URDU STORIES:

اردو ادب اور کہانیوں میں خوش آمدید ۔ قصہ کہانیاں، غزلیں، نظمیں، واقعات، طنزومزاح، لاہور کی پنجابی، کچھ حقیقت کچھ افسانہ، پراسرار خواب والی ٹیکنالوجی، میری فیملی کا ذاتی شجرہ نسب سن 1790ء تا 2023ء۔، قومی پیمانہ، تباہی و زلزلے، دو سو سالہ کیلینڈر، اردو سافٹ وئیر ڈاؤنلوڈ۔

Friday, September 16, 2022

KHANDANI NIZAM AUR PAKISTAN - MUSHTARKA KHANDANI NIZAM AUR PAKISTAN - مشترکہ خاندانی نظام




مئ 15 سن 2005۔

"بکھرتے ہوئے خاندانی نظام کو سہارا دیں"
فیملی ڈے کے حوالے سے خصوصی فیچر رپورٹ 2005ء۔






خاندان پیار اور محبت سے جڑے ہوئے رشتوں کا نام ہے جسے مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ مشرق میں مضبوط خاندان آج بھی اسکی روایات کا حصه ہے جس میں والدین اور بچے مل جل کر زندگی گزارتے ہیں اور ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہوتے ہیں۔ دادا دادی نانا نانی اکثر بچوں کی تربیت کے لیے ایک انسٹی ٹیوٹ کا کام دیتے ہیں۔ لیکن افسوس که ہماری یه روایات کمزور پڑتی جارہی ہیں حالانکه خود مغرب بھی مشرق کے اس خاندانی روایات سے بهت اثر قبول کررہے ہیں جهاں آج تک کوئ بھی بچه سن بلوغت تک پهنچتے ہی مادر پدر آزاد ہوجاتا ہے۔ لیکن اب وہاں رہنے والے والدین بھی بچوں کے ایسے رویے سے خوش دکھائ نهیں دیتے لیکن انهیں اپنی روایات کا پاس ہے جن کے تحت والدین کو یه اختیار نهیں ہے که وه بچوں کو انکی کسی غلطی پر ٹوک سکیں یا کچھ کهه سکیں۔ خاندان کے فوائد کو مدنظر رکھتے ھوئے 15 مئ 2005ء کو فیملی ڈے منایا گیا که ہم خاندان کی صورت میں جڑے رہنے کو ترجیح دیں گے۔ اس سے جڑے ہوئے هر رشتے کو عزت و احترام دیں گے۔

ہمارے بزرگ جو اب اپنی اولاد کی خدمت نہیں کرسکتے بلکه وه اپنی اولاد پر انحصار کرنے لگے ہیں انھیں ہم پھولوں کی طرح رکھیں گے، ہمیں رکھنا چاہیے۔ ان کی کسی بات کا برا نهیں منائیں گے، نہ منانا چاہیے۔ نه صرف خود انکی عزت کریں گے بلکه اپنے بچوں کو بھی درس دیں گے۔ کیونکه انسان جو بوتا ہے وہی کاٹتا ہے۔ اگر آپ اپنے والدین کی عزت نہیں کریں گے تو آپ کی اولاد بھی آپ کے لیے اپنے دلوں میں اچھے جذبات نہیں رکھے گی۔ اس لئے که وه آپ سے وہی کچھ سیکھے گی جس کا مظاهره آپ کریں گے۔ کیونکہ دنیا مکافات عمل ہوتی ہے۔

فیملی ڈے ان لوگوں کے لیے لمحه فکریه ہے جو اپنے بوڑھے والدین کو اولڈ ہوم ہاؤس میں چھوڑ کر دنیا کی مصروفیات میں گم ہوگئی ہیں ان اولڈ ہومز میں پڑھے ہوئے بزرگوں کی آنکھیں کسی اپنے کی آمد کی منتظر ہیں۔ نه جانے یه پر نم آنکھیں کب خاموشی کا لباده اووڑھ لیں اور جب آپ کو خبر ملے تو آپ کو احساس ہوگا که اب بهت دیر ہوچکی۔

پھر گزرا وقت واپس نہیں آئے گا که آپ کو موقع مل نه سکے که آپ اپنے بزرگوں کی خدمت کرسکیں، انھیں ان کے خاندان سے فیملی سے دور مت کریں، جس کا خواب انھوں نے اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھا تھا که کب میرے پوتے پوتیاں یا نواسے نواسیاں میرے پاس بیٹھ کر کهانی کی فرمائش کریں گے۔ یا ہم پر اپنا حق جتائیں گے۔ دولت کی ہوس ہمیں اقدار اور روایات سے دور لیتی جارہی ہے۔ جب ایک گھر میں دادا دادی بچوں کو کهانی سناتے تھے، چچا بچوں کا لاڈ اٹھاتے تھے اور پھوپھی سے بچوں کو والهانه پیار ہوتا تھا سب مل جل کر رہتے تھے، تو گھر میں خوشیوں کی بهار اور قهقهوں کی سدا سنائ دیتی تھی۔ بڑی بڑی حویلیوں میں خاندان کے اکٹھے رہتے تھے گو که اس میں بھی کچھ قباحتیں موجود ہیں۔ ہمیں ان قباحتوں کو دور کرنا ہے نه که اپنا خاندانی نظام ہی منتشر کردینا ہے۔ جس میں غلط کاموں پر سمجھانے والا اور برے کاموں سے روکنے والا کوئ نهیں ہوگا اور پھر ہم برائ کی دلدل میں پھنستے چلے جائیں گے اور آخر میں تنهائ کے سوا کچھ نهیں بچے گا۔


"آج کا مشترکہ خاندانی نظام اور موبائل کا استعمال 2022ء"
دراصل آج کل کے جدید دور 2022ء کے مطابق یہ حالات ہیں پاکستان میں کہ شادی ہوتے ہی بیٹے کو اپنی بیوی سمیت ازخود  الگ کر دینا چاہیے، ورنہ وہ ماں باپ کو گھر سے نکال دینے کی دھمکی دینے لگتے ہیں، بیویوں کے غلام بن جاتے ہیں۔ یہی بیویاں شادی کے دن قرآن کے سائے میں رخصت ہوکر آتی ہیں، مساجد میں ان کا نکاح ہوتا ہے، پاکستان میں یہ رسم و رواج ہے جی کہ ہم شادی کریں گے تو ربیع الاول کے مقدس مہینے میں، تو جناب یہی عورتیں جب اپنے سسرال پہنچ جاتی ہیں رخصت ہو کے تو جاتے ہی کچھ ہی دنوں میں اپنے رنگ دکھانے لگتی ہیں، جادوٹونا اور تعویزات عملیات کا چیپٹر کھول کر بیٹھ جاتی ہیں، گھر کے کوئی کام ان کو نہیں کرنے ہوتے، بس شادی ہوتے ہی الگ گھر میں جا کر رہنے کا مطالبہ کردیتی ہیں۔

ایک اور بات کہ مشترکہ خاندانی نظام بھی ایک حد تک ہونا چاہیے۔ اگر ایک ہی حویلی میں جو چار پانچ کینال اراضی یعنی 3 ہزار گز پر پھیلی ہوئی ہے اور وہاں 100 افراد رہائش پذیر ہیں تو میرے خیال میں وہاں انسان نہیں بلکہ جانور بستے ہیں۔ وہ حویلی گھر نہیں بلکہ چڑیا گھر ہے۔

ہم نے یہ سن رکھا ہے کہ اسلام کہتا ہے بھائی کی بیوی تک سے پردہ کرو۔ بیشک وہ چھوٹا بھائی ہو یا بڑا، تو اس کا مطلب یہی نکلتا ہے کہ اسلام منع کر رہا ہے کہ آپ مشترکہ خاندانی نظام میں رہیں۔ آپ کو شادی ہوتے ہی الگ گھر میں رہنا چاہیے۔ کہا یہ جاتا ہے کہ عورتیں نامحرم ہوتی ہیں۔ اس حوالے سے صرف عالم دین حضرات ہی جانتے ہیں کیا ٹھیک ہے اور کیا نہیں۔یہ بھی جاننے کی ضرورت ہے کہ نامحرم عورتیں کون ہوتی ہیں۔۔۔ میرے خیال میں اگر کوئی غیر عورت نکاح کرکے گھر آجائے تو وہ نامحرم نہیں، گھر کے تمام افراد کے لیے محرم بن جاتی ہے جب تک اس کے شوہر کے ساتھ نکاح قائم ہے۔ اگر شوہر فوت ہوجائے تب بھی وہ گھر کے دوسرے افراد کے لیے محرم ہی ہوگی۔البتہ اگر طلاق ہوجائے تو پھر وہ نامحرم بن جاتی ہے۔ کیونکہ طلاق ہونا اور شوہر کا فوت ہونا دو الگ الگ معاملات ہیں۔اس بارے میں بہتر عالم دین ہی بتائیں گے۔

والدین کی فرماں  برداری اور اطاعت گزاری ہم سب پر فرض ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اوّل اللہ اور اسکے رسولﷺ کی اتباع کے بعد والدین کی فرما نبرداری ہم سب پر لازم ہے۔ ماسوائے کوئی ایسا حکم جو دین اور شریعت کے خلاف ہو۔ جیسا کہ حضرت ابراہیمؑ نے اپنے والد کا یہ حکم کہ بتوں کی پرستش کرو ماننے سے انکار کر دیا تھا، مگر انہوں نے پیار محبت اور دلیل سے اپنے دالد محترم کو قائل کرنے کی کوشش کی تھی جو  بےاثر ثابت ہوئی۔ اس لئیے راستے جدا ہو گئے۔ اس سب کے باوجود آپ انکی رہنمائی کیلئیے اللہ پاک سے دعائیں کرتے رہتے تھے۔ بلکہ انکے فوت ہونے کے بعد بھی انکی مغفرت کیلئیے بھی دعائیں کرتے رہتے تھے۔  ہم بھی انہی کی سنت ادا کر تے ہوئے ہر نماز میں اپنے ماں باپ کی مغفرت کیلئیے دعا کرتے ہیں۔  یہ تھی مثال اولاد کے پیار اور محبت کی اپنے والدین کیلئیے۔ اب آتے ہیں ماں باپ کے پیار اور محبت کی اپنی اولاد کیلئیے۔ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت نوحؑ ؑکو طوفان کی اطلاع دی اور کہا کہ اپنے ماننے والوں کو کشتی میں سوار کرا لو۔ انہوں نے اپنے بیٹے کنعان کو کہا کہ زبردست طوفان آنیوالا ہے، لہٰذا کشتی میں سوار ہو جائو مگر وہ سوار نہ ہوا اور ڈوب کر مر گیا۔ حضرت نوحؑ  کو بہت رنج ہوا  اور انہوں نے اللہ پاک سے  شکایت کی،  پھر اللہ پاک نے فرمایا کہ وہ تمہاری ذریّت ہی میں سے نہ تھا۔ اگر تمہیں رنج پہنچا ہے پھر ایک کنعان ہی کیا ہم سب کو دوبارہ  زندہ کر دیتے ہیں۔حضرت نوحؑ کو  اپنی غلطی کا احساس ہوا  اور انہوں نے فور اً اللہ تعالی سے معافی کی درخواست کی۔ اولاد چاہے کتنی ہی ناخلف کیوں نہ ہو مگر وہ ماں باپ کی جان کا ٹکڑا ہوتی ہے۔ ماں باپ کبھی بھی اپنی اولاد کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتے۔ مگر آجکل حالات بالکل ہی مختلف ہو گئے ہیں۔ زمانہ بدل چکا ہے۔ نہ  ماں باپ کو اپنی اولاد کی فکر ہے اور نہ ہی اولاد کو انکی۔ بچوں پر کنٹرول ہی نہیں رہا۔ بچے بد تمیزی پر اتر آ تے ہیں۔ اوپر سے موبائل نے بچوں کو بہت زیادہ بدتمیز بنا دیا ہے۔ بیماری میں ماں باپ کو پوچھتے ہی نہیں۔ کنی کتراتے ہیں اور ایک بیٹا اپنے دوسرے بھائی پر ذمہ داری ڈالنے کی کوشش کرتارہتا ہے۔ یہ بچے بڑے ہو کر بھول جاتے ہیں کہ انہی والدین نے انکو پال پوس کر جوان کیا تھا، اپنی راتوں کی نیند حرام کی تھی ۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے، جب یہی بچے بوڑھے ہو جاتے ہیں، پھر انکی اولاد بھی ان سے ایسا ہی سلوک کرتی ہے۔ مگر افسوس جوانی میں انہوں نے یہ احساس ہی نہ کیا تھا۔ اسی طرح بعض والدین بھی اپنے بچوں سے نا انصافیا ںکرتے ہیں، انکے حقوق ادا نہیں کرتے۔ اپنے ہی بچوں کے درمیان امتیازی سلوک کرتے ہیں۔ یہی امتیازی سلو ک بچوں کے ذہنوں میں  بیٹھ جا تا ہے  لہٰذا وہ بچپن ہی سے احساس کمتری میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ پھر وہ سکون والی راہیں تلاش کرنا شروع کر دیتے ہیں، جوانی میں پہنچ کر نشہ کرنے لگ جاتے ہیں۔ ماں باپ انہیں گھر سے نکال دیتے ہیں اور عاق کر دیتے ہیں۔ مگر بات یہیں ختم نہیں ہو جاتی۔ جب والدین بوڑھے ہو جاتے ہیں  پھر اکثر وہی بچے جن سے  ماں باپ خوب پیار و محبت کیا کرتے تھے انکو چھوڑ کر بیوی کے ساتھ الگ رہنے لگ جاتے ہیں کیونکہ وہ اب بڑے آدمی بن چکے ہوتے ہیں۔ بیمار والدین بستروں پر تڑتے رہ جاتے ہیں۔ بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ والدین نے اپنی اولاد کے علاوہ کسی اورکی حق تلفی کی ہو تی ہے مگر اس کی سزا  بھی بچوں ہی کو بھگتنا پڑتی ہے۔ آخر کسی نہ کسی نے تو پھل چکھنا ہوتا ہے۔ پھر آخرت کا حساب کتاب الگ۔ اس لئے ہمیں اس سلسلے میں محتاط ہونے کی ضرورت ہے۔ خواہ ہم والدین ہیں خواہ اولاد۔آخر ایک نہ ایک دن ہم سب نے والدین بھی بننا ہے اور بوڑھا بھی ہونا ہے ۔ لہٰذا ہم سب کو اپنے اپنے حقوق و فرائض ادا کرنے ہونگے، تاکہ دنیا اور آخرت میں سرخ رو ہوں۔ اللہ ہم سب کو صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق  عطا فرمائے۔آمین۔

برصغیر میں عرصہ دراز سے مشترکہ خاندانی نظام چلا آرہا ہے۔ کچھ دہائیاں پہلے یعنی تقریباً 1990ء تک لوگ خوشی خوشی ایک ہی گھر میں رہائش اختیار کرتے تھے۔ ماں باپ، دادا دادی، چچا، تائے پھر بھائی بہن، چچا زاد ، تایا زاد بھائی بہن سب لوگ ایک ہی گھر میں رہتے تھے۔ کھانا بھی سب کا اکٹھا پکتا تھا۔ بچے بھی تقریباً ایک ہی اسکول میں پڑھا کرتے تھے۔ آہستہ آہستہ زمانہ بدلنے لگا۔ لوگوں کے پاس پیسہ آنے لگا اپنے اپنے گھر بنانا شروع ہوگئے۔ کوئی آگے نکل گیا کوئی پیچھے رہ گیا۔ دلوں میں نفرتیں بڑھنا شروع ہوگئیں۔ اب زمانہ اتنا خراب ہوگیا ہے کہ بھائی بھائی کا دشمن بن گیا ہے۔ کچھ گھروں میں تو ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ ماں باپ بھی خودغرض ہوگئے۔ اب شاید ہی کوئی مشترکہ خاندان میں رہنا چاہے گا۔ صرف مجبور اور غریب طبقہ جو اپنے لئے الگ گھر نہیں بنا سکتا وہی اس نظام میں رہنے پر مجبور ہیں۔ حقیقت میں مشترکہ نظام کی بھی ایک حد ہونا چاہیے۔ ماں باپ اور اولاد۔۔۔ بس اس سے آگے نہیں۔ زیادہ سے زیادہ 15 سے 20 افراد۔ جب بچوں کی شادیاں ہوں وہ الگ رہائش رکھیں۔ زیادہ بڑے خاندان سے بہت ساری معاشرتی برائیاں پیدا ہوتی ہیں۔ میرے خیال میں اسلام کا تصور بھی مجروح ہوتا ہے کیونکہ اسلام منع کرتا ہے مشترکہ خاندانی نظام میں رہنے سے۔ محرم اور نامحرم کا تصور ختم ہوتا ہے۔ آخر کوئی وجہ ہی ہوگی جو اسلام نے محرم اور نامحرم کے اختلاط پر پابندی لگائی ہے۔ اس کے علاوہ ساس بہو کا اختلاف اور ناچاقی جب گھر میں ایک سے زیادہ بہوئیں ہونگی، کچھ ساس کی پسندیدہ ہونگی اور کچھ ناپسندیدہ۔ 

دراصل آج کل 2000ء کے دور  کی لڑکیاں شادی ہوکے اپنے سسرال جاتی ہیں تو وہ "بہو" بن کر یا "بہو کے روپ" میں نہیں پہنچتیں، بلکہ "بھؤ" کے روپ میں پہنچ جاتی ہیں یعنی "بھوتنی کے روپ" میں اور سر پر سوار ہو کر ساس سسر پہ اپنا حکم چلاتی ہے۔ یہ حکم چلانے کا سلسلہ دراصل 1980ء کی دہائی میں ہی شروع ہوچکا تھا۔

اور آج کل 2022ء میں تو خیر سے ویسے بھی ہوسِ زر اس قدر ہوگئی ہے کہ نئے نئے دولتیے اپنے بیٹوں کے رشتوں کے لیے امیر خاندانوں کو ترجیح دیتے ہیں چاہے تعلیم صفر ہو مگر جہیز خوب آئے۔ مجبوراً اگر کبھی غریب کی بیٹی کو قبول کرنا پڑجائے پھر اسکی ساری عمر کھنچائی ہوتی رہتی ہے۔ ذرا ذرا سی بات پر جہیز کا طعنہ دے دیا جاتا ہے۔ ساری عمر اس کے ماں باپ کو بھی کوسا جاتا ہے کہ لڑکی جہیز لے کے نہیں آئی۔ گھر کی صفائی ، کپڑوں کی دھلائی، کچن کا سارا کام اسی کے ذمہ ڈال دیا جاتا ہے۔ گویا کہ اسکو نوکرانی کا درجہ دے دیا جاتا ہے۔ دوسری بہوئیں اگر وہ کھاتے پیتے گھرانوں سے تعلق رکھتی ہیں خوب عیش کی زندگی گزارتی ہیں۔ اپنے کام کی باری پر بیماری کا بہانہ بناتی ہیں اور کبھی میکے چلی جاتی ہیں۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ جب کبھی مہمانوں کو دعوت دینا مقصود ہوتا ہے پھر ساس اس دن کا پروگرام رکھتی ہے جس دن اس غریب بہو کی باری ہوتی ہے۔ عام دنوں میں جب پسندیدہ بہو کی باری ہوتی ہے، پھر ساس ایک دم تازہ دم ہوکر ہر کام میں اسکی مدد کرنا شروع کردیتی ہے اور اپنی بیماری تک بھول جاتی ہے۔

بعض اوقات تو سگا باپ بھی سوتیلا بن جاتا ہے۔ باپ کو یہ فکر لاحق ہوتی ہے کہ کہیں یہ بڑا بیٹا دوسرے بیٹوں کا حق نہ مار جائے۔ زندگی ہی میں چھوٹے  بیٹوں کے ہاتھوں بڑے کی تذلیل کرواتا رہتا ہے اور جائیداد وغیرہ کے تمام کاغذات اپنے چھوٹے بیٹوں کے قبضے میں مرنے سے پہلے دے جاتا ہے۔ والد کی وفات کے بعد چھوٹے بیٹے شیر ہوجاتے ہیں اور جو بھی حصہ بڑے کو دیتے ہیں یہ کہہ کر دیتے ہیں کہ یہ بھی ہم نے تم پر احسان کیا ہے۔ 

مشترکہ رہائش کی ایک اور بڑی خرابی یہ ہے کہ گھر میں گروپ بندی ہوجاتی ہے۔ کسی ایک کے خلاف سب لوگ اکٹھے ہوجاتے ہیں۔ اس کے حقوق سلب کرتے ہیں۔ بہوئیں ایک ایک منٹ کی خبریں اپنے ماں باپ کو دیتی ہیں اور ماں باپ اپنی بیٹیوں کو پٹی پڑھاتے رہتے ہیں۔ گھر کی کوئی بات راز میں نہیں رہتی۔ ایسے ماحول میں مشترکہ خاندانی نظام قطعی غیر مناسب ہے۔ زندگی بھر کڑھنے کی بجائے بہتر ہے الگ مکان میں رہائش اختیار کی جائے چاہے کچا جھونپڑا ہی کیوں نہ ہو۔

جیسا کہ میں اوپر بیان کرچکا ہوں کہ اگر کوئی حویلی ہے 3 ہزار گز کی یا تقریباً 6 کینال کی، تو وہ حویلی حویلی نہیں بلکہ چڑیا گھر ہے، وہاں انسان نہیں جانور بستے ہیں۔



"خاندان، اسکول و کالج میں موبائل کے استعمال کے فوائد و نقصانات"
اس میں کوئی شک نہیں کہ موبائیل موجودہ دور کی بہت اچھی ایجاد ہے اور وقت کی ضرورت بھی ہے، بشرطیکہ اس کو جائز اور اچھے طریقے سے اور جائز  ضرورت کے وقت ہی  استعمال کیا جائے۔ جبکہ  ہمارے ملک میں اس کا منفی استعمال بہت زیادہ  ہو گیا ہے۔ البتہّ  کچھ سمجھدار لوگ عموماً اسکا مثبت استعمال کرتے ہیں، کیونکہ ان کو بیلنس کی فکر ہوتی ہے اور دوسرے انکے پاس فالتو وقت ہی نہیں ہوتا، بلکہ عموماً  وہ اپنا فون ہی بند رکھتے ہیں، تاکہ تسلّی سے اپنا کام کر سکیں۔ وہ غیر ضروری باتوں سے پرہیز بھی کرتے ہیں۔ انکو یہ فکر نہیں ہوتی کہ انکا بچہ اسکول پہنچا ہے یا نہیں، یا پھر اسکول سے گھر واپس آ گیا ہے یا نہیں۔ وہ صرف اور صرف اپنے اللہ پر بھروسہ کرتے ہیں۔

اسکے مقابلے میں کچھ خواتین متوسط طبقے کی یا غریب طبقے کی اپنے روزمرہ کے کاموں سے فارغ ہونے کے بعد سہیلوں، بہنوں اور ماں باپ سے لمبی لمبی باتیں کرنا شروع کر دیتی ہیں، خاص کر شادی کے بعد۔ انہوں نے باتوں کیلئیے باقائدہ پیکیج لئیے ہوتے ہیں۔ باتیں بھی کوئی کام کی نہیں ہوتیں، بالکل فضول باتیں۔ جن میں زیادہ تر کسی نہ کسی کی غیبت بیان ہوتی ہے۔ شادی شدہ خواتین  اپنے سسرال کی برائیاں بیان کرتی ہیں، بھائیوں تک کی برائیاں بیان کرتی ہیں۔ اپنی بہنوں کو اپنے ہی شادی شدہ  بھائیوں کے خلاف اکساتی ہیں۔ اپنے سسرال کی ایک ایک بات فوراً اپنے ماں باپ اور بہنوں کو بتا دیتی ہیں مگر مجال ہے جو اپنے ماں باپ کے گھر کی کوئی بات اپنے سسرال والوں سے شیئر کریں۔ گھر کی بات گھر میں نہیں رہتی، حلق سے نکلی خلق میں پہنچی۔ جب پوچھا جائے فوراً مکر جاتی ہیں۔ اب تو انٹرنیٹ کا زمانہ ہے اوپر سے واٹس ایپ کی فری کال کی سہولت۔ امراء کا حساب بھی ویسا ہی شاہانہ ہے۔ انکے پاس تو موبائیلز کی دوکان کھلی ہوتی ہے جن میں مختلف کمپنیوں کی سمیں ڈلی ہوتی ہیں اور ہر وقت آن رہتی ہیں۔ڈرائیونگ کرتے وقت موبائیل کان سے لگا ہوتا ہے۔ کام کی کوئی بات نہیں ہوتی، بس یہی پوچھتے رہتے ہیں کہ اور سناؤ کیا حال ہے ، دوسری طرف سے کہا جاتا ہے۔ بس ٹھیک ہیں۔ پھر بھی کہے جاتے ہیں کیا حال ہے؟ یعنی بات ختم کرنااپنی توہین سمجھتے ہیں۔ آجکل اسکول اور کالج جانے والی اور والے تقریباً  ہر نوجوان لڑکی اور لڑکے کے پاس موبائیل ہوتا ہے۔ دراصل موبائل وقت کی ضرورت ہے لیکن اس کا استعمال آپ پر منحصر ہے۔ یہ طالبعلم بھی زیادہ تر اپنے دوستوں سے فضول بات چیت کرتے رہتے ہیں۔اسی طرح برائیوں کی طرف بھی راغب ہو جاتے ہیں۔ لڑکے لڑکیوں کو بلیک میل کرنے لگتے ہیں۔ پھر ماں باپ کیلئیے مسئلے مسائل پیدا  ہو جاتے ہیں۔ بڑے افسوس کی بات ہے کئی لوگوں نے اپنی اولادوں کو موبائیلز دئیے ہی اس لئیے ہیں کہ وہ مخالف جینڈر سے رابطے پیدا کریں اور اپنا برخود تلاش کریں، اسی لئیے مخلوط  اداروں میں تعلیم دلائی جاتی ہے، حالانکہ غیر مخلوط ادارے بھی موجود ہوتے ہیں۔ 

کہتے ہیں کہ انسان برائیوں کی طرف فوراً راغب ہو جاتا ہے۔ موجودہ دور کی معاشرتی برائیوں کی جڑ موبائیل فون اور انٹر نیٹ ہے۔ خاندانوں میں نفاق بڑھ رہا ہے ۔اب کوئی بات راز میں رکھنا محال ہے۔ لیکن کیا ہمیں برائیوں کو روکنے کی کوشش نہیں کرنا چاہئیے؟ کیا ہم غیبت سے اجتناب نہیں کر سکتے؟ کیا فائدہ کسی کی برائیوں کو  بیان کرنا اور خاندانوں کو اجاڑنا، ان کے درمیان نفرتیں پیدا کرنا۔ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ جیسا تم آج کر رہے ہو کل کو تمہارے ساتھ بھی ویسا  یا اس سے بھی برا ہو سکتا ہے۔افسوس اور حیرت اس بات پر ہے کہ ناقص العقل عورت تو رہی ایک طرف اب تو مر د حضرات بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ وہ روزانہ دفتر بیٹھ کر بھی اپنی بیٹیوں کی زبانی سسرال والوں کی برائیاں سن رہے ہوتے ہیں۔اوپر سے ان کو اکساتے بھی ہیں۔اللہ رحم کرے ایسے لوگوں پر اور ہمارے خاندانوں کو تباہ ہونے سے بچائے۔

لیکن ایک اور بات سمجھنے کی ہے کہ اگر لڑکے لڑکوں کے اسکول میں پڑھیں اور لڑکیاں لڑکیوں کے اسکول و کالج میں تو ایسا بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ اکثر لڑکے لڑکیاں ہم جنس پسندی کی جانب راغب ہوجاتے ہیں۔ ہمارے معاشرے کے مطابق اگر ایسی صورتِ حال ہے تو پھر تو مخلوط تعلیمی نظام زیادہ بہتر ہے۔ لڑکوں لڑکیوں کو ایک دوسرے سے بات کرنا آئے گی، ورنہ لڑکوں کو یہ نہیں معلوم ہوپاتا کہ فی میل سے کیسے بات کرنا ہے، ان کو فی میل سے بات کرنا نہیں آئے گی۔ ہم جنس پسندی سے لڑکوں کو زیادہ نقصان ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں اکثر لڑکے شادیوں سے انکار کردیتے ہیں۔ یہ بھی ایک مسئلہ ہے۔

میرے خیال میں آج کے جدید دور کے مطابق مخلوط تعلیمی نظام بالکل درست ہوتا ہے۔ اگر لڑکا لڑکی کو کالج میں چھیڑے یا لڑکی کسی لڑکے کو کالج میں پریشان کرے تو انسانی فطرت ہونے کے اعتبار سے یہ فعل بالکل درست ہوتا ہے۔ اگر لڑکا دوسرے لڑکے یا لڑکی دوسری لڑکی کو چھیڑے تو پاکستان میں انہیں پاگل کہا جاتا ہے۔



مالک و مصنف: شیخ محمد فاروق۔
کمپوزر: کاشف فاروق۔ لاہور سے۔


No comments:

Post a Comment