URDU STORIES:

اردو ادب اور کہانیوں میں خوش آمدید ۔ قصہ کہانیاں، غزلیں، نظمیں، واقعات، طنزومزاح، لاہور کی پنجابی، کچھ حقیقت کچھ افسانہ، پراسرار خواب والی ٹیکنالوجی، میری فیملی کا ذاتی شجرہ نسب سن 1790ء تا 2023ء۔، قومی پیمانہ، تباہی و زلزلے، دو سو سالہ کیلینڈر، اردو سافٹ وئیر ڈاؤنلوڈ۔

Saturday, September 3, 2022

TANZ O MAZAH PAR MABNI HIKYAAT - طنز و مزاح پر مبنی چند حکایات

 

 

طنز و مزاح پر مبنی چند حکایات

 

نماز میں بولنے والے:

 چار آدمي نماز پڑهنے کے ليے ايک مسجد ميں گئے۔ ہر شخص نے الگ الگ تکبير کہي اور نہايت خشوع و خضوع سے نماز کي نيت باندھ لي۔ اتنے ميں موﺋذن وہاں آيا۔ پہلے نمازي نے اس سے کہا کہ ارے بهائی آزان بهي دے دي تهي يا نہيں، اگر نہيں تو اب دے دو کچھ وقت ہے۔ يه سنتے ہي دوسرا نمازي بولا مياں تم نے نماز ميں بات کي ہے اس ليے تمہاري نماز جاتي رهي اب دوباره نيت باندهو۔

تيسرے نے معاً دوسرے کي طرف منہ پهير کہا ابے او عقل کے اندهے اسے کيا الزام ديتا ہے تُو خود نماز ميں بول پڑا تيري نماز بهي باطل ہوئی چوتهے نے کہا "خدا کا شکر ہے کہ ميں نہيں بولا ورنہ ميري نماز بهي جاتي رہتي"۔

اے عزيز، مقصد اس حکايت کے بيان کرنے کا يہ ہے کہ دوسروں کے عيبوں اور برائیوں پر نگاه ڈالنے والے گمراہ ہوجاتے ہيں۔ نيک بخت اور سعيد وه ہے جس نے اپنے عيب پر نظر کي اور اگر اس سے کسي نے دوسرے کا عيب بيان کيا تو اسے بهي اپني ہي ذات سے منسوب کيا۔ کيونکه اگر وه عيب تجھ ميں نہيں تب بهي بےفکر مت ہو۔ کيا خبر آينده کسي زمانے ميں وہي عيب تجھ ميں پيدا ہوجاۓ۔

 

مردہ شير زندہ آدمى:

 ايک مرتبہ حضرت عيسىٰؑ جنگل ميں جارہے تهے کہ ايک بےوقوف شخص ان کے ساتھ ہوليا۔ جنگل ميں ايک جگہ گڑهے ميں ہڈيوں کا ڈهير پڑا تها۔ وہ بےوقوف ہڈيوں کا ڈهير ديکھ کر رک گيا اور حضرت عيسىٰ۴ سے کہنے لگا کہ "اے روح اللہ وه کيا اسم اعظم ہے جسے پڑھ کر آپ مردوں کو زندہ فرماتے ہيں؟ مجهے بهى اسم اعظم سکها ديجيے تاکہ ان بوسيدہ ہڈيوں ميں جان ڈال دوں"۔ اس احمق کى يہ بات سن کر عيسىٰ۴ نے کہا کہ "خاموش ہو جا تيرى زبان اس اسم اعظم کے لائق نہيں"۔ وہ بضد ہوا اور کہنے لگا "بہت اچھا، اگر ميرى زبان اسم اعظم کے لائق نہيں تو پهر آپ ہى ان ہڈيوں ميں جان ڈال ديں"۔ اس نے يہاں تک اپنى بات پر اصرار کيا کہ حضرت عيسىٰ۴ سخت متعجب ہوۓ اور دل ميں کہا کہ يہ کيا بهيد ہے اس احمق کو اتنى ضد آخر کس ليے ہے۔ اپنے مردے کو بهلا کر دوسرے مردے کو زندہ کرنے کى فکر ميں ہے۔

 حق تعالىٰ نے حضرت عيسىٰ۴ پر وحى نازل کى کہ اس ميں حيرت کى کيا بات ہے حماقت کو حماقت ہى کى تلاش ہوتى ہے۔ اور بدنصيبى بدنصيبى ہى کا گھر ڈهونڈتى ہے۔ کانٹوں کا اگنا ان کے بوئے جانے کا عوض ہے۔

 اتنے ميں اس بےوقوف نے پهر ان ہڈيوں پر اسم اعظم پڑھ کر دم کرنے کا تقاضا کيا۔ جب انہوں نے اسے سمجهانے کى کوشش کى تو ناراض ہو کر بولا کہ "اے روح اللہ اب آپ بهى اپنا معجزه دکهانے ميں بُخل سے کام لينے لگے۔ شايد آپ کى زبان مبارک ميں تاثير نه رہى هوگى"۔

 يہ سن کر حضرت عيسىٰ۴ نے ان ہڈيوں پر پڑھ کر دم کيا۔ آن کى آن ميں ہڈيوں کے اندر حرکت ہوئى کيا ديکھا که ايک ہيبت ناک شکل کا قوى الحبثه شير ہے۔ اس نے گرج کر جست کى اور اس بےوقوف شخص کو لمحه بهر ميں چير پهاڑ کر برابر کرديا۔ يہاں تک کہ کھوپڑى بھى پاش پاش کردى۔ اس کا خول ايسا خالي ہوا جيسے اس ميں کبھي بھيجا تھا ہي نہيں۔ حضرت عيسىٰ۴ يہ تماشا ديکھ کر حيران ہوئے اور شير سے پوچھا که "اے جنگل کے درندے تو نے اس شخص کو اتني تيزي سے کيوں پهاڑ ڈالا؟" شير نے جواب ديا که "اس وجہ سے کہ اس احمق نے آپ کو خفا کرديا تھا اور آپ کي توہين پر اتر آيا تھا"۔ حضرت عيسىٰ۴ نے پوچھا "تُو نے اس کا گوشت کيوں نہ کھايا اور خون کيوں نه پيا؟" شير نے کہا "اے پيغمبرِ خدا ميري قسمت ميں اب رزق نہيں ہے اگر اس جہاں ميں ميرا رزق باقي ہوتا تو مجھے مُردوں ميں داخل ہي کيوں کيا جاتا؟"

 

شيخى خورے کى مونچھيں:

 ايک سفلے اور کمينے آدمي کو اتفاق سے دبنے کي چکتي کا ٹکڑا مل گيا۔ اس نے يه حرکت کي که روزانه صبح اٹهتے ہي اس سے اپني مونچھيں چکني کرکے تاؤ ديتا۔ پھر اکڑتا ہوا دولت مندوں اور اميروں ميں جا بيٹھتا۔ سينہ پھلا کر اور مونھوں کو تاؤ دے کر باربار کہتا که "آج تو بڑے مرغن کھانے کھائے ہيں۔ مزا آگيا"۔ وه لوگ اس کي چکني مونھيں ديکھتے اور سمجھتے کہ واقعي سچ کہتا ہے۔ يہ کمينہ يوں اپني اميري کا ڈهنڈورا پيٹتا۔ ليکن اس کا معده اندر سے مونچھوں پر لعن طعن کرتا اور خدا سے دعا کرتا کہ اے اللہ اس کمينے شيخي خورے کي قلعي کھول دے تاکہ ميري بھوک دور ہو۔ آخر کار اللہ نے اس کے معدے کي فرياد سن ہي لي۔ ايک روز کوئي فاقہ زده بلي اس کمينے کے مکان ميں گھس آئي سامنے ہي طاقچے پر دبنے کي چکتي کا وه ٹکڑا نظر آيا۔ چھلانگ لگا کر بلي نے وه ٹکڑا منہ ميں دبايا اور بھاگي۔ گھر والوں نے ہر چند بلي کا پيھا کيا ليکن وه کب ہاتھ آتي۔

 اس شيخي خورے کا بچہ اس حادثہ سے اپنے باپ کو آگاہ کرنے کے ليے گھر سے نکلا۔ بچے کو معلوم تھا کہ اس کا باپ اس وقت کہاں ہو گا۔ سيدها دولت مندوں کي اس محفل ميں پہنچا جہاں اس کا باپ بيٹھا چکني چکني مونھوں کو تاؤ دے رہا تھا۔ بچے نے باپ کو ديکھتے ہي کہا "ابا غضب ہوگيا، دبنے کي چکتي کا وه ٹکڑا جس سے آپ ہر صبح اپنے ہونٹ اور مونھيں چکني کيا کرتے تھے بلي اٹھا کر لے بھاگي۔ ہم سب نے بلي کا پيھا کيا ليکن وه ہاتھ نه آئي"۔

 بچے کي زبان سے يه کملہ سنتے ہي شيخي خورے کا رنگ اڑ گيا۔ سکتے کے عالم ميں بيٹھا کا بيٹھا ره گيا۔ بھري محفل ميں ايسي رسوائي ہوئي کہ بيان سے باہر۔ گردن اٹھا کر کسي سے نگاہيں چار کرنے کي ہمت نہ ہوتي تھي۔ اس کا يہ حال ديکھ محفل والوں کو بڑا تعجب ہوا۔ بعض بے اختيار کھل کھلا کر ہنس پڑے۔ ليکن وه دولت مند بهي اعليٰ ظرف رکھتے تھے، کسي نے اسے کچھ نہ کہا۔ اس شيخي خورے کے حال پر ترس کھايا۔ اس کي ندامت دور کرنے کے ليے دعوتيں کرکر کے اس کا پيٹ بھرنے لگے، جب اس نے اہل فضل و کرم کے اس اونچے برتاؤ سے سچائي کي لذت پائي تب شيخي ترک سچائي کا بندهء بے دام بن گيا۔

 

بد آواز ملا:

 دوستو ايک حکايت بيان کرتا ہوں اسے گوش ہوش سے پڑھو، ليکن اس کے ظاہر پر نہ جانا باطن پر غور کرنا۔ ايک موئذن نہايت بدآواز تھا۔ ليکن اسے يہ خوش فہمي تھي کہ اس کي آواز بے حد سريلي اور ميٹھي ہے۔ ہر صبح ہر رات حلق پھاڑ پھاڑ اذان ديتا يہاں تک کہ سننے والے متوحش ہو ہو کر اپنا سر تھام ليتے۔ بچے بستروں ميں اس کي کرخت آواز سن کر مارے ڈر کے اچھل اچھل پڑتے اور راہ گير کانوں ميں انگلياں دے ليتے۔ غرض مرد، عورت، بڈهے، جوان سب کي جان ضيق ميں تھي۔ بارہا اسے لوگوں نے نرمي سے سمھايا کہ تيري آواز اس قابل نہيں که تُو آزان دے۔ ايسي کرخت اور بھيانک آواز سے ازان دينا شريعت ميں منع کيا گيا ہے۔ مگر وه بےوقوف ايک نہ سنتا۔ برابر لوگوں کو اپني کريہيہ آواز سے پريشاں دماغ کيے جاتا۔ آخر تنگ آکر ان لوگوں نے طے کيا کہ کچھ رقم چندہ کرکے موئذن کے حوالے کرديں اور درخواست کريں کہ يه مال لے لے اور يہاں سے چلا جا۔

 چنانچہ محلے والوں نے ايک بڑي رقم کي تھيلي اسکے حوالے کي اور کہا کہ اے موئذن ہم سب نے بہت دن تيري آواز سے راحت اور آرام پايا۔ اب تيري مہرباني اور کرم کا ہميں تحمل نہيں رہا۔ يہ حقير مال حاضر ہے اسے قبول کر اور ہمارا پيچھا چھوڑ۔ انہي دنوں ايک قافله حج کو جارہا تھا۔ موئذن بھي رقم کي تهيلي لے کر کمر سے باندھ کر اس قافلے ميں شامل ہوگيا۔ اتفاق سے سفر کي پہلي منزل ہي ميں قافلہ ايک ايسي بستي ميں رکا جہاں کوئى مسلمان نہ تھا۔ عشاء کا وقت ہوا تو اس موئذن نے جو اپني آواز پر والا و شيدا تھا يکايک ازان ديني شروع کي۔ لوگوں نے اسے منع بھي کيا کہ يہ کافروں کي بستي ہے، يہاں آزان دينا ٹھيک نہيں۔ مبادا وہ فساد پر آماده ہوں۔ ليکن حسب عادت اس خردماغ نے ايک نہ سني اور ايسي کرخت آواز ميں آزان دي کہ قبروں سے مردے بھي اٹھ کھڑے ہوں۔ قافلے والے ڈر رہے تھے کہ اب ضرور کوئي فتنہ برپا ہوا چاہتا ہے۔ کہ اتنے ميں ايک کافر ہاتھ ميں شمع ليے حلوے کا طبق اور نفيس کپڑے کا جوڑا لے آيا۔ اور قافلے کے اندر آتے ہي پوچھا کہ "وه خوش آواز ملا کہاں ہے؟ ميں اس کي ملاقات کو آيا ہوں اور يہ حقير تحفہ اسکے ليے ہے۔"

 قافلے والوں کو اس کي يہ بات سن کر حيرت ہوئی۔ پوچھنے لگے کہ "جناب اسکي آواز تو بڑي بھيانک ہے۔ ہمارے منع کرنے کے باوجود اس نے آزان دے دي، ہميں اس کا افسوس ہے"۔ کافر مسکرا کر کہنے لگا نہيں مجھے خوشي ہے، اب اصل قصہ سنو۔ ميري اکلوتي لڑکي ہے۔ نہايت حسين و جميل اور نازک دماغ۔ بہت مدت سے اس کے دماغ ميں يہ سودا تھا کہ مسلمان ہوجاؤں۔ ميں نے ہزار کوشش کي کہ وه اس ارادے سے باز رہے۔ ليکن کئي کوششیں کامياب نہ ہوئيں۔ اسلام لانے کي خواہش روز بروز بڑهتي چلي گئي۔ اس سبب ميں ہميشه پريشان اور خوف زده رہتا تھا کہ اگر يہ لڑکي ہاتھ سے نکل گئي تو کيا ہوگا۔ مگر آج اس موئذن نے وه کام کردکھايا جو ہزار نصيحتيں بهي نہ دکھا سکي تھيں۔ لڑکي نے آزان کي آواز سن کر پوچھا کہ يہ مکروہ آواز کيسي ہے۔ جو چاروں طرف سے کانوں ميں آرہي ہيں اور دماغ پر ہتھوڑے کي طرح بج رہي ہے۔؟ اس کي ماں نے جواب ديا يہ آزان کي آواز ہے۔ مسلمانوں ميں نماز کي اطلاع دينے کا يہي طريقه ہے۔ ميري لڑکي کو اپني ماں کي بات کا يقين نہ آيا تو اس نے مجھ سے پوچھا، ميں نے اس بات کي تصديق کي، تب کہيں لڑکي کو يقين ہوا۔ يه واقعي مسلمانوں کي آزان کي آواز ہے۔

 يہ يقين آتے ہي خوف سے اسکا رنگ زرد پڑ گيا۔ اس نے اسي وقت طے کرليا کہ وه اسلام قبول نہيں کرے گي۔ اب ميں اس موئذن کا احسان مند ہوں۔ شکريے کے طور پر نذرانہ اس کے ليے لايا ہوں۔ اتنے ميں وہ بد آواز موئذن بھي آگيا۔ کافر نے اس سے کہا جناب آپ تو ميرے محسن ہيں۔ آج وه احسان مجھ پر کيا ہے کہ ساري زندگي کو آپ کا غلام ہوگيا ہوں۔ اگر ميري قسمت ميں کسي مُلک کي بادشاہت ہوتي تو آپ کو اشرفيوں ميں تول ديتا۔

 

چھ درہم ميں دو چانٹے:

 ايک شخص مدتوں کا بيمار زندگي سے لاچار و بيزار طبيب کے پاس گيا اور کہنے لگا جناب مجھے کوئي دوا ديں تاکه صحت پاؤں اور آپ کي جان و مال کو دعائيں دوں۔ طبيب نے نبض پر انگلياں رکھيں اور سمجھ گيا کہ اس کے بدن سے جان نکل چکي ہے اب محض چلتي پھرتي لاش ہے۔ صحت کي اميد زره برابر نہيں۔ دوا دارو کر کے مفت ميں اس غريب کو اور ہلکان کرنا ہے۔ لہٰذا اس نے کہا مياں تم يہ سب دوا دارو ايک قلم موقوف کرو انہي کي وجہ سے تمهاري صحت برباد ہورہي ہے۔ جو تمہارے جي ميں آئے وه کرو۔ ہرگز ہرگز اپني خواہش کو مت کچلو۔ آہستہ آہستہ تمام بيمارياں جاتي رہيں گي۔ طبيب کي يہ بات سن کر مريض نے کہا اللہ آپ کو سلامت رکھے کيا خوب مشوره عطا ہوا ہے۔ آج سے اس مشورے پر دل و جان سے عمل کروں گا۔

 طبيب کے مطب سے نکل کر مريض ٹہلتا ٹہلتا ايک نہر کے کنارے جانکلا۔ وہاں ايک صوفي بيٹھا منہ دهو رہا تھا۔ اس نے اس روز سر پر تازه تازه استرا پھروايا تها۔ دهوپ ميں چنديا خوب چمک رہي تهي۔ مريض کي ہتھيلي کھجلائى اور بے اختيار جي چاہا کہ صوفي کي چاند پر ايک زور دار چپت مارے۔ دل ميں کہا اس وقت مجھے اپني اس خواہش کو دبانا نہیں چاہيے۔ ورنه مجھے صحت نہ ہوگي اور طبيب کي بھي يہي ہدايت ہے کہ جو جي ميں آئے وه کرو۔

يہ خيال آتے ہي بے تکلفي سے آگے بڑها اور تڑاخ سے ايک زناٹے دار تھڑ صوفي کي کھوپڑي پر رسيد کي۔ اس غريب کا دماغ بھنا گيا۔ تڑپ کر اٹھا اور اراده کيا که چانٹا مارنے والے کے دو تين گھونسے اس زور سے لگاؤں کہ سب کھايا پيا بھول جائے۔ ليکن نظر جو اٹھائي تو سامنے ايک نحيف و نزار شخص کو پايا جس کي ايک ايک پسلي نماياں تھي۔ صوفي نے ہاتھ روک کر جي ميں کہا اگر ميں اس کے ايک گھونسا بھي ماروں تو يہ اسي وقت مُلک عدم کا رستہ لے گا۔ مرض الموت نے تو اس بےچارے کا پہلے ہي کام تمام کررکھا ہے۔ مرتے کو کيا ماروں۔ لوگ سارا الزام مجھ پر ديں گے۔ ليکن اسے يوں چھوڑ دينا بهي ٹھيک نہ ہوگا۔ نہ جانے کس کس کو چپت مارتا پھرے گا۔ غرض اس بيمار کا بازو پکڑا اور کھينچتا ہوا قاضي شہر کي عدالت ميں لے گيا۔ دہائي دي کہ حضور اس بدنصيب شخص کو گدهے کي سواري کرائی جائے يا دروں کي سزا ہو۔ اس نے بلا وجہ مجھے چانٹا مارا ہے۔

قاضي نے کہا "کيا بکتا ہے؟ يہ سزا آخر اسے کيوں دي جائے۔ تيرا يہ دعويٰ تو ابھي ثابت ہي نہيں ہوا۔ پھر يہ تو ديکھ کہ شروع کے احکام زندوں اور سرکشوں کے ليے ہيں مردوں اور بے کسوں کے ليے نہيں۔ اس شخص کو گدهے پر بٹھانے سے کيا حاصل۔ ارے کبھي سوکھي خشک چوب کو بھي کسي نے گدهے پر سوار کيا ہے۔ ہاں لکڑي کا تابوت اس کي سواري کے ليے بہترين چيز ہے"۔ قاضي کي يه بات سن کر صوفي کو جلال آيا۔ تڑخ کر بولا "واه صاحب واه يه عجب منطق ہے۔ يہ شخص مجھے چپت بھي مارے اور اس بےہوده حرکت کي کوئي سزا بھي نہ پائے۔ کيا آپ کي شريعت ميں يہ جائز ہے کہ ہر راستہ ناپتا بازاري لفنگا ہم جيسے صوفيوں کو خواہي نخواہي چپتياتا پھرے اور کوئي اس کا ہاتھ پکڑنے والا نہ ہو؟" قاضي نے نرمي سے کہا "تيري يہ بات درست ہے۔ ايسے شخص کو ضرور سزا ملني چاہيے ليکن يہ تو ديکھ کہ وه بےچاره زندگي کے آخري دن پورے کررہا ہے۔ خون کا ايک قطره اس کے بدن ميں نہيں ہے۔ بجائے سزا کے يه تو ہمدردي اور رحم کے لائق ہے۔ اچھا يہ بتا کہ اس وقت تيري جيب ميں کتنے درہم ہيں؟"۔ صوفي نے جيب ٹٹول کر جواب ديا کہ "کوئي چھ ساتھ ہوں گے"۔

 قاضي کہنے لگا کہ "ايسا کر کہ تين درہم ان ميں سے اسے دے دے۔ يہ بےحد کمزور بيمار اور مسکين غريب ہے۔ تين درہم کي روٹي کها کر تجھے دعائيں دے گا"۔ يہ سن کر صوفي بہت آتش زيرپا ہوا اور قاضي سے تلخ کلامي کرنے لگا کہ "سبحان اللہ اچھا انصاف فرمايا ہے۔ چپت بھي ہم کهھائيں اور چپت مارنے والے کو تين درہم بھي ہم اپني جيب سے ادا کريں۔ يه کن نفلوں کا ثواب ہے۔

 غرض قاضي اور صوفي ميں تکرار ہونے لگي۔ ادهر اس بيمار کي عجب کيفيت تھي۔ جب سے قاضي کا استرا لگا گھٹا ہوا سر ديکھا تھا اس وقت سے ہاتھ ميں چُل ہورہي تھي۔ اس کي چاند صوفي کي چاند سے بھي زياده چکني اور صاف تھي۔ آخر دل کي بات مانني پڑي۔ ايک ضروري بات قاضي کے کان ميں کہنے کے بہانے سے مسند کے نزديک آيا اور اس زور سے قاضي کي چنديا پر چپت رسيد کي کہ اس کا منہ پھر گيا۔ پھر بولا "وه چھ درہم تم دونوں آپس ميں بانٹ لو اور مجھے اس مخمصے سے رہائي دلاؤ"۔ يہ کہہ کر وہاں سے چلا گيا۔ قاضي مارے غصے سے ديوانہ ہوگيا۔ چاہا کہ اس کو پکڑ کر غلاموں سے درے لگواؤں که صوفي چلايا ہائيں ہائيں يہ کيا غضب کرتے ہو جي حضرت، آپ کا حکم تو عين انصاف ہے اس ميں شک و شبہ کي کہاں گنجائش ہے۔ جو بات آپ اپنے ليے پسند نہيں فرماتے وہي ميرے حق ميں کيسے پسند فرما رہے ہيں۔

 

تين نصيحتيں:

 ايک چڑي مار نے بڑي ترکيبوں سے جال بھا کر نہايت نادر خوب صورت چڑيا پکڑي۔ جب وه چڑيا جال ميں پھنس گئي اور آزاد ہونے کي کوئي صورت نہ پائي تب چڑي مار سے کہنے لگي "اے عقل مند شخص فرض کر تُو مجھ جيسي ننھي چڑيا کو پکڑ کر کها بھي گيا تو اس سے کيا حاصل؟ خدا جانے تُو اب تک کتني گائيں دنبے اور بکرے بلکہ اونٹ تک ہڑپ کرچکا ہے، جب اتنے جانوروں کو کها کر بھي پيٹ نہيں بھرا تو ميرے ذرا سے گوشت اور گنتي کي چند نرم و نازک ہڈيوں سے بهلا کيا بھرے گا۔ اس ليے تيري دانائي جواں مردي اور بلند نگھي کا تقاضا ہے کہ تو مجھے آزاد کردے"۔ چڑي مار نے کہا کہ "اگر ميں تيري بات مان کر تجهے چھوڑ دوں تو مجھے کيا ملے گا۔ ميں نے تجھے پکڑنے ميں دن رات ايک کرديے۔ تب کہيں تُو ہاتھ آئي ہے۔ فرض کرو ميں تجھے نہ کھاؤں اور کسي کے ہاتھ بيچ دوں۔ پهر بھي مجھے کچھ نہ کچھ تو مل ہي جائے گا"۔ چڑيا نے کہا "مجھے فروخت کرکے بھلا تجهے کتنا مال ملے گا۔ يہي دو چار دس درہم اور وه کتنے دن چليں گے۔ لہٰذا يہ بات دماغ سے نکال دے، ميري بات سن اگر تو مجھے آزاد کردے گا تو تين ايسي بيش بہا نصيحتيں تجھے کروں گي جو ہميشہ تيرے کام آئیں گي۔ ان ميں سے پہلي نصيحت تو ميں تيرے ہاتھ پر بيٹھ کر کروں گي۔ دوسري ديوار پر بيٹھ کر اور وه ايسي ہوگي کہ مارے خوشي کے تيرا خون چلوؤں بڑھ جائے گا۔ تيسري نصيحت جو اعليٰ درجے کي ہوگي وه درخت کي اونچي شاخ پر بيٹھ کر کروں گي۔ ان تينوں پر عمل کرکے تو بڑا نام پائے گا"۔ چڑي مار کچھ دير غور کرنے کے بعد راضي ہوگيا۔ جال ڈهيلا کرديا اور چڑيا پھدک کر اسکے ہاتھ پر آن بيٹھي۔ بولي "سن پہلي نصيحت تو يہ ہے کہ ناممکن بات خواہ کيسا ہي آدمي تجھے دے اس پر يقين نہ کرو"۔ يہ کہہ کر وه اڑي اور ديوار پر جابيٹھي۔ دوسري نصيحت يه کي کہ "اے شخص گزري ہوئي مصيبت کا غم مت کيجيو۔ گزري ہوئی آسائش کي مسرت فضول ہے"۔ چڑي مار نے کہا کہ "اس دوسري نصيحت کا مطلب ميں نہيں سمجھا۔ ذرا کهل کر بيان کر"۔ چڑي بولي "ميرے پوٹے ميں دس درہم وزن کا ايک ايسا قيمتي موتي چھپا ہوا ہے جس کي قيمت ہفت اقليم ميں کہيں نہيں۔ تُو يه موتي پا کر زندگي بھر کے ليے نہال ہوجاتا۔ تيرے بال بچے شهزادوں کي سي عيش عشرت ميں دن بسر کرتے۔ مگر افسوس کہ تو نے مجھے آزاد کرکے يہ قيمتي موتي ہاتھ سے کھو ديا۔ يہ تحفہ تيري تقدير ميں نہ تھا"۔

 اتنا سننا تھا کہ "چڑي مار يوں رونے اور ماتم کرنے لگا جيسے اس کا بچہ مر گيا ہو۔ بار بار ٹھنڈي آہيں بھرتا سينہ پيٹ کر کہتا کہ "ہائے ميں تو برباد ہوگيا۔ مجھ جيسے بےوقوف نے اس نادر چڑيا کو کيوں آزاد کرديا۔ ہائے وہ بھي کيسي منحوس گھڑي تهي، جب يہ چڑيا آزاد ہوئي"۔ جب خوب رو چکا تو چڑيا نے کہا "ارے احمق ميں نے تجھے پہلي نصيحت کردي تھي کہ گزري ہوئي بات کا غم مت کيجيو۔ جب وه بات ہوچکي تو رونا پيٹنا بند کر۔ تُو نے ميري نصيحت کو سمجھا ہي نہيں۔ ميں نے پہلي نصيحت ہي يہ کي تھي کہ ناممکن بات کا يقين مت کر۔ خواه وه بات کيسا ہي آدمي تجھ سے کہے ورنه گمراه ہوگا۔ ذرا سوچ مجھ جيسي کا وزن تين درہم سے زياده نہيں۔ بهلا دس درہم کا وزن کا موتي ميرے پوٹے ميں کہاں سے آيا؟" يہ سن کر چڑي مار رونا دهونا بھول گيا۔ حيرت سے چڑيا کو تکنے لگا۔ سمجها کہ شايد ٹھيک کہتي ہے۔ ميں نے پہلے اس طرف غور نہ کيا۔

 بولا "اے نازک بدن چڑيا اب مہرباني کرکے وه تيسري نصيحت بھي کرتي جا جس کا تو نے وعده کيا تھا۔ چڑيا نے کہا "اچھي کہي! ارے بے وقوف تو نے ميري دو نصيحتوں پر تو عمل کيا ہي نہيں تيسري کيوں سننا چاہتا ہے۔ وه قيمتي نصيحت تجھ جيسے بےمغذ کے ليے نہيں۔ يہ کہہ کر وه خوشي سے چہچہاتي ہوئي جنگل کي طرف اڑ گئي۔

  

بے سر بے دم کا شير:

 قزدين کے لوگوں ميں يہ شوق عام ہے کہ جسم کے مختلف حصوں جيسے ہاتھ بازو پشت يا شانے پر پرندوں اور درندوں وغيره کي تصويريں گدوا کر خوش ہوتے ہيں۔ چنانچہ مشہور ہے کہ ايک حجام کے پاس کوئي قزديني گيا اور کہا کہ ميرے بدن پر شير کي تصوير گود دے اور منہ مانگي اجرت مجھ سے لے۔ ليکن يہ ديکھ لے کہ شير نہايت ہيبتناک اور بپھري ہوئي صورت کا ہو۔ چونکہ ميرا بخت بھي شير کا ہے اس ليے نقش بھي شير ہي کا ہونا چاہيے۔ ديکھ اس ميں نيلا رنگ بهي خوب گہرا بھر لے۔ حجام نے کہا بہت اچھا پہلوان، جيسا تُو کہتا ہے ويسا ہي شير بنادوں گا ليکن يہ تو بتا کہ شير کي تصوير تيرے جسم کے کس حصے پر گودوں۔ پہلوان بولا شانے پر گوددے تاکہ جنگ کے ميدان اور گانے بجانے کي محفلوں ميں ايسے ہيبتناک اوربپھرے ہوئے شير کي تصوير سے ميرا حوصلہ بڑهے اور ارادے ميں پختگي پيدا ہو۔ حجام نے جھٹ پٹ اپنے اوزار سنبھالے اور باريک سوئي سے پہلوان کے سانے پر شير کي تصوير گودني شروع کي۔

 سوئي بدن ميں چبهي تو پہلوان درد سے چيخا تو نے مجھے مار ڈالا۔ يه تو سوئي گود رہا ہے يا نشتر گھونپ رہا ہے۔ حجام نے جواب ديا پہلوان تم ہي نے تو کہا تھا کہ شير کي تصوير بنا دو۔ پہلوان نے تکليف سے کراہتے ہوئے کہا ہاں بھيا کہا تو تھا۔ ليکن يه تو بتاؤ کہ تم بنا کيا رہے ہو۔ آخر شير کے بدن کا کونسا حصہ گود رہے ہو۔ حجام نے کہا ميں نے دم سے شير کي تصوير شروع کي ہے۔ پہلوان نے جھلا کر کہا دم رہنے دو۔ کيا بے دم کے شير نہيں ہوتے۔ بہت اچھا دم نہيں بناتا حجام نے کہا۔ دوبارہ سوئي چلاني شروع کي۔ پہلوان پھر تکليف سے چلايا۔ اب کيا بنا رہے ہو۔ تُو نے تو مجھے مار ہي ڈالا ہے۔ حجام نے کہا شير کا کان بنا رہا ہوں۔ پہلوان نے ڈانٹا ارے کيا کان بنانا کیا ضروري ہے، ميں نے بغير کان کا شير بھي ديکھا تھا۔ بس ويسا ہي بنا دے۔ حجام نے اب تيسرے رُخ سے سوئي چلاني شروع کي۔ پہلوان پھر چيخا اب کيا بنا رہا ہے۔ يہ شير کے بدن کا کونسا حصہ ہے۔ حجام نے ہاتھ روک کر کہا پيٹ بنا رہا ہوں۔ افوہ پيٹ بنانے کي کيا ضرورت ہے کيا يه شير کچا گوشت کھائے گا؟۔ بھيا تُو تو بغير پيٹ کا ہي بنا دے۔ درد سے ميري جان نکلي جارہي ہے۔ حجام نے طيش ميں آکر اپنے اوزار پھينک ديے اور کہا پہلوان يه کام مجھ سے نہيں ہوتا۔ جاؤ کسي اور سے جا کر بے دم بے سر بے کان اور بے دھڑ کا شير بنوالو۔ لاحول ولا قوة کبھي ايسا شير بھي ديکھا ہے۔ مياں ايسا شير تو خدا نے بھي نہيں بنايا۔


کام حاجیوں کا نام پاجیوں کا:

حضرت سعدی نے ایک قصہ سنایا کہ ایجک دفعہ میں حج پر جارہا تھا حاجیوں کا قافلہ تھا جو مکہ کی جانب رواں دواں تھا  پیدل جارہا تھا۔ ایک مقام پر ایسا ہوا کہ دو حاجی کسی بات پہ الجھ پڑے اور ان کا یہ جھگڑا بڑھتے بڑھتے ہاتھا پائی تک جاپہنچا۔ حتی کہ ایک دوسرے کو گالم گلوچ تک کرنے لگے۔ مزے کی بات یہ کہ ان میں سےے ہر ایک اپنے آپ کو حق پر اور دوسرے کو خطا کار خیال کررہا تھا۔ جب وہ زور و شور سے جھگڑ رہے تھے تو ایک شخص بولا کیسے تعجب کی بات ہے کہ شطرنج کا مہرہ آگے بڑھتا ہے تو اس کا رتبہ زیادہ ہوجاتا ہے۔ گھوڑا ڈھائی گھر بڑھ کر وزیر بن جاتا ہے۔ لیکن کس قدر افسوس ہے کہ حج کا سفر کرنے والوں کا رتبہ اور بھی کم ہورہا ہے۔ 

؎ اگر حج کا سفر کرکے بھی دل نرمی سے خالی ہے

                 ہے شیوہ اس کا اب تک عیب جوئی اور دل آزاری

میری جانب سے جاکر ایسے حاجی کو بشارت دو

                توُ ایسا اونٹ ہے جس کی کمر پر بوجھ ہے بھاری۔

وضاحت:

حضرت سعدی نے اس حکایت میں بہت خوبصورت انداز میں مسلمانوں کو ان کی اس خامی کی طرف توجہ دلائی ہے کہ فرض عبادات ادا کرننے کے باوجود ان کے اخلاق میں تبدیلی نہیں آتی حالانکہ عبادات کی اصل غایت یہ جذبہ پیدا کرنا ہی ہے۔




کمپوزر: کاشف فاروق۔ لاہور سے۔

 


 

 



No comments:

Post a Comment