URDU STORIES:

اردو ادب اور کہانیوں میں خوش آمدید ۔ قصہ کہانیاں، غزلیں، نظمیں، واقعات، طنزومزاح، لاہور کی پنجابی، کچھ حقیقت کچھ افسانہ، پراسرار خواب والی ٹیکنالوجی، میری فیملی کا ذاتی شجرہ نسب سن 1790ء تا 2023ء۔، قومی پیمانہ، تباہی و زلزلے، دو سو سالہ کیلینڈر، اردو سافٹ وئیر ڈاؤنلوڈ۔

Friday, September 16, 2022

GONDNI WALA TAKIYA - GHULAM ABBAS - گوندنی والا تکیه ۔ غلام عباس۔

  گوندنی والا تکیه

غلام عباس

 


گوندنی کی اصل شکل


مصنف ابھی بچه ہی تھا که اس کے والد فوت ہوگئے۔ پندره برس کی عمر میں والده بھی انتقال کرگئیں۔ مصنف کا کوئ اور بھائ اور بہن بھی نهیں تھی۔ دنیا میں وه بالکل اکیلا رہ گیا۔ یکه و تنہا ہوجانے کے احساس نے اسے سخت دل برداشته کردیا اور اس نے اپنا گھر بار چھوڑ دیا۔ کچھ تو اسے سیاحت کا شوق تھا اور پھر پیٹ پالنے کے لیے روٹی کمانا بھی ضروری تھا۔ چنانچه وه بهت سے ملکوں کی خاک چھانتا پھرتا رہا۔ آخرکار اس نے سمندر پار ایک ملک میں رہائش اختیار کرلی اور چھوٹا موٹا کاروبار شروع کردیا۔ شادی بھی اس نے وہیں کی ایک عورت سے کر لی جس سے اس کے بچے بھی هوگئے۔ کاروباری مصروفیات میں وه اسقدر پھنسا که اس ملک سے اس کا نکلنا مشکل ہوگیا۔ کچھ عرصے بعد اسے چند اہم کاروباری امور کےلیے اپنے وطن جانے کی ضرورت پیش آئ۔ پھر وہاں اسے اپنی آبائ جائیداد کا بھی مسئله حل کرنے تھا۔ چنانچه وه وطن جانے کے لیے ریل کے طویل سفر کے بعد وه اپنے قصبے کے چھوٹے سے اسٹیشن پر اترا۔ اس نے بڑی مدت کے بعد اپنے آبائ وطن سرزمین پر قدم رکھے تھے۔ شدید سردی، سفر کی تھکاوٹ اور بے آرامی کے باعث اس کے دل میں مسرت و شادمانی کی وه کیفیت پیدا نه ہوسکی، جو اتنی مدت کے بعد وطن کی سرزمین پر قدم رکھتے ہوئے اسے محسوس ہونی چاہیے تھی۔ اس کے دل میں وطن کی محبت کے وه جذبات بھی پیدا نه ہوسکے، جو مدت بعد وطن واپس آنے والوں کے دلوں میں یقینی طور پر پیدا ہوجایا کرتے ہیں۔ وه اپنے آپ کو وہاں اجنبی محسوس کررہا تھا۔

اسٹیشن سے اس نے هوٹل میں جانے کے لیے تانگه کرائے پر لیا۔ جس میں ٹھہرنے کے لیے اسکے وکیل نے اسے کهه رکھا تھا۔ اسٹیشن سے باهر نکلتے ہی مصنف نے محسوس کیا که قصبه پهلے سے بهت زیاده پھیل گیا ہے۔جو علاقے اسکے بچپن کے زمانے میں اجاڑ و بنجر پڑے تھے، وہاں اب چھوٹے چھوٹے بازار بن گئے تھے۔جن میں خاصی چهل پهل نظر آرہی تھی۔ تمام عمارتیں پخته اینٹوں کی بنی ہوئیں تھیں۔ اگرچه کهیں کهیں اکا دکا کچے گھر بھی نظر آرہے تھے۔ اپنے قصبے کی اس ترقی کو دیکھ کر مصنف کے دل میں خوشی کا احساس هونے کے بجائے بیگانگی کا احساس بڑھ رہا تھا۔ اسے کسی چیز سے بھی اپنا تعلق نظر نهیں آرہا تھا۔ اسے اسٹیشن کے علاوه کوئ ایسی جانی پهچانی شے نظر نه آئ، جو اس کی پرانی یادوں کو تازه کرنے میں معاون ثابت ہوتی۔ تھوڑی دیر بعد ہوٹل آگیا۔ ہوٹل میں اسے خاصا کھلا اور صاف ستھرا کمره دیا گیا۔ مصنف نے ہاتھ منه دھویا، کچھ کھا پی کر آرام کرنے کی غرض سے لیٹ گیا اور کچھ ہی دیر بعد وه نیند کی آغوش میں چلا گیا۔ دو گھنٹے بعد سوکر اٹھا تو اسکی طبعیت کسی قدر بحال ہوچکی تھی۔ سفر کی تھکان بھی قدرے کم ہوچکی تھی۔ وه لباس تبدیل کرکے قصبے میں گھومنے کے لیے نکل کھڑا ہوا۔ اسکے قدم خود بخود اس علاقے کی طرف اٹھ رہے تھے، جهاں اس نے بچپن گزارا تھا۔ کچھ ہی دیر بعد وه اس حویلی کے سامنے کھڑا تھا، جسے اس کے بزرگوں نے تعمیر کیا تھا۔ حویلی کی عمارت مخدوش حالت میں تھی۔ یوں معلوم هوتا تھا، که اس کی دیکھ بھال بالکل نهیں کی گئ تھی۔

حویلی کے سامنے چھوٹے چھوٹے چار پانچ بچے میلے کچیلے لباس پهنے گولیوں سے کھیل رہے تھے۔ ان میں سے ایک بچے نے جس کی صورت سے معصومیت ٹپک رہی تھی، نه جانے کس جذبه کے تحت مصنف کو دیکھ کر مسکرانا شروع کردیا۔ بچے کو معصوم سی ہنسی ہنستے دیکھ کر اس کا اپنا بچپن اس کی آنکھوں کے سامنے گھوم گیا۔ اسے اپنے وطن سے اب تک جس حد تک بیگانگی کا احساس ہورہا تھا، وه یک لخت ختم ہوگیا، چھوٹے سے بچے کی معصوم سی ہنسی نے مصنف کے دل میں اپنے وطن، قصبے اور محلے سے محبت و انس کے بےپناه جذبے کو بیدار کردیا۔ اس کا دل چاہا که وه باربار اپنے محلے میں گھومے پھرے اور اپنے بچپن کی معصوم یادوں کو تازه کرے، شدت جذبات سے اس کا دل بھر آیا، لیکن جلد ہی اس نے اپنے اوپر قابو پالیا۔ مصنف کے گھر سے کچھ فاصلے پر ایک پرانا سا تکیه ہوا کرتا تھا، جس میں گوندنی کے آٹھ دس پیڑ تھے، اسی لئے اسے گوندنی والا تکیه کها جاتا تھا۔ بچے ان درختوں کی چھاؤں میں کھیلا کرتے تھے اور گوندنیاں توڑ توڑ کر کھاتے تھے۔ تکیے کا سائیں بهت نیک دل آدمی تھا۔ وه بچوں کو گوندنیاں توڑنے سے منع نهیں کرتا تھا۔ لیکن اگر کوئ بچه درخت کی شاخ توڑ دیتا، تو وه ناراض ہوجاتا تھا۔ کئ دوکانداروں نے اسے ان پیڑوں کا ٹھیکه لینے کیلیے سائیں کو معقول رقم کی پیشکش بھی کی لیکن وه یه کهه کر که یه محلے کے بچوں کا مال ہے، اس پیش کش کو ٹھکرا دیتا تھا، بچپن کی اپنی یادوں میں گم مصنف نے اس تکیے کا رخ کیا۔ هر طرف پخته اینٹوں کے گھر بنے تھے، لیکن تکیه کهیں بھی نظر نهیں آرہا تھا۔ اچانک اس کا دل دھک سے ره گیا۔ اس تکیے کی جگه اسے ایک چار دیواری نظر آئ، جس کے دروازے سے ایک نو دس سال کا بچه باهر آرہا تھا۔ اس نے اس بچے سے اس تکیے کے بارے میں پوچھا، تو اس نے لاعلمی کا اظہار کیا۔ اتنے میں وہاں سے ایک بزرگ سے شخص کا گزر ہوا۔ مصنف نے ان سے گوندنی والے تکیے کے بارے میں دریافت کیا، تو انهوں نے بتایا که پندره سوله سال پهلے اس تکیے کے متولی کے انتقال کے بعد اس تکیے کو ختم کردیا گیا تھا۔ کیونکه بعد میں جو لوگ تکیے پر قابض ہوئے وه کچھ اچھے کردار کے نهیں تھے۔ وہاں پر چرس و بھنگ پی جانے لگی تھی۔ تکیه بھی اچھی خاصی اوباشی کا اڈه بن گیا تھا۔ چنانچه قصبے کے لوگوں نے آپس میں مشوره کرکے اس تکیے کو ختم کرکے وہاں ایک اسکول قائم کردیا۔ تکیے کے بارے میں یه حال سن کرمصنف کے دل کو سخت رنج پهنچا۔ وه واپس اپنے ہوٹل لوٹ آیا۔ تکیے کے ختم ہوجانے کا اسکو بےحد رنج تھا۔ وہاں اسکا نال گڑا ہوا تھا۔ اس نےسوچا که قصبے والوں کو جن حالات میں تکیه ختم کرنے پڑا ممکن ہے که اپنے اس فیصلے میں وه حق بجانب ہوں۔ مگر حقیقیت سے بھی انکار کرنا مشکل ہے که وه تکیه غریب لوگوں کا غمگسار اور پورے قصبے کی تفریح گاه تھا۔ جس سے اب وه محروم کردئیے گئے تھے۔ اس نے سوچا که تکیے میں صبح الله الله کا ورد ہوا کرتا تھا۔ قوالی کی محفلیں جما کرتی تھیں، پنجابی کے مشاعرے برپا ہوا کرتے تھے، گوندنی کی شاخوں پر بیٹھے ہوئے تیتر سبحان تیری قدرت کهه کر چهکا کرتے تھے، کسی درخت کے نیچے کوئ ستار لے کر سیکھنے کی مشق کررہا ہوتا، تو کهیں لوگ بیٹھے چوپڑ کھیل رہے ہوتے، کهیں کوئ ہیر پڑھ رہا ہوتا، چھوٹے چھوٹے بچے گولیوں سے کھیل رہے ہوتے۔

یه ۔ ۔ ۔ ۔ یه سب رونقیں اس تکیے کے دم سے آباد تھیں اور سب سے بڑھ کر یه که اس تکیے کی جان اونچے اور لمبے قد والا نگینه سائیں جو اپنے گلے میں رنگ برنگے منکوں کی مالا ڈالے رکھتا، گرمی ہو یا سردی، اس کے جسم پر ایک لباس ہوتا کالے رنگ کا لباس، کبھی وه دیوانوں جیسی باتیں کرتا تو کبھی ہوش مندوں کی سی۔ لیکن دونوں حالتوں میں وه چھوٹے بڑے کی خدمت کے لیے کمر بسته رہتا۔ مصنف ہوٹل کے کمرے میں لیٹا اپنے ماضی کی گوندنی والے تکیے کی انهی خوش گوار یادوں میں گم تھا۔ شام ہوچکی تھی۔ اسنے اپنے کمرے کی بتی بھی روشن نهیں کی تھی کیونکه کمرے کی نیم تاریکی اس کو سکون بخش رہی تھی۔ گوندنی والا تکیه اپنی بھر پور گھما گھمیوں کے ساتھ اس کی نظروں میں پھر رہا تھا۔




کمپوزر: کاشف فاروق۔ لاہور سے۔

No comments:

Post a Comment