URDU STORIES:

اردو ادب اور کہانیوں میں خوش آمدید ۔ قصہ کہانیاں، غزلیں، نظمیں، واقعات، طنزومزاح، لاہور کی پنجابی، کچھ حقیقت کچھ افسانہ، پراسرار خواب والی ٹیکنالوجی، میری فیملی کا ذاتی شجرہ نسب سن 1790ء تا 2023ء۔، قومی پیمانہ، تباہی و زلزلے، دو سو سالہ کیلینڈر، اردو سافٹ وئیر ڈاؤنلوڈ۔

Friday, September 16, 2022

BAHADUR SHAH ZAFAR - LAST MUGHAL EMPEROR - مغل بادشاه بہادر شاه ظفر - خواجه حسن نظامی


 مغل بادشاه بهادر شاه ظفر

خواجه حسن نظامی








خواجه حسن نظامی نے آخری مغل بادشاه بهادر شاه ظفر کی لاڈلی بیٹی کلثوم زمانی بیگم کی داستان اس کی اپنی زبانی لکھی ہے۔ کلثوم زمانی بیگم بتاتی ہیں که جس وقت میرے ابا کی بادشاہت ختم ہوئ اور تخت و تاج کے لٹنے کا وقت آیا تو ہمارے محل لال قلعه میں ایک کهرام مچا ہوا تھا۔ تین وقت سے کسی نے کچھ نهیں کھایا پیا تھا۔ میری ڈھائ سال کی بچی زینب دودھ سے بلک رہی تھی۔ ہم سب اسی پریشانی کے عالم میں بیٹھے تھے که ابا حضور نے ہمیں بلا بھیجا۔ ہم ان کی خدمت میں حاضر ہوئے تو وه مصلے پر تشریف فرما تھے اور تسبیح ان کے ہاتھ میں تھی۔ مجھے دیکھ کر انهوں نے فرمایا که بیٹی میں نے تمهیں خدا کے سپرد کیا۔ تم اپنی بچی اور خاوند کو ساتھ لے کر یهاں سے فوراً کهیں دور چلی جاؤ۔ اگر تم لوگ میرے ساتھ رہے تو نقصان کا اندیشه ہے۔ دور چلی جاؤ گی تو شاید الله کوئ بهتری کا سامان پیدا کردے۔ یه کهه کر انهوں نے ہمارے لیے الله کے حضور گڑگڑا کر دعا مانگی:

یا الله ان لاوارث اور بے کس عورتوں کی آبرو بچایئو۔ تیمور کے گھرانے کی یه عورتیں جنهوں نے کبھی محل سے قدم باهر نهیں رکھا تھا میں تیرے حوالے کرتا ہوں تُو ہی ان کی مدد فرما۔اس کے بعد انهوں میرے خاوند مرزا ضیاء الدین کو کچھ جواهرات عنایت کیے اور بڑی حسرت و یاس سے ہمیں رخصت کیا۔

رات کے پچھلے پهر ہمارا قافله محل سے نکلا۔ ہمارے قافلے میں میرے خاوند اور بچی کے علاوه ابا حضور کی بیگم نور محل بھی تھیں۔ ابا کے بهنوئ مرزا عمر سلطان اور ابا کی ایک سمدھن تھیں۔ گویا ہمارے قافلے میں دو مرد اور باقی عورتیں تھیں۔ لال قلعے سے ہمیشه کے لیے جدا ہوکر ہم کورالی گاؤں پهنچے اور اپنے رتھ بان کے مکان پر قیام کیا۔ وہاں پر ہمیں کھانے کو باجره کی روٹی اور پینے کو چھاچھ دی گئ۔ بھوک کی حالت میں یه چیزیں بھی ہمیں بریانی اور متنجن سے زیاده لزیز معلوم ہوئیں۔ ایک دن تو ہم نے وہاں پر امن و سکون سے گزارا۔ لیکن دوسرے دن علاقے کے جاٹ اور گوجر جمع ہوکر ہمیں لوٹنے کے لیے آگئے۔ ان کے ساتھ ان کی عورتیں بھی تھیں۔ وه ہم لوگوں سے چمٹ گئیں اور ہمارے تمام زیوراور کپڑے ان لوگوں نے اتار لیے۔ اس لوٹ مار کے بعد ہمارے پاس اتنا کچھ بھی نه بچا که ہم ایک وقت کی روٹی ہی کھا سکتے۔ میری ننھی سی بچی پیاس کی شدت سے تڑپ رہی تھی۔ سامنے کے ایک گھر سے زمیندار نکلا تو مین نے کها که بھائ تھوڑا سا پانی اس بچی کو پلا دے۔ زمیندار فوراً ایک مٹی کے برتن میں پانی لے آیا اور کها که آج سے میں تیرا بھائ اور تو میری بهن۔ اس زمیندار کا نام بستی تھا اور یه اس کورالی گاؤں کا کھاتا پیتا زمیندار تھا۔ اس نے اپنی بیل گاڑی تیار کرکے ہم کو اس میں سوار کیا اور ہم سے ہماری منزل کا پوچھا۔ ہم نے اجاڑه ضلع میرٹھ میں اپنے شاہی حکیم میر فیض علی کے ہاں جانے کی خواہش ظاهر کی۔

وہاں پهنچے تو میر فیض نے ہم سے ایسی بے مروتی کا اظهار کیا که ہمیں ایک لمحه بھی وہاں رکنے کے لیے نه کها۔ اس نے صاف کهه دیا که میں تم لوگوں کو اپنے پاس ٹھہراکر اپنا گھر بار تباه نهیں کرسکتا۔ ہم سب بے حد مایوس ہوئے۔ لیکن آفرین ہے اس بستی زمیندار پر که جس نے مجھے اپنی بهن کها تھا۔ اس نے آخری وقت تک ہمارا ساتھ نه چھوڑا۔ وہاں سے ہم نے حیدرآباد دکن کا رخ کیا۔ عورتیں بستی کی گاڑی میں سوار تھیں اور مرد پیدل چل رہے تھے۔

تیسرے روز ایک ندی کے کنارے پهنچے، تو وہاں کومل کے نواب کی فوج نے ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ انهوں نے جونهی سنا که ہم شاہی خاندان کے افراد ہیں۔ تو انهوں نے ہماری بڑی خاطر مدارت کی اور ہاتھی پر سوار کرا کر ہمیں ندی کے پار پهنچایا۔ اتنے میں سامنے سے انگریز فوج آگئ اور دونوں فوجوں میں لڑائ ہونے لگی۔ نواب کے آدمیوں نے ہمیں فوراً وہاں سے کھسک جانے کو کها۔ سامنے کھیت تھے جن میں پکی ہوئ فصل کھڑی تھی۔ ہم لوگ اس میں چھپ گئے۔ اچانک اس کھیت میں ایک گولی آئ جس سے وہاں پر آگ بھڑک اٹھی اور پورا کھیت جلنے لگا۔

ہم سب وہاں سے بھاگے لیکن ہمیں بھاگنا بھی نهیں آتا تھا۔ ہم گھاس میں الجھ کر گرتے پڑتے تھے۔ سروں کی چادریں اتر گئیں۔ پاؤں زخموں سے خون آلود ہوچکے تھے۔ پیاس کے مارے منه سے زبانیں باهر نکلی ہوئیں تھیں۔ نور محل بیگم تو کھیت سے نکلتے ہی چکرا کر گر پڑیں، بے ہوش ہوگئیں۔ ہم سب پریشان تھے که اب کیا کریں اور کدھر کو جائیں۔ جب دونوں فوجیں لڑتی ہوئیں دور نکل گئیں، تو بستی ندی سے پانی لے آیا۔ ہم سب نے پیا اور نور محل بیگم کے چهرے پر چھڑکا۔ ہوش میں آتے ہی وه رونے لگ گئیں که میں نے خواب میں بادشاه حضور کو زنجیروں میں جکڑے دیکھا ہے۔ سب نے ان کو تسلی دی اور ہم پھر سے بستی کی گاڑی میں سوار ہوگئے۔ ایک گاؤں کے قریب رات ہوگئ۔ تو ہم نے وہیں رات گزارنے کا فیصله کرلیا۔

یه مسلمان راجپوتوں کی ایک بستی تھی۔ گاؤں کے نمبر دار نے ہمارے لیئے ایک چھپر خالی کروا دیا۔ جس میں سوکھی گھاس پھوس کا بچھونا تھا۔ اس طرح کے کوڑے کرکٹ کے ڈھیر پر سونے سے تو میرا جی الجھنے لگا لیکن مجبوری تھی، کیا کرتے۔ رات کو پسوؤں نے بھی بہت تنگ کیا اور یوں روتے دھوتے ہم نے وه رات وہاں بسر کی۔ اس کے بعد ہم حیدرآباد دکن پهنچ گئے اور سیتا رام کے علاقے میں ایک مکان کرائے پر ره کر رہنے لگے۔

میرے خاوند کے پاس ایک قیمتی انگوٹھی تھی جو کورالی گاؤں کے جاٹوں کی لوٹ کھسوٹ سے بچ گئ تھی۔ جبل پور میں انهوں نے اسے فروخت کردیا اور اسی سے راستے کا خرچ چلاتے رہے۔ حیدرآباد میں بھی چند روز انهی پیسوں میں گزارا کیا، لیکن آخر وه بھی ختم ہوگئے۔ پیٹ بھرنے کے لیے گھر میں کچھ نه بچا تھا۔ میرے خاوند ایک اعلٰی درجے کے خوشنویس تھے۔ انهوں نے بڑے خوبصورت انداز میں درود شریف لکھا اور بازار میں جار کر پانچ روپے میں اس کا ہدیه وصول کیا۔ اسکے بعد انهوں نے یه کام باقاعدگی سے شروع کردیا اور ہماری گزر بسر اچھی ہونے لگی۔

ہماری رہائش کے نزدیک ایک ندی بهتی تھی۔ اس میں طغیانی آجانے کے خوف سے ہم وہاں سے نظام حیدرآباد کے ایک ملازم داروغه احمد کے ایک مکان میں کرائے پر آکر رہنے لگے۔ چند ہی روز بعد شهر میں خبر مشهور ہوگئ که نواب شکر جنگ جس نے شهزادوں کو اپنے پاس پناه دی تھی، انگریز کے زیرعتاب آگئے ہیں۔ ساتھ ہی انگریزوں نے حکم دیا که کوئ بھی شخص شهزادوں کو پناه نه دے، بلکه انهیں گرفتار کرانے کی کوشش کرے۔ یه سن کر ہم گھبرا گئے اور میں نے اپنے خاوند کو باهر جانے سے روک دیا۔ چند دن تو گھر پر بیٹھے رہے لیکن جب نوبت فاقوں تک پهنچی تو مجبوراً انهوں نے باره روپے ماہوار پر ایک نواب کے لڑکے کو قرآن کریم پڑھانے کی ملازمت اختیار کرلی۔ وه نواب میرے خاوند کے ساتھ ادنٰی ملازموں کا سا سلوک کرتا تھا۔ جس سے وه بے حد پریشان تھے۔ اسی اثناء میں کسی نے میاں نظام الدین صاحب کو ہمارے بارے میں بتادیا۔ میاں صاحب رات کے وقت ہمارے گھر تشریف لائے۔ بهت دیر تک ہمارے حالات دریافت کرتے رہے اور اس کے بعد تشریف لے گئے۔

صبح کو انهوں نے پیغام بھجوایا که ہم نے تم سب کے خرچ کا انتظام کردیا ہے، تم لوگ حج کے لیے مکه معظمه جانے کی تیاری کرو۔ یه خبر سن کر ہم سب بے حد خوش ہوئے اور مکه جانے کی تیاریاں کرنے لگے۔

حیدرآباد دکن سے ہم بمبئ کے لیے روانه ہوئے۔ میں نے اپنے منه بولے بھائ بستی کو خرچ دے کر رخصت کیا اور خود بحری جهاز میں سوار ہوگئے۔ (اس زمانے میں ہوائی جہاز نہیں ہوا کرتے تھے)۔ جهاز میں جو مسافر بھی ہمارے بارے میں سنتا تھا که ہم شاہی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں، ہمیں ملنے اور دیکھنے کا شوق ظاهر کرتا۔

مکه پهنچے تو الله نے ہماری رہائش کا بهت ہی اچھا بندوبست کردیا۔ عبد القادر نامی میرا ایک ملازم تھا، جسے میں نے آزاد کرکے مکے بھیج دیا تھا۔ یهاں آکر اس نے خوب دولت کمائ اور زم زم کا داروغه مقرر ہوگیا۔ اس کو ہمارے آنے کی اطلاع ملی تو وه دوڑا ہوا آیا اور قدموں میں گر کر خوب رویا۔ اس کا مکان بهت اچھا اور آرام ده تھا۔ ہم سب وہیں ٹھہر گئے۔ چند روز بعد روم کے سلطان کے نائب کو جو مکے میں رہتے تھے، ہماری آمد کی اطلاع ملی، وه خود ہمیں ملنے چلے آئے اور خواہش ظاهر کی که میں آپ کے آنے کی اطلاع حضور سلطان کو دینا چاہتا ہوں۔ لیکن میں نے انهیں جواب دیا که ہم ایک بڑے سلطان کے دربار میں آگئے ہیں، اس لیے ہمیں کسی دوسرے سلطان کی پرواه نهیں۔

بهرحال نائب سلطان نے ہمارے اخراجات کے لیے ایک معقول رقم مقرر کردی اور ہم نو برس تک وہاں مقیم رہے۔ اس کے بعد ایک سال بغداد شریف اور ایک سال نجف اور کربلائے معلٰی میں بسر کیا۔ وطن سے دور ہوئے اتنی مدت ہوگئ تھی، دہلی کی یاد نے بے چین کیا تو واپس دہلی آگئے۔

یهاں پر انگریز سرکار نے ہم پر ترس کھاکر دس روپے ماہوار پینشن مقرر کی۔ اس رقم کا سن کر مجھے بے حد ہنسی آئ که میرے باپ کا اتنا بڑا ملک لے کر اس کا معاوضه صرف دس روپے دیتے ہیں۔ لیکن پھر خیال آیا که ملک تو خدا ہے وه جس کو چاہے دے دیتا ہے اور جس سے چاہے چھین لیتا ہے۔ اسکے کاموں میں کسی انسان کو دم مارنے کی جرات نهیں۔




مالک، مصنف و کمپوزر: کاشف فاروق۔ لاہور سے۔

No comments:

Post a Comment