طنز و مزاح پر مبنی چند
حکایات
نماز میں بولنے والے:
تيسرے
نے معاً دوسرے کي طرف منہ پهير کہا ابے او عقل کے اندهے
اسے کيا الزام ديتا ہے تُو خود نماز ميں بول پڑا تيري
نماز بهي باطل ہوئی چوتهے نے کہا "خدا کا شکر ہے کہ ميں نہيں بولا
ورنہ ميري نماز بهي جاتي رہتي"۔
اے
عزيز، مقصد اس حکايت کے بيان کرنے کا يہ ہے کہ دوسروں کے عيبوں اور برائیوں پر
نگاه ڈالنے والے گمراہ ہوجاتے ہيں۔ نيک بخت
اور سعيد وه ہے جس نے اپنے عيب پر نظر کي اور اگر اس سے کسي نے دوسرے کا عيب بيان
کيا تو اسے بهي اپني ہي ذات سے منسوب کيا۔ کيونکه اگر وه عيب تجھ ميں نہيں تب بهي
بےفکر مت ہو۔ کيا خبر آينده کسي زمانے ميں وہي عيب تجھ ميں پيدا ہوجاۓ۔
مردہ شير زندہ آدمى:
حق تعالىٰ نے حضرت عيسىٰ۴ پر وحى نازل کى کہ اس ميں حيرت کى کيا بات ہے حماقت کو حماقت ہى کى تلاش ہوتى ہے۔ اور بدنصيبى بدنصيبى ہى کا گھر ڈهونڈتى ہے۔ کانٹوں کا اگنا ان کے بوئے جانے کا عوض ہے۔
اتنے ميں اس بےوقوف نے پهر ان ہڈيوں پر اسم اعظم پڑھ کر دم کرنے کا تقاضا کيا۔ جب انہوں نے اسے سمجهانے کى کوشش کى تو ناراض ہو کر بولا کہ "اے روح اللہ اب آپ بهى اپنا معجزه دکهانے ميں بُخل سے کام لينے لگے۔ شايد آپ کى زبان مبارک ميں تاثير نه رہى هوگى"۔
يہ سن کر حضرت عيسىٰ۴ نے ان ہڈيوں پر پڑھ کر دم کيا۔ آن کى آن ميں ہڈيوں کے اندر حرکت ہوئى کيا ديکھا که ايک ہيبت ناک شکل کا قوى الحبثه شير ہے۔ اس نے گرج کر جست کى اور اس بےوقوف شخص کو لمحه بهر ميں چير پهاڑ کر برابر کرديا۔ يہاں تک کہ کھوپڑى بھى پاش پاش کردى۔ اس کا خول ايسا خالي ہوا جيسے اس ميں کبھي بھيجا تھا ہي نہيں۔ حضرت عيسىٰ۴ يہ تماشا ديکھ کر حيران ہوئے اور شير سے پوچھا که "اے جنگل کے درندے تو نے اس شخص کو اتني تيزي سے کيوں پهاڑ ڈالا؟" شير نے جواب ديا که "اس وجہ سے کہ اس احمق نے آپ کو خفا کرديا تھا اور آپ کي توہين پر اتر آيا تھا"۔ حضرت عيسىٰ۴ نے پوچھا "تُو نے اس کا گوشت کيوں نہ کھايا اور خون کيوں نه پيا؟" شير نے کہا "اے پيغمبرِ خدا ميري قسمت ميں اب رزق نہيں ہے اگر اس جہاں ميں ميرا رزق باقي ہوتا تو مجھے مُردوں ميں داخل ہي کيوں کيا جاتا؟"
شيخى خورے کى مونچھيں:
اس شيخي خورے کا بچہ اس حادثہ سے اپنے باپ کو آگاہ کرنے کے ليے گھر سے نکلا۔ بچے کو معلوم تھا کہ اس کا باپ اس وقت کہاں ہو گا۔ سيدها دولت مندوں کي اس محفل ميں پہنچا جہاں اس کا باپ بيٹھا چکني چکني مونھوں کو تاؤ دے رہا تھا۔ بچے نے باپ کو ديکھتے ہي کہا "ابا غضب ہوگيا، دبنے کي چکتي کا وه ٹکڑا جس سے آپ ہر صبح اپنے ہونٹ اور مونھيں چکني کيا کرتے تھے بلي اٹھا کر لے بھاگي۔ ہم سب نے بلي کا پيھا کيا ليکن وه ہاتھ نه آئي"۔
بچے کي زبان سے يه کملہ سنتے ہي شيخي خورے کا رنگ اڑ گيا۔ سکتے کے عالم ميں بيٹھا کا بيٹھا ره گيا۔ بھري محفل ميں ايسي رسوائي ہوئي کہ بيان سے باہر۔ گردن اٹھا کر کسي سے نگاہيں چار کرنے کي ہمت نہ ہوتي تھي۔ اس کا يہ حال ديکھ محفل والوں کو بڑا تعجب ہوا۔ بعض بے اختيار کھل کھلا کر ہنس پڑے۔ ليکن وه دولت مند بهي اعليٰ ظرف رکھتے تھے، کسي نے اسے کچھ نہ کہا۔ اس شيخي خورے کے حال پر ترس کھايا۔ اس کي ندامت دور کرنے کے ليے دعوتيں کرکر کے اس کا پيٹ بھرنے لگے، جب اس نے اہل فضل و کرم کے اس اونچے برتاؤ سے سچائي کي لذت پائي تب شيخي ترک سچائي کا بندهء بے دام بن گيا۔
بد آواز ملا:
چنانچہ محلے والوں نے ايک بڑي رقم کي تھيلي اسکے حوالے کي اور کہا کہ اے موئذن ہم سب نے بہت دن تيري آواز سے راحت اور آرام پايا۔ اب تيري مہرباني اور کرم کا ہميں تحمل نہيں رہا۔ يہ حقير مال حاضر ہے اسے قبول کر اور ہمارا پيچھا چھوڑ۔ انہي دنوں ايک قافله حج کو جارہا تھا۔ موئذن بھي رقم کي تهيلي لے کر کمر سے باندھ کر اس قافلے ميں شامل ہوگيا۔ اتفاق سے سفر کي پہلي منزل ہي ميں قافلہ ايک ايسي بستي ميں رکا جہاں کوئى مسلمان نہ تھا۔ عشاء کا وقت ہوا تو اس موئذن نے جو اپني آواز پر والا و شيدا تھا يکايک ازان ديني شروع کي۔ لوگوں نے اسے منع بھي کيا کہ يہ کافروں کي بستي ہے، يہاں آزان دينا ٹھيک نہيں۔ مبادا وہ فساد پر آماده ہوں۔ ليکن حسب عادت اس خردماغ نے ايک نہ سني اور ايسي کرخت آواز ميں آزان دي کہ قبروں سے مردے بھي اٹھ کھڑے ہوں۔ قافلے والے ڈر رہے تھے کہ اب ضرور کوئي فتنہ برپا ہوا چاہتا ہے۔ کہ اتنے ميں ايک کافر ہاتھ ميں شمع ليے حلوے کا طبق اور نفيس کپڑے کا جوڑا لے آيا۔ اور قافلے کے اندر آتے ہي پوچھا کہ "وه خوش آواز ملا کہاں ہے؟ ميں اس کي ملاقات کو آيا ہوں اور يہ حقير تحفہ اسکے ليے ہے۔"
قافلے والوں کو اس کي يہ بات سن کر حيرت ہوئی۔ پوچھنے لگے کہ "جناب اسکي آواز تو بڑي بھيانک ہے۔ ہمارے منع کرنے کے باوجود اس نے آزان دے دي، ہميں اس کا افسوس ہے"۔ کافر مسکرا کر کہنے لگا نہيں مجھے خوشي ہے، اب اصل قصہ سنو۔ ميري اکلوتي لڑکي ہے۔ نہايت حسين و جميل اور نازک دماغ۔ بہت مدت سے اس کے دماغ ميں يہ سودا تھا کہ مسلمان ہوجاؤں۔ ميں نے ہزار کوشش کي کہ وه اس ارادے سے باز رہے۔ ليکن کئي کوششیں کامياب نہ ہوئيں۔ اسلام لانے کي خواہش روز بروز بڑهتي چلي گئي۔ اس سبب ميں ہميشه پريشان اور خوف زده رہتا تھا کہ اگر يہ لڑکي ہاتھ سے نکل گئي تو کيا ہوگا۔ مگر آج اس موئذن نے وه کام کردکھايا جو ہزار نصيحتيں بهي نہ دکھا سکي تھيں۔ لڑکي نے آزان کي آواز سن کر پوچھا کہ يہ مکروہ آواز کيسي ہے۔ جو چاروں طرف سے کانوں ميں آرہي ہيں اور دماغ پر ہتھوڑے کي طرح بج رہي ہے۔؟ اس کي ماں نے جواب ديا يہ آزان کي آواز ہے۔ مسلمانوں ميں نماز کي اطلاع دينے کا يہي طريقه ہے۔ ميري لڑکي کو اپني ماں کي بات کا يقين نہ آيا تو اس نے مجھ سے پوچھا، ميں نے اس بات کي تصديق کي، تب کہيں لڑکي کو يقين ہوا۔ يه واقعي مسلمانوں کي آزان کي آواز ہے۔
يہ يقين آتے ہي خوف سے اسکا رنگ زرد پڑ گيا۔ اس نے اسي وقت طے کرليا کہ وه اسلام قبول نہيں کرے گي۔ اب ميں اس موئذن کا احسان مند ہوں۔ شکريے کے طور پر نذرانہ اس کے ليے لايا ہوں۔ اتنے ميں وہ بد آواز موئذن بھي آگيا۔ کافر نے اس سے کہا جناب آپ تو ميرے محسن ہيں۔ آج وه احسان مجھ پر کيا ہے کہ ساري زندگي کو آپ کا غلام ہوگيا ہوں۔ اگر ميري قسمت ميں کسي مُلک کي بادشاہت ہوتي تو آپ کو اشرفيوں ميں تول ديتا۔
چھ درہم ميں دو چانٹے:
طبيب کے مطب سے نکل کر مريض ٹہلتا ٹہلتا ايک نہر کے کنارے جانکلا۔ وہاں ايک صوفي بيٹھا منہ دهو رہا تھا۔ اس نے اس روز سر پر تازه تازه استرا پھروايا تها۔ دهوپ ميں چنديا خوب چمک رہي تهي۔ مريض کي ہتھيلي کھجلائى اور بے اختيار جي چاہا کہ صوفي کي چاند پر ايک زور دار چپت مارے۔ دل ميں کہا اس وقت مجھے اپني اس خواہش کو دبانا نہیں چاہيے۔ ورنه مجھے صحت نہ ہوگي اور طبيب کي بھي يہي ہدايت ہے کہ جو جي ميں آئے وه کرو۔
يہ
خيال آتے ہي بے تکلفي سے آگے بڑها اور تڑاخ سے
ايک زناٹے دار تھڑ صوفي کي کھوپڑي پر رسيد کي۔
اس غريب کا دماغ بھنا گيا۔ تڑپ کر اٹھا اور
اراده کيا که چانٹا مارنے والے کے دو تين گھونسے اس
زور سے لگاؤں کہ سب کھايا پيا بھول جائے۔ ليکن نظر جو اٹھائي تو سامنے ايک نحيف و نزار شخص کو پايا جس کي ايک ايک پسلي نماياں تھي۔ صوفي نے ہاتھ روک کر جي
ميں کہا اگر ميں اس کے ايک گھونسا بھي ماروں تو يہ اسي وقت مُلک عدم کا رستہ لے گا۔ مرض
الموت نے تو اس بےچارے کا پہلے ہي کام تمام کررکھا ہے۔ مرتے کو کيا ماروں۔
لوگ سارا الزام مجھ پر ديں گے۔ ليکن اسے يوں چھوڑ دينا بهي ٹھيک نہ ہوگا۔ نہ جانے کس
کس کو چپت مارتا پھرے گا۔ غرض اس بيمار کا بازو پکڑا اور کھينچتا ہوا قاضي شہر کي عدالت ميں لے گيا۔ دہائي دي کہ حضور اس
بدنصيب شخص کو گدهے کي سواري کرائی جائے يا دروں کي سزا ہو۔ اس نے بلا
وجہ مجھے چانٹا مارا ہے۔
قاضي
نے کہا "کيا بکتا ہے؟ يہ سزا آخر اسے کيوں دي جائے۔ تيرا يہ دعويٰ تو ابھي
ثابت ہي نہيں ہوا۔ پھر يہ تو ديکھ کہ شروع کے احکام زندوں
اور سرکشوں کے ليے ہيں مردوں اور بے کسوں کے
ليے نہيں۔ اس شخص کو گدهے پر بٹھانے سے کيا
حاصل۔ ارے کبھي سوکھي خشک چوب کو بھي کسي نے گدهے پر
سوار کيا ہے۔ ہاں لکڑي کا تابوت اس کي
سواري کے ليے بہترين چيز ہے"۔ قاضي کي يه بات سن کر صوفي کو جلال آيا۔ تڑخ کر بولا "واه صاحب واه يه عجب منطق ہے۔ يہ شخص مجھے چپت
بھي مارے اور اس بےہوده حرکت کي کوئي سزا بھي نہ
پائے۔ کيا آپ کي شريعت ميں يہ جائز ہے
کہ ہر راستہ ناپتا بازاري لفنگا ہم جيسے صوفيوں کو خواہي نخواہي چپتياتا پھرے اور کوئي اس کا ہاتھ پکڑنے والا نہ ہو؟"
قاضي نے نرمي سے کہا "تيري يہ بات درست ہے۔ ايسے شخص کو ضرور سزا
ملني چاہيے ليکن يہ تو ديکھ کہ وه بےچاره زندگي کے آخري دن پورے کررہا ہے۔ خون کا
ايک قطره اس کے بدن ميں نہيں ہے۔ بجائے سزا کے يه تو ہمدردي اور
رحم کے لائق ہے۔
اچھا يہ بتا کہ اس وقت تيري جيب ميں کتنے درہم ہيں؟"۔ صوفي نے جيب ٹٹول کر
جواب ديا کہ "کوئي چھ ساتھ ہوں گے"۔
قاضي کہنے لگا کہ "ايسا کر کہ تين درہم ان ميں سے اسے دے دے۔ يہ بےحد کمزور بيمار اور مسکين غريب ہے۔ تين درہم کي روٹي کها کر تجھے دعائيں دے گا"۔ يہ سن کر صوفي بہت آتش زيرپا ہوا اور قاضي سے تلخ کلامي کرنے لگا کہ "سبحان اللہ اچھا انصاف فرمايا ہے۔ چپت بھي ہم کهھائيں اور چپت مارنے والے کو تين درہم بھي ہم اپني جيب سے ادا کريں۔ يه کن نفلوں کا ثواب ہے۔
غرض قاضي اور صوفي ميں تکرار ہونے لگي۔ ادهر اس بيمار کي عجب کيفيت تھي۔ جب سے قاضي کا استرا لگا گھٹا ہوا سر ديکھا تھا اس وقت سے ہاتھ ميں چُل ہورہي تھي۔ اس کي چاند صوفي کي چاند سے بھي زياده چکني اور صاف تھي۔ آخر دل کي بات مانني پڑي۔ ايک ضروري بات قاضي کے کان ميں کہنے کے بہانے سے مسند کے نزديک آيا اور اس زور سے قاضي کي چنديا پر چپت رسيد کي کہ اس کا منہ پھر گيا۔ پھر بولا "وه چھ درہم تم دونوں آپس ميں بانٹ لو اور مجھے اس مخمصے سے رہائي دلاؤ"۔ يہ کہہ کر وہاں سے چلا گيا۔ قاضي مارے غصے سے ديوانہ ہوگيا۔ چاہا کہ اس کو پکڑ کر غلاموں سے درے لگواؤں که صوفي چلايا ہائيں ہائيں يہ کيا غضب کرتے ہو جي حضرت، آپ کا حکم تو عين انصاف ہے اس ميں شک و شبہ کي کہاں گنجائش ہے۔ جو بات آپ اپنے ليے پسند نہيں فرماتے وہي ميرے حق ميں کيسے پسند فرما رہے ہيں۔
تين نصيحتيں:
اتنا سننا تھا کہ "چڑي مار يوں رونے اور ماتم کرنے لگا جيسے اس کا بچہ مر گيا ہو۔ بار بار ٹھنڈي آہيں بھرتا سينہ پيٹ کر کہتا کہ "ہائے ميں تو برباد ہوگيا۔ مجھ جيسے بےوقوف نے اس نادر چڑيا کو کيوں آزاد کرديا۔ ہائے وہ بھي کيسي منحوس گھڑي تهي، جب يہ چڑيا آزاد ہوئي"۔ جب خوب رو چکا تو چڑيا نے کہا "ارے احمق ميں نے تجھے پہلي نصيحت کردي تھي کہ گزري ہوئي بات کا غم مت کيجيو۔ جب وه بات ہوچکي تو رونا پيٹنا بند کر۔ تُو نے ميري نصيحت کو سمجھا ہي نہيں۔ ميں نے پہلي نصيحت ہي يہ کي تھي کہ ناممکن بات کا يقين مت کر۔ خواه وه بات کيسا ہي آدمي تجھ سے کہے ورنه گمراه ہوگا۔ ذرا سوچ مجھ جيسي کا وزن تين درہم سے زياده نہيں۔ بهلا دس درہم کا وزن کا موتي ميرے پوٹے ميں کہاں سے آيا؟" يہ سن کر چڑي مار رونا دهونا بھول گيا۔ حيرت سے چڑيا کو تکنے لگا۔ سمجها کہ شايد ٹھيک کہتي ہے۔ ميں نے پہلے اس طرف غور نہ کيا۔
بولا "اے نازک بدن چڑيا اب مہرباني کرکے وه تيسري نصيحت بھي کرتي جا جس کا تو نے وعده کيا تھا۔ چڑيا نے کہا "اچھي کہي! ارے بے وقوف تو نے ميري دو نصيحتوں پر تو عمل کيا ہي نہيں تيسري کيوں سننا چاہتا ہے۔ وه قيمتي نصيحت تجھ جيسے بےمغذ کے ليے نہيں۔ يہ کہہ کر وه خوشي سے چہچہاتي ہوئي جنگل کي طرف اڑ گئي۔
بے سر بے دم کا شير:
سوئي بدن ميں چبهي تو پہلوان درد سے چيخا تو نے مجھے مار ڈالا۔ يه تو سوئي گود رہا ہے يا نشتر گھونپ رہا ہے۔ حجام نے جواب ديا پہلوان تم ہي نے تو کہا تھا کہ شير کي تصوير بنا دو۔ پہلوان نے تکليف سے کراہتے ہوئے کہا ہاں بھيا کہا تو تھا۔ ليکن يه تو بتاؤ کہ تم بنا کيا رہے ہو۔ آخر شير کے بدن کا کونسا حصہ گود رہے ہو۔ حجام نے کہا ميں نے دم سے شير کي تصوير شروع کي ہے۔ پہلوان نے جھلا کر کہا دم رہنے دو۔ کيا بے دم کے شير نہيں ہوتے۔ بہت اچھا دم نہيں بناتا حجام نے کہا۔ دوبارہ سوئي چلاني شروع کي۔ پہلوان پھر تکليف سے چلايا۔ اب کيا بنا رہے ہو۔ تُو نے تو مجھے مار ہي ڈالا ہے۔ حجام نے کہا شير کا کان بنا رہا ہوں۔ پہلوان نے ڈانٹا ارے کيا کان بنانا کیا ضروري ہے، ميں نے بغير کان کا شير بھي ديکھا تھا۔ بس ويسا ہي بنا دے۔ حجام نے اب تيسرے رُخ سے سوئي چلاني شروع کي۔ پہلوان پھر چيخا اب کيا بنا رہا ہے۔ يہ شير کے بدن کا کونسا حصہ ہے۔ حجام نے ہاتھ روک کر کہا پيٹ بنا رہا ہوں۔ افوہ پيٹ بنانے کي کيا ضرورت ہے کيا يه شير کچا گوشت کھائے گا؟۔ بھيا تُو تو بغير پيٹ کا ہي بنا دے۔ درد سے ميري جان نکلي جارہي ہے۔ حجام نے طيش ميں آکر اپنے اوزار پھينک ديے اور کہا پہلوان يه کام مجھ سے نہيں ہوتا۔ جاؤ کسي اور سے جا کر بے دم بے سر بے کان اور بے دھڑ کا شير بنوالو۔ لاحول ولا قوة کبھي ايسا شير بھي ديکھا ہے۔ مياں ايسا شير تو خدا نے بھي نہيں بنايا۔
کام حاجیوں کا نام پاجیوں کا:
حضرت سعدی نے ایک قصہ سنایا کہ ایجک دفعہ میں حج پر جارہا تھا حاجیوں کا قافلہ تھا جو مکہ کی جانب رواں دواں تھا پیدل جارہا تھا۔ ایک مقام پر ایسا ہوا کہ دو حاجی کسی بات پہ الجھ پڑے اور ان کا یہ جھگڑا بڑھتے بڑھتے ہاتھا پائی تک جاپہنچا۔ حتی کہ ایک دوسرے کو گالم گلوچ تک کرنے لگے۔ مزے کی بات یہ کہ ان میں سےے ہر ایک اپنے آپ کو حق پر اور دوسرے کو خطا کار خیال کررہا تھا۔ جب وہ زور و شور سے جھگڑ رہے تھے تو ایک شخص بولا کیسے تعجب کی بات ہے کہ شطرنج کا مہرہ آگے بڑھتا ہے تو اس کا رتبہ زیادہ ہوجاتا ہے۔ گھوڑا ڈھائی گھر بڑھ کر وزیر بن جاتا ہے۔ لیکن کس قدر افسوس ہے کہ حج کا سفر کرنے والوں کا رتبہ اور بھی کم ہورہا ہے۔
؎ اگر حج کا سفر کرکے بھی دل نرمی سے خالی ہے
ہے شیوہ اس کا اب تک عیب جوئی اور دل آزاری
میری جانب سے جاکر ایسے حاجی کو بشارت دو
توُ ایسا اونٹ ہے جس کی کمر پر بوجھ ہے بھاری۔
وضاحت:
حضرت سعدی نے اس حکایت میں بہت خوبصورت انداز میں مسلمانوں کو ان کی اس خامی کی طرف توجہ دلائی ہے کہ فرض عبادات ادا کرننے کے باوجود ان کے اخلاق میں تبدیلی نہیں آتی حالانکہ عبادات کی اصل غایت یہ جذبہ پیدا کرنا ہی ہے۔
No comments:
Post a Comment