URDU STORIES:

اردو ادب اور کہانیوں میں خوش آمدید ۔ قصہ کہانیاں، غزلیں، نظمیں، واقعات، طنزومزاح، لاہور کی پنجابی، کچھ حقیقت کچھ افسانہ، پراسرار خواب والی ٹیکنالوجی، میری فیملی کا ذاتی شجرہ نسب سن 1790ء تا 2023ء۔، قومی پیمانہ، تباہی و زلزلے، دو سو سالہ کیلینڈر، اردو سافٹ وئیر ڈاؤنلوڈ۔

Tuesday, August 30, 2022

TARAQQI KE LIYE TARJIHAT - ترقی کے لیے ترجیحات - 22-11-2014





ترقی کے لیئے ترجیحات

22-11-2014


اس وقت ہمارا ملک مختلف مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ گویا کہ پاکستان مسائلستان بن گیا ہے۔ ان پر قابو پانا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ مگر ہمت نہیں ہارنا چاہیے۔ حُبُّ الوطنی کے جذبے کے تحت محنت کرنے کی ضرورت ہے۔ میرے علم کے مطابق موجودہ بڑے بڑے سنگین مسائل جن میں ہمارا ملک گھرا ہوا ہے وہ یہ ہیں :۔  




بجلی کی کمی، گیس کی کمی، پانی کی کمی، بے روزگاری، تعلیم، صحت، دہشت گردی اور فرقہ پرستی۔

حکومت کو چاہیے کہ ملک کو ان سنگین مسائل سے نکالنے کے لیے ایک جامع پالیسی بنائے۔ پالیسی سازوں میں متعلقہ شعبوں سے تعلق رکھنے والے تجربہ کار ایکسپرٹ شامل کیئے جائیں۔ جن کا حکومت یا سیاست سے دور دور کا بھی واسطہ نہ ہو۔ یعنی وہ اپنے فیلڈ میں ماہر ہوں۔ پالیسی میں ترجیحات طے کی جائیں اور اپنے بجٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے صرف چند مسائل کی طرف توجہ رکھی جائے۔ ظاہر ہے کہ ہمارے پاس اتنا پیسہ نہیں ہے کہ ہم تمام مسائل ایک ہی وقت میں حل کرلیں۔ میرے خیال میں فی الحال ہمیں صرف بجلی ، گیس اور پانی کے مسائل کی طرف توجہ دینا چاہیے۔ سارا پیسہ اور وسائل ان تین منصوبوں پر لگا دینا چاہیئے۔ اس طرح بے روزگاری کا مسئلہ بھی کافی حد تک خود بخود حل ہوجائیگا۔ دہشت گردی کے خلاف پہلے ہی فوج کارروائی کر رہی ہے۔ تعلیم اور صحت کیلیے فی الحال صرف معمول کے مطابق سالانہ اخراجات کے لیے رقم رکھنی چاہیے۔ لیکن اگر حکومت رقم کا انتظام کرسکتی ہے تو ان شعبوں کو ضرور رقم دی جائے۔ لیکن یہ ذہن میں رکھیں کیا ہم یہ سارے مسائل تین چار سالوں میں حل کرسکتے ہیں؟ کیونکہ یہ ضروری ہے جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ ہمیں صرف بجلی، گیس اور پانی کی کمی دور کرنے کی طرف توجہ دینا چاہیے ورنہ ایسا نہ ہو کہ ایک بھی مسئلہ حل نہ ہو۔آئیے اب میں آتا ہوں ان تین مسائل کی طرف کہ انہیں کیسے حل کیا جائے:۔


(1)            بجلی کی کمی: اس کے لیئے ہمیں پروڈکشن بڑھانی ہوگی۔ یعنی شارٹ ٹرم پروجیکٹ پر خاص توجہ دینا ہوگی تاکہ تین سالوں کے اندر اتنی بجلی پیدا ہو جائے کہ لوڈشیڈنگ کم سے کم ہوجائے۔ وِنڈ، سولر اور کوئلے کے پروجیکٹ جلد از جلد کمی پورا کرسکتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف ہمیں بجلی بچانی بھی ہوگی۔ اس کے لیے ائرکنڈیشنرز کی امپورٹ پر پابندی لگانی ہوگی۔ غریب لوگ تو ویسے ہی ائرکنڈیشنرز نہ خرید سکتے ہیں اور نہ ہی اخراجات برداشت کرسکتے ہیں۔ امیروں کے ذہن اور سوچ تبدیل کرنے کی ضرورت ہوگی۔ وہ تو بل بھی دے سکتے ہیں اور رشوت دیکر میٹر بھی ٹمپر کرواسکتے ہیں۔ اس لیے ریٹ بڑھانے کا کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ بجلی بچانے کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنی آبادی پر بھی کٹرول کرنا ہوگا ورنہ ہماری بجلی کی کمی تا قیامت پوری نہ ہوگی۔ چین کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ عوام کے ذہن تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔


(2)            گیس کی کمی: ایران سے تو اب گیس فی الحال نہیں آسکتی۔ کیونکہ ہم امریکہ کو ناراض نہیں کرسکتے۔ حالانکہ یہ سب سے اچھا ذریعہ تھا۔ لیکن دوسری طرف یہ بھی سوچنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم بلوچستان میں پائپ لائن کی حفاظت کرسکیں گے۔ متبادل گیس ایل این جی کی شکل میں قطر سے لانے کا منصوبہ ہے جو کہ سی این جی سیکٹر کو دی جائے گی۔ سنا ہے کہ وہ گیس کافی مہنگی ہوگی۔ اگر پٹرول اور گیس کے ریٹ میں تھوڑا سا فرق ہوا پھر شاید بہت کم لوگ سی این جی استعمال کریں گے۔ پھر یہ گیس کہاں استعمال ہوگی؟ میری تجویز ہے کہ ہماری موجودہ گیس صرف بجلی پیدا کرنیوالے کارخانوں اور انڈسٹریل سیکٹر کو دی جائے۔ پرائیویٹ گاڑیوں کو بالکل نہ دی جائے۔ ڈیزل پر سبسڈی دی جائے تاکہ پبلک سیکٹر کی گاڑیاں ڈیزل استعمال کریں۔ اس طرح کسان کو بھی فائدہ ہوگا۔ اس کے علاوہ گھروں میں گیس استعمال کرنے والوں کے لیے لوڈشیڈنگ کی جائے دوپہر 12 تا شام 5 بجے، رات 8 بجے تا صبح 5 بجے تک لوڈشیڈنگ کی جائے۔ یعنی 14 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ۔ اس کے ساتھ ہی ملک میں بھی گیس تلاش کرنے کی کوششیں کی جائیں۔


(3)            پانی کی کمی: ملک میں پانی کی شدید قلت ہوتی جارہی ہے۔ دریا خشک ہورہے ہیں بارش کے پانی کو جمع کرنے کا انتظام کیا جانا چاہیے۔ ہر سال سیلابوں سے تمام پانی سمندر کی نذر ہوجاتا ہے۔ سب سے بہترین حل یہ ہے کہ ڈیم تعمیر کیے جائیں کیونکہ اسطرح پانی بھی جمع ہوگا اور بجلی بھی پیدا کی جاسکتی ہے۔ بے شک چھوٹے چھوٹے ڈیم بنائے جائیں۔ نہریں پختہ کی جائیں اس طرح پانی ضائع ہونے سے بچ جائے گا۔ ایک دریا پر کئی واٹر سٹوریج بھی تعمیر کیے جاسکتے ہیں۔ اس طرح ہمیں ڈیمز کی upraising کی ضرورت پیش نہ آئے گی۔ جیسا کہ بجلی اور گیس میں بچت کی ضرورت ہے اسی طرح ہمیں پانی کے استعمال میں بھی بچت کی ضرورت ہے۔ ہمیں ایک قوم ہو کر سوچنا پڑے گا۔ ورنہ آخر میں خسارہ ہی خسارہ ہوگا۔ عموماً یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ لوگوں کے گھروں کی ٹینکیاں  overflow  ہورہی ہیں، ٹوٹیاں لیک ہیں، لیکن وہ کوئی پرواہ نہیں کرتے۔ نہانے دھونے میں بھی بہت پانی ضائع کرتے ہیں۔ بعض لوگ وضو بھی ایسے کرتے ہیں گویا کہ نہا رہے ہوں۔ اللہ کی عبادت کرتے ہیں مگر اخلاق سے خالی۔ یہ ہمارا اجتماعی مسئلہ ہے۔ اس لیے ہمیں خوفِ خُدا بھی ہونا چاہئے۔ اگر لوڈشیڈنگ نہ ہو تو سارا دن اور رات پانی کی ٹینکیاں بہتی رہیں، ہر آدمی اپنے آپ کا محاسبہ کرے۔ یہ ہمارا اخلاقی فرض ہے۔ بجلی اور گیس کی طرح پانی کی بھی لوڈشیڈنگ کی جائے۔ یہ توہوگیا پانی کی کمی دور کرنے کا حل۔ اب آئیے صاف پانی کی طرف ۔ لاہور میں جن علاقوں میں پانی ٹیوب ویلوں سے ڈائرکٹ آتا ہے۔ وہ کافی صاف ہوتا  ہے۔ مگر جن علاقوں میں اوور ہیڈ ٹینکوں سے آتا ہے وہ زنگ آلود اور گندہ ہوتا ہے۔ کیونکہ ٹینکیوں کی صفائی نہیں کروائی جاتی۔ یہ حکومت کا فرض ہے کہ لوگوں کو صاف ستھرا پانی سپلائ کرے۔ گھریلو فلٹر بھی بہت جلد خراب ہوجاتے ہیں۔ اب سنا ہے کہ اسلام آباد میں بھی پانی کی کمی ہورہی ہے۔ پنجاب پھر بھی دیگر صوبوں کے مقابلے میں خوش قسمت ہے۔ دوسرے صوبوں خاص کر سندھ میں برا حال ہے۔ پانی کی کمی اور وہ بھی گندہ۔ حکومت کو پانی کے مسئلے پر خاص توجہ دینا ہوگی۔ کیونکہ ہر بیماری پانی سے جنم لیتی ہے اور عوام کو بھی بے جا تصرف سے پرہیز کرنا ہوگا۔


اگر انگریز برصغیر میں نہ آتا تو ہم آج بھی سڑکوں پہ تانگے چلا رہے ہوتے اور تمام سڑکیں کچی ہوتیں۔ جی ٹی روڈ شیر شاہ سوری نے بنائی تھی اور لکڑی کے پل ڈالے تھے وہ بھی آج کمزور اور کچے ہوتے۔ پاڪـــــستان بننے کے 70 سال بعد ملتان سے لاہور کا ٹریک ڈبل ہوسکا وہ بھی سی پیک چائینہ کے منصوبہ سے۔ پیسہ چین نے اپنا ذاتی لگایا۔ پاڪـــــستان میں تو پیسہ اب  2022ء میں ختم ہے۔





مالک و مصنف: شیخ محمد فاروق۔

کمپوزر: کاشف فاروق۔ لاہور سے۔




No comments:

Post a Comment