URDU STORIES:

اردو ادب اور کہانیوں میں خوش آمدید ۔ قصہ کہانیاں، غزلیں، نظمیں، واقعات، طنزومزاح، لاہور کی پنجابی، کچھ حقیقت کچھ افسانہ، پراسرار خواب والی ٹیکنالوجی، میری فیملی کا ذاتی شجرہ نسب سن 1790ء تا 2023ء۔، قومی پیمانہ، تباہی و زلزلے، دو سو سالہ کیلینڈر، اردو سافٹ وئیر ڈاؤنلوڈ۔

Wednesday, August 31, 2022

CORRUPTION IN PAKISTAN - پاکستان میں کرپشن کا خاتمہ - 17-11-2014 تا 2022ء







پاکستان میں کرپشن کا خاتمہ

17-نومبر-2014ء


بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارا ملک کرپشن میں ڈوب چکا ہے۔ شاید ہم لوگ کرپشن میں تمغہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ایک طبقہ ہوس زر میں اس قدر مبتلا ہے کہ وہ ہر جائز و ناجائز طریقے سے راتوں رات دولت مند بننا چاہتا ہے۔ جبکہ دوسرا طبقہ وہ ہے جو محض اپنی ضروریات پوری کرنے کےلئے رشوت اور دو نمبر کام کا سہارا لیتا ہے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس کے بغیر انکا گزارہ محال ہے۔ بلاشبہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہماری قوم کا تقریباً ٪90 حصہ کرپشن میں شامل ہے۔ باقی ٪10 کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ وہ خوفِ خُدا رکھتے ہوں اور رشوت، ہیراپھیری کو حرام سمجھتے ہوں۔ لیکن پھر بھی یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان میں سے کچھ کو انکے کام کی نوعیت کے اعتبار سے نہ رشوت کا اور نہ ہی ہیراپھیری کا موقع ملتا ہو اور ذرا سا موقع ملے وہ فوراً اس سے فائدہ اٹھالیں۔


  اب آتے ہیں پہلے طبقے کی طرف ۔ ان میں زیادہ تر سیاست دان، بیوروکریٹس، جاگیردار، بڑے بڑے کاروباری حضرات، ڈاکٹرز، انجینئیرز وغیرہ شامل ہیں۔ جبکہ دوسرے طبقے میں کلرک چھوٹے سرکاری افسران، چھوٹے چھوٹے کاروباری لوگ شامل ہیں۔ بے ایمانی، ہیراپھیری کاروباری طبقہ میں اس قدر رچ بس گئی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس کے بغیر وہ اپنا مال بیچ ہی نہیں سکتے۔ یہ لوگ ناپ تول میں ہیراپھیری کرتے ہیں۔ ملاوٹ کرتے ہیں۔ کرپشن ایک وسیع ٹرم ہے اور چند صفحات میں اسکا احاطہ کرنا مشکل امر ہے۔ چوری، ڈاکہ، جائیداد پر قبضہ، جھوٹ بولنا، جان بوجھ کر حقائق چھپانا، جھوٹی گواہی دینا یا کسی واقعہ کی گواہی نہ دینا بھی کرپشن ہے۔ قانون کی پابندی نہ کرنا، یہاں تک کہ کوئی شخص اپنا چالان کروانا نہیں چاہتا اور ٹریفک پولیس سے بحث کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ جیب سے کارڈ نکال کر دکھائیں گے کہ ہم فلاں کے رشتہ دار ہیں۔ موبائل سے بات کروائیں گے۔ یہ حال ہے ہماری عوام کا۔


            آئیے ہم سب اس بات کا تجزیہ کرتے ہیں کہ آیا ہم ذاتی حیثیت میں کرپٹ ہیں یا نہیں۔ کیا ہم سب جھوٹ نہیں بولتے، کیا ہم رضاکارانہ کسی چشم دید واقعہ کی گواہی دینے پر تیار ہوتے ہیں، کیا ہم کسی کا اُدھار وقت پر واپس کرتے ہیں، کیا ہم اپنے کاروبار کی اصل فروخت ڈکلئیر کرتے ہیں، کیا ہم ہیراپھری اور دونمبری نہیں کرتے، کیا ہم انڈرانوائسنگ اور اوور انوائسنگ نہیں کرتے، کیا ہم کسی کو بلیک میل کرکے ناجائز فائدہ نہیں اٹھاتے، ہم نمازیں بھی پڑھتے ہیں۔ تبلیغ بھی کرتے ہیں، لیکن ہیراپھیری بھی کرتے ہیں، کیا ہم فرقہ پرستی میں مبتلا نہیں ہیں۔ کیا ہم میں تحمل اور برداشت ہے، کیا ہم دوسروں کی ٹانگیں کھیچنے کی کوشش نہیں کرتے۔


میرا خیال ہے کہ ٪90 لوگ اپنے دل میں ضرور اقرار کریں گے کہ ہاں ان کے نفس میں کوئی نہ کوئی خرابی موجود ہے۔ اگر اوپر شمار کی گئیں خرابیاں نہیں تو کوئی اور خرابی ضرور ہوگی۔ مطلب ہے کہ شاید ٪10 لوگ ہی ایسے ہونگے جو صاف ستھرے ہوں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا ہم اپنے ملک کی گاڑی یونہی چلنے دیں یا پھر اس میں سدھار پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ زبانی کلامی تو کوشش ہم شروع دن سے کررہے ہیں۔ مگر نتیجہ صفر۔ اب حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ صرف نعروں، وعدوں سے کام نہیں  چلے گا۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہمارے ملک کا سیاسی نظام اس قدر گندہ ہوگیا ہے کہ سدھارنا ممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ ہماری عوام کو اس سے کوئی غرض نہیں ہے کہ کون اچھا ہے اور کون برا۔ وہ تو جاکر اُنہیں کو ووٹ ڈال آتے ہیں جن کو صدیوں سے دے رہے ہیں۔ بس انکو خاندانی نام یاد ہیں کام سے انکو کوئی غرض نہیں ہے۔ لہٰذا صرف ووٹ کی طاقت سے ملک نہیں سنورے گا۔ خاندانی سیاست کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ دو دفعہ سے زیادہ کسی کو الیکشن لڑنے کی اجازت نہ ہونی چاہیئے۔ تعلیمی معیار بھی ہونا چاہیئے، قومی اسمبلی اور سینیٹ کی سیٹیں عوام کے مختلف طبقات میں تقسیم ہونا چاہئیں۔ مثلاً ڈاکٹرز، انجینئیرز، وکلاء، پروفیسرز، زمیندار، کسان جو خود کھیتوں میں کام کرتے ہوں، اصل مزدور (قلی، رکشہ والا، موچی، نائی، وغیرہ)۔ خواتین جو کسی امیدوار کی رشتہ دار نہ ہوں ( نصف تعداد انتہائی غریب، نصف متوسط طبقہ سے)۔ الیکشن سے چھ ماہ پہلے کاغذات نامزدگی وصول کیئے جائیں اور چھ ماہ تک اسکروٹنی ہو۔ اگر بعد میں جھوٹ پکڑا جائے تو پارٹی کا لیڈر کو بھی سزا ہو۔ ایک امیدوار صرف ایک ہی حلقہ سے الیکشن لڑنے کا پابند ہو۔ انتخابی مہم ختم کی جائے۔ صرف ٹی وی پر ہر امیدوار صرف ایک ایک مرتبہ تقریر کرے گا اور اپنا حسبِ نسب بیان کرے گا۔ سرکاری ٹی وی مفت کوریج وقت کی پابندی کے ساتھ دے۔ ٪50 مُشیر، وزیر، اسمبلی ارکان کے علاوہ باہر سے ہوں تاکہ ارکان اسمبلی بلیک میل نہ کرسکیں۔

            ترقیاتی کاموں کے پروجیکٹ حکومت نہیں بلکہ ادارے بنائیں۔ یہ ادارے اتنے مضبوط ہوں کہ حکومت یا ارکان اسمبلی ان پر اثرانداز نہ ہوسکیں۔ کوئی بھی حکومت آئے یا جائے پروجیکٹ جاری رہنے چاہئیں۔ کیونکہ عموماً دیکھنے میں آیا ہے کہ حکومت کی تبدیلی کے ساتھ ہی پرانے پروجیکٹ بند کردیئے جاتے ہیں اور نئے پروجیکٹ شروع کردیئے جاتے ہیں تاکہ نئی حکومت کا ٹھپؔہ لگ جائے۔ یہ سلسلہ ترک کرنا ہوگا۔ اسی طرح پولیس ڈپارٹمنٹ میں اصلاحات ہونا چاہیئں۔ پولیس بالکل آزاد ہونا چاہیے۔ بھرتی کا طریقہ بالکل فوج کی طرح ہونا چاہیئے۔ بغیر ٹھوس ثبوت کے کوئی گرفتاری نہ ہونی چاہیے۔ جیسا کہ ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے۔ عوام کو سستا اور فوری انصاف ملنا چاہیے۔ چھوٹے چھوٹے معمولی جھگڑے پنچائیت میں حل ہونا چاہئیں۔ اس کے لیے گلی محلوں میں پنچائیت سسٹم رائج کیا جائے۔ اس کے بعد بھی مسائل حل نہ ہوں تو مصالحتی عدالتیں قائم کی جائیں۔ جہاں فیصلے عقل و انصاف سے کیے جائیں۔ یعنی قانون کو بیچ میں نہ ڈالا جائے۔ کیونکہ کئی معاملات ایسے ہوتے ہیں جن میں صاف نظر آتا ہے کہ کون غلط اور کون صحیح ہے۔ مگر قانونی رکاوٹ آجاتی ہے۔ اس طرح غلط صحیح ہوجاتا ہے اور صحیح غلط۔ مقصد انصاف فراہم کرنا ہے۔


اس طرح بہت سارے جھگڑے باہمی رضا مندی سے فوری حل ہوجائیں گے۔ کاروباری حضرات کے مسائل بھی حل ہونا چاہیئں۔ آخر کیوں وہ ٹیکس بچاتے ہیں اور رشوت کا سہارا لیتے ہیں۔ کسٹم ڈپارٹمنٹ ایماندار لوگوں پر مشتمل ہونا چاہیے، چن چن کر لوگ ایمانداری سے لگائے جائیں اور انکو شاندار تنخواہیں دی جائیں تاکہ انڈر انوائسنگ اور سمگلنگ روکی جاسکے۔ تمام امپورٹ صرف بذریعہ  L/C  کے ذریعے کی جائیں۔ فارن ایکسچینج کی اوپن مارکیٹ بند کی جائے۔ منی لانڈرنگ اور انڈر انوائسنگ بند ہوجائیگی۔ ویسے کہنے کو تو بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے مگر سوال یہ ہے کہ عمل کرنے کو کون تیار ہوگا۔ اس لیے ایک اور آسان تجویز بھی ہے کہ ہم عذابِ الٰہی کا انتظار کریں جو کسی بھی شکل میں ہوسکتا ہے۔ مثلاً زبردست بھونچال آجائے، سیلاب نوح آجائے یا پھر تیسری عالمی جنگ چھڑ جائے جو امید ہے صرف ایشیا میں ہوگی۔ جب آدھی سے زیادہ آبادی لقمۂ اجل بن جائے گی تو جو بچ رہیں گے وہ ضرور نیک اور ایماندار بن جائیں گے۔ اور ملک کی دوبارہ تعمیر کریں گے۔ دنیا کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں جاپان اور جرمنی دوسری جنگ عظیم میں تباہ ہوگئے تھے، اس کے بعد دیکھیں کتنی ترقی کی۔ لٰہذا ترقی سے پہلے تباہی ضروری ہے۔ ورنہ ہر شخص اپنے آُ پ کو درست کرنیکی کوشش کرے۔




کرپشن  کا ناسور

04-اکتوبر-2015ء

ہمارے ملک میں دن بدن غربت میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ مگر حکومتی کرپشن بڑھتی جارہی ہے۔ سیاست دانوں کو عوام کا کوئی خیال نہیں ہے۔ عوام بھی بہت بیوقوف ہیں جو ہر پانچ سالوں کے بعد انہی آزمائے ہوئے سیاست دانوں کو ووٹ دیکر کامیاب بنا دیتے ہیں۔ اب تو کروڑوں نہیں اربوں کی کرپشن ہورہی ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اگر فوج کرپٹ لوگوں کو پکڑتی ہے پھر انکے بھائی بند سیاست دان شور مچانے لگتے ہیں۔ کیونکہ پیسہ توآخر کار انہی کی جیبوں میں جاتا ہے۔ جب ادارے اور رکھوالے ہی کرپٹ ہونگے تو پھر کرپشن کون دور کرے گا۔ بہت پہلے پچھلی حکومتوں نے اینٹی کرپشن کا محکمہ بنایا جس کا کام کرپشن دور کرنا تھا۔ مگر وہ بھی کرپٹ ہوگئے اور رشوتوں کا بازار گرم ہوگیا۔ پھر بجائے اس کے کہ اینٹی کرپشن کا محکمہ ختم کیا جائے انکے اوپر مزید اینٹی کرپشن کا محکمہ بنا دیا گیا۔ ہمارے ملک میں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ حکمران ایماندار اور نیک ہونا چاہئیں جو کہ ہر حال میں ناممکن ہے۔ اگر حکمران ایماندار اور اوپر سے آمر بھی ہے پھر یہ سونے پہ سوہاگہ ہوگیا۔ وہ تمام کرپشن ختم کردیگا۔ کیونکہ پاکستان صرف مارشلاء سے ہی چل سکتا ہے۔ پاکستان اس قابل ہی نہیں ہے کہ یہ جمہوریت سے چلے۔ ویسے بھی جمہوریت یہودیوں کی ایجاد ہے۔ یہ بات شاید ہی کسی کو معلوم ہو۔ 


اخبارات اور الیکٹرونک میڈیا پر کرپشن کے موضوع پر بہت باتیں ہورہی ہیں مگر اس کا حل کوئی پیش نہیں کررہا، کوئی غریبوں کی وکالت نہیں کررہا!!!  کون کرسکتا ہے عوام تو خود کرپٹ ہے۔ جیسے عوام ہوگی ویسے ہی حکمران ہونگے۔ مہنگائی و بےروزگاری نے غریبوں کو کچل کررکھ دیا ہے۔ غریب لوگ تو اکثر بےایمانیاں کرتے رہتے ہیں مزید کرنے لگے ہیں، جیسے گدھوں کا گوشت بیچنا، ملاوٹ کرنا، ناپ تول میں ڈنڈی مارنا۔ عام عوام جب یہ دیکھتی ہے کہ ہمارے حکمران بھی تو بے ایمانیاں کررہے ہیں۔ پیسہ باہر کے ملکوں میں جمع کررہے ہیں۔ خوب پراپرٹیاں ںبنا رہے ہیں اور انہیں پوچھنے والا کوئی نہیں پھر یہ لوگ بھی ہیرا پھیریاں کرنے لگتے ہیں۔ حکمران عوام کو خوب بے وقوف بنا رہے ہیں اور جھولیاں بھر رہے ہیں۔ دراصل لوٹ مار ہمارے ملک کا کلچر بن گیا ہے۔ نقصان ایسے لوگوں کا ہورہا ہے جن کو نہ بےایمانی آتی ہے اور نہ ہیرا پھیری، نہ انکا ضمیر گوارہ کرتا ہے، بلکہ وہ اس ملک میں ہمیشہ خوف زدہ رہتے ہیں۔ان میں اتنی ہمت ہی نہیں ہوتی کہ وہ کسی ہیرا پھیری کے بارے میں سوچیں بھی۔ ہمارے ملک میں کرپشن کا ناسور اس وقت تک ختم نہیں ہوگا جب تک کہ عوام میں تبدیلی کا احساس پیدا نہیں ہوجاتا جو اب ناممکن ہے۔




پاکستان میں ڈاکٹرز کی کرپشن

15-جنوری-2017ء


ہمارے ملک میں کرپشن دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے۔ہر روز اخبارات میں کرپشن کے نئے سے نئے واقعات رپورٹ ہوتے ہیں۔یوں تو ترقی یافتہ دنیا میں کرپشن کے انداز بالکل بدل گئے ہیں کہ عقل حیران رہ جاتی ہے اور  داد  دینے کو جی  چاہتا ہے۔ مگر ہمارے ملک میں  وہی گھسے  پٹے انداز ہیں۔اب یہ جو واقعہ رپورٹ ہوا ہے کہ دل کے آپریشن میں مریضوں کو لگا یا جانے والا سٹنٹ جسکی قیمت فقط چار ہزار روپے ہے ڈیڑھ دو لاکھ میں مریض کو بیچا گیا ہے۔یہ بھی کوئی انہونی بات ہے۔انکی مرضی وہ جتنی مرضی قیمت وصول کریں ۔ ڈاکٹر سب سے پہلے یہی پوچھتا ہے کہ وہ کیا کام کرتا ہے۔ اگر مریض نے بتا دیا کہ وہ ایک کارخانے کا مالک ہے پھر تو گیا کام سے۔ اگر مریض نے بتا دیا کہ وہ بے روز گار ہے یا معمولی سی نوکری کرتا ہے،پھر یقیناً اس سے مناسب پیسے چارج کئے جائیں گے۔یہ تو فقط ایک واقعہ ہے۔ بے شمار ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں جن کی خبر ہی لیک نہیں ہوتی۔کسی مریض کے خفیہ طور پر گردے نکال لئیے جاتے ہیں اور اسے خبر ہی نہیں ہوتی۔ پیدائش کے دوران تولیہ اندر رہ جاتا ہے، بچے غائب ہو جاتے ہیں اور ہڑتالوں کے دوران مریض تڑپ    تڑ پ کر مر جاتے ہیں اور مسیحائوں کے دل ہی نہیں پگھلتے۔ ہسپتال کی مشینری اور ادویات کی خریداری میں ہیرا پھر ی  اور کمیشن کی وصولی ایک عام بات ہے۔یہ سب کچھ ٹھیکیداروں اور عملے کی ملی بھگت سے ہوتی ہے۔مشینوں کو خراب کر دیا جاتا ہے،پھر ریپئرنگ کے بل بنتے ہیں۔اس دوران مریضوں کو مجبور کر دیا جاتا ہے کہ وہ ہسپتالوں کے باہر قائم لیبارٹریوں سے ٹسٹ اور ایکسرے کروائیں۔جو ڈاکٹرز پرائیویٹ پریکٹس بھی کرتے ہیں انکی چاندی ہو جاتی ہے۔مریضوں کا رخ مجبوراً انکے پرائیویٹ کلینک کی طرف ہو جاتا ہے۔سرکاری ہسپتالوں کی کرپشن ایک طرف اب پرائیویٹ ہسپتالوں کی کار گزاری بھی سن لیجئے۔ایک مریض کسی ڈاکٹر سے مایوس ہو کر جب دوسرے ڈاکٹر کی طرف رجوع کرتا ہے وہ فوراً اسے تمام ٹسٹ اور ایکسرے لکھ دیتا ہے کہ اسی کے ہسپتال سے دوبارہ کرائے جائیں ۔حالانکہ تمام رپورٹس موجود ہوتی ہیں۔ایک غریب اور متوسط طبقے کا فرد یہ تمام اخراجات کیسے برداشت کر سکتا ہے۔مگر ڈاکٹروں کے سینے میں شائد دل ہی نہیں ہوتا۔اسی طرح ایک سپیشلسٹ ہر وزٹ پر فیس وصول کر تا رہتا ہے۔حالانکہ دوبارہ  وزٹ  پر فیس وصول کرنا اخلاقی جرم  ہے۔یہ صرف ڈاکٹرز ہی نہیں ہمارا پورا معاشرہ کرپشن کی دلدل میں دھنس چکا ہے۔اسکی وجہ صاف بالکل ہے۔ میڈیا کے ذریعہ پوری قوم جان چکی ہے کہ ہمارے حکمران کیا گلا کھلا رہے ہیں اور سابقہ حکمرانوں نے کیا گل کھلائے تھے۔اوپر تو اربوں کھربوں کی کرپشن ہو رہی ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اوپر پانامہ پانامہ کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ان کی دیکھا دیکھی سرکاری ملازمین بھی ڈٹ کر مال کما رہے ہیں اور جو نگہبان ہیں وہ شکار کے انتظار میں گھات لگائے بیٹھے ہیں۔پکڑا مال بنایا اور چھو ڑ دیا۔کرپشن اب ہماری زندگی کا حصہ بن چکی ہے۔دفتروں میں کوئی بھی کام بغیر رشوت کے نہیں ہوتا۔ ایک چین بنی ہوئی ہے۔نچلے درجے سے مال اوپر کے درجوں تک جا تا ہے، کہیں دہیاڑی، کہیں منتھلی پہنچتی ہے۔بڑے بڑے ٹھیکوں میں وزیروں اور سیکریٹریوں کا بھی حصہ ہوتا ہے۔ہر ایک کو اسکا حصہ پہنچتا رہتا ہے۔ہمارے ملک سے کرپشن کبھی بھی ختم نہیں ہو سکتی جب تک کہ ہمارے حکمران نیک اور ایمان دار نہ ہوں۔ لیکن ایسے لوگ ہمارے ملک میں نہیں پائے جاتے۔اب اللہ ہی کچھ کر نا چاہے تو کر سکتا ہے۔ یہ  اسکی مرضی  کیونکہ نبوت تو ختم ہوچکی ہے۔ ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ اللہ کا عذاب  نازل ہو جائے، چاہے جنگ کی صورت میں یا پھر بیماریوں کی صورت میں، یا پھر قیامت  آ جائے۔یورپ اور جاپان نے دوسری جنگ میں تباہ  و  برباد ہونے کے بعد ہی ترقی کی تھی۔


کرپشن اور عدمِ مساوات

یہ آرٹیکل 15 مارچ 2017ء کو لکھا گیا

 

پاکستان کو معرض وجود میں آئے ہوئے تقریباً 70 سال ہو چکے ہیں۔ ان 70 سالوں میں ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا۔ یہ تو ہم سب کو معلوم ہے کہ ہم نے اپنی کارگزاریوں سے آدھے سے زیادہ ملک گنوا دیا ہے۔ مگر پایا کیا، جواب ہے صفر۔ ہمارے مقابلے میں وہ ممالک جو ہم سے بعد میں آزاد ہوئے تھے، آج ترقی یافتہ ممالک کی صفوں میں شامل ہو چکے ہیں۔ ہم سب لوگ وجوہات جاننے کی کوشش کرتے رہتے ہیں، لکھتے لکھاتے رہتے ہیں، پڑھتے پڑھاتے رہتے ہیں، بحث و مباحثہ کرتے رہتے ہیں، مگر ہیں وہیں کے وہیں کیونکہ کسی حکمران کے دل میں وطن سے محبت نہیں ہے۔ ہم دو قدم آگے جاتے ہیں اور چار قدم پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ ہاں البتہّ ایک شعبہ ایسا ضرور ہے جس میں ہم نے بلاشبہ بہت ترقی کرلی ہے اور بدستور آگے کی طرف بڑھتے ہی چلے جارہے ہیں۔ مجال ہے دنیا میں کوئی ہمارا مقابلہ کرسکے۔ سب جانتے ہیں وہ شعبہ کونسا ہے۔ ہو سکتا ہے کسی کے علم میں نہ ہو، اس لئیے بتا دینا چاہتا ہوں۔ وہ شعبہ ہے ’کــــرپــــشن‘۔ کیا میں غلط کہ رہا ہوں؟؟؟

 

کچھ دن پہلے حیدرآباد سندھ سے ایک خبر آئی ہے کہ محکمہء تعلیم کا ایک معمولی افسر پکڑا گیا ہے جس کے پاس سے کروڑوں روپوں کے پرائیز بانڈز، کیش، سونا، گاڑیاں اور جائیدادیں دریافت ہوئی ہیں۔ ایک اسسٹنٹ ڈ اریکٹر کوئی بہت بڑا افسر نہیں ہوتا۔ محکمہء تعلیم بھی ایک غریب محکمہ ہی کہلاتا ہے جیسے ڈاک کا محکمہ۔ پھر اتنی دولت کہاں سے جمع کر لی گئی۔ ہو سکتا ہے یہ کسی کا فرنٹ مین ہو۔ یہ تو تحقیقات سے ہی معلوم ہوگا۔ اس سے پہلے بلوچستان کے سیکریٹری خزانہ پکڑے گئے تھے جن کے پاس بوریاں بھر کے نوٹ، ڈالرز، سونا نکلا تھا۔ یہ تو صرف چند واقعات ہیں جو شاید مخبری پر کھل گئے، کسی کو حصہ نہ ملا اس نے مخبری کر دی۔ اس کے مقابلے میں جو لوگ کھل کر کھا رہے، نوٹ سمگل کر رہے ہیں ان کو کوئی نہیں پکڑتا۔ ان لوگوں کے پاس کہتے ہیں نوٹوں کی بوریاں بھری پڑی رہتی ہیں۔ ساری بلیک منی۔ ان کو تو شائد اپنی دولت کا خود صحیح اندازہ بھی نہیں ہوگا کہ اتنا پیسہ ہے ہیمارے پاس کہ ساری عمر گنتے رہو گے کبھی ختم نہیں ہوگا۔ ذرا غور کریں اگر ہمارے حکمران اور افسران ایماندار ہو جائیں یا ہوتے، نہ خود بےایمانی کریں اور نہ دوسروں کو کرنے دیں، پھر کیا ہمیں کسی آئی ایم ایف یا ورلڈ بنک سے قرضہ لینے کی ضرورت پڑسکتی ہے!!! ہرگز نہیں۔

 

خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے۔ اگر کسی کے  ہمسائے میں ایک متوسط طبقے کا سرکاری ملازم  رہتا ہو، اسکے بچے اعلیٰ سکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہوں، شاندار گاڑی اور ڈرائیور بھی ہو، بچوں کو پک اینڈ ڈراپ سروس بھی مہیا ہو۔ تو کیا  اسکی  بیوی اور بچوں کا دل نہیں چاہے گا، وہ نہیں چاہیں گے کہ ان کو بھی اسی قسم کی سہولتیں میسر ہوں؟؟؟ آخر مجبور ہو کر وہ بھی بےایمانی اور رشوت ستانی پر اتر آئے گا۔ اگر نہیں اترے گا تو بیوی بچے بڑے ہو کر طعنے دیں گے کہ کیا حاصل ہوا ایسی  ایمانداری کا۔ آج نہ ہمارے پاس اپنا گھر ہے اور نہ ہی موٹر کار، ہمارے بچے بھی نوکریوں کی راہ تک رہے ہیں، بغیر رشوت کے کوئی کسی کو نہیں رکھتا۔ رشوت کے لئیے پیسے ہی نہیں ہیں۔ اگر کبھی بچوں کو نوکری مل بھی جاتی ہے یا پھر کوئی چھوٹا موٹا کاروبار ہی کر لیتے ہیں، وہ کبھی بھی اپنے باپ کی راہ پر نہ چلیں گے اور پیسے کیلئیے جتنی بھی کرپشن کر سکتے ہونگے کر گزریں گے۔ بلکہ باپ کو مرتے دم تک برا بھلا کہیں گے۔ اسی کرپشن کی وجہ سے امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا جا رہا ہے۔ کرپشن کی بنیادی وجہ معاشرتی عدم مساوات ہے۔ وزارء چن چن کر اپنے بندوں کو پیداواری محکموں میں لگواتے ہیں۔ پولیس والے بھی پیداواری تھانوں پر قبضہ کرکے بیٹھ جاتے ہیں۔ اگر کبھی ان کا ٹرانسفر کر دیا جائے، چھٹی لیکر گھر بیٹھ جاتے ہیں یا پھر اوپر والوں سے سفارش کرواتے ہیں۔ پولیس والوں کی سفارش کرکے وزراء بھی خوش اور محفوظ رہتے ہیں۔ ہر وزیر کبیر اپنے اپنے بندوں کو مناسب عہدوں اور سونے کی کانوں پر بٹھا کر پُرسکون ہو جاتے ہیں۔ ہمارے ملک میں غریبوں کا تناسب تقریباً 90 فی صد یقیناً ہوگا۔ یہ لوگ رلتے رہتے ہیں اور چھوٹے موٹے جرائم میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ کیا کریں نہ سفارش نہ نوکری اور نہ ہی کاروبار۔ کچھ لوگ تو دہشت گرد بھی بن جاتے ہیں۔ مرنا تو ہے ہی، کیوں نہ دوسروں کو بھی ساتھ میں لے کر مرو۔

 

ابھی کل ہی کی خبر ہے کہ بھٹو کے شہر "لاڑکانہ" میں کارپوریشن کو صفائی کیلئے عملہ دیہاڑی پر درکار تھا، انٹرویو کیلئیے ڈبل ایم اے بھی آئے اور بھرتی ہو گئے۔ پھر یہ بھی دکھایا گیا کہ وہی لوگ گٹر صاف کر رہے ہیں۔ یہ بھٹو کے شہر کا حال ہے۔ یہ لوگ غریبوں سے ووٹ لیتے ہیں، کامیاب ہوتے ہیں لیکن انہیں دیتے کچھ بھی نہیں۔ کیونکہ سندھ کی عوام سندھی حضرات بےوقوف ہوتے ہیں۔ ووٹ پھر بھی انہیں کو دیں گے۔ شاید ووٹ لینے والے ان کے قریبی رشتہ دار ہیں۔ اگر ووٹ لینے والے لوگ غریبوں کے ہمدرد ہوتے تو اپنے حلقے کو جنت بےنظیر بنا دیتے۔ مگر یہ لوگ نہیں چاہتے کہ غریب ترقی کرے۔ یہ لوگ غریبوں کو صرف غلام ہی دیکھنا چاہتے ہیں۔ غریبوں کو نہ صحیح تعلیم اور نہ ہی علاج معالجہ میسر ہوتا ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں آئے دن ڈاکٹروں اور نرسوں کی ہڑتالیں ہوتی رہتی ہیں۔ یہ ہسپتال غریبوں کیلئیے ہیں۔ جبکہ امیروں کے بچوں کیلئے اعلیٰ درجہ کے پرائیویٹ تعلیمی ادارے اور اعلیٰ درجہ کے پرائیویٹ  ہسپتال۔ اگر ملک میں امیروں کے لیے علاج ناممکن ہو تو ان کے لیے لندن، امریکا وغیرہ رہ جاتے ہیں علاج کے لیے اور وہاں ان کے اپنے گھر بھی ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس غریبوں کے بچے، خواتین اور بوڑھے تڑپ تڑپ کر مر جاتے ہیں، مگر ڈاکٹروں کو کوئی پرواہ ہی نہیں ہوتی۔ یہ اپنی آئے دن کی ہڑتالوں میں پڑے رہتے ہیں۔

 

چونکہ پاکستان ایک مکمل طور پر ناکام ریاست بن چکا ہے اس لیے پاکستان کے 98٪ تمام کے تمام سرکاری محکمے بھی مکمل طور پر ناکام ہیں۔ اس لیے بھی کہ انہیں معلوم ہے کہ غریب رو دھو کر گھر چلا جائے گا، وہ ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ ہمارے ملک میں کوئی سسٹم ہی نہیں ہے۔ ظاہرہے پاکستان ایک ناکام ملک ہے تو کوئی سسٹم کیسے آسکتا ہے؟؟؟ جو بھی حکومت آتی ہے پچھلی کو برا بھلا کہتی ہے اور عوام کو بےوقوف بنا کر حکومت کرتی ہے، اپنی معیاد پوری کرتی ہے اور چلی جاتی ہے۔ پھر دوسری جماعت آ جاتی ہے اور یہی سائیکل چلاتی رہتی ہے اور چلی جاتی ہے۔

 

نتیجہ یہ نکلا آرٹیکل کا کہ: ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا ناکام ملک پاکستان ایڈہاک ازم پر چل رہا ہے۔ لوٹو مال بنائو اور چلے جائو۔ یہ امیر غریب کی تفریق، یہ عدم مساوات کسی بڑے خونی انقلاب کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔ بشرطیکہ جس دن غریبوں کو کچھ عقل آگئی، غریب عوام میں کچھ شعور آگیا، ان کو اپنے حقوق کا پتہ چل گیا اور ساتھ میں یہ کہ ان کو کوئی ایماندار رہنما بھی مل گیا تو وہ پھر سڑکوں پر آجائیں گے اور تمام حکمرانوں کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔ جسے "عــــوامــــی انــــقــــلاب" کا نام دیا جائے گا۔

 


پاکستان آج  2022ء کے دور میں معاشی اور قومی لحاظ سے مکمل طور پر دنیا کی ایک ناکام ترین ریاست بن چکا ہے۔ مکمل دیوالیہ ہوچکا ہے جس کا موجودہ امپورٹڈ حکومت اعلان نہیں کررہی۔ ڈیکلئیر نہیں کررہی۔ گرے لسٹ میں ان ممالک کو ڈالا جاتا ہے جہاں دوسرے ممالک سرمایہ کاری نہیں کرسکتے یا ان پر پابندیاں عائد کردی جاتی ہیں کہ جب تک کوئی ملک گرے لسٹ میں ہے تب تک وہاں کوئی دوسرا ملک سرمایہ کاری نہیں کرسکتا، جب تک کہ وہ قرض ادا نہیں کردیتا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا کہ ہم گھاس کھا لیں گے لیکن ایٹم بم ضرور بنائیں گے۔۔۔ تو آج آپ ایٹمی طاقت تو بن گئے مگر اب ساتھ میں گھاس بھی کھائیں، اور کھا بھی رہے ہیں۔ ملک جنگوں سے نہیں اچھی معاشیات سے چلتے ہیں۔ بلکہ جنگ کرنے کے لیے بھی پیسہ چاہیے۔


ہم لوگ اسکولوں میں تھے سن 1990ء میں تو کتابوں میں یہ محاورہ پڑھتے تھے، بچوں سے کہتے تھے کہ انگریزی میں ٹرانس لیشن کرو "پاکستان دن دوگنی رات چوگنی ترقی کررہا ہے۔" ہم لوگ اس وقت ہنستے تھے اس محاورے کو پڑھ کے۔ لیکن آج 2022ء میں تو ہم سوچتے ہیں کہ بھئ وہ تو واقعی بہت اچھا زمانہ تھا۔ ہم واقعی ترقی کررہے تھے۔


آج تو پاکستان دیوالیہ ہوچکا۔ یہ حکومت دراصل ڈکلیر نہیں کررہی۔


Kia Pakistan Ka Diwalia Nikalne Wala Hai  Is Pakistan Heading Towards Bankruptcy-dec-2022

مالک و مصنف: شیخ محمد فاروق۔


کمپوزر: کاشف فاروق۔ لاہور سے۔










No comments:

Post a Comment