب کچھ الٹ پلٹ کے رکھ دیا۔ پہلے دوست کم ہوتے تھے مگر ساتھ نبھاتے تھے۔ ایک دوسرے ست سچ مچ میں ملتے تھے۔ اب دوست ہزاروں کی تعداد میں ہیں مگر ساتھ ایک لمحے کا نہیں ہے۔ ایک دوسرے کو دہکھا تک نہیں اور دوست بن کے بیٹھے ہیں۔ یہ ایسی کیسی دوستی ہے بھئی۔ اب وقت گزاری ہے جس کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔
میں نے فیس بک پہ ہی ایک تصویر دیکھی جس میں کسی انگریز کی میت پڑی ہوئ تھی اور تین لوگ کھڑے ہوئے تھے اور تصویر پہ لکھا ہوا تھا مرنے والے کے فیس بک پر دو ہزار دوست تھے ایک بھی نہیں آیا۔ کتنی شرم ناک بات ہے کہ آپ کو پرشانی میں پوچھنے والا بھی کوئی نہیں کیونکہ آپ کی دوستیاں بجلی تاروں اور شعاؤں کے بیچ میں ہے۔ حقیقت میں آپ کا کوئی حقیقی دوست نہیں ہے۔ یہ سب وقت گزار ہیں۔ آپ کنویں کے مینڈک بنتے جا رہے ہیں اور کنواں بہت چھوٹا ہوتا ہے اور دنیا بہت بڑی ہے۔ آپ جب مر جاؤ گے تو لوگوں کو آپ کا پتا بھی نہیں چلے گا۔ کو ئی نہیں ہو گا جو آپ کے بعد آپ کی اچھائیاں لوگوں کو بتائے گا کیونکہ صرف دوست ہی وہ جانتا ہے جو آپ جانتے ہیں۔ جیسے ہم لوگوں نے دوست بنا رکھے ہیں یہاں ہم جائیں گے اور وہاں ان کی زندگی میں کو ئی اور آ جائے گا۔ وہ آپ کو بہت جلدی بھول جائیں گے۔ آپ ان کے لیئے ایک وقت گزار ہو اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہو۔ اس لیئے میرے دوستوں میرے ساتھیوں یہ تصوراتی دنیا سے باہر آؤ اور اپنی حقیقی دنیا میں واپس جاؤ۔ وہ دنیا جہاں قہقہے ہی قہقہے ہوتے تھے۔ جہاں پہ لڑائیاں ہوتی تھی اور پھر صلح بھی ہو جاتی تھی۔ جہاں پہ بیشک ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچی جاتی تھی۔ جہاں ایک دوسرے کے خلاف کوئی بات نہیں برداشت کی جاتی تھی۔ جہاں آپ بیٹھ کے دوست ہونے کا حق ادا کرتے تھے۔ جہاں آپ دوست لفظ کے ساتھ انصاف کرتے تھے۔ جہاں روپیہ پیسہ شکل صورت اہمیت نہیں تھی صرف ایک دوسرے کی ذات ہوتی تھی۔ ان لوگوں میں واپس جاؤ جن پہ آپ مان کر سکتے تھے۔ جن پہ آپ اپنا حق جماتے تھے۔ جس میں آپ اپنے دوست کی چیز کو اپنے باپ دادا کی چیز سمجھتے تھے۔ وہ بےتکلفی وہ احساس وہ پیار وہ درد وہ خوشی آپ کا انتظار کر رہی ہے۔ لوٹ جاؤ اس زندگی کی طرف جہاں دوستی کے لیئے سال میں ایک دن مختص نہیں تھا بلکہ ہر وہ لمحہ جو آپ دوستوں میں گزارتے تھے۔ وہ ہر لمحہ دوستی کے لیئے مختص تھا۔ یقین جانیں کہ وہ زندگی تھی۔ یہ تو بس بکواس ہے۔ اپنے پرانے دوستوں کے لیئے وقت نکالیں۔ مجھے امید ہے زندگی رنگین ہو جائے گی اور مجھے اس بات کا بھی یقین ہے کے وہ بڑے بزگوں والا دوست ابھی بھی اس معاشرے میں پایا جاتا ہے۔ وہ دوست آپ کے اندر ہی ہے مگر آپ نے اس کو قید کر کے رکھا ہوا ہے۔ آپ اس کو باہر نکالیں گے تو ہمارا یہ ایک قیمتی رشتہ ارض پاک سے ختم ہونے سے بچ جائے گا۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کے ہم اس رشتے کی پاکیزگی اور اس کے وجود کو اس کی شرطوں کو زندہ رکھیں
دوستی لازم ہے زندگی کے واسطے:
زندگی میں رشتے ملا ہی کرتے ہیں۔ مگر ایک انسانی رشتہ ایسا ہے جس میں ”زندگی“ ملا کرتی ہے اور وہ رشتہ ہے ”دوستی کا رشتہ“ زندگی میں ہر رشتے کی اپنی ضرورت اور اہمیت ہوتی ہے جس طرح پانی کی پیاس دنیا کی کسی نعمت سے پوری نہیں کی جا سکتی اسی طرح دوستوں کی کمی کو مال و دولت کی آسائشوں سے پورا نہیں کیا جا سکتا۔ اسی کا ثبوت وہ مزہ اور وہ خوشی ہے جو انسان کو اپنے دوستوں کے ساتھ مل بیٹھ کر کینٹین کے سموسوں اور ریڑھی کے گول گپوں‘ برف کے گولوں اور روئی کے گالوں جیسے نرم لچھوں سے حاصل ہوتا ہے لیکن پانچ سات ستاروں والے شہر کے سب سے بڑے ہوٹلوں کی سب سے مہنگے اور بہترین برتنوں میں اکیلے بیٹھ کر کھانے سے نہیں ملتا۔
انسان کا دل فطری طور پر خوشی اور اطمینان کے جذبے پہ پیدا کیا گیا ہے۔ دوست وہ رشتہ ہیں جن کے سامنے اٹھنے‘ بیٹھنے‘ ہنسنے‘ بولنے کے اصولوں کا حساب کتاب نہیں رکھنا پڑتا۔ کب بولنا اور کتنا بولنا ہے کمزوریوں کو کیسے نہیں بتانا ہے۔ آنسوؤں کی نمی کو بہانوں میں کیسے چھپانا ہے جیسے مشکل اور تھکا دینے والے عمل سے گزرنا نہیں پڑتا۔ دوستوں کے ایک مصافحے پر اپنے دل کی ڈور ان کے ہاتھ میں تھما دیتے ہیں آنکھوں کے اشاروں سے الجھن سما دیتے ہیں اور ایک بار گلے لگتے ہی تمام دنیا سے چھپائے ہوئے خوف و الم الف تا ے سنا دیتے ہیں۔
یہ سب نعمتیں جو دوستی کے رشتے کے عوض ملتی ہیں دل کو سمندر کا سا سکوت اور صاف نیلگوں آسمان کی طرح کی وسعت عطا کرتی ہیں۔ ہمیں دنیا سے لڑنے کیلئے نئے سرے سے تیار کرتی ہیں۔ دوست غموں کے اکاؤنٹ کوخالی کرکے خوشیوں‘ قہقہوں اور مسکراہٹوں کے خزانوں سے بھردیتے ہیں۔ یہ وہ اثاثہ ہیں جو انسان سے کوئی چھین نہیں سکتا۔ یہ وہ قوتِ مدافعت ہے جو انسان کو اپنی زندگی کی کٹھن لڑائیوں کو لڑنے کے قابل بناتی ہیں۔ والدین مشکل وقت میں سائبان بن کر مشکلوں سے محفوظ کرنے کی سعی کرتے ہیں۔ بیوی شوہر کی کامیابی اور حفاظت کی دعائیں مانگتی ہے۔ شوہر مشکل وقت میں بیوی کا حوصلہ بڑھاتا ہے۔ لیکن صرف ایک رشتہ ایسا ہے جو امتحانوں میں ہمارے ساتھ قدم سے قدم‘ کندھے سے کندھا اور ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے مشکلوں کا ایک ساتھ سامنا کرنے جاتا ہے‘ دوستی کا رشتہ، سکول کے دوست‘ کالج کے دوست‘ یونیورسٹی کے دوست خوشیوں اور مشکلوں کے ایسے ساتھی ہوتے ہیں کہ آنسوؤں میں قہقہے شامل ہوتے ہیں۔ لڑائیوں سے محبت بڑھتی ہے۔ چھین کر کھانے سے ہی بھوک مٹتی ہے اور بہت بولنے سے بھی دل نہیں بھرتا۔ یہ سب احساسات ایسے ہی ہیں جیسے کھٹی میٹھی چاٹ‘ شدید گرمی میں کافی اور یخ سرد ہواؤں میں آئیسکریم جیسے لطیف جذبات۔
بہترین دوست وہی ہیں جو ہمیں اس دنیا کی تاریک اور بدصورت حقیقتوں سے بہاروں کی طرح نبرد آزما ہونا سکھائیں۔ ہماری غلطی کو غلط اور اچھائی کو صحیح طریقے سے شناخت کرنے اور ہم پر ہمارے رویے کو بہتر بنانے کی غرض سے پرخلوص ہو کر نصیحت کرنے کی اہلیت رکھتے ہوں کیونکہ آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ”انسان اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے“۔
اﷲ ہم سب کو بہترین دوست عطا فرمائے ہمیں اپنے دوستوں کیلئے بہترین دوست بننے کی ہمت دے اور ہمارے دوستوں کی حفاظت فرمائے اور دنیا کے دوستوں کوجنت کے راستوں کا ہمراہی بنا دے تاکہ وہاں بھی ہم ساتھ رہیں۔
سچی دوستی کی پہچان:
ہماری زندگی میں بہت سے لوگ ہوتے ہیں جن کو ہم اپنا دوست سمجھتے ہیں. ان میں سے شاید کچھ ہی ایسے ہوتے ہیں جو سچے دوست کہلائے جانے کے لائق ہوتے ہیں۔ ان لوگوں کو پہچاننا اور ان کی قدر کرنا بہت ضروری ہے۔ باقی لوگوں سے بھی برتاؤ تو اچھا ہی رکھنا چاہئیے لیکن یہ معلوم ہونا چاہئے کہ ان کے ساتھ ہماری دوستی پکی اور سچی دوستی نہیں ہے۔ خود اپنا بھی مواخذہ کرنا چاہئے کہ ہم کتنے لوگوں کے لئے سچے دوست ہیں اور کتنے لوگوں سے ہماری دوستی صرف وقتی اور ظاہری ہے۔ آیئے دیکھتے ہیں کہ سچی دوستی کی کیا پہچان ہے۔
سچی دوستی ایک دوسرے کے لئے تکلیف کا باعث نہیں بنتی۔ ایسے جملے نہیں ٹکائے جاتے جن سے ایک کو مزا آئے اور دوسرے کے دل کو چوٹ لگے۔ ایک دوسرے کے نازک پہلوؤں کا پتہ ہوتا ہے اور ان کا خیال رکھا جاتا ہے۔ سچی دوستی بہت پرتکلف نہیں ہوتی۔ ہر وقت یہ ڈر نہیں ہوتا کہ اگر فلاں موقع پر خاطر مدارات نہیں کی گئی یا زیادہ نہ پوچھا تو دوسرا ناراض ہوجائے گا یا برا مان لے گا۔ کچھ لوگوں کے خیال میں دوستی کو چلانا آسان ہوتا ہے اور بوجھ محسوس نہیں ہوتا۔ البتہ میرے نزدیک دوستی نبھانا آسان نہیں ہوتا۔ دوستی نبھانے کے لیے آپ کو موٹر سائیکل چلانا آنا چاہیے تاکہ آپ اس کے گھر آجا سکیں۔ اگر وہ مشکل میں ہے تو اس کی مدد کو پہنچ سکیں۔ دوستی شروع کرنے کی عمر دراصل بچپن ہی کا دور ہوتا ہے۔ کالج کے نئے دوست دراصل مضبوط دوست نہیں ہوتے۔ سچی دوستی یکطرفہ نہیں ہوتی۔ دونوں طرف محبت اور پیار ہوتا ہے۔ صرف ایک انسان ہمیشہ یاد نہیں کرتا بلکہ دونوں کو ایک دوسرے کا خیال آتا ہے۔ ایک دوسرے کی خیر خیریت پوچھنے کے لئے بھی بات ہوتی ہے، صرف مطلب کے وقت فون نہیں کیا جاتا۔ سچا دوست مشکل میں کام آتا ہے۔ جب زندگی میں کوئی تکلیف دہ مرحلہ ہو اور جب باقی لوگ غائب ہوں تو سچے دوست آپ کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ آپ کی ضروریات کو پورا کرتے ہیں۔ آپ سے اس وقت ڈیمانڈز نہیں کرتے بلکہ آپ کو تسلی دیتے، حوصلہ بندھاتے اور مشکل آسان کرتے ہیں۔ سچے دوست کے ساتھ وقت گزارنے میں مزا آتا ہے۔ ان سے دل کی باتیں کرنے کی آزادی ہوتی ہے۔ یہ خوف نہیں ہوتا کہ وہ آپ کی بات دوسروں تک پہنچائے گا یا آپ کے خلاف استعمال کرے گا۔ اس کی باتوں میں آپ کو دلچسپی ہوتی ہے اور آپ اس کے ساتھ گزارا ہوا وقت انجوائے کرتے ہیں۔ سچے دوست کی ایک اور علامت یہ ہے کہ وہ آپ کی خوشی میں خوش ہوتا ہے۔ آپ کو اپنی کسی خوشی کی خبر سناتے ہوئے ڈر نہیں لگتا کہ نظر، حسد، یا دل کی تنگی کا شکار ہوگا۔ آپ کو بھی اس کی اچھی خبروں پر دل سے خوشی ہوتی ہے۔ سچے دوست کی یہ علامت نہیں ہے کہ اس سے ہر وقت باتیں ہوں اور اسے آپ کے ہر خیال اور ہر حال سے واقفیت ہو بلکہ وقتاً فوقتاً بات چیت بھی کافی رہتی ہے، نہ دونوں کے اخلاص میں کمی ہوتی ہے نہ ایک دوسرے کی محبت میں۔ دن میں کئی دفعہ بات ہونا اور ہر دوسرے دن دوسرے کے گھر چکر لگانا اچھی دوستی کی پہچان نہیں ہے۔ اچھا اور سچا دوست بےجا آپ کی حمایت نہیں کرتا۔ جب کسی معاملے میں آپ سے غلطی ہو تو وہ آپ کو بتا دیتا یے کہ اس میں آپ غلطی پر ہیں۔ وہ آپ کو اچھے مشورے دیتا ہے اور آپ کا مائنڈسیٹ ٹھیک کردیتا یے ہمیشہ آپ کو صحیح کہنے کے بجائے آپ کی اصلاح کے پہلو نمایاں کرتا ہے۔ سچا دوست آپ کو برائی کے بجائے اچھائی کی طرف مائل کرتا ہے۔ اس کے ساتھ وقت گزارنے سے آپ کے مثبت پہلو اجاگر ہوتے ہیں۔ آپ کو وہ برائیوں کی لت نہیں لگاتا بلکہ اچھائی کے کاموں میں آپ کے ساتھ شامل ہونا چاہتا ہے۔ سب سے اچھی اور سچی دوستی وہ ہے جو اللہ تعالٰی کی خاطر ایک دوسرے سے کی جائے۔ اس کی خاطر ملاقات ہو، اس کی خاطر ایک دوسرے سے محبت ہو، مل کر اس کی راہ میں کوششیں ہوں، ایک دوسرے کی اور بھلائی کی راہ میں ہمت بڑھائی جائے اور سبقت لے جانے کی کوشش بھی کی جائے اگر ایسا ہو تو اللہ تعالٰی راضی بھی ہو گا۔ اپنے حساب سے اس دوستی میں برکت بھی ڈالے گا اور قیامت کے دن اپنے عرش کے سائے تلے جگہ بھی دے گا۔ انشاءاللہ۔
اچھے دوست کیوں نہیں بنتے ؟
مختصر یہ کہ ہم بہت سے اچھے لوگوں کو اپنی غلطی سے ضائع کر دیتے ہیں صرف اس لیے کہ ہم خود ہلکے اخلاق کے مالک ہوتے ہیں۔
فائدہ مند دوستی:
سورہ الزخرف، آیت 67 میں ہے. ” اس دن(گہرے) دوست بھی ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں گے سوائے پرہیزگاروں کے۔”
وہ دوستی جو بھلائی کی طرف لے کر جانے والی ہو۔ ایسا دوست جو دنیا اور آخرت دونوں کے لیے فائدہ مند ہو ہم اسکا انتخاب کریں۔ بھلائی کا ساتھی اونچے نیچے دشوار گزار راستوں میں ہمسفر ہوتا ہے۔ وہ صحیح فیصلہ کرنے میں مددگار اور ہمیشہ ایک گائیڈ کے فرائض سرانجام دیتا ہے۔ وہ اس دنیا کی تاریک اور بد صورت حقیقتوں سے بہادری کے ساتھ نبرد آزما ہونا سکھاتا ہے۔ وہ رویوں کو بہتر بنانے کی غرض سے پر خلوص ہو کر نصیحت کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ وہ مثبت رویوں اور حوصلہ افزائی کے زریعےخود اعتمادی دینا جانتا ہے۔ بھلائی میں شریک دوست ایک دوسرے کو اللہ سے قریب کرنے والے ہوتے ہیں۔ وہ مل کر اللہ کی طرف بڑھتے ہیں۔ انکا مقصد صرف دنیا کی دوستی ہی نہیں بلکہ آخرت کی ابدی دوستی بھی ہوتی ہے۔ کہتے ہیں وفادار دوست وہ ہے جو تمہارے ساتھ جنت تک جائے۔ یعنی وہ دوستی جس کا مقصد جنت کا مستقل ساتھ ہو۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” انسان اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے لہذا ہر آدمی کو دیکھنا چاہیے کہ وہ کسے اپنا دوست بنارہا ہے.” ترمزی۔
آئیے سوچیں کہ ہم کیسا دوست بننا چاہتے ہیں۔ اور ہمارے دوست کیا جنت کے راستے پر ہمارے ساتھی ہیں اگر جواب ہاں میں ہے تو ہم خوش نصیب ہیں اور نہیں میں ہے تو ایسے لوگوں کے ساتھ کی فکر اور دعا کرنی چاہیے۔
ٹرمپ نے کہا
مالک و مصنف: کاشف فاروق۔
No comments:
Post a Comment