پاکستان میں لوگوں کے کچھ نفسیاتی مسائل
آرٹیکل 2005ء میں تحریر کیا گیا۔
کچھ نفسیاتی بیماریوں اور ان کے حل کے بارے میں معلومات حاصل کریں جن کا ذکر درج ذیل ہے۔ کسی کام کو بار بارہ دہرانے والے کو، بار بار ایک ہی موضوع پہ بحث کرنے والے کو نفسیاتی مریض کہتے ہیں۔
کچھ عام بیماریوں کے نام |
تفصیلات |
Conduct
Disorder (CD) کرداری
مرض |
غصہ، طبیعیت میں چڑچڑاپن، ظالمانہ کیفیت |
OBSESSIVE
COMPULSIVE DISORDER (OCD) |
بے بنیاد خیالات اور شکوک و شبہات |
Schizophrenia |
ذہنی پریشانیاں یا انشقاق ذہنی |
پاکستان میں ان نفسیاتی
بیماری میں اضافہ |
نفسیاتی و ذہنی بیماریوں کی وجوہات |
||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
تعارف قدرت کی طرف سے آنے والی مسلسل
پریشانیوں اور ناکامیوں کی وجہ سے انسان ذہنی دباؤ ٹینشن یا ڈپریشن کا شکار
ہوجاتا ہے۔ ہر وقت ناکامیوں کے بارے میں کچھ نہ کچھ سوچتا رہتا ہے، جس کی وجہ سے دماغ کی رگوں میں نمکیات جن کو منرلز کہتے ہیں کمی ہوجاتی ہے اور اس کی وجه سے
انسان کے ذہن میں خودکشی جیسے رجحانات پیدا ہونا شروع ہوجاتے
ہیں۔ اسی وجہ سے کئی ذہنی و جسمانی بیماریاں پیدا ہوجاتی ہیں۔ ذہنی میں انشقاق ذہنی یعنی
شیزوفرینیا تک ہوجاتا ہے جبکہ جوانی میں اس کے بال جھڑنے لگتے ہیں، سفید پڑنے
لگتے ہیں اور ساتھ میں معدہ ضرور خراب ہونے لگتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ غربت، مہنگائی،
بے روزگاری، آبادی میں اضافہ، میڈیا کا غلط استعمال ہے۔ ڈاکٹر جو دوا تجویز کرتا
ہے وه اینٹی ڈپریسینٹ کیپسول ہوتا ہے، اینٹی بائیوٹک نہیں
ہوتا، جس کے کوئ سائیڈ ایفیکٹس نہیں ہوتے۔ یہ کیپسول دماغ کی رگوں
میں نمکیات پہنچا دیتا ہے۔ اس دوا کے استعمال سے انسان کو ذہنی سکون ملتا ہے۔ وه
اپنے آپ کو بالکل ہلکا پھلکا محسوس کرتا ہے۔ اکثر باتوں کا پازیٹو + جواب دیتا ہے۔ مریض تیز تیز کام کرنے لگتا ہے۔ آس پاس کے لوگ
سمجھیں گے کہ مریض صحتیاب ہوگیا۔ مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا۔ یہ دوا کے اثر
کی وجہ سے ہورہا ہوتا ہے۔ جیسے ہی مریض دوا چھوڑ دیتا ہے یا گھر والوں کے مشورے
سے چھوڑ دیتا ہے تو وہ دوبار فوراً ویسا ہی بن جاتا ہے جیسے پہلے تھا۔ اسی لیے
دوا تب تک کھائی جائے جب تک کہ ڈاکٹر آپ کو نہیں بول دیتا۔ Conduct Disorder کرداری مرض یہ بچوں کا مرض ہے۔ اس
مرض میں بچہ معاشرتی معیاروں سے انحراف کرتے ہوئے جارحانہ یا غیر مہذب کردار
اپناتا ہے۔ دراصل ایک بچے میں کرداری مرض تخریبی کردار کے نمونے یا شخصیت کے
ابتدائ مراحل میں تمیز کرنا بہت مشکل ہے۔ ان سب کی علامات ایک دوسرے سے بہت حد
تک ملتی جلتی ہیں۔ علامات: اس مرض میں دوسروں کے
حقوق نصب کرنا معاشرتی معیاروں کی پرواه نہ کرنا، قوانین توڑنا، وغیرہ شامل ہیں۔
ایسا کردار گھر، اسکول، دوستوں اور معاشرے میں تقریباً ہر جگہ نمایاں ہوتا ہے۔
اس میں کرداری مسائل ایک دوسری بیماری آپوزیشنل ڈیفینٹ ڈس آرڈر سے زیاده سنگین ہوتے
ہیں۔ جس میں بچه نسبتاً کم سنگین منفی کردار اپنا لیتا ہے۔ اس مرض میں مبتلا بچہ
یا بالغ عموماً جسمانی طور پر جارحیت کا اظهار کرتا ہے۔ خود ہی لڑائ جھگڑے کا
آغاز کرتا ہے۔ دوسرے افراد یا جانوروں سے ظالما نہ
سلوک کرتا ہے اور درختوں کے پتے اور پھول توڑتا ہے۔ بعض اوقات جنسی تشدد کے واقعات بھی سامنے
دیکھنے میں آتے ہیں۔ ڈی ایس ایم 3 آر کے
مطابق تقریباً 9 فیصد مرد اور 2 فیصد خواتین اس مرض کا شکار ہوتے ہیں۔ قبل از
اسکول عمر میں یہ بچے اکثر غصیلی طبیعت کا اظہار
کرتے ہیں۔ بعد میں اسکول اور گھر میں
عموماً چوری جھوٹ بولنا نافرمانی جیسی عادات سامنے آتی ہیں۔ مثلاً اسکول سے
بھاگنا یا پڑھائی میں دلچسپی نہ لینا وغیرہ یا جس کا م کو منع کرو وہ کرنا۔ ستره سال سے زائد عمر کے جوانوں میں چوری کی عادات
ہوجاتی ہیں۔ ان میں جنسی رغبت میں تبدیلی پیدا ہوجاتی ہے جیسے غیر صحت مندانہ
جنسی حرکات مثلاً ہم جنس پرستی وغیره۔ مطالعوں سے پتا چلتا ہے کہ جارحانہ
کردار میں وراثت بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ تحقیق
کار اس بات پر متفق ہیں کہ اس مرض کے پیدا ہونے میں گھر کے ماحول کا بہت ہاتھ
ہوتا ہے۔ ان بچوں کو نفرت بےجا سختی غیر متوازن ڈسپلن و خیبت کا سامنا ہوتا ہے۔
اکثر والدین میں ازدواجی تعلقات خراب ہوتے ہیں۔ یا پھر یہ بچے سوتیلے والدین کے ساتھ ره رہے ہوتے ہیں یا پھر ان کے والدین کے
والدین یعنی بچے کے دادا دادی میں سے کوئ ایک یا دونوں سوتیلے ہوتے ہیں۔ یہ مرض اسطرح ورثے میں بچوں میں
منتقل ہوجاتا ہے۔ علاج: بچے کے اردگرد کے ماحول میں تبدیلی لائے بغیر اس کا حل ممکن نہیں۔ گھر کے ماحول میں ایک تبدیلی لانا
اس وقت مشکل ہوتا ہے، جب والدین میں طلاق ہوچکی ہو۔ عام طور پر معاشره ایسے بچوں کی طرف ہمدردانه توجه
دینے کی بجائے ان کو سزا دینے کے حق میں زیاده ہوتا ہے۔ بچے کے کردار کو سمجھنے کے بجائے سزا دینے کا
رویه اختیار کیا جاتا ہے جس کا نتیجه غیر سماجی شخصیت کی مزید نشونما
کی صورت میں نکلتا ہے۔ OBSESSIVE COMPULSIVE DISORDER
(OCD) خبط آمیز اجباری
ردِاعمال سن 1984ء کی تحقیق کے مطابق یہ مرض امریکہ میں ایک سے دو فیصد
لوگوں میں پایا جاتا ہے۔ عموماً اس کا آغاز ابتدائ
بلوغت میں کسی سنگین پریشانی کے
بعد ہوتا ہے۔ یہ مرض عورتوں مردوں میں یکساں ہوتا
ہے۔ ہمارے ہاں پاکستان ﴿ایشیاء﴾ میں مغرب کی
نسبت زیاده پایا جاتا ہے۔ خبط: OBSESSIVE یہ ایسے احمقانہ
ناخوشگوار اور نظاہربے بنیاد خیالات اور شکوک و شبہات ہیں جو کسی فرد کے شعور پر اس طرح حاوی ہوتے ہیں
کہ وه کوشش کے باوجود ان خیالات اور شکوک و شبہات کو اپنے شعور سے خارج کرنے میں
کامیاب نہیں ہوپاتا۔ کیونکہ اسے ان پر کوئ ارادی کنٹرول حاصل نہیں ہوتا۔ فرد
ایسے خیالات سے چھٹکارا چاہتا ہے لیکن یہ پھر ذہن پر وارد ہوجاتے ہیں۔ فرد جتنی
کوشش کرے، یہ اتنی ہی شدت کے
ساتھ وارد ہوتے ہیں۔ اجباری عمل: Compulsion ان سے مراد ایسے افعال
ہیں جن کی بظاہر کوئ وجہ نہیں ہوتی۔ خود فرد بھی ان کو سمجھنے سے قاصر ہوتا ہے۔
وه جانتا ہے کہ یہ فضول اور احمقانہ حرکات ہیں، مگر وه ان کو کرنے پر مجبور ہوتا
ہے۔ مثلاً:۔ چلتے ہوئے لکیروں سے بچ کر
چلنا، بار بار روپے پیسے گننا، ہر کھمبے کو انگلی لگانا، الماریوں یا گھریلو
اشیاء کو بار بار چھونا۔ دروازوں کے تالوں میں بار بار تیل ڈالنا، اور بار بار
جاکر دیکھنا کہ دروازه بند کیا تھا تو بند ہوا یا نہیں، ہاتھ بار بار دھونا، کسی
بجلی کے بٹن کو کپڑے یا دوپٹہ سے آن آف کرنا، گھر کی اشیاء کو ترتیب سے جمانا۔
وغیره۔ خبط کی اقسام: 1-شکوک و شبہات کا خبط:۔ مریض کو یہ شک ہوتا ہے کہ
کوئ کام ٹھیک طرح سے پائیہ تکمیل تک
پہنچا یا نہیں۔ 75 فیصد مریض اس قسم کے مرض میں مبتلا ہوتے ہیں۔ 2-خبط خیالات:۔ ایک نہ ختم ہونے والے خیالات کا سلسلہ ہوتا
ہے جو کہ مستقبل سے وابستہ ہوتے
ہیں۔ پاکستان میں 34 فیصد مریض اس میں مبتلا ہوتے ہیں۔ خبطی تحریک:۔ پاکستان میں تقریباً 17 فیصد مریضوں
کی تعداد اس مرض میں مبتلا ہوتی ہے۔ اس میں مریض میں کسی کام کے کرنے کی تحریک
بهت شدت سے جنم لیتی ہے۔ یه خیالات بار بار اسکے ذہن میں آتے ہیں۔ خبطی خوف:۔ پاکستان میں تقریباً 26 فیصد مریض اس میں مبتلا ہوتے ہیں۔
اپنے اوپر کنٹرول نه ہونے اور معاشرتی لحاظ سے شرمناک حرکت کرنے کا خوف ہوتا ہے۔ خبطی تصورات:۔ اس میں مریض کو کسی
حالیه دیکھے ہوئے یا تصوراتی واقعے کے متعلق خیالات ہوتے ہیں۔ پاکستان میں 7 فیصد مریض
اس میں مبتلا ہوتے ہیں۔ علاج: تحلیل نفسی:۔ اس طریقہ کار کی مدد سے
لاشعوری محرکات کو حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اسکے لیے مختلف طریقہ کار
مثلاً خوابوں کی تعبیر آزاد
تلازم کا طریقہ شامل ہے۔ کرداری طریقہ:۔ یہ طریقہ ماہرین کے
نزدیک جس طرح سے غیر مطابقتی کردار سیکھے جاتے ہیں، اسی طرح سے ان کو ختم
بھی کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً خیالات کو روکنا، ایک ہی عمل کو دهرانا۔ وغیره۔ کیمو تھراپی:۔ ادوایات مثلاً ٹرائ
سائکلک اور انهیبیٹر وغیره کا استعمال کیا جاتا ہے۔ انشقاق ذہنی ﴿شیزو
فرینیا﴾ Schizophrenia اقسام: ساده انشقاق ذہنی: SIMPLE SCHIZOPHRENIA اسکا آغاز بہت ہی آہستگی سے
عموماً زندگی کے اوائل ادوار میں اور خاص طور
پر بلوغت میں ہوتا ہے۔ مریض کی دلچسپی اور لگاؤ بیرونی ماحول میں آہستہ
آہستہ کم اور پھر ختم ہوجاتا ہے۔ علامات: آج کے مطابق پاکستان جیسے ناکام
ملک میں امتحان میں پاس فیل کی
پرواه نہیں ہوتی۔ سماجی تعلقات سے
قطع تعلقی کرلیتا ہے مریض۔ دوستوں اور خاندان سے کوئ لگاؤ نہیں رکھتا۔ بات کم
کرتا ہے، کرتا ہے تو فضول اور بے معنی سی۔ صحت
اور صفائ کو نظر انداز کردیتا ہے۔ جنس
مخالف میں کوئ دلچسپی نہیں لیتا۔ پاکستان کی ناکامی جاننے کے لیے ہمارا اوپر لنکس میں دیا گیا کرپشن کا آرٹیکل پڑھیں۔ شبابی انشقاق ذہنی: HEBERPHRENIC SCHIZOPHRENIA خیالات کا غیر مربوط اور معقول سلسلہ
ہوتا ہے۔ وسوسے زیاده تر جنسی،
جسمانی، مذہبی اور اذیت پہنچنے سے متعلق ہوتے ہیں۔ لیکن ان میں
تواہمی عظمت جیسی تنظیم نہیں پائ جاتی۔ علامات: مریض کبھی
کبھی اپنے ہی آپ سے ہنسنے لگتا
ہے، کبھی رونے لگتا ہے، کبھی کبھی
ہر وقت بغیر کسی وجہ کے مسکراتا رہتا
ہے، اپنے
آپ سے باتیں کرنا اسکی سب سے بڑی علامت ہے۔ کسی چیز کے بارے میں اتنا زیاده
سوچنا کہ کسی کاغذ پر اسکا نقشہ تک تیار کرلینا یا اس کام کو زبردستی انجام تک
پہنچانے کی کوشش کرنا عملی طور پہ، حتی کہ ایسے کام جو عملی طور پر ہونا آپ کے
بس میں نہ ہو، عجیب و غریب تصوراتی شکلیں نظر آنا، آنکھوں سے نہیں بلکہ سوچ سوچ
میں، یا ایسے واقعات یاد آجانا جو کبھی ہوئے
ہی نہیں تھے۔ خاص
کر اسکول میں جب اس کے ہم عمر ساتھی کھیل رہے ہوتے ہیں اور زندگی سے لطف
اندوز ہورہے ہوتے ہیں تو ایسے ماحول میں خاص طور سے مریض تنہائی پسند
ہوجاتا ہے۔ شیزوفرینیا کی بیماری ضروری نہیں کہ جوانی یا زیادہ عمر میں
لگے۔ یہ بچوں میں بھی پائی جاسکتی ہے۔ بلاہت: CATATONIC SCHIZOPHRENIA اس مرض میں سب
سے زیاده حر کی مسائل سامنے آتے ہیں۔ اگرچہ مریض پہلے ہی سے حقیقت سے لاتعلقی و
سرد مہری کا کچھ حد تک شکار ہوتا ہے، اس میں مریض کبھی پرُجوش اور کبھی مدہوش
نظر آتا ہے۔ مریض مدہوشی میں بغیر کسی حرکت کے ایک ہی حالت میں کافی دیر تک
بیٹھا رہتا ہے۔ خبط عظمت: PARANOID SCHIZOPHRENIA
یہ قسم باقی اقسام کی نسبت زیاده ہوتی ہے۔ ہسپتالوں میں زیاده تر تعداد انہی
کی ہوتی ہے۔ یہ مرض 25 تا 40 سال کی
عمر میں ہوتا ہے۔ مریض شکی مزاج ہوتا
ہے۔ باہمی تعلقات استوار کرنے میں مریض کو مشکلات آتی
ہیں۔ ماہرین کافی عرصے تک اس بات پر
دوسروں کو قائل کرنے کی کوششوں میں مصروف رہے کہ ذہنی بیماریوں میں ورثہ کی اہمیت نہیں ہوتی، بلکہ بعد کی تحقیقات سے یہ
بات سامنے آئی ہے کہ ورثہ ہی انشقاق
ذہنی کے مرض میں بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ورثہ یعنی HEREDITY۔ یہ بیماری ایک سے دوسری نسل میں
منتقل ہوتی ہے۔ کیونکہ قریبی رشتہ داروں کے جینز
آپس میں زیادہ ملتے جلتے ہیں۔انتہائی ضروری بات کہ ایک ماہر نفسیات MAUFRED BLEULER نے 1974ء نے 280 منشق الذہن
مریضوں کے بچوں میں انشقاق ذہنی کا مرض لاحق
ہونے کے امکانات عام لوگوں کی نسبت 10 گنا
زیادہ ہیں۔ علاج: اسکا علاج بذریعہ ادوایات بھی ممکن ہے۔ ڈاکٹر مریض کو دوا تجویز کرتا
ہے۔ مریض کو دوا کے استعمال کو اس وقت تک کرتے رہنا چاہیے جب تک کہ ڈاکٹر خود
دوا کا استعمال بند نہ کروادے۔ دوا کے استعمال کے اثر سے
مریض تیز تیز کام کرنے لگتا ہے۔ آس پاس کے لوگ سمجھتے ہیں کہ مریض صحتیاب ہوگیا
ہے، اب اسے دوا چھوڑ دینی چاہیئے، حالانکہ وه دوا کے اثر کی وجہ سے تیز تیز کام
کررہا ہوتا ہے۔
ڈیپریشن کی صرف ایک قسم ONE TYPE OF DEPRESSION
IS DISCUSSED HERE طبیعت یا موڈ میں اداسی یا یاسیت،
بھوک و وزن میں کمی یا بعض اوقات اضافہ ضرورت سے
زیادہ، سونے میں مشکلات رات کو ایک دفعہ نیند کھل جانے
کے بعد دوبارہ نہ آنا، صبح جلد از جلد بےدار ہوجانا، یا پھر بہت ہی دیر تک سوتے رہنے کی خواہش
کرنا، طبیعت میں بہت زیادہ سستی یا بےچینی، معمول
کے کاموں میں دلچسپی کم یا ختم کردینا، توانائی میں کمی، جسم میں تھکاوٹ، اپنی ہی ذات کے متعلق
منفی نقطہ نظر، خود کو حقیر یا بےوقعت خیال کرنا
یا بلا وجہ کی احساس شرمندگی پر توجہ مرکوز رکھنا، موت یا خودکشی سے متعلق خیالات، قوتِ
فیصلہ میں کمی۔ یہ علامات سادہ ڈیپریشن کی
ہیں۔
ڈیپریشن کے مریض کے لیے توجہ مرکوز رکھنا بہت مشکل ہے۔ انہیں
کچھ دھیان نہیں رہتا کہ انہوں نے کیا پڑھا، دوسرے لوگوں نے ان سے کیا کہا، ان کے لیے دوسروں سے بات
چیت کرنا بھی ایک مشکل کام بن جاتا ہے، بھولنے کی زبردست
بیماریی، دوسروں میں گھلنے ملنے سے گریز کرنا
اور تنہائی پسند بن جانا اس مرض کی خاص خاص نشانیاں ہیں۔
اکثر مریض ناگہانی یا پریشانی کو تسلیم نہیں کرتا، جنات
کی موجودگی سے انکار بھی کرنا، غصۃ بہت زیادہ آنا، اداسی یا یاسیت
اور کسی کی کوئی بھی بات یا خامی کو قبول کرنے سے انکار
کرنا بھی اس کی بڑی نشانی ہے۔اس کے علاوہ مریض دوسروں پہ انحصار کرتا ہے کہ کوئی اس کی مدد کرتا رہے، اپنی ہی ذاتی
غلطیوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے، اپنی اہلیت
کو نااہلیت جانتا ہے۔ اگر مرض کی تشخیص وقت پر
کرلی جائے تو ٹھیک ہے ورنہ اگر یہ دائمی شکل اختیار کرلے
تو پھر اپنی سابقہ حالت میں آجانا بہت مشکل بن جاتا ہے۔ PANIC DISORDER دہشتی مرض DSM II
میں سب سے پہلے panic disorder کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے۔ اس سے قبل اس مرض کی GENERALIZED ANXIETY DISORDER یا بےجاخوف PHOBIC DISORDERS کے
تحت درجہ بندی کی جاتی تھی۔ DSM-III-R میں اس کے لیے دو قسم کی درجہ بندی کی گئی ہے۔
علامات: دہشتی مرض کے تحت ہونے والی علامات اور اس سارے عمل کو ایک
دائرے کی صورت میں واضح کیا جاسکتا ہے۔
دہشتی مرض میں تشویش کا شدید حملہ ہوتا ہے اور کئی جسمانی
علامات ظاہر ہوتی ہیں۔ فرد کو مہلک مرض کا خوف ہوتا ہے، مثلاً دل کا دورہ
وغیرہ۔ اس سے قبل ان جسمانی علامات کی وجہ
سے اسے دل کے امراض مثلاً نقائص وغیرہ کے تحت شمار کیا جاتا تھا۔ کیونکہ یہ خیال
کیا جاتا تھا کہ اکثر مریض کے دل کے افعال کی خرابی کا اندیشہ درست ہوتا ہے۔ دوسری
جنگِ عظیم تک یہی خیال رائج تھا مگر بعد میں کچھ ماہرین نے اس کو نفسیاتی وجوہات
سے منسلک کردیا۔
DSM-III-R
کے مطابق دہشتی دورہ (PANIC
ATTACK) کے
دوران فرد میں درج ذیل علامات ظاہر ہوتی ہیں۔
ضروری نہیں کہ مریض ان تمام علامات کو ظاہر کریں۔ DSM-III-R
کے مطابق اگر کوئی فرد ان میں سے چار علامات کو بھی ظاہر کردے تو اس کو دہشتی دورہ
کے تحت شمار کیا جائے گا۔ اس میں تشویش کا غلبہ بہت جلد اور شدید طاری ہوتا ہے۔
فرد خود خوفزدہ ہوجاتا ہے کہ کوئی نہ کوئی ہولناک واقعہ ہونے والا ہے۔ دہشتی مرض
کی تشخیص کے لیے ضروری ہے کہ ایسے چار دہشتی دورے چار ہفتے تک لاحق ہوں یا پھر
دہشتی دورے کے بعد چار ہفتوں تک مسلسل مزید دورے کا خوف قائم رہے۔ کچھ نفسیاتی ماہرین کے مطابق یہ مرض موروثی ہوتا ہے اور
وراثت کے ذریعے ایک نسل سے دوسری میں منتقل ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ دہشتی دورہ کے
پیدا ہونے میں ہماری سوچ کا بہت حد تک عمل دخل ہوتا ہے۔ فرد اپنی جسمانی علامات سے
بہت زیادہ خطرناک تعبیریں وابستہ کرلیتا ہے اور اسی وجہ سے شدید دہشتی دورہ کا
شکار ہوجاتا ہے۔ PHOBIA بےجاخوف اس میں فرد کو کسی شے، جگہ یا صورتحال سے متعلق مسلسل غیر
عقلی خوف لاحق ہوتا ہے۔ فرد کی یہ شدید خواہش ہوتی ہے کہ وہ اس شے، جگہ یا
صورتِحال سے پہلو تہی کرے۔ اصل میں وہ چیز، جگہ یا صوتِحال خوفناک نہیں ہوتی بلکہ
فرد بغیر کسی وجہ کے ان سے بہت زیادہ ڈر و خوف محسوس کرتا ہے۔ اس بات کا وہ خود
بھی اعتراف کرتا ہے کہ یہ خوف نامعقول اور بےجا ہیں۔ مگر وہ اب پر قابو نہیں
پاسکتا۔ ایسی اشیاء اور صورتِحال سے گریز کی کوشش کرتا ہے۔ پروفیسر جیمز ڈی پیچ نے ایک کتاب ABNORMAL PSYCHOLOGY
میں اس بےجاخوف کی تعریف اس طرح بیان کی کہ: "بےجاخوف عجیب و غریب نوعیت کے ہوتے ہیں۔ مریض اس بات
سے آگاہ ہوتا ہے کہ یہ فضول ہیں لیکن وہ ان کی وضاحت یا ان پر کنٹرول نہیں
کرسکتا"۔ 1-خوف: FEAR۔ اس سے مراد فرد کا کسی ایسی شے یا صورتِحال سے ڈرنا ہے جس
سے خطرہ یقینی ہوتا ہے اور سب کو اس بات کا علم ہوتا ہے کہ اس سے خوفزدہ ہونا
فائدہ مند ہوتا ہے۔ ورنہ وہ شے یا صورتِحال نقصان بھی پہنچا سکتی ہے۔ مثلاً جنگلی
جانور۔ 2-بےجاخوف: PHOBIA۔ اس میں مریض کسی بےضرر شے یا صورتِحال سے خوفزدہ ہوتا ہے
اور اس سے بچنے کی شدید خواہش ہوتی ہے۔ لیکن دوسرے افراد اس شے یا صورتِحال سے
خوفزدہ نہیں ہوتے۔ مریض ان کو دیکھ کر کئی جذباتی اور عضویاتی علامات ظاہر کرنا
شروع کردیتا ہے۔ اسی طرح وہ شدید تشویش کا شکار ہوجاتا ہے۔ 3۔بےجاخوف کی علامات و اقسام: اس میں مریض جب کسی ایسی چیز کو دیکھتا ہے جس سے وہ خوفزدہ
ہو تو اس کا جسم تن جاتا ہے وہ تشویش کا شکار ہوجاتا ہے۔ جس سے اس کے سانس کی
رفتار تیز ہوجاتی ہے۔ عضویاتی دباؤ بڑھ جاتا ہے۔ اس کے نتیجے مین دیگر جسمانی
علامات مثلاً خون کے دباؤ میں اضافہ یعنی بلڈپریشر، پسینہ آنا، وغیرہ ظاہر ہونا
شروع ہوجاتا ہے۔ مریض اس چیز سے بچنے کی کوشش کرتا ہے اس کے بعد وہ جب کبھی ایسی
شے کو دیکھتا ہے تو یہی عمل دوبارہ ہوتا ہے۔ وہ حتی الامکان اس کا سامنا کرنے سے
احتراز کرتا ہے۔ مریض اس قسم کی صورتِحال میں جو تشویش کو پیدا کرے کا سامنا کرنے
سے کتراتا ہے بلکہ ایسی صورتِحال کا سامنا کرنے کے امکان سے بھی اس کو تشویش لاحق
ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ مثلاً لوگوں کا ہجوم، کیڑے مکوڑوں کا ڈر وغیرہ۔ نیوراتیت کے
تحت باقی امراض کی نسبت یہ بےجاخوف لوگوں میں بہت زیادہ عام ہوتے ہیں۔ بعض بےجاخوف ایسی نوعیت کے ہوتے ہیں جن میں مریض کو ساری
زندگی علاج کی ضروت محسوس نہیں ہوتی۔ مثلاً ہوائی جہاز میں سفر کرنے کا خوف۔ اگر
کسی فرد کو کبھی ہوائی جہاز میں سفر کی ضرورت ہی نہ پڑتی ہو تو اس کو علاج کی کوئی
خاص ضرورت نہیں ہوگی۔ لیکن ایسا شخص جس کا کام ہی دنیا کے ممالک میں سفر کرنے سے
متعلق ہو اور ہوائی جہاز میں جانا لازمی ہو تو ایسے مریض کو علاج کی زیادہ اور سخت
ضرورت ہوگی۔ 4۔پاکستان میں لوگوں کے بےجاخوف: اب اگر بات کی جائے پاکستان کی تو یہاں کچھ ایسے بےجاخوف پائے جاتے ہیں جو بیان کرنا واقعی عجیب لگتے ہیں۔ مثلاً کچھ لوگوں کو ٹیکسوں کا خوف ہوتا ہے یعنی ٹیکس فوبیا، ریٹرن بھرنے کا خوف، اکاؤنٹس لکھنے اور اس کی جانچ پڑتال کا خوف، بلیک منی کو چھپانے کا خوف، وکیلوں کے پاس جاکر مشورے لینے کا خوف کہیں وکیل ہی نہ پھنسوا دے، اس خوف کو انکم ٹیکس فوبیا یا ایف بی آر فوبیا کہتے ہیں۔ پولیس کا خوف، صحافیوں کے منہ لگنے کا خوف کہ کہیں یہ ہماری بےعزتی نہ کردیں، اس کے علاوہ کچھ لوگوں میں گاڑی اور موٹر سائیکل چلانے کا خوف پایا جاتا ہے، اس کو ڈرائیونگ فوبیا بولتے ہیں۔
کھلی جگہوں پہ جانے کے بےجاخوف کی دو اقسام یہ ہیں۔ بعض
اوقات مریض دہشتی دورے PANIC ATTACK کے ڈر سے ایسی جگہوں پہ جانے سے احتراز کرتا ہے جن سے اس کو
خوف محسوس ہوتا ہو کیونکہ ایسی صورتِحال کا سامنا اگر ہوجاۓ تو دہشتی دورہ پڑسکتا ہے۔ یہی
وجہ ہے کہ ایسے مریضوں میں یہ دونوں امراض بیک وقت بھی پاۓ جاتے ہیں اور دوسری قسم میں مریض
کو دہشتی دورے کا خطرہ نہیں ہوتا۔ 1-PANIC DISORDER WITH AGORAPHOBIA 2-PANIC DISORDER WITHOUT AGROPHOBIA یہ وہی دو اقسام ہیں PANIC DISORDER
دہشتی دورے کی جس کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے۔
کاشف فاروق ۔ لاہور سے۔
مالک، مصنف و کمپوزر: کاشف فاروق۔ لاہور سے۔ 2005۔ |
No comments:
Post a Comment