احمد نديم قاسمى کی غزلیں
غزل نمبر ايک
سانس لينا بهى
سزا لگتا ہے
|
|
اب تو مرنا بهى
روا لگتا ہے
|
کوه غم پر سے جو
ديکھوں تو مجھے
|
|
دشت آغوش فنا
لگتا ہے
|
سر بازار ہے
ياروں کى تلاش
|
|
جو گزرتا ہے خفا
لگتا ہے
|
مسکراتا ہے جو اس
عالم ميں
|
|
بخدا مجھ کو خدا
لگتا ہے
|
نُطق کا ساتھ نہيں ديتا ذہن
|
|
شکر کرتا ہوں گلہ
لگتا ہوں
|
اتنا مانوس ہوں
سناٹے سے
|
|
کوئى بولے تو برا
لگتا ہے
|
اس قدر تند ہے
رفتار حيات
|
|
وقت بهى رشته بپا
لگتا ہے
|
غزل نمبر دو
پهولوں سے
لہوکيسے ٹپکتا
ہوا ديکھوں
|
|
آنکهوں کو
بجھالوں کہ حقيقت کو بدل دوں
|
حق بات کہوں گا
مگر اے جرٲت اظہار
|
|
جو بات نہ کہنى
ہو وہى بات نہ کہہ دوں
|
ہر سوچ په خنجر
سا گذر جاتا ہے دل سے
|
|
حيراں ہوں کہ
سوچوں تو کس انداز ميں سوچوں
|
آنکهيں تو دکهاتى
ہيں فقط برف سے پيکر
|
|
جل جاتى ہيں
پوريں جو کسى جسم کو چهولوں
|
چہرے ہيں کہ مرمر
سے تراشى ہوئى لوحيں
|
|
بازار ميں يا شہر
خموشاں ميں کھڑا ہوں
|
سناٹے اڑا ديتے
ہيں آواز کے پرزے
|
|
ياروں کو اگر دشت
مصيبت ميں پکاروں
|
ملتى نہيں جب موت
بهى مانگے سے تو يارب
|
|
ہواذن تو ميں
اپنى صليب آپ اٹھا لوں
|
غزل نمبر تين
لب خاموش سے افشا
ہوگا
|
|
راز ہر رنگ ميں
رسوا ہوگا
|
دل کے صحرا ميں
چلى سرد ہوا
|
|
ابر گلزار په
برسا ہوگا
|
تم نہيں تھے تو
سر بام خيال
|
|
ياد کا کوئى
ستارہ ہوگا
|
کس توقع په کسى
کو ديکھيں
|
|
کوئى تم سا بھى
حسيں کيا ہوگا
|
زينت حلقهء آغوش
بنو
|
|
دور بيٹھو گے تو
چرچا ہوگا
|
ظلمت شب ميں بھى
شرماتے ہو
|
|
درد چمکے گا تو
پھر کيا ہوگا
|
جس ميں بھى فنکار
کا شاهکار هو تم
|
|
اس نے صديوں
تمہيں سوچا ہوگا
|
کس قدر کرب سے
چٹکى ہے کلى
|
|
شاخ سے گل کوئى
ٹوٹا ہوگا
|
عمر بھر روئے فقط
اس دهن ميں
|
|
رات بھيگى تو
اجاﻻ ہوگا
|
سارى دنيا ہميں
پہچانتى ہے
|
|
کوئى ہم سا بھى
نہ تنہا ہوگا
|
No comments:
Post a Comment