Δ
برمودا ٹرائی اینگل اور
ڈریگن ٹرائی اینگل
برمودا ٹرائی اینگل:۔
برمودا تکون کا علاقہ کل کی طرح آج بھی پُراسرار ہے۔ اس کے بارے میں جو دیو مالائی انداز کی باتیں کہی جاتی ہیں وہ اگرچہ ثابت نہیں ہو سکی ہیں مگر اس کے باوجود سائنس دان آج بھی سمجھنے سے قاصر ہیں کہ آخر اس علاقے میں بہت سے فضائی اور بحری جہاز کیوں غائب ہوئے؟۔جنوب مشرقی امریکہ سے متصل سمندری علاقے میں کئی طیارے اور بحری جہاز عملے اور مسافروں کے ساتھ اس طرح غائب ہو چکے ہیں کہ ان کا نام و نشان تک نہیں ملا اور اب بھی اس معاملے پر پُراسراریت کے پردے پڑے ہوئے ہیں۔ اس علاقے کو برمودا کی تکون بھی کہا جاتاہے۔ دنیا بھر کے اخبارات اور جرائد میں برمودا کی تکون کے بارے میں اتنا کچھ لکھا گیا ہے کہ شاید کسی اور علاقے کی پُراسراریت کے بارے میں اتنا نہیں لکھا گیا۔ جو لوگ ضرورت سے زیادہ ضعیف الاعتقاد ہیں ان کا کہنا ہے کہ اس علاقے پر بد روحوں کا قبضہ ہے اور وہ اس بات کو پسند نہیں کرتیں کہ وہاں سے کوئی بھی چیز یا کوئی ذی روح گزرے۔ اسی لئے وہ ناراض ہو کر طیاروں اور بحری جہازوں کو مسافروں سمیت کسی ایسی دنیا میں لے جاتی ہیں جہاں سے ان کی واپسی ممکن نہیں ہوتی۔ بد روحوں کے تصور کے برعکس بہت سوں کا خیال ہے کہ اس خطے میں سمندر کے اندر کوئی مقناطیسی میدان ہے جو اس طرف سے گزرنے والی ہر چیز کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔ تاہم یہ بس محض قیاس آرائیاں ہیں۔
29 جنوری 1948ء کا دن
برطانوی مسافر بردار طیارے ''اسٹار ٹائیگر‘‘ کیلئے تباہی لے کر آیا۔ رات ساڑھے دس
بجے اس طیارے نے اڑان بھری اور برمودا سے 400 میل دور اس نے یہ پیغام دیا کہ سب
کچھ ٹھیک ہے اور لینڈنگ مقررہ وقت پر ہو گی۔ اگر یہ پیغام نہ دیا گیا ہوتا تو ضرور
حیرت ہوتی۔ جہاز میں سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا اس میں 26 مسافر سوار تھے۔ اس کی منزل
کنگسٹن (جمیکا) تھی۔چار انجنوں والے اس جہاز کی کارکردگی معیاری رہی تھی۔ مگر جہاز
سے ملنے والا وہ پیغام آخری تھا۔ انتہائی پراسرار حالات میں جہاز ایسا غائب ہوا
کہ اس کا نام و نشان بھی نہ ملا۔ سمندر کی سطح پر ایندھن کے آثار تلاش کرنے کی
کوششیں بھی بے سود ثابت ہوئیں۔ اس واقعے نے شہری ہوا بازی کی دنیا میں کھلبلی مچا
دی۔ بہت کوشش کرنے پر بھی یہ معمہ حل نہ ہوا کہ آخر اس جہاز کے ساتھ کیا واقعہ پیش
آیا تھا۔
جنوری 1949ء کو پھر ایسا ہی ایک واقعہ پیش آیا۔ طیارہ
کے کپتان جے سی میلفین نے صبح پونے آٹھ بجے ریڈیو پر پیغام دیا کہ ''موسم اچھا ہے
اور کہیں کوئی گڑ بڑ نہیں۔ لینڈنگ نارمل ہوگی‘‘۔ پرواز بر مودا سے شروع ہوئی تھی
اور جمیکا میں اس کی منزل کنگسٹن تھی۔ یہ علاقہ برمودا کی تکون سے بہت قریب ہے۔
اور اسی لئے ہوا بازی کے حوالے سے حساس علاقوں میں شمار کیا جاتا ہے۔
جے سی میکفین نے جو پیغام دیا وہ کسی بھی خطرے کی
نشاندہی نہیں کرتا تھا مگر یہ اس کا آخری باضابطہ پیغام تھا۔ اس کے بعد ریڈیو سیٹ
پر خاموشی چھا گئی۔ یوں اچانک کسی طیارے کے ریڈیو سیٹ کا خاموش ہو جانا سب کیلئے حیرت
اور تشویش کا باعث تھا۔ اچھی خاصی کوششیں کرنے پر بھی جہاز کا کوئی سراغ نہ ملا
اور پھر ایک مشکل یہ بھی تھی کہ جہاز ریڈار پر بھی نہیں تھا۔ فضا میں ہوتا تو ریڈار
پر بھی ہوتا۔ کسی کی سمجھ میں نہیں آیا کہ آخر جہاز کے ساتھ ایسا کیا ہوا کہ ایمرجنسی
کا کوئی پیغام بھیجنے کی بھی مہلت نہ مل سکی۔ اس مرتبہ بھی جہاز ملا نہ اس پر سوار
کسی بھی شخص کے بارے میں کچھ معلوم ہو سکا۔ یہ جہاز کسی بھی اعتبار سے ایسا نہیں
تھا کہ کسی تکنیکی بنیاد پر حادثے کے امکان کے بارے میں سوچا جاتا۔ انجن میں کہیں
کوئی خرابی نہیں تھی۔ روانگی کے وقت ریڈیو سمیت تمام آلات بالکل درست کام کر رہے
تھے۔
ان دونوں واقعات نے برمودا کے حوالے سے طرح طرح کی کہانیوں
کو نئی زندگی عطا کی۔ نئی زندگی اس لئے کہ چار سال قبل بھی امریکہ کے پانچ طیارے ایک
ساتھ غائب ہوئے تھے اور انہیں تلاش کرنے کی کوشش بے سود رہی تھی۔ 5 دسمبر، 1945ء
کا دن امریکی فوج کیلئے آج بھی ایک سوالیہ نشان کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس دور میں بھی
ٹیکنالوجی کی ترقی کے لحاظ سے امریکہ باقی دنیا سے بہت آگے تھا۔ اس دن فورٹ لاڈر
ڈیل، فلوریڈا میں واقع امریکی بحری اڈے سے پانچ طیاروں نے معمول کی تربیتی پروازیں
شروع کیں اور پھر پروازیں مکمل نہ ہو سکیں۔ ان طیاروں کا روٹ ایسا لمبا چوڑا نہیں
تھا کہ کسی خرابی کے بارے میں سوچا جاتا۔ہر طیارے کو 250میل کے علاقے میں اپنی
پرواز مکمل کرنی تھی۔ تمام پروازیں تکونی تھیں۔ طیاروں کو اڑانے والے تمام افراد
خاصے تجربہ کار تھے اس لئے ان کی مہارت پر شک کرنے کی تو کوئی گنجائش سرے سے تھی ہی
نہیں ان طیاروں میں اس دور کے تمام جدید ترین آلات نصب تھے۔ تکنیکی اعتبار سے
تمام جہاز غیر معمولی استعداد کے حامل تھے۔ ایک طیارے میں دو ہوا باز سوار تھے
جبکہ دیگر طیاروں میں تین، تین افراد سوار تھے۔ پہلے طیارے نے دن کے دو بج کر دو
منٹ پر زمین کو الوداع کہا اور اس کے چند ہی لمحوں کے بعد پانچوں طیارے فضا میں
تھے۔ ان کی اوسط رفتار 200 میل فی گھنٹہ تھی۔ عین واپسی کے لمحات میں ایک طیارے کے
فلائٹ کمانڈر کا پیغام ملا کہ ''کوئی گڑ بڑ ہے، ہمیں زمین دکھائی نہیں دے رہی، یہ
بھی معلوم نہیں کہ ہم کہاں ہیں؟ کمال یہ ہوا کہ پانچوں طیاروں کے نیوی گیٹرز کو بیک
وقت سمت کھو دینے کا احساس ہوا۔ یہ اس قدر حیرت انگیز بات تھی کہ بعد میں ماہرین
اس پر غور کرتے رہ گئے۔
زمین پر فلائٹ کنٹرول ٹاور کے عملے کیلئے یہ سب بہت پریشان
کن تھا۔ فضا میں کوئی ایک طیارہ گم نہیں ہوا تھا بلکہ پانچ طیارے تھے۔ جب پانچوں طیارے
مقررہ وقت پر واپس نہیں آئے تو ان کی تلاش میں ایک فلائنگ بوٹ کو روانہ کیا گیا
مگر وہ بھی لاپتہ ہو گئی۔ کوسٹ گارڈز کے جہازوں نے پوری ساحلی پٹی کو رات بھر
کھنگا لا مگر کچھ حاصل نہ ہوا۔ مجموعی طور پر 300جہازوں اور طیاروں نے بدنصیب طیاروں
کو تلاش کرنے کی کوشش کی مگر تمام کوششیں رائیگاں گئیں۔
دوسری عالمی جنگ میں جرمنی نے ہٹلر کے حکم پہ 5 ہوائی
جنگی جہاز براہ راست امریکہ پہ بمباری کرنے کے لیے بھیجے تھے وہ وہاں پہنچ ہی نہیں
سکے۔ راستے میں ہی کہیں غائب ہوگئے۔
ڈریگن ٹرائی اینگل:۔
دنیا کے زیادہ تر لوگ اب تک صرف برمودا ٹرائی اینگل کو
ہی سب سے خطرناک اور پراسرار علاقہ مانتے ہیں، اس ٹرائی اینگل میں ہزاروں کشتیاں،
انسان یہاں تک کہ ہوائی جہاز تک پراسرار طور پر غائب ہوچکے ہیں۔ جن کا آج تک کوئی
سراغ نہیں مل سکا۔ لیکن
وہ یہ نہیں جانتے کہ کرہ عرض پر اس سے بھی زیادہ عجیب، خطرناک اور پراسرار جگہ
موجود ہے، جسے ڈریگن ٹرائی اینگل کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ
ٹرائی اینگل ہزاروں ہوائی جہاز اور بحری بیڑے نگل چکا ہے۔ یہ جاپان اور
فلپائن کے درمیان پیسیفک اوشئین میں موجود ہے، جس کا زیادہ تر حصہ فلپائن کی جانب
آتا ہے۔ اس
ٹرائی اینگل کے قریب سے گزرنے والے جہازوں سے دیکھا گیا ہے کہ اس ٹرائی اینگل کے
قریب قطب نما کام نہیں کرتے، جبکہ اس میں سے کئی مختلف اقسام کی انجان مشینوں کو
نکلتے دیکھا گیا ہے، جنہیں بعض لوگ خلائی مخلوق کی اڑن طشتریوں سے بھی منسوب کرتے
ہیں۔ سمندر
کے اس حصے کی پیمائش آج تک نہیں کی جاسکی، اس لئے کہا نہیں جا سکتا کہ یہ کتنا
گہرا ہے۔
جنگ عظیم دوم کے ریکارڈز کے مطابق 1500 بمبار جہاز اور
ہزاروں ملٹری اور سویلین جہاز اس مثلث میں غائب ہو چکے ہیں۔ یہاں گم ہونے والے
جہازوں کی تعداد برمودا ٹرائی اینگل سے بھی زیادہ ہے۔
یہاں بنا انسانوں کے بحری جہاز دیکھے گئے ہیں،
جو وہاں منڈلاتے رہتے ہیں۔ انہیں گھوسٹ شپ کا نام دیا گیا ہے۔ اس
پراسرار مثلث کے بارے میں جاننے کیلئے جانے والی ریسرچ ٹیمیں بھی آج تک واپس نہیں
آ سکیں۔ وہ تک لاپتہ ہوگئیں۔ یہ
علاقہ جاپان کے ساحلوں سے دیکھا جاسکتا ہے، لوگوں نے یہاں اڑن طشتریوں جیسی ہوائی
گاڑیوں کو دیکھا ہے جن کی روشنی سمندر پر پڑ رہی ہوتی ہے۔ ان
بڑھتے پراسرار واقعات کو دیکھتے ہوئے جاپان کے ایک ادارے کو ان کی جانچ کا کام
سونپا گیا۔ یہ ادارہ اڑن طشتریوں کو جانچنے اور ان کے شواہد اکٹھے کرنے کا کام
کرتا ہے۔ جاپان
کے اس ادارے نے اس علاقے کی 200 سے زائد تصاویر لیں جن میں کچھ عجیب اڑنے والی چیزوں
کو واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ ان
چیزوں میں کتنی حقیقت ہے؟ اس بات کو جواب فی الحال کسی کے پاس نہیں۔
~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~
برمودا اور ڈریگن مثلث میں فرق:۔
شیطانی مثلث جسے اژدہا مثلث (ڈریگن ٹرائی اینگل) بھی
کہتے ہیں دراصل برمودہ ٹرائی اینگل کی طرح کا ایک پراسرار مقام ہے جو بحرالکاہل میں
جاپان اور فلپائن کے نزدیک واقع ہے۔ یہ جاپان کے ساحلی شہر یوکوہاما ، ماریانا
جزائر اور فلپائن کے جزیرے گوام کے درمیان واقع ہے۔ اس سمندر کو جاپانی لوگ
مانواومی مانو اومی کہتے ہیں جس کے معنی شیطان کا سمندر ہے۔ جاپانی حکومت نے سرکاری
اعلان کے ذریعے لوگوں کو اس علاقے سے دور رہنے کا حکم جاری کر رکھا ہے۔ لیکن جاپان
سے باہر کی دنیا اسکے بارے میں کم ہی جانتی ہے۔ حلانکہ برمودا تکون کی طرح یہاں بھی
جہازوں اور آبدوزوں اور طیاروں کے غائب ہونے کے واقعات بڑی تعداد میں ہوتے رہتے ہیں۔
بلکہ محققین کا خیال ہے یہاں حادثات کی تعداد برمودا تکون سے زیادہ ہے۔ یہاں بھی
اغواء ہونے والوں کی اکثریت ماہرین، کپتانوں اور ہوا بازوں کی رہی ہے۔ بلکہ ایک
بات جو یہاں زیادہ خطرناک نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ یہاں غائب ہونے والے جہاز اور
آبدوزوں میں ایسے جہاز بھی شامل ہیں جن میں خطرناک ایٹمی مواد بھرا ہوا تھا۔
شیطانی سمندر کا محلِ وقوع:
یہ علاقہ بحر الکاہل
( pacific ocean ) میں جاپان اور فلپائن کے
علاقے میں ہے۔ یہ تکون جاپان کے ساحلی شہر"یوکو ہاما"(yokohama) سے فلپائن کے جزیرے"گوام"
(guam) تک بنتی ہے۔ ماریا ناجزائر پر
دوسری جنگِ عظیم میں امریکہ نے قبضہ کرلیا تھا۔
برمودا
تکون اور شیطانی سمندر پر تحقیق کرنے والوں میں ایک نام چارلس برلٹز کا ہے۔
وہ اپنی کتاب "دی ڈریگن ٹرائینگل" میں لکھتے ہیں:
سن 1952ء
تا 1954ء جاپان نے اپنے پانچ بڑے فوجی جہاز اس علاقے میں
کھوئے ہیں۔ افراد کی تعداد 700 سے اوپر ہے۔ اس معمہ کا راز جاننے کے لئے جاپانی
حکومت نے ایک جہاز پر سو (100) سے زائد سائنسدانوں کو سوار کیا۔ لیکن۔۔۔ شیطانی
سمندر کا معمہ حل کرنے والے خود معمہ بن گئے۔ اسکے بعد جاپان نے اس علاقے کو
خطرناک علاقہ قرار دیدیا"۔
دوسری جنگِ عظیم کے دوران بحری لڑائی میں جاپان کو اپنے
پانچ طیارہ بردار جہازوں سے ہاتھ دھونا پڑا۔ اسکے علاوہ 340 طیارے، دس جنگی کشتیاں،
نو اسپیڈ بوٹ اور 400 خودکش طیارے بھی اس تکون کے علاقے میں تباہ ہوئے۔ جنگ کے
دوران اس نقصان کے بارے میں آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ سب دشمن اتحادیوں کی جانب سے کیا
گیا ہوگا۔ لیکن اس بحری دستے کے بارے میں کیا تشریح کی جائیگی جو اسی علاقے میں بغیر
کسی حادثے کے غائب ہوگیا۔ حالانکہ ابھی تک وہاں نہ تو امریکی اور نہ ہی برطانوی
جہاز پہنچے تھے۔ کم
از کم ماہرین کی یہی رائے ہے ۔ کہ یہ تباہی کھلے دشمن کی جانب سے نہیں تھی۔ کیونکہ
ایک محقق کے بقول:
“It is extremely doubtful that they are sunken by enemy action because they were in home waters and there were no British or American ships in these waters during the beginning of the war”
ترجمہ: یہ بات انتہائی مشکوک ہے کہ ان جہازوں کو دشمن
نے ڈبویا ہو۔ کیونکہ یہ جہاز اپنی سمندری حدود میں تھے اور جنگ کے ابتداء میں وہاں
برطانوی یا امریکی جہاز نہیں پہنچے تھے”
تو کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس علاقے میں کوئی چھپی ہوئی
قوت بھی موجود تھی جو اس جنگ میں امریکہ اور اسکی اتحادیوں کو کامیاب دیکھنا چاہتی
تھی۔ برمودا
تکون اور ڈریگن ٹرائی اینگل میں اتنی زیادہ مماثلت جاننے کے بعد کیا کوئی یہ مان
سکتا ہے کہ یہ محض اتفاق ہے۔ ہرگز نہیں۔ مشہور چارلس کہتے ہیں۔
The
mysterious disappearances in the Bermuda and Dragon Triangles may not be
coincidental; since both are so similar; the same phenomenon might be behind
the lost ships and planes
ترجمہ:" برمودا اور شیطانی سمندر میں پراسرار طور
پر غائب ہوجانا اتفاقی نہیں ہوسکتا۔ جبکہ دونوں علاقوں میں بلکل مماثلت پائی جارہی
ہے۔ جہازوں اور طیاروں کے غائب ہونے میں دونوں جگہ ایک ہی نظریہ کار فرما ہے"۔
(دی ڈریگن ٹرائینگل۔ چارلس برلٹز)
یہاں ہونے والے چند مشہور حادثات کے بارے میں
جانتے چلیں تاکہ غائب ہونے والوں کی تفصیل معلوم ہوجائے:۔
1۔ جاپانی پیٹرول برادر جہاز" کایومارو 5"
۔ یہ ایک بڑا پیٹرول بردار جہاز تھا۔ جس کا عملہ اکتیس افراد پر مشتمل تھا، جبکہ
اس پر پانچ سو ٹن پیٹرول لدا ہوا تھا۔ ان میں 9 سائنسدان بھی تھے۔ اس جہاز کا مرکز
سے آخری رابطہ 24 ستمبر 1952 کو ہوا تھا۔ اسلے بعد اسکا کچھ پتہ نہ چل سکا کہاں گیا۔
2۔ جاپانی مال برادر جہاز" کورو شیومارو 2"۔
یہ بھی ایک مال بردارجہاز تھا جس پر 1525 ٹن مال لدا ہوا تھا اسکو بھی اسکے عملے
سمیت سمندر نگل گیا اور کوئی سراغ نہیں مل سکا۔ اسکا آخری رابطہ اپریل1949ء کو ہوا
تھا۔
3۔ فرانسیسی جہاز"جیرانیوم"۔ اس
جہاز نے 24 نومبر 1974 کو پیغام بھیجا کہ موسم خوشگوار ہے۔ اسکے بعد یہ جہاز اپنے
29 افراد پر مشتمل عملے کے ساتھ ہمیشہ کے لئے کہیں " گمنام خدمت" پر چلا
گیا۔
4۔ مال بردار جہاز "بانا لونا"۔ یہ
لائیبیریا کا جہاز تھا۔ اس پر 13616 ٹن وزن تھا اور عملے کی تعداد 35 تھی۔ نومبر
1971ء میں شیطانی سمندر کی بھینٹ چڑھ گیا۔
5۔ مال بردار جہاز"ماسجوسار"۔ یہ
جہاز بھی لائیبریریا کا تھا۔ عینی شاہدین کے مطابق یہ جہاز شیطانی سمندر میں تھا
کہ اچانک آگ بھڑک اٹھی۔ لیکن یہ آگ جہاز کےاندر سے نہیں بلکہ پانی سے جہاز کی طرف
بڑھی تھی۔ بہت سے لوگوں نے اسی وقت اس کی تصویریں نکال لیں جس میں صاف نظر آرہا ہے
کہ جہاز کے چاروں طرف پانی کی لہروں میں آگ ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس جہاز میں
کوئی قابل اشتعال مادہ نہیں تھا۔ اس سے بھی حیرت کی بات یہ ہے کہ جہاز کو گھیرنے
والی آگ مثلث کی شکل میں تھی۔ اس میں 124 افراد سوات تھے۔ یہ واقعہ مارچ 1987ء میں
پیش آیا۔
6۔ مال بردار جہاز "صوفیاباباس"۔
یہ جہاز ٹوکیو(جاپان) کی بندرگاہ سے روانہ ہوا اور تھورا چلنے کے بعد دو ٹکڑوں میں
تقسیم ہوگیا۔ لیکن غائب نہیں ہوا۔ سمندروں کے کے سینے چیرنے والی اور مریخ پر کمندیں
ڈالنے والی ٹیکنالوجی اسکا سبب جاننے سے قاصر رہی۔ سبب نا معلوم؟ تفتیش کے دروازے
بند؟ غور کیجئے۔
7۔ یونانی جہاز"اجیوس جیور جیس"۔ یہ
بڑا تجارتی جہاز تھا۔ جو 129 افراد پر مشتمل عملے کے ساتھ اغواء کرلیا گیا۔ اس پر
16565 ٹن وزن لدا ہوا تھا۔ نہ جہاز کا پتہ چلا نہ افراد کا اور نہ ہی اس لدے مال
کا اثر پانی پر نظر آیا۔
ایٹمی آبدوزوں کا اغواء۔۔۔ قزاق یا
سائنسدان:۔
جہاز کے غئاب ہوجانے کے بارے میں تو یہ ابہام کیا
جاسکتا ہے کہ جہاز ڈوب گیا۔ لیکن جدید آبدوزیں جن میں وائرلیس نظام موجود ہو اگر
وہ اس علاقے میں غائب کردی جائیں تو آپ کیا کہیں گے۔ پھر آبدوزیں بھی کوئی عام نہیں
بلکہ ایٹمی آبدوزیں؟ ذرا سوچئے اور تعجب کیجئے۔ کسی سپر پاور کی ایٹمی آبدوز بغیر
کسی سبب کے غائب ہوجائے اور اسکی طرف سے کوئی خاطر خواہ پریشانی یا اضطراب دیکھنے
میں نہ آئے۔ گویا " جس نے دی تھی"
اسی نے؟ واپس لے لی۔
1۔ روسی آبدوز کٹر 1۔ یہ جدید ایٹمی آبدوز تھی۔
مارچ 1984 میں شیطانی سمندر کی خفیہ قوت کے پاس مع عملے کے چلی گئی۔ عملے کی تعداد
معلوم نہ ہوسکی۔ (شاید کوئی خاص لوگ اس میں سوار تھے)۔
2۔ روسی آبدوز ایکو 1:- پہلی آبدوز کے غائب
ہونے کے صرف پانچ مہینے بعد ستمبر 1984میں جاپان کے ساحل سے 60 میل دور یہ بھی شیطانی
سمندر میں غرق ہو گئی۔
3۔ روسی آبدوز ایکو 2:- جنوری 1986 کو یہ بھی
اسی علاقے کی نظر ہوگئی۔ یہ بھی ایک ایٹمی آبدوز تھی۔
4۔ روسی آبدوز جولف 1۔ اپریل 1968 میں یہ
آبدوز غائب ہوئی۔ اس کے عملے کی تعداد 86 تھی۔ اور اس پر 800 کلو گرام ہیڈ ایٹمی
وار ہیڈ لدے ہوئے تھے۔ افراد اور ایٹمی وار ہیڈ بغیر کسی سبب کے پانی کی گہرائیوں
میں چلے گئے۔
5۔ فرانسیسی آبدوز چارلی۔ یہ ایٹمی آبدوز تھی۔
ستمبر 1984ء میں اس علاقے میں اپنے 90 سواروں سمیٹ غائب ہوگئی۔
6۔ برطانوی آبدوز فوکسٹرول :- نومبر 1986ء میں
اپنے عملے سمیت غائب ہوگئی۔
شیطانی سمندر کے اوپر اغواء کئے جانے والے طیارے:۔
×
مارچ
1957 میں دس دن کے اندر امریکہ کے تین جنگی طیارے اپنے تمام عملے سمیت اس طرح غائب
ہوئے کہ کوئی نام و نشان نہ مل سکا۔ نہ ہی کسی حادثے یا فنی خرابی کا پیغام پائلٹ
کی جانب سے موصول ہوا۔ یہ طیارے، JD-1, KB-50 اور C-97 تھے۔ اسکے علاوہ جاپان کا
جنگی طیارہ P-2J 16 جولائی1971
کو غائب ہوا۔ یہ بھی کوئی ہنگامی پیغام نہیں دے سکا۔
×
27
اپریل
1971 کو جاپان کا ہی ایک اور جنگی طیارہ
P2V-7 غائب ہوا۔ اسکے دو مہینوں بعد جاپان کا تدریبی
طیارہ IM-1 غائب
ہوا۔
×
JA-341
مسافر بردار طیارہ بمعہ صحافیوں کی ٹیم کے
اس علاقے کے اوپر سے گذر رہا تھا۔ یہ صحافی امریکی مال مال برادر جہاز ” کیلیفورنیا
مارو” ( جو کہ پہلے یہاں غائب ہوچکا تھا) کی تحقیق کے سلسلے میں وہاں جارہے تھے۔ یہ
صحافی غائب شدہ جہاز کی تحقیق تو نہ کرسکے البتہ دنیا کو اپنی تحقیق میں ضرور لگا
گئے۔ ایسے غائب ہوئے کہ نہ طیارے کا سراغ ملا نہ صحافیوں کی ٹیم کا۔
×
19
مارچ 1957ء کو سابق فلپائنی صدر کا طیارہ
24 حکومتی اہلکاروں سمیت شیطانی سمندر کی فضاء میں غائب ہوا اور کوئی سراغ نہ مل
سکا۔
بحر الکاہل کے شیطانی سمندر
(Devil Sea) اور بحر اوقیانوس کے برمودا ٹرائی اینگل
میں کئی خصوصیات کے اعتبار سے مماثلت پائی جاتی ہے جو یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے
کہ ان دونوں میں کوئی ایسا تعلق ضرور ہے جو دنیا کی نظر سے پوشیدہ ہے اور یہ تعلق
لازماً شیطانی ہے۔ رحمانی یا انسانی نہیں (کیونکہ جیسے پہلے عرض کیا کہ یہاں بہت
سے حادثات رونما ہوچکے ہیں) مثلاً :۔
×
دنیا
میں یہی دو جگہیں ایسی ہیں جہاں قطب نما کام کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ دونوں میں متعدد
ہوائی اور بحری جہاز غائب ہوچکے ہیں۔ انتہائی تعجب خیز بات یہ ہے کہ ان دونوں
جگہوں کے درمیان ایسے جہازوں کو سفر کرتے دیکھا گیا جو سالوں پہلے غائب ہوچکے تھے۔
×
دونوں
کے اندر ایسی مقناطیسی کشش یا برقی لہریں موجود ہیں جو بڑے بڑے جہازوں کو توڑ مروڑ
کر نگل جاتی ہیں۔
×
دونوں
کے درمیان اڑن طشتریاں تک اڑتی دیکھی گئی ہیں جنہیں امریکی میڈیا والے خلائی مخلوق
کی سواری کہتے ہیں۔ امریکا کا یہودی میڈیا ان کے متعلق سامنے آنے والے حقائق
چھپاتا رہتا ہے۔ کچھ لوگوں نے اس کی جراءت کی اور ان حقائق کو منظر عام پر لائے تو
انہیں قتل کردیا گیا۔ جیسے ڈاکٹر موریس جیسوپ اور ڈاکٹر جیمس ای میکڈونلڈ کو صرف
اس وجہ سے قتل کیا گیا کہ یہ دونوں اڑن طشتریوں کو کھوجتے ہوئے اصل حقائق جان گئے
تھے۔
×
دونوں
جگہوں کو خواص و عوام قدیم زمانے سے شیطان سے منسوب کرتے ہیں اور یہاں ایسی قوتوں
کی کارستانیوں کے قائل ہیں جو انسانیت کی خیر خواہ نہیں۔ لیکن ان کے گرد اسرار کے
پردے آویزاں کر دیے گئے ہیں۔ وہ میڈیا جو بال کی کھال اور کھال کی کھال اتاردیتا
ہے وہ اس راز کو کیوں چھپا رہا ہے ؟؟؟۔
اور یہ بھی ایک حیرت انگیز بات ہے کہ یہاں کسی بھی جہاز یا طیارے کا ملبہ کبھی نہیں مل سکا اور دنیا میں سب سے گہرا سمندر بھی انہی دونوں جگہوں پہ ہے۔
مرتب:۔ کاشف فاروق۔ لاہور سے۔
۔۔۔
No comments:
Post a Comment