URDU STORIES:

اردو ادب اور کہانیوں میں خوش آمدید ۔ قصہ کہانیاں، غزلیں، نظمیں، واقعات، طنزومزاح، لاہور کی پنجابی، کچھ حقیقت کچھ افسانہ، پراسرار خواب والی ٹیکنالوجی، میری فیملی کا ذاتی شجرہ نسب سن 1790ء تا 2023ء۔، قومی پیمانہ، تباہی و زلزلے، دو سو سالہ کیلینڈر، اردو سافٹ وئیر ڈاؤنلوڈ۔

Sunday, August 28, 2022

KALEY JADU SE AIK GHR KI TBAHI - کالے جادو سے ایک گھر کی تباہی متوقع

 


1994 photo - its the real haunted house

2016 photo - its the real haunted house

2016 photo - its the real haunted house


کالے جادو سے ایک گھر کی تباہی سے پہلے کے واقعات کا خلاصہ

گھر میں کسی نے مرغی کے انڈے پھینکے

یه 15 دسمبر 2007  ہفتے کی بات تھی، هوا یه تھا که همارے گھر کے صحن میں کسی نے مغرب کے بعد جب اندھیرا چھا جاتا هے، مرغی کے انڈے اچانک پھینکے، جو کسی انسان کے کام نهیں لگتے تھے، همارے گھر کی چوکھٹ پر انڈا گرا اور کسی ایسی جگه سے پھینکا گیا که کوئ انسان اس جگه سے نهیں پھینک سکتا جو کچھ هوا اپنے آپ هی هوا۔ ۤآپ کو پتا ہے کہ هماری کوٹھی کے بڑے بڑے کل 4 حصے هیں۔ ﴿همارے ایک بڑے حصه کے پھر مزید تین حصے هوگئے﴾، کوٹھی کے  دو بڑے حصوں میں بھی انڈے گرے یعنی گھر کے کل تین بڑے حصوں میں انڈے گرے (ایک ہمارے حصہ میں ایک چھوٹی دادی کے ہاں اور ایک پیچھے والوں کے ہاں۔ ہم نے یہ بات کسی کو نہیں بتائی تھی، صوفیہ پھپو نے امی کو بتایا تھا کہ ایک انڈا ہمارے اور ایک چھوٹی دادی کے گھر بھی گرا تھا تو امی نے انکو اپنے گھر کا بتایا کہ ہمارے ہاں بھی انڈا گرا تھا)۔

یہ واقعہ بلا پیدا ہونے سے کچھ دن پہلے کا تھا

انہی دنوں 2008 میں یہ بھی ہوا تھا کہ بلال، طلال اور ناہید پھپھی کا بیٹا واصف اپنے ایک دوست کے ساتھ آیا ہوا تھا اور پیچھے والوں کے ڈرائینگ روم میں یہ لوگ ٹھہرے ہوئے تھے۔ تو جب رات کو سوئے تو ساری رات انکو نیند نہیں آئی اور جنات انکو تنگ کرتے رہے، سوتے سے انکو جگائے دیتے تھے اور جب انکی آنکھ کھلتی تھی تو یہ لوگ بیٹھے ہوئے ہوتے تھے۔ ان کے سر کے نیچے ہاتھ رکھ کر کوئی طاقت ان کو سوتے سے اٹھا دیتی تھی اور جب آنکھ کھلتی تھی تو بیٹھے ہوئے پاتے تھے اپنے آپ کو۔۔۔۔ اس کے علاوہ واصف کے دوست نے تو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا تھا کہ ایک باسکٹ بال جتنا کوئی بال پیلے رنگ کا ہے وہ ہوا میں اڑتا پھر رھا ہے۔ کبھی پردے پر چڑھ جاتا تھا کبھی نیچے اتر آتا تھا۔ پھر ایک دوفعہ جب وہ نیچے اترا تو صوفے کے نیچے چلا گیا وہاں جا کر غائب ہوگیا۔ صبح ہوئی تو بلال نے دیکھا کہ کوئی چیز چمک رہی ہے کارپٹ کے اوپر۔ اس نے ہاتھ سے اٹھا کر دیکھا تو وہ کپڑے سلائی کی سوئی تھی۔ اور پھر جب اس نے کارپٹ اٹھا کر دیکھا تو بیشمار سوئیاں بکھری پڑی تھیں۔ کچھ سوئیاں دروازے کی دہلیز پر بکھری پڑی تھیں۔ یہ سب کے سب ڈر کے مارے بھاگ کر اوپر گئے شاہد چچا کے پاس انکو نیچے لے آئے، جب تک نیچے آئے تو دیکھا کہ اسی دوران بہت سی سوئیاں اپنے آپ ہی غائب ہوگئیں۔ کچھ سوئیاں تو دروازے کی دہلیز میں پڑی ہوئی تھیں زمین کے اوپر ہی۔ یعنی کارپٹ کے نیچے نہیں تھیں۔ تو وہ بھی اچانک غائب ہوگئیں۔ انہی دنوں حنا نے اپنے کمرے میں دیکھا کہ ایک جن اچانک اسکی الماری میں گھس گیا ہے، تو اس نے فوراً پٹ کھول کر دیکھا تو اندر کچھ نہیں تھا۔ اسی طرح نسیم چچا جب گھر آئے تو تھوڑی دیر کے لیے بستر ہر لیٹ گئے، انکی بغل مین اچانک ایک بچہ کہیں سے آکر لیٹ گیا پیلے کپڑوں میں، انکو پتا ہی نہیں، جیسے ہی انکی نظر پڑی تو ان کی چیخ نکل گئی، وہ غائب ہوگیا۔ تائی امی نے بتایا تھا 2008ء میں کہ ہمارے کمروں کے آس پاس ایک بچہ پھرتا ہے چھوٹے قد کا اورنج کلر کے کپڑوں میں۔ گھر کے اندر ہی۔

بلا پیدا کی گئی

پھر انڈے گرنے کے تقریباً ڈیڑھ ماه بعد 26 جنوری 2008 کی رات کو 2 بجے گھر کے پچھلے حصے میں (پیچھے والوں کے ہاں) زبردست شور و غل هوا، یه آوازیں کسی انسان کی نهیں تھیں اور نه هی وه انسانی باتییں تھین، بس عجیب سی آوازیں اور چیخیں تھیں۔ جیسے کوئی بلا پیدا ہوگئی ہو۔ (ہماری رات دو بجے آنکھ کھلی تھی۔ باقی سب لوگ گھر میں سو رہے تھے۔ انکو ہم نے صبح ناشتے کے دوران بتایا تھا)۔ ہماری آنکھ کھلی اسی آواز کے شور سے۔ صبح هوئ تو گھر والوں نے باهر نکل کر دیکھا جگه جگه باغیچه میں چھوٹے اور بڑے مرغی کے پنجوں جیسے نشانات دیکھے (کچھ چھوٹے اور کچھ بڑے)۔ گھر کے پورے لان میں تھے وه نشانات، یعنی مٹی میں تو پڑے ہی پڑے حتٰی کے گھر کے پکے فرش تک پر نشان پڑ گئے تھے اور فرش والے نشان کے ساتھ ایڑی بھی تھی۔ اور وه اتنے پکے نشان تھے که 15 روز تک پڑے رهے، ان پر پیر بھی پھیرتے تھے تو بھی نهیں مٹتے تھے۔ اسی دوران اسی رات بلکہ اسی لمحے حاجی چچا کے کمرے کا دروازہ کھولنے کی کسی نے کوشش بھی کی تھی (رات دو بجے) اور اسی لمحے سرفراز چچا کے گھر کی گھنٹی بھی کسی نے بجائی۔ رات دو بجے کون گھنٹی بجائے گا؟؟؟ اتنی زور سے کہ گھنٹی بول بول کے جل گئی شارٹ ہوگئی اور اسکا بجلی کا بٹن اندر دبا ہی رہ گیا۔ انهی پنجوں کی تصاویر موبائل سے اتاری گئ تھیں اور وه آپکو دیکھانی هیں۔ جس دن بلا پیدا ہوئی تھی، تو اس کے ایک دن پہلے ہی شیخ اسرائیل صوبہ سندھ کے شہر کوٹری سے یہاں لاہور آئے تھے اور تین چار دن ٹھہر کر واپس گئے تھے۔ بلا پیدا ہوتے ہی اگلے دن جب سب لوگ باہر نکلے اور پنچے کے نشانات دیکھنے لگے تو اسرائیل صاحب کمرے سے باہر آئے، واصف نے ان کو سلام کیا تو انہوں نے غصے سے اسکو سلام کا جواب دیا۔ واصف حیران ہوا یہ ان کو کیا ہوگیا ہے۔ ان پنجوں کا اثر 5 سے 20 سال تک کبھی بھی سامنے آسکتا هے اور آتا ضرور ہے۔ یہ بات عرفان ماموں نے بتائی تھی۔ عرفان ماموں کے دفتر میں ایک صاحب کام کرتے ہیں، انہوں نے بتایا تھا کہ ان کے اپنے گھر میں بھی یہی عمل کیا تھا کسی نے تو انہوں نے توڑ کروایا تھا۔ ان صاحب نے ماموں کو بتایا تھا کہ یہ 5 سے 20 سال کے عرصے میں کبھی بھی سامنے آسکتا ہے اور آتا ضرور ہے۔ کیونکہ ہم نے عمر کی شادی میں یہ بات انکو بتا دی تھی، تو انہوں نے اپنے دفتر میں کسی سے ذکر کیا تھا تو اس نے بتایا تھا کہ ہاں یہ سچ ہوتا ہے ہمارے اپنے جوان جوان  بچے اسی وجہ سے مر گئے تھے۔ اس کا اثر 5 سے 20 سال میں کبھی بھی سامنے ضرور آئے گا۔

بلا پیدا ہونے کا آرٹیکل یہاں ختم ہوا۔


انهی دنوں بلکه اگلے دن هی هماری امی کے هاتھوں سے اپنے آپ هی فجر کے وقت تسبیح غائب هوگئی، 65 دن تک غائب رهی، غائب هاتھوں سے هوئ تھی لیکن ملی صوفه سیٹ کے کشن کے نیچے سے اور مٹی میں بری طرح اٹی هوئ۔ تسبیح گمنے کے کچھ دن بعد هی واصف پر رات کو سوتے میں کسی نے حمله کیا۔ یاد رهے که تین بار ایک جیسا خواب نهیں آتا، اس نے تین دفعه ایک هی خواب دیکھا که کوئ بچه جیسا چھوٹے قد کا آدمی هے وہ بچوں کی طرح کرالنگ کرتا ہوا آتا ہے۔ سفید رنگ کی کھال هے اور سفید هی کپڑے پهنے هوئے اور کالی موٹی آنکھیں هیں اور اسپر حمله کرتا هے، واصف سوتے میں نیند میں آیته الکرسی پڑھتا هے لیکن پڑھی نهیں جاتی، پھر آنکھ کھل جاتی هے، وه پسینه میں لت پت هوتا هے، یه خواب لگا تار 3 دن نهیں آیا، مختلف دنوں میں ایک هی جیسا خواب دیکھا، ایک هی طریقے سے حمله هوا اس پر۔ تیسرے خواب میں وه آیته الکرسی پڑھنے میں کامیاب هوجاتا هے اور وه حمله آور بھاگ  جاتا هے۔ اور بڑے کمرے کی چمنی کے پاس جا کر واصف کو جھانک کر دیکھ رہا ہوتا ہے۔

انہی دنوں امی نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا کہ واصف موبائل لیے کھڑا ہے رات 2 بجے۔ صبح واصف اٹھا تو امی نے پوچھا تو اس نے جواب دیا کہ میں اٹھا ہی نہیں ہوں۔ پھر وہ کون تھا۔ وہ یقیناً ایک جن تھا۔ اس کے موبائل کی روشنی بھی نظر آرہی تھی امی کو۔

پھر اسکے علاوه همارے گھر کے صحن کے دروازے کے سامنے اور کبھی هماری گاڑی کی چھت پر اور کبھی بانٹ پر کالے رنگ کے چھینٹے پڑے ملتے تھے، یه سلسله 2000 سن سے 2005 تک جاری رها ۔ یه بھی سمجھ سے باهر تھا۔ هر دوسرے تیسرے دن یه عمل هوتا تھا۔ پھر ہم اور هماری امی نے ایک دن گاڑی کے بانٹ پر سفید کلر کی کاغذ کی شیٹ ٹیپ سے چپکا دی، یه دیکھنے کے لیئے که یه کیا چیز هے۔ پھر اسی دن سے وه چھینٹے غائب هوگئے، پهلے تو هر دوسرے تیسرے دن پڑتے تھے پھر اچانک غائب هوگئے اور 5 ماه تک غائب رهے، پھر 5 ماه بعد اچانک گھر کے باتھ روم میں یہی چھینٹے آدھی رات کے وقت کوئ پھینک گیا۔ یعنی پکی چھت کے نیچے، کمرے کے باتھ روم میں۔ همارے اندازے کے مطابق یه کالے رنگ کے چھینٹے خون کے چھینٹے تھے، همیں اتنا پتا ضرور چلا هے که یه کالا جادو هے۔

 صوفیہ پھپھو نے بتایا تھا امی کو کہ ان لوگوں نے ایک زندہ الو کو مٹی کے نیچے گاڑ دیا ہے، اس کے خون کے چھینٹے پورے گھر میں جگہ جگہ پڑے ملتے ہیں۔

           التمش نے واصف کو بتایا تھا 2009 میں کہ ہماری چھوٹی چھت پر ایک عورت بیٹھی تھی کرسی پر برقع میں، جیسے ہی میں نے پکیر باہر نکالا چھت پر جانے کے لیے تو وہ عورت بیٹھے بیٹھے چھلانگ لگا کر نیچے زمین پر کود گئی، دس فٹ اونچی چھت سے۔ التمش نے نیچے جھانک کر دیکھا تو نیچے کچھ نہیں تھا۔

اس کے علاوہ چھوٹی دادی کے گھر اپنے آپ پکی پکائی روٹی پڑی ملتی ہے تو کبھی مرغی کی کٹی ہوئی گردنیں پروں سمیت پڑی ہوئی ملتی ہیں۔ کبھی کبھی بالوں کا گچھا بھی پڑا ملتا ہے۔ یه سب کالا جادو هے، (اکثر یہ بالوں کا گچھا فرج کے اندر بھی پڑا ملتا ہے)۔ هم نے کئ عالم دین سے پتا کروایا تو سب نے یہی کها که یه گھر چھوڑ دو، ورنه سب مارے جاؤ گے، جس گھر میں پنجوں کے نشانات پائے گئے سمجھو وه تو ختم هے۔ کچھ لوگ گھر خالی کروانا چاہتے ہیں۔ زیادہ تر لوگوں نے ہمیں یہی بتایا کہ گھر چھوڑ دو۔ وه لوگ گھر خالی کرانا چاهتے هیں اور آپ کے هی رشته دار هیں۔ یہ گھر میں سے هی کالا جادو هو رها هے اور اگر کہیں اور سے بھی ہو رہا ہے تو وہ ہمیں نہیں پتا۔ یہ بات بھی کسی عامل نے ہی بتائی تھی 2012ء میں کہ دو عورتیں هیں وہ یہ کررہی ہیں۔ هم 1997 سے مختلف عالم دینوں سے رجوع کرچکے هیں۔ بہت سوں نے آیته کریمه بھی کرایا، همیں پڑھنے کو بھی دیا گیا لیکن کچھ فرق نه پڑا، حالات جوں کے توں هی هیں ابھی تک۔ یہ بھی سننے میں آیا تھا کہ زاہدہ ملتان بھی جاتی ہیں۔ کچھ تعویزات وہاں سے ہوتے ہیں۔

2002ء میں عدنان بھائی کی شادی پر دیکھا کہ فیضان کی قمیض پر کوئی کارٹون بنا ہوا ہے۔ کسی نے پینسل سے بنایا ہے۔ جب قمیض خریدی تھی تو اس پر اس وقت کچھ نہیں تھا۔ تو عظمی چچی نے پانی سے دھو لیا تو صاف بھی ہوگیا۔ ایک دفعہ زاہد چچا اپنی بیگم عظمی چچی کو لے کر ہسپتال گئے تو ڈاکٹر نے شکل دیکھ کر ہی بتا دیا کہ آپ کو کوئی بیماری نہیں ہے آپ پر کالا جادو کیا ہے کسی نے۔ اس ڈاکٹر نے بتایا کہ وہ خود کالا جادوگر ہے۔ یعنی پڑھا لکھا ڈاکٹر ایم بی بی ایس ہونے کے باوجود کالا جادوگر، کالا جادو جانتا ہے۔ پھر زاہد چچا نے بیس ہزار دے کر جان چھڑائی۔کالا جادو سیکھنا اب وقت کی ضرورت بن گیا ہے بھائی یہ ہر گھر مین سب کو آنا چاہیے۔

پیچھے والوں کے کوئی پیر صاحب تھے سنگھ پورے لاہور کے رہائشی، جاننے والے، انکو ان لوگوں نے یہاں گھر بلایا تھا تو انہوں نے بھی یہی کہا تھا کہ جو کچھ ہورہا ہے وہ اس کمرے سے ہورہا ہے۔ وہ ٹھہرے تھے پیچھے والوں کے ڈرائینگ روم میں اور انہوں نے زاہدہ کے کمرے کی طرف اشارہ کرکے پتایا تھا۔ یہ بات 2009 یا 2010 کی ہوگی۔ 2010ء میں ہی یہ بات بھی پتا لگی تھی کہ یہاں لاہور جاوید عرفان کا ایک دوست آیا تھا۔ وہ شاہد چچا کو بتا کر گیا تھا کہ جاوید عرفان وغیرہ کا ایک بازار ہے کراچی کیماڑی میں، وہاں جادو ٹونے کی پیالے، مٹکیاں، برتن، تعویزات وغیرہ سب تیار ہوتا ہے اور بکتا ہے۔ یہ ان کا ذاتی بنایا ہوا اپنا بازار ہے۔

یہ 2012ء کے رمضان کا واقعہ ہےکہ ہمیں یہ بات پتا لگی تھی کہ کالے جادو کا توڑ کالے ہی جادو سے ہوتا ہے۔ واصف کے کسی جاننے والے نے یہ بات اس کو ایک ہفتہ پہلے بتائی تھی جب ہم لوگوں نے کسی عامل سے توڑ کروایا تھا یعنی یہ بات ہمیں توڑ سے پہلے ہی پتا چل چکی تھی کہ اگر کالے جادو کا توڑ کالے جادو سے ہی کرو تو ان کی چیزیں چھن جاتی ہیں جن سے یہ لوگ کام لیتے ہیں۔ اس طرح انکو تکلیف ہوتی ہے۔ تو یہ لوگ پھر اس گھر کے دروازے کے آگے دوڑیں لگاتے ہیں یعنی چکر، جس گھر پر عملیات کرتے ہیں۔ تو جب ہم لوگوں نے کسی عامل کو بلا کر یہ توڑ کروایا تو ایک ہفتہ بعد دیکھا وہ بھی حاجی چچا نے کہ کوئی عورت ہے جو دوڑیں لگا رہی ہے رات ڈیڑھ بجے۔ تو انہوں نے کھڑکی کھول کر دیکھا تو زاہدہ دوڑیں لگا رہی تھیں۔ یہ رمضان کے دنوں کا واقعہ تھا کیونکہ سب لوگ سحری کے لیے رات ڈیڑھ بجے جاگتے تھے۔ یہ شاید اگست کا مہینہ تھا۔

پھر ساتھ ہی جب یہی رمضان ختم ہوا اور عید آئی تو سرفراز چچا عید ملنے ادریس کے گھر گئے تو ادریس ان کو کہتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے جیسے کوئی گزر گیا ہو۔ تو سرفراز چچا نے پوچھا "کیا مطلب؟"، تو انہوں نے پھر یہی لفظ بولے ایسا لگتا ہے جیسے کوئی گزر گیا ہو۔ (اب یہ خیال آتا ہے کہ انہوں نے ہی یہ لفظ کیوں بولے)۔ ادریس زاہدہ کا شوہر ہے۔ یہ بھی بیوی کے ساتھ مل کر جادو ٹونہ کرتا ہے۔

پھر 2012 میں ہی یہ واقعہ ہوا تھا کہ واصف ایک مولوی صاحب کو لایا کہیں سے۔ ان کا نام جمیل طارق یا شاید طارق جمیل تھا۔ انکو بھی جنات پر کنٹرول حاصل تھا۔ ان کے اپنے پاس بھی ایک مسلمان جن تھا۔ انہوں نے تسبیح ہلا کر اپنا عمل پڑھا اور اپنے جن سے پوچھا، تو اس نے ان کو بتا دیا کہ ایک یہاں ایسے جن صاحب بھی موجود ہیں۔۔۔۔ اس نے مولوی صاحب کو مشورہ دیا کہ سورۃ جن پڑھوا دی جائے۔ تو مولوی صاحب نے ہمیں سورۃ جن سات دن تک پڑھنے کو دی۔ ہم نے پڑھی تو اس کے جواب میں یہ جن صاحب نکل کر سعیدہ چچی کے گھر بھاگ گئے۔ سعیدہ چچی اور ان کی بہو عنیقہ پر زبردست اٹیک ہوا جن کا۔ سعیددہ چچی ہسپتال داخل ہوگئیں انکو گردوں کی تکلیف ہوگئی اور عنیقہ کو تیز بخار چڑھ گیا۔

پھر اس کے ایک سال بعد مئی 2013 میں جن صاحب نے ہمارے اوپر چڑھائی کی تو ہم نے پھر فیصلہ کیا کہ سورۃ جن پڑھی جائے تو امی ڈر گئیں۔ امی کہتی ہیں "نہیں کاشف رہنے دو ہمیں بہت ڈر لگ رہا۔ نہیں پورا قرآن پڑھو سورۃ جن نہ پڑھو ہمیں بہت ڈر لگ رہا۔ رہنے دو نہ پڑھو کچھ ہو ہی نہ جائے۔۔۔" بس یہی ہم نے غلطی کی۔ ہمیں پڑھ دینی چاہیے تھی۔

پھر ایک دفعہ 2014 میں یہ ہوا کہ حاجی چچا کے ابا جی اپنے گھر میں پودوں کا کام کررہے تھے، تو انکی آنکھوں کے سامنے دو عورتیں گھر کا سڑک کا لوہے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوگئیں۔ ایک نے سبز رنگ کے شلوار قمیض پہنی ہوئی تھی اور دوسری نے سفید رنگ کی۔ وہ دونوں آپس میں باتیں کرتے ہوئے داخل ہوئی اور باقاعدہ انہوں نے سڑک کا دروازہ کھولا اور سیدھی اندر باورچی خانے میں چلی گئی۔ حاجی چچا کے ابا جی سمجھے کہ کوئی ہونگی عورتیں بلایا ہوگا انکو۔ تو وہ اپنی دھن میں کام کرتے کرتے اندر باورچی خانے میں گئے تو انہوں نے رشید چچا کے بچوں یعنی اپنے پوتیوں سے نمرہ اور اقراء سے پوچھا کون تھا کون آیا تھا بلایا تھا کسی کو۔ ہمارے سامنے دو عورتیں باتیں کرتے ہوئے گھر کے اندر داخل ہوئیں ہیں ایسے۔ تو بچے حیران رہ گئے یہ کیا کہہ رہے ہیں۔ یہاں تو کوئی عورتیں داخل ہی نہیں ہوئیں۔ آپ نے کس کو دیکھ لیا۔۔۔۔۔ تو حاجی چچا کے اباجی پریشان ہوگئے۔

یہ بھی 2014  کی بات ہوگی، زاہدہ چچی نے عظمی چچی کو دانے دیئے کسی چیز کے پھونک مار کر دم کرکے۔ جس کے بارے میں بعد میں معلوم ہوا کہ وہ کچے چاول تھے، کسی کاغذ میں لپیٹ کے دیے تھے اور کہا کہ یہ دانے اپنے شوہر زاہد کے پرس میں ڈال دینا، ان کا پرس نوٹوں سے بھرا رہے گا۔ انہوں نے پہلے ان سے پوچھا کہ ڈال دوں؟ تو انہوں نے کہہ دیا ہاں ڈال دو، تو انہوں نے ڈال دیے۔ لو جناب!!! تھوڑے ہی دنوں میں ڈاکہ پڑ گیا، جو تھا وہ بھی گیا۔ ڈاکہ بالکل گھر کے گیٹ پہ ہی پڑا۔ یہ وہی ڈاکہ تھا جب چھوٹی دادی بھی حیات تھیں۔ انکی بھی سونے کی چوڑیاں اتری تھیں۔

 یہ لوگ سونے کی چوڑیاں اور بالیاں پہنے گھوم رہی تھیں، لاہور میں دھرمپورہ کے علاقے میں۔ زاہدہ چچی کے پاس تو ایسی ٹیکنالوجی ہے کہ امریکہ کے پاس نہیں ہے۔ یہ ذہنی طور پہ ہر کسی کو بآسانی ٹریپ کرلیتی ہیں اپنی جادوئی طاقت سے۔ عظمی چچی نے کہا ہماری امی کو کہ ہم تو ان پر اندھا اعتماد کرتے تھے۔ بھئی تم دوسروں کے شوہروں کے پرس کیوں بھرتی ہو نوٹوں سے۔ اپنے شوہر ادریس صاحب کے پرس بھرو ناں نوٹوں سے، کیوں نہیں بھر دیتی۔ ادریس کا بھرو ناں پرس نوٹوں سے۔۔۔

انہی دنوں عظمی چچی کو در و دیوار اور چھتوں پر کمرے کے اندر ہی بڑے بڑے مکڑے بیٹھے ہوئے بھی دیکھائی دیتے تھے۔ سچ مچ میں نہیں تصورات میں۔

           2003ء میں دادی کے انتقال کے دن عنیقہ اور عشنا باتیں کررہی تھیں۔ یہ دونوں اس وقت بچی تھیں، عشنا کہتی ہے عنیقہ سے کہ ہماری زاہدہ خالہ کے پاس ایک جن ہے وہ سرکٹا ہے۔ اس کا سر نہیں ہے۔ تو وہاں سے سعیدہ چچی گزر رہی تھیں۔ انہوں نے سن لیا اور سب عورتوں کے سامنے پوچھ بھی لیا کہ بچے ایسے کہہ رہے ہیں، تو انہوں نے مان تک لیا اور کہہ دیا کہ ہاں ہے ہمارے پاس سرکٹا، ایک طرف کونے میں بیٹھا رہتا ہے کچھ کہتا تھوڑا ہی ہے۔ تو سعیدہ چچی نے کہا ہیں۔۔۔ بھی ہمارا تو انتقال ہی ہوجائے آپ کیسے رہ لیتی ہو اس کے پاس۔ ہم تو کبھی بھی نہ جائیں ایسے گھر میں۔ 2003 میں بھی یہ بات مشہور ہوئی تھی پیچھے والوں کے ہاں کہ وہاں سرکٹا پھرتا ہے۔

ہمارے گیٹ پر 23 فروری اور ایک ہفتے بعد یکم مارچ 2016 منگل کی رات کو کوئی بکرے کی سری پھینک گیا۔ یہ تمام واقعات مجموعی طور پر منگل بدھ اور ہفتہ اتوار کو ہوئے۔ بلا ہفتہ کی رات پیدا ہوئی، انڈے ہفتے کی رات گرے، امی کے سامنے لیموں اتوار کی دوپہر گرا، بکرے کی سری منگل کی رات پھینکی گئی، ہماری دادی کا انتقال اتور کے دن ہوا، دادا کا منگل کے دن ہوا، بڑے دادا اور بڑی دادی کا بھی ہفتہ اور اتوار کے دن تھے۔ ہماری دادی کہا کرتی تھیں کہ ایسا لگتا ہے جیسے ہمیں کوئی گلا دبا کے مار ڈالے گا۔ یہ بات 2003 تک کی تھی۔ جبکہ 1990 میں عدنان بھائی جب یونیورسٹی جاتے تھے تو یہی بات کہتے تھے کہ لگتا ہے جیسے کوئی گلا دبا رہا ہو۔

تصاویر


پنجوں کے نشانات کی تصاویر

پکے فرش پر پڑے نشانات



نوٹ: یہ آرٹیکل سچ مچ میں میرے اپنے ہی ذاتی گھر سے تعلق رکھتا ہے اور اس میں جو واقعات لکھے گئے ہیں وہ سب 100 فیصد درست ہیں۔ہمارا گھر لاہور میں میاں میر روڈ اپرمال اسکیم میں واقع ہے۔

مالڪ: کاشف فاروق لاہور سے۔






No comments:

Post a Comment