URDU STORIES:

اردو ادب اور کہانیوں میں خوش آمدید ۔ قصہ کہانیاں، غزلیں، نظمیں، واقعات، طنزومزاح، لاہور کی پنجابی، کچھ حقیقت کچھ افسانہ، پراسرار خواب والی ٹیکنالوجی، میری فیملی کا ذاتی شجرہ نسب سن 1790ء تا 2023ء۔، قومی پیمانہ، تباہی و زلزلے، دو سو سالہ کیلینڈر، اردو سافٹ وئیر ڈاؤنلوڈ۔

Friday, September 16, 2022

PAL AUR ZINDAGI - NASIR HAIDER ZAIDI 1992 - پل اور زندگی ۔۔۔

   


پل اور زندگی ۔۔۔

 سابق پروفیسر سکالرز کالج لاہور، ناصر حیدر زیدی

[92۔1991]۔






آج انسان مادیت کی کشتی میں سوار ۔۔۔۔ خود غرضی کے چپو چلاتا۔۔۔ فریب کے جال بچھاتا اور لالچ کے موتیوں کی تلاش میں مگن۔۔۔۔ زندگی بناتا نظر آتا ہے اور جب لوگوں سے ان کے اس عمل کے بارے میں دریافت کیا جائے تو جواب ملتا ہے که سب یهی کرتے ہیں۔ اگر حساب کے دن کا پوچھو تو جواب ملتا ہے که ابھی بڑی زندگی پڑی ہے، بڑھاپے میں توبه کرلیں گے۔ آج هر شخص جو حب الوطنی ہونے کا دعویدار ہے۔ اپنے گریبان میں جھانکے تو بڑا بھیانک منظر پاتا ہے۔ شاید اسی لیے اپنے گریبان میں جھانکنے کی بجائے دوسروں پر تنقید کا سهارا لیتا ہے۔ شاید هر شخص اپنے اپنے فرائض سے غافل اور اپنے اختیارات کے ناجائز استعمال میں مگن ہے۔ سیاستدان ہے تو اپنی سیاست کو دوام دینے اور اپنی تجوریوں کو بھرنے میں مگن۔ قانون دان ہے تو سب سے زیاده قانون کی دھجیاں اڑاتا اور اپنوں کے لیے قانونی تحفظ کے خول چڑھاتا نظر آتا ہے۔ پولیس میں ہے تو عوام کو تحفظ دینے کی بجائے ظلم کے تمام ریکارڈ توڑتا پاتا ہے۔ طالب علم ہے تو غیر تعلیمی سرگرمیوں میں ملوث۔ بس سٹاپوں پر اپنی بهنوں کے لیے ایک مسئله۔ کمره امتحان میں نقل کو اپنا حق و بدتمیزی اور بد تهذیبی کو اپنی تہذیب سمجھتا نظر آتا ہے۔ کسٹم میں ہے تو ایسےمال کی تلاش میں ہے جس سے اسے رشوت میسر آسکے۔ غرض هر شخص اپنی ذاتی تسکین کی خاطر قومی مفادات کو داؤ پر لگا کر ملکی معیشت کو کھوکھلا کرتا نظر آتا ہے۔

افسوس!!!!!!۔ یه انسان جو آج مادیت کو اپنی منزل اور زندگی کو دائمی سمجھ بیٹھا ہے۔ شاید زندگی کی اصل حقیقت سے بالکل بے خبر ہے۔ گو ہمیں اپنی زندگی طویل نظر آتی ہے۔ لیکن کائنات کی حرکت میں اسکی حیثیت ایک پل سے زیاده نهیں۔ آیئے ہم اپنی زندگی کو سائنس کی نظر سے دیکھیں۔ سائنس دانوں کے مطابق اگر ہم ایک بهت بڑے کیمرے سے پوری کائنات کی تصویر اتاریں اور هر پانچ هزار سال بعد اسی طرح تصویریں اتار کر دس منٹ کی فلم تیار کرلیں تو کائنات ایک زنده شے کی مانند حرکت کرتی ہوئ محسوس ہوگی۔ یاد رہے که انسانی آنکھ کے سامنے ایک سیکنڈ میں 16 تصاویر گزاری جائین تو وه شے حرکت کرتی ہوئ محسوس ہوتی ہے۔

اس لحاظ سے ہمارے اسی هزار سال کائنات کے ایک سیکنڈ کے برابر بنتے ہیں۔ جهاں تک انسانی عمر کا تعلق ہے تو وه 50 یا 60 سال ہوتی ہے۔ یه زندگی کائنات کی زندگی کے ایک پل سے بھی کم ہے۔ ہمارا تو جنم بھی ایک ہی ہوتا ہے۔ کیونکه ہمارا اسلامی عقیده بھی ایک ہی زندگی پر ایمان رکھتا ہے تو پھر اس پل کی زندگی میں کوئ ایسا کام کیا جائے جس کے خلاف ہمارا ضمیر باربار ملامت کرے۔ حالانکه ہماری موت سے خدا ہمیں روزانه آگاه کرتا ہے۔ بلکه ہم هر روز موت کا شکار ہونے کے باوجود اس زندگی کی ناپائداری کو محسوس نهیں کرتے۔ اکثر ذہنوں میں یه سوال ابھر سکتا ہے که یه روزانه کی موت سے کیا مطلب؟۔۔۔ یه موت روزانه خواب کی صورت میں ہمارے سامنے آجاتی ہے۔ کیونکه ہم جب خواب دیکھ رہے ہوتے ہیں تو اس وقت وه خواب اپنی جگه ایک زندگی ہوتا ہے، ہم اکثر خواب میں اپنی من پسند اشیاء حاصل کرکے مضبوطی سے تھام لیتے ہیں که کهیں وه ہم سے چھن نه جائے۔ مگر دوسرے ہی لمحے ہماری آنکھ کھل جاتی ہے اور ہمارے خواب کی موت آجاتی ہے۔ خواب کی یه موت ہمیں روزانه ہماری زندگی کی موت کا پیغام پهنچاتی ہے۔ جس طرح ہم خواب میں خواب ماننے کیلیے تیار نهیں ہوتے۔ لیکن خواب کے ختم ہوتے ہی اس کی بے حقیقی کا احساس ہوتا ہے شاید اگلے ہی پل۔ یهی بات ہم اپنی زندگی کے لیے محسوس کرنے والے ہیں۔ ہمارا فرض ہے که زندگی کے اس پل میں خالق حقیقی کے شکر گزار ہوں۔ جس نے ہمیں ایک جائداد ایک بے عیب انسان اور ایک مسلمان بنایا۔ جب خدا نے ہمیں تخلیق کیا تو اس وقت ہمارا کردار شفاف اور دامن پاک تھا۔ مگر افسوس آج سرشرم سے جھکا جاتا ہے۔

م مادیت کو اپنی لازمی ضرورت سمجھتے ہوئے، اس میں غرق ہوتے جارہے ہیں۔ اپنی محرومیوں کے لیے رب سے شکوه کرتے ہیں شاید ہمیں معلوم نهیں که ہماری ضرورتوں کو ہمارا رب ہم سے کهیں بهتر جانتا ہے۔ ہمیں شاید معلوم نهیں که خدا تو ہماری ضرورتوں سے اس وقت بھی بخوبی آگاه ہوتا ہے جب ہماری پرورش ماں کے پیٹ میں ہورہی ہوتی ہے۔ اس وقت ہم ہم نهیں ہوتے لیکن وه خالق مصروف عمل ہوتا ہے۔ دیکھنے کیلیے آنکھیں، چلنے کے لیے پاؤں، سوچنے سمجھنے کے لیے دماغ جیسا کمپیوٹر عطا کرتا ہے۔ ہمارے اندر ایک دل دھڑکاتا ہے۔ غرض خدا اس وقت ہم پر نعمتوں کے دروازے کھول دیتا ہے۔ جب ہمیں اپنی کسی ضرورت کا کوئ علم نهیں ہوتا۔ افسوس!!!! جس خالق نے ہمیں اتنی توجه سےبنایا اور ہمیں زندگی بخشی اسی زندگی میں ہم نے خالق کے بتائے ہوئے اصولوں کو روند ڈالا۔ خالق کی عطاء کرده نعمتوں پر شکر گزار ہونے کی بجائے ہم نے اپنی طاقت پر گھمنڈ کرنا شروع کردیا۔ نه جانے خالق کو اتنا افسوس ہوتا ہوگا اپنی تخلیق کے اس طرز عمل پر۔۔۔ کائنات کھربوں سال سے قائم ہے اور نه جانے کتنے کھربوں سال تک چلے گی۔ اس کائنات کے اس پل میں ہم زنده ہیں لیکن زندگی کی اہمیت سے ناواقف ہیں۔ کبھی کسی قبرستان سے گزر کر تو دیکھیں کتنے بلنگ بانگ دعوے کرنے والے کتنے مغرور کتنے غاصب کتنے راشی وه لوگ جو دوسروں کو چین نه لینے دیتے تھے۔ اب کسی قدر خاموش اور بے بس منوں مٹی تلے دبے پڑے ہیں۔ ان لوگوں کی قبروں کی خاموش چیخوں کو ذرا غور سے سنیئے یه بار بار ہم سے کهه رہی ہیں که خدارا نیکی، عبادت، ہمدردی، محبت، اخوت، ایثار کے جو کام کرنے ہیں کر لیجیئے۔ کیونکه اگلے ہی پل تم بھی اس قدر خاموش اور بے حرکت ہوجاؤ گے اور پھر کبھی نیک عمل کے لیے زندگی نه پاسکو گے۔ ذرا سوچیئے تو یه لڑائ یه لالچ یه غرور یه خود غرضی، اور یه مفادات کیسے۔۔۔ آیئے ہم سب عهد کریں که اس پل کو جو ہمیشه کے لیے صرف یادیں چھوڑ کرجانے والا ہے۔ اس خوبصورتی سے بتا دیں که ہمارا خالق اپنی اس تخلیق پر ناز کرسکے۔




کمپوزر: کاشف فاروق۔ لاہور سے۔

No comments:

Post a Comment