URDU STORIES:

اردو ادب اور کہانیوں میں خوش آمدید ۔ قصہ کہانیاں، غزلیں، نظمیں، واقعات، طنزومزاح، لاہور کی پنجابی، کچھ حقیقت کچھ افسانہ، پراسرار خواب والی ٹیکنالوجی، میری فیملی کا ذاتی شجرہ نسب سن 1790ء تا 2023ء۔، قومی پیمانہ، تباہی و زلزلے، دو سو سالہ کیلینڈر، اردو سافٹ وئیر ڈاؤنلوڈ۔

Saturday, September 17, 2022

URDU ADAB AND STORIES PAKISTAN 2005 - اردو ادب اور کہانیاں ۔ سرورق




آج کا دن








اُردُو اَدَب

یہ آرٹیکل پاکستان لاہور سے سب سے پہلے 2005ء 2009ء  پھر 2022ء میں مکمل اپ ڈیٹ کیا گیا

اُردُو زبان اور برصغیر

گزشتہ دنوں سن 2009ء پاکستان میں قومی اسمبلی میں اردو زبان کو بطور سرکاری زبان نافذ کرنے کی بازگشت سنی گئی جب مولانا محمد خان شیرانی نے آئین کے آرٹیکل 251 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 15 سال میں اردو کو سرکاری زبان کی حیثیت سے نافذ کیا جانا تھا۔ مگر یہ ذمہ داریاں پوری نہیں کی گئیں چنانچہ ارکان اسمبلی کو مختلف وزارتوں کی کارکردگی کی رپورٹس انگریزی میں دی جاتی ہیں جو آئین کی خلاف ورزی ہے۔ انھوں نے کہا آئین میں اردو کے نفاذ کی 15 سال کی مدت کا تعین کردیا گیا تھا۔ یہ آئینی تقاضا پورا ہونا چاہئے۔ 

               اردو زبان کی ابتداء اور آغاز کے بارے میں بعض حقائق پر نظر ڈالنا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ اردو زبان کی ابتداء اور آغاز کے بارے میں کئی مختلف و متضاد نظریات ملتے ہیں۔ ان نظریات میں ایک بات نمایاں ہے  کہ اردو زبان کا آغاز مسلمان فاتحین کی ہند میں آمد اور مقامی لوگوں کے میل جول اور مقامی زبان پر اثرات سے ہوا اور ایک نئی زبان معرض وجود میں آئی۔ جو بعد میں اردو کہلائی۔ کچھ ماہرین لسانیات نے اردو کی ابتداء کا سراغ قدیم آریاؤں کے زمانے میں لگانے کی کوشش کی ہے۔ تاہم بیشتر محقیقین اس بات پر متفق ہیں کہ قدیم اردو ہندوی کا آغاز جدید ہند آریائی زبانوں کے طلوع کے ساتھ 1000ء کے لگ بھگ اس زمانے میں ہوگیا تھا جب مسلمان فاتحین شمال مغربی ہند کے علاقوں میں آباد ہوئے۔ اردو ایک ایسی زبان ہے جس نے قدرتی حالات میں نشو نما پائی اور کسی سلطان یا سلطنت نے اسکی سرپرستی نہیں کی۔ یہ زبان عوامی سطح پر ہندو مسلم میل جول سے ابھری۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت کو ضرورت کی خاطر اردو کو دفتری اور عدالتوں کی زبان بنایا اور وھاں سے فارسی کو رخصت کیا۔

               انگریز جب ہندوستان میں آئے تو اس وقت یہاں صرف ہندی یعنی سنسکرت ہوا کرتی تھی۔ اس کے علاوہ مغل حکمران فارسی بولتے تھے۔ یہاں کے اس زمانے کے بزرگوں یعنی حضرت سرمد، امیر خسرو، علاؤ الدین خلجی، اورنگزیب وغیرہ فارسی بولتے تھے۔

               یہ سن 1903ء کی بات تھی، جب مولوی عبدالحق نے اردو زبان کے لیے کوششیں تیز کردیں۔ انہوں نے اردو زبان کے وہ حروف ایجاد کیئے اپنی سوچ سے جو فارسی میں نہیں بولتے جاتے۔ جیسے ٹ، ڈ، ڑ، ے، ں، وغیرہ۔ یہ حروف بولنے کے حساب سے ہندی یعنی سنسکرت میں تو بولے جاتے ہیں لیکن فارسی میں نہیں ہوتے۔ یہ اردو دراصل عربی اور فارسی کا مرکب ہے۔ جب ہم اردو میں بات کرتے ہیں کوئی لفظ بولتے ہیں جس میں ٹ، ڈ، ڑ، ں، ے کا استعمال ہوتا ہے تو یہ حروف اس زمانے میں یعنی 1903 سے پہلے پہلے سنسکرت میں ہی بولے جاتے تھے۔ یہ حروف مولوی عبدالحق نے اپنی ازخود سوچ سے ایجاد کیے۔ کیا آپ ایک عام شہری اپنی طرف سے کوئی حروف ایجاد کرسکتا ہے ؟؟؟ وہ بھی آج کے دور 21 ویں صدی میں؟؟؟


اردو زبان کی جو خوبصورتی ہے وہ عربی اور فارسی تک میں موجود نہیں ہے۔ عربی کا رسم الخط انتہائ نکما ترین ہے۔ فارسی کا رسم الخط بھی کافی غنیمت ہے۔ یہ خوبصورتی ہندی سنسکرت میں تو بالکل بھی نہیں پائی جاتی۔ آپ اردو کے فونٹس کے سٹائل تو ذرا چیک کریں انپیج اور اردو یونیکوڈ میں آپ کو اندازا ہوگا۔ اردو کی خوبصورتی نقطوں سے ہوتی ہے۔ دنیا کے تمام اسلامی ممالک کی زبانیں عربی رسم الخط ہیں۔ بوسنیا کا نہیں معلوم، لیکن ترکی، ملیشیا، انڈونیشیا روس کی آزاد تمام مسلم ریاستوں  کا رسم الخط عربی ہے اور دینا کی سب سے بڑی زبان عربی رسم الخط میں پاکستان کی اردو ہی ہے۔ ہاں البتہ بنگلہ دیش کی بنگالی زبان کا رسم الخط ہندی ہے۔ حضرت آدمؑ کے دور میں لوگ کوئی زبان نہیں بولتے تھے۔ رابطے کے لیے ٹیلی پیتھی اور مراقبہ جیسی مشقیں کرتے تھے۔ انسان نے زبانیں بہت بعد میں ایجاد کیں۔جب زبانیں ایجاد ہوگئیں تو لکھنے  کی ضرورت پیش آئی جس کے لیے انسان نے اپنی مرضی سے ازخود حروف ایجاد کیے۔


  

 

 بابائے اردو مولوی عبدالحق نےفرمایا:

"ہم نے اب تک اپنی زبان کا صحیح مقام نہیں سمجھا اور نہ اس کی وه قدر کی جو ہونی چاہئے تھی۔ حالانکہ یورپ کے مستشرقین بھی اب سمجھنے لگے ہیں کہ اسلامی تہذیب و تمدن کو سمجھنے کے لیے اردو زبان کا جاننا بھی ضروری ہے۔ سن 1938ء کے بعد جب اردو فارسی کی جانشین پائی تو اس زبان کا رواج دفتروں، عدالتوں اور مدرسوں میں ہونے لگا۔ جج فیصلے اردو میں کرتے تھے۔ یہی حال دوسرے دفتروں کا تھا۔ انجینیئرنگ اور ڈاکٹری اردو کے ذریعے سکھائی جاتی تھی۔ اب جاپان جیسے بیشتر ملکوں کی حیرت انگیز ترقی کا راز یہ ہے کہ انھوں نے اپنی تعلیم کا ذریعہ اپنی قومی زبان کو بنالیا ہے۔ ہم ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کرسکے کہ ذریعہ تعلیم کیا ہو، اردو زبان کی صلاحیتیں بے پایاں ہیں۔ یہ بین الاقوامی زبان بننے کی اہلیت رکھتی ہے"۔ آج کل پاکستان میں خاص طور پر جب اسکولوں میں نوکری یا داخلے کے لیے انٹرویو دیا جاتا ہے تو انگریزی لازمی ہوتی ہے۔ آج کل پاکستان میں اسکولوں میں بچوں کو انگریز بنایا جارہا ہے اور ہم اپنی زبان اردو کی اہمیت روزانہ کھوتے جارہے ہیں۔ جیسے لاکاس، ایل جی ایس، سٹی اسکول، بیکن ہاؤس، وغیرہ۔

پاکستان بننے کے بعد 24 مارچ 1948ء کو ڈھاکہ میں خطاب کرتے ہوئے بانی پاک قائدِاعظم نے فرمایا کہ ''میں آپ کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ پورے ملک کی صرف ایک ہی زبان ہو سکتی ہے، اور یہ اردو کے سوا اور کوئی نہیں ہو سکتی''۔ اس سے قبل 13 فروری 1941ء کو دوسری کُل پنجاب اردو کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے فرمایا کہ ''اردو ہماری قومی زبان ہے۔ ہمیں اس کو ہر قسم کے نقصان سے محفوظ رکھنے کے لیے اپنی پوری توانائی اور زورلگا دینا چاہئے''۔ لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ سن 1956ء کے دستور میں اردو کو سرکاری زبان قرار دینے کا مسئلہ التواء میں رکھ کر انگریزی کی بالادستی کو برقرار رکھا گیا۔ سن 1973ء کے دستور میں قومی و صوبائی زبانوں کا مسئلہ حل کرلیا گیا۔ لیکن اردو کے نفاذ کے لیے 15 سال کی مدت مقرر کی گئ اور یہ تاثر دیا گیا کہ اگست 1988ء میں حتمی طور پر اردو انگریزی کی جگہ سرکاری زبان بن جاۓ گی۔ آئین میں دفعہ 251 کے مطابق اردو کو زیاده سے زیاده 88ء تک تمام سرکاری دفاتر اور تعلیمی اداروں میں نافذ کیا جانا تھا۔ اب اس حتمی تاریخ کو گزرے بھی ایک طویل مدت گزر گئ ہے مگر اردو کو اس کا مقام دینے کی کوئی صورت نظر نہیں آئی۔ اردو کے الفاظ کا تخمینہ تقریباً چار لاکھ ہے۔ دنیا کی چالیس سے زیادہ یونیورسٹیوں میں پڑھائی جانے والی زبان ہے۔

آج 2022ء سن کے مطابق جو اردو زبان ہم پاکستان میں بولتے ہیں دراصل سچ مچ کی اصل ٹھیٹھ اردو ہرگز نہیں ہے۔ یہ بولنے کے حساب سے ہماری زبانوں میں بہت زیادہ بلکہ انتہائی زیادہ لکنیت پائی جاتی ہے۔ پاکستان کے تمام صوبوں کے شہری جو نسل در نسل یہیں کے ہیں جب وہ کوئی بھی بات اردو میں کرتے ہیں تو ان کی زبان میں زبردست لکنیت پائی جاتی ہے۔ سندھ کے سندھی کا اردو لہجہ سنیں، پنجاب کے پنجابی کا اردو لہجہ سنیں، تمام صوبوں کے مقامی رہائشیوں کے اردو کے لہجے سنیں، اسی طرح کراچی میں جو لوگ رہائش پذیر ہیں وہ دراصل 98٪ وہ ہیں جو ہندوستان سے مہاجرین کے روپ میں ہجرت کرکے آئے۔ ان کے لہجوں میں بھی خالص اردو کے اثرات نہیں پائے جاتے۔ سوائے ان مہاجرین کے جو ہندوستان کے صوبے اترپردیش سے ہجرت کرکے آئے۔ پورے برصغیر میں جو اصل اردو بولی جاتی ہے وہ ہندوستان کے صوبے اترپردیش میں ہی بولی جاتی ہے۔ وہاں کی اردو انتہائی ٹھیٹھ لہجے کی خالص ترین اردو ہے۔ بولنے کے لحاظ سے ایسی شاندار اردو پورے برصغیر میں کہیں نہیں ملے گی۔ آپ کہتے ہیں کہ پاکستان کی سرکاری یا قومی زبان اردو ہے۔ بات کرنے کا انداز بھی تو بہت اہم ترین معنی رکھتا ہے کہ نہیں!!!

ایک ضروری بات سمجھنے کی کہ برصغیر میں نیپال، بھوٹان، پاکستان، ہندوستان، بنگلہ دیش، سری لنکا، مالدیپ اور ماریشس جزائر شامل ہیں۔ ان میں سے صرف سری لنکا کی زبان تاملی ہے۔ جو ہندوستان کے جنوبی صوبے تامل ناڈو میں بھی بولی جاتی ہے۔ یہاں کے لوگ آج 2018ء کے مطابق ہندی نہیں جانتے۔ کیونکہ یہ ہندوستان سے علحیدگی چاہتے ہیں۔ حتی کہ بنگلہ دیش کے بنگالی تک اردو سمجھ لیتے ہیں، اسی طرح نیپال اور بھوٹان میں بھی اردو سمجھی جاتی ہے۔ اردو سب سے بڑی زبان بنی حروف کی تعداد کے اعتبار سے۔ جس میں سب سے زیادہ حروف موجود ہیں۔ سب سے کم حروف عربی، پھر فارسی اور سب سے زیادہ اردو میں ہیں جو تقریباً  41 کے قریب ہیں۔

مندرجہ ذل چارٹ میں جو لال حروف ہیں وہی اردو کے ہیں۔ یہ حروف فارسی اور عربی میں موجود نہیں ہیں۔ یہ حروف مولوی عبدالحق نے 1903ء  میں ایجاد کیے تھے۔

اردو کے حروفِ تہجی

ا آ ب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ ر ز ڑ ژ س ش ص ض ط ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن ں و ہ ۃ ھ ء ی ے۔


               ہندی زبان کے دو حصے ہیں ایک سادہ ہندی ہے اور دوسری سنسکرت ہے جو آج بھارت کی سرکاری زبان ہے۔ بھارت اور ہندوستان میں فرق ہے۔ بھارت دراصل بھرت سے نکلا ہے۔ یہ آج 2018ء کے حساب سے 5 ہزار سال پرانی بات تھی۔ جو انکی مذہبی رسم و روایات سے تعلق رکھتی ہے۔ ہندوستان سے مراد یہ لی جاتی ہے کہ یہاں ہر قسم کے لوگ رہائش پذیر ہیں، جو ہندو بھی ہیں، سکھ بھی، مسلمان بھی، عیسائی بھی پارسی بھی وغیرہ وغیرہ۔ بولنے کے اعتبار سے ہندی اور اردو دونوں ایک جیسی ہی ہیں لیکن کچھ حروف کا فرق ہے۔ البتہ لکھنے میں اردو عربی رسم الخط ہے جو فارسی کا بھی ہے۔ لیکن فارسی میں کچھ حروف کم ہوتے ہیں جیسے ٹ، ڈ، ڑ، ے، ں۔ انہی حروف کی کمی کے پیش نظر سب سے پہلے سر سید احمد نے محنت کی اس کے بعد دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ محنت مولوی عبد الحق نے کی۔ یہ حروف انہوں نے ایجاد کیئے۔

تقسیم ہند سے پہلے دیکھا جائے جب اردو 1903ء میں ایجاد ہوئی تھی تو ہندوستان کے کچھ صوبوں میں عربی رسم الخط تھا اور کچھ میں ہندی۔ صوبہ بنگال کی زبان کا رسم الخط ہندی ہے۔ ہندوستان میں مغل حکمران فارسی بولتے اور لکھتے تھے۔ ان کو اردو نہیں آتی تھی۔ البتہ سنسکرت سمجھ لیتے تھے۔ آج بھی آدھے افغانستان میں اردو بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ ٹھیک اسی طرح آدھے برما میں بھی اردو سمجھ لی جاتی ہے۔ جو آدھے افغانستان میں اردو بولی جاتی ہے وہ دراصل اردلی زبان ہے۔ ابھی بھی 2018ء کے مطابق بھی ایسا ہی ہے کہ اترپردیش کی آبادی تقریباً 20 کروڑ کے لگ بھگ ہے یعنی ایک صوبہ کی آبادی ہی پاکستان کے برابر ہے۔ آج 2020ء کے مطابق پاکستان میں کل 17 کروڑ کے قریب مسلمان ہیں کل آبادی 22 کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ یہ اترپردیش کے 20 کے 20 کروڑ ہی مسلمان ہے۔ ان میں سے صرف چند لاکھ ہی ہندو ہیں۔ دہلی مسلمانوں کا شہر ہے آج بھی۔ یہاں کی آبادی پورے پونے دو کروڑ کے قریب ہے۔ جس میں صرف چند لاکھ ہی ہندو ہیں جو کروڑ سے کم ہیں۔ یہاں کی حکومتیں مسلمانوں کے گڑھ میں بیٹھ کر حکومت کرتی ہیں۔ لکھنؤ کی آبادی تقریباً 3 کروڑ کے آس پاس ہے۔ یہاں بھی گنتی کے ہی ہندو ہیں جو چند لاکھ ہیں۔ 

اردو کے کچھ مخصوص حروف اور مولوی عبدالحقؔ


کچھ حروف ایسے ہوتے اردو میں جو ذرا معمول سے مختلف ہوتے ہیں جیسے "بالکل۔ جرأت"، وغیرہ۔ "جرأت" میں الف کے اوپر "حمزہ" آتا ہے۔ "بالکل" کو ایسے ہی لکھا جاتا ہے جیسے لکھا گیا ہے۔ اگر آپ "بالکل" کو ایسے لکھیں "بلکل" تو یہ غلط ہوجائے گا کیونکہ اس میں الف خاموش حرف ہوتا ہے۔ یہ طریقہ کار لکھنے کا مولوی عبدالحق نے ایجاد کیا۔ اسی طرح قائدِ اعظم میں دال کے نیچے زیر لگائی جاتی ہے۔ اگر اس کو ایسے لکھیں "قائدے اعظم" تو یہ غلط ہوجائے گا۔ یہ طریقہ کار مولوی عبدالحق نے ایجاد کیا کیونکہ 1903ء سے پہلے اردو ایجاد ہی نہیں ہوئی تھی۔ اردو کا ایک حرف ہے "ڑ" یہ بہت عجیب حرف ہے۔ یہ ایسا حرف ہے جس سے کوئی لفظ شروع نہیں ہوتا پوری اردو کی لغت میں۔ البتہ یہ درمیان میں استعمال ہوتا ہے جیسے لڑکا، لڑکی، پہاڑ، وغیرہ۔ اسی طرح "ے" کا حرف بھی عبدالحق نے ہی ایجاد کیا تھا اپنی سوچ سے۔ جو لوگ ٹھیٹھ اردو جانتے ہیں ان کو اس کے بارے میں زیادہ معلومات ہوتی ہیں۔

اردو میں کچھ مخصوص حروف بھی ہوتے ہیں۔ جیسے فوراً (فورن)، دعویٰ (دعوا)، فتویٰ (فتوا)، ذکوٰة (ذکات) وغیرہ۔ بریکٹ میں لکھے تمام حروف غلط ہیں۔ اسی طرح ژ بہت کم استعمال ہوتا ہے۔

اردو میں کچھ حروف ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں شرارتی حروف کہا جاتا ہے جو اپنے ساتھ صرف دائیں ہاتھ کے حروف کو ہی جوڑتے ہیں اور بائیں طرف سے وہ خود کسی کے ساتھ نہیں جڑتے۔ ان میں چھوٹا الف، الف مد آ، د، ڈ، ذ، ر، ز، ڑ اور ژ شامل ہوتے ہیں۔


ہندی کے ساتھ موازنہ ایسے کیا جاسکتا ہے کہ ہندی میں نقطے ہوتے ہیں۔ یہ زبان ہندوؤں کی ہے اور ہندوستان میں بولی اور لکھی جاتی ہے۔ یہ ہندی دو طرح کی ہوتی ہے ایک سادہ حروف میں لکھی جاتی ہے جو ہندوستان کے صوبے اترپردیش میں بولی جاتی ہے جو نقطوں کی کہلاتی ہے۔ اس میں یہ لوگ نقطہ ڈالتے ہیں۔ جب کہ باقی پورے ہندوستان میں بغیر نقطے کے لکھی اور بولی جاتی ہے اس میں بھی کچھ حروف میں نقطے ہوتے ہیں مگر یہ لوگ نہیں ڈالتے نہ ان سے بولا جاتا ہے۔ دوسری طرح کی ہندی سرکاری طور پر لکھی جاتی ہے جو کم لوگ جانتے ہیں۔ اس کو سنسکرت بولتے ہیں۔ ہندی کے کچھ حروف جن میں نقطے استعمال ہوتے ہیں: ज़, ह़, ख़, क़، फ़ اور کچھ حروف ایسے بھی ہوتے ہیں جن میں نقطہ لازمی ہی ہوتا ہے، تو وہ ان کو ڈالنا پڑتا ہے۔

اردو رسم الخط کو "اردو نستعلیق" بولتے ہیں۔ اس میں 41 حروف ہوتے ہیں۔ یہ جو لکھائی کا انداز آپ کو نظر آرہا ہے اسی کو نستعلیق بولتے ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ اشارتی حروف بھی ہوتے ہیں۔ یہ نستعلیق ایجاد بھی عبدالحق نے کی۔ اردو حروف کی جو خوبصورتی ہے وہ ہندی میں قطعی نہیں ملتی۔ حتیٰ کہ اردو کی خوبصورتی عربی خطاطی میں بھی نہیں ملتی۔ کیونکہ وہاں کی زبان ہی الگ ہے۔ اس کا رسم الخط قرآن میں موجود ہے یعنی لکھنے کا انداز۔ اردو کے اشارتی حروف میں درود شریف کے اوپر چھوٹا سا "ص ؐ " لکھا جاتا ہے۔ رضی اللہ "  ؓ "  کے لیے چھوٹا سا "ر" اور "ض" لکھا جاتا ہے۔ اسی طرح "نام" یعنی "ناؤن، "اسم" کے اوپر ایک نشان ڈالا جاتا ہے" ؔ "۔ "رحمۃ اللہ کے لیے "رح" یعنی " ؒ " لکھا جاتا ہے۔ شعر لکھنے سے پہلے "ع" یا "؏" یا "؎" ڈالا جاتا ہے۔ جب عبدالحق کو اردو زبان ایجاد کرنا پڑی تو ان کو رموزاوقاف بھی ایجاد کرنا پڑے۔ ساتھ میں محنت یہ بھی کی کہ عربی کی طرح اعراب بھی ایجاد کیئے۔ اس میں صرف یہ فرق ہوتا ہے کہ اردو اور عربی کی جزم کا فرق ہوتا ہے۔ اردو کی جزم اردو کے ہندسے آٹھ "۸"سے ملتی ہے۔ پھر مولوی عبدالحق کو باقاعدہ اردو میں گنتی بھی ایجاد کرنا پڑی۔ اردو گنتی میں 4 اور 7 میں فرق ہوتا ہے۔ عربی اور اردو کی گنتی ایک ہی ہے۔

اردو کی گنتی:

 ۱ ، ۲، ۳ ،۴، ۵، ۶، ۷، ۸، ۹، ۰ 

گنتی کو ٹھیک طرح سے دیکھنے کے لیے کمپیوٹر کھولیں۔

    

اس کے برعکس ہندی میں دیکھا جائے تو اس زبان میں درود شریف لکھنے کا کوئی اشارہ ہوتا ہی نہیں۔ نہ ہی رضی اللہ، رحمۃ اللہ، علیہ السلام  " ؑ ''  وغیرہ لکھنے کا کوئی طریقہ موجود ہی نہیں۔ جب اردو میں ایسے حروف لکھتے ہیں تو عربی میں بنے بنائے خوبصورت اشارتی حروف کا استعمال کرتے ہیں۔ حتی کہ انڈیا کے وہ لوگ جو ہندی لکھتے ہیں اگر اس میں ایسے ہی حروف لکھنے کی ضرورت پڑے تو وہ مجبوراً اردو یا عربی کے بنے بنائے اشارتی حروف کا استعمال کرتے ہیں یا ان کو کرنا پڑتا ہے۔

 1970ء سے پہلے اردو کی ہر قسم کی کتابوں میں چاہے وہ اسکول کالج کی ہو یا قصے کہانیوں کی "اعراب" لازمی ہوتے تھے۔ یعنی زیر، زبر، پیش، جزم، شد، دو زیر، دو زبر، دو پیش، کھڑی زبر، کھڑی زیر، کھڑی پیش، وغیرہ۔ اس کے علاوہ اردو انداز میں لکھے جانے والے فل اسٹاپ، ڈیش، ختمہ "۔"، کومہ، سکتہ "،"، سیمی کولن، وقفہ "؛" حیرانگی کا نشان، استعجابیہ، ندائیہ، فجائیہ، "!"، کولن، تفصیلہ ""، رابطہ ":"، قوسین "()"، خط/لکیر "-"، سوالیہ نشان "؟" اور واوین " “” " ہوتے ہیں، بھی مولوی عبدالحق نے ایجاد کیئے۔  ان کو رموز اوقاف بولتے ہیں۔ رموز رِمز کی جمع ہے، اوقاف وقف کی۔ مراد وہ علامتیں و نشانیاں ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ عبارت میں کس جگہ کتنا وقف کرنا ضروری ہے۔ 1970ء کے بعد سے چھپنے والی چھوٹی بڑی تمام کتب سے یہ اعراب ہی مٹا دیئے گئے ہیں، جس سے تلفظ کا مقصد ہی ختم ہوگیا ہے۔ اردو میں انہوں نے بہت محنت کی تھی اور ہم پاکستانیوں نے اسے ختم کردیا ہے۔ اگر یہ اردو کے لیے اتنی محنت نہ کرتے تو آپ آج کمپیوٹر اور موبائل میں اردو کیسے لکھتے؟ بعض لوگ یہی غلطی کرتے ہیں کہ وہ رموزِاوقاف ڈالتے ہی نہیں ہیں۔  یہ یاد رکھیں کہ اردو میں اعراب میں زیر، زبر، پیش، جزم، شد، کھڑی زبر اور دو زبر ہوتے ہیں۔ باقی کے اعراب صرف عربی میں ہوتے ہیں۔

آج کے جدید دور میں انپیج اردو 1995ء میں انڈیا میں نئی دلی میں ایجاد ہوا تھا۔ یہ 1997ء میں پاکستان میں بلیک میں سی ڈی میں آیا تھا۔ پھر 1998ء میں ''اردو 98'' کے نام سے ایک مکمل سافٹ وئیر بنایا گیا جو پاکستان میں ہی بنا۔ یہ بڑے بڑے اداروں جیسے نادرا وغیرہ یا بڑے اخباری دفاتروں میں استعمال ہورہا ہے۔ اردو 98 میں اردو کا پورا کا پورا آفس موجود ہے۔ یعنی ورڈ، ایکسل، پاور پوائنٹ، ایکسس وغیرہ۔ اس کر علاوہ پاکستان میں 1990ء؁ میں ڈوس موڈ پر چلنے والے اردو کے سافٹوئیر ایجاد ہوئے تھے جن کے نام ہیں "سرخاب، شاہین، شاہکار، کاتب"۔

اللہ نے مولوی عبدالحق کو اتنی عقل سے نوازا تھا کہ انہوں نے اپنی سوچ اور انتھک محنت سے "اردو" ایجاد کی۔ ان کو معلوم تھا کہ ایک ایسی زبان ایجاد کی جاسکتی ہے اگر کچھ حروف ایجاد کرنے میں محنت کرلی جائے۔ یہ حروف انہوں نے انڈیا کے صوبے اترپردیش میں رہتے ہوئے ایجاد کیے تھے۔ یہ اگست 1870ء میں اتر پردیش میں پیدا ہوئے تھے اور اگست 1961ء میں کراچی میں وفات پائی۔ ان کی قبر کراچی میں ہی انجمنِ ترقیِ اردو کے مرکرزی  دفتر میں موجود ہے۔ جبکہ اسی انجمن کی ایک برانچ جو اس سے بھی بڑی ہے وہ اترپردیش ہندوستان میں موجود ہے۔













 انجمن ترقی اردو (ہند) 

انجمن ترقی اردو (ہند) اردو کے ایک قومی ادارے کے طور پر اپنی درخشندہ ماضی اور پُروقار حال پر فخر کرنے میں حق بہ جانب ہے۔ انجمن کبھی کسی سیاسی پارٹی، تحریک یا نظریات سے وابستہ نہیں رہی، اسی لیے، یہ اردو کے فروغ اور اردو ہندی کے درمیان اُس کھائی کو پاٹنے میں بڑی حد تک کامیاب ہوئی جو انیسویں صدی کے اردو ہندی تنازعے کی وجہ سے مشترکہ تہذیب و ثقافت کے لیے زبردست خطرہ تھی۔ سب سے پہلے انجمن کا قیام سرسیّد احمد خاں کے ذریعے 1886 ؁ میں آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کی ایک شاخ کے طور پر وجود میں آیا، اس وقت مولوی عبدالحق ؔ کی عمر صرف 25 26 سال تھی، جس نے 1903 ؁ میں قومی نظریات کے حامل اردو کے ایک مستقل ادارے کی حیثیت اختیار کرلی۔ مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کے معلنہ مقاصد میں ہندستانی مسلمانوں کے درمیان جدید تعلیم کو فروغ دے کر ان کے نظامِ حیات کو جدید اقدار سے اس طرح روشناس کرانا تھا کہ وہ ہر قسم کے سیاسی نظریات سے دور رہے۔ سرسیّد نے مسلمانوں کو ہر قسم کی سیاست سے دور رہنے کی تلقین اُس وقت کی جب یہ طے ہوچکا تھا کہ 1857 ؁  کی ناکام بغاوت کے بعد رائج نئے نظام کی سیاست سے کسی بھی فرقے کی دوری اس کے لیے خودکشی کے مترادف ہوگی۔ یہ بات دل چسپ ہے کہ 1898 ؁ میں سرسیّد کے انتقال کے صرف آٹھ برس بعد مسلم لیگ کے قیام میں آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کے فیصلہ کن رول نے یہ ثابت کردیا کہ سرسیّد تحریک تو علاحدگی پسند سیاست کی ہم نوا بن گئی تھی۔ مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کے تین شعبے تھے: تعلیمِ نسواں وومین ایجوکیشن، Educational Cansus and School اور شعبۂ ترقیِ اردو۔ یہی شعبۂ ترقیِ اردو 1903 ؁  میں شبلی کی سیادت میں ایک مستقل ادارے کی شکل میں انجمن ترقی اردو کے نام سے موسوم ہوا۔ علامہ شبلی نعمانی شبلی، سرسیّد کی زندگی میں ہی علی گڑھ تحریک سے نظریاتی اختلافات کے سبب علاحدہ ہوگئے تھے۔ بعد میں مولانا آزاد کے نیشنلسٹ نظریات نے انھیں فیصلہ کن انداز میں متاثر کیا۔ 1903 ؁ میں مولانا آزاد، شبلی کے نائب کے طور پر انجمن سے وابستہ ہوگئے اور تمام عمر اس ادارے کے آزادانہ وجود کے ساتھ فروغ کے لیے کوشاں رہے۔ ابتداً انجمن کا نام ’’انجمنِ ترقّیِ اردو‘‘ لکھا جاتا تھا۔ 1913 ؁  میں جب انجمن اورنگ آباد منتقل ہوگئی تو اِس کا نام ’’انجمنِ ترقّیِ اردو اورنگ آباد دکن‘‘ لکھا جانے لگا اور 1936 ؁  میں انجمن کے دہلی منتقل ہونے کے بعد اِس کے نام کے ساتھ ’’ہند‘‘ کا اضافہ ہوگیا اور یہ نام ’’انجمنِ ترقّیِ اردو ہند‘‘ ہوگیا۔ 1950 ؁  کے بعد یہ نام بغیر اضافت کے ’’انجمن ترقی اردو (ہند)‘‘ کے طور پر عام ہوا۔ عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ انجمن کے نام کے ساتھ ’’ہند‘‘ کا اضافہ تقسیمِ ہندستان کے بعد ہوا جو صحیح نہیں ہے۔ تقسیمِ ہند کے بعد مولوی عبدالحق نے پاکستان میں انجمن ترقی اردو کو قائم کیا جس کا ظاہر ہے اصل انجمن سے جو غیر منقسم ہندستان میں قائم ہوئی اور تقسیم کے بعد بھی یہیں رہی (یعنی دہلی میں)، کوئی واسطہ نہ تھا۔ تقسیم سے پہلے اور تقسیم کے بعد خصوصاً آئین ساز اسمبلی کی مباحث میں اردو ہندی اور ہندستانی سے متعلق انجمن کے نظریات نے آئینِ ہند میں اُن شقوں کی شمولیت میں فیصلہ کن رول ادا کیا جن کا تعلق اردو ہندی اور ہندستانی کی بحثوں سے تھا۔ بدقسمتی سے آئینِ ہند میں ''ہندستانی'' کے ساتھ سخت ناانصافی ہوئی اور اسے ہندی کی شیلی تسلیم کیا گیا۔ 1903 ؁ سے 1980 ؁  تک انجمن ہندستان کا سب سے اہم ادارہ تھی اور آج ہندستان میں اردو کے جتنے بھی ادارے ہیں جن میں یونی ورسٹیوں کے شعبہ ہاے اردو بھی شامل ہیں، ان سب کے قیام کا سہرا صرف اور صرف انجمن ترقی اردو (ہند) کو جاتا ہے۔ تقسیمِ ہند کے بعد انجمن علی گڑھ منتقل ہوگئی جہاں بدقسمتی سے یونی ورسٹی کے اربابِ اختیار نے اِسے یونی ورسٹی کے شعبۂ اردو کے ذیلی شعبے میں تبدیل کردیا مگر ساتویں دہائی کے وسط میں انجمن کے دہلی آنے کے بعد یہ اپنے خود مختار وجود کی بازیابی میں ایک مرتبہ پھر کامیاب ہوگئی۔ اِس وقت انجمن کی تقریباً 600 شاخیں ہندوستان (انڈیا) کے طول و عرض میں متحرک اور فعال ہیں جو اردو کے مستقل بالذات زبان کے وجود اور برِّصغیر میں اردو کے وقیع ترین ادب کے طور پر اِس کے ہمہ جہتی فروغ کے لیے کوشاں ہیں۔ اردو کے یہ حروف "ٹ، ڈ، ڑ، ے، ں" مولوی عبدالحق نے 42 سال کی عمر میں 1903ء؁ میں ازخود انتھک محنت، سوچ اور لگن سے خود ایجاد کیے اور باقاعدہ انہیں اپنی جگہ پر سیٹ بھی کیا یعنی کونسا حرف کس جگہ ہونا چاہیے۔ اس کی جگہ بھی انہوں نے اپنی سوچ سے رکھی۔ جیسے "ٹ" فوراً "ت" کے بعد آئے گا وغیرہ۔۔۔ انجمن ترقی اردو ہند سے ہماری زبان کے نام سے رسالہ شائع ہوتا ہے۔


انجمنِ ترقّیِ اردو پاکستان




انجمن ترقّیٔ اردو، برصغیر کا قدیم ترین ثقافتی و ادبی ادارہ ہے جو 1903ء میں آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کی ایک شاخ کی حیثیت سے سرسیّد کے رفیقِ کار نواب محسن الملک نے قائم کیا تھا۔ اس کے بنیادی مقاصد اردو زبان و ادب کی ترویج، اشاعت، تراجم، تدریس اور تحقیق تھے۔ انجمن کے پہلے صدر اس وقت کے مشہور مستشرق سرتھامس آرنلڈ، معتمد علامہ شبلی نعمانی جب کہ دیگر عہدے داران میں مولوی نذیر احمددہلوی، مولانا الطاف حسین حالیؔ اور مولوی ذکاء اللہ تھے۔ سرپرستوں اور معاونوں میں قائداعظم محمد علی جناحؒ، علامہ اقبال، شہیدِ ملّت لیاقت علی خاں، سردار عبدالرّب نشتر، مولانا حسرت موہانی، مولانا ظفر علی خاں، پیرالٰہی بخش، ڈاکٹر محمد شہید اللہ، سر غلام حسین ہدایت اللہ اور پیر حُسام الدین راشدی جیسے بزرگوں کے نام شامل ہیں۔

بابائے اردو مولوی عبدالحق 1912ء میں انجمن کے معتمد ہوئے اور اس کا دفتر علی گڑھ سے اورنگ آباد لے گئے۔ پھر 1938ء میں وہ انجمن کا دفتر اور کتابوں کا بیش بہا اثاثہ دہلی لے آئے۔ ان کی سرپرستی میں انجمن نے نہ صرف غیرمعمولی ترقی کی بلکہ اس کی انتظامی بنیادیں بھی مضبوط ہوئیں۔ پاکستان بننے کے بعد 1950ء میں قائداعظم محمد علی جناح کی ایما پر بابائے اردو اسے دہلی سے کراچی لے آئے۔ مولوی عبدالحق کی وفات کے بعد 1961ء میں جناب جمیل الدین عالی نے انجمن کے معتمد کی ذمے داری سنبھالی اور بابائےاردو کے مشن کو بہت خوش اُسلوبی سے جاری رکھا۔ انجمن نے قومی زبان کو اعلیٰ سطح پر تدریس کے لیے رائج کرنے میں جو ٹھوس بنیادی کام کیا، اس کے عملی نمونے وفاقی اردو کالج برائے فنون، قانون اور سائنس کی تعمیر و قیام ہیں۔ اس کالج کو جناب جمیل الدین عالی کی کوششوں سے نومبر 2002ء میں وفاقی اردو یونی ورسٹی کا درجہ دیا گیا۔ ضعیفی و علالت کے باعث جناب جمیل الدین عالی نے 19؍ مارچ 2014ء کو معتمد کا عہدہ ڈاکٹر فاطمہ حسن کے سپرد کردیا۔

ڈاکٹر فاطمہ حسن 30؍ مارچ 2019ء تک معتمد اعزازی رہیں اور اس روز ہونے والے انتخابات میں جناب واجد جواد (صدر اعزازی)، محترمہ زاہدہ حنا (معتمد اعزازی) اور سیّد عابد رضوی (خازن اعزازی) منتخب ہوئے اور دستور کے مطابق اپنی ذمے داریاں انجام دے رہے ہیں۔ انجمن سے علمی و تحقیقی کتابوں کے علاوہ ادبی جریدہ ماہ نامہ ’’قومی زبان‘‘ اور تحقیقی مجلّہ شش ماہی ’’اردو‘‘ بھی شائع ہوتے ہیں۔



''قائدِاعظمؒ، مولوی عبدالحقؔ اور اردو''







یہ سبق مولوی عبدالحق نے تحریر کیا ہے وه کہتے ہیں کہ میں غیر سیاسی آدمی ہوں چنانچه قائداعظم سے میری ملاقات اردو کے حوالے سے ہوئی۔ بابائے اردو نے یہ یاداشتیں صیغه واحد متکلم میں قلم بند کیں ہیں۔ یعنی میں سے مراد مولوی عبدالحق کہتے ہیں:۔




سب سے پہلے 1937ء میں قائداعظمؒ کا خط میرے نام آیا جس میں اردو کے حوالے سے میری قومی خدمت کا اعتراف کیا گیا تھا۔ اور مجھے لکھنؤ میں منعقد ہونے والے مسلم لیگ کونسل کے اجلاس میں دعوت دی گئی تھی تاکہ میں قائداعظم سے مل سکوں۔ اس کے ایک دو روز بعد ہی علامہ اقبال اور میاں بشیر احمد نے مجھے خطوط کے ذریعے تاکید کی کہ میں ضرور مسٹر جناح سے ملوں۔ قائداعظمؒ سے میری ملاقات کی تحریک غالباً ڈاکٹر علامہ اقبال نے کی ہوگی۔ انہیں شاید اندیشه تھا کہ میں اہلِ کانگریس یا ہندی والوں سے کوئ ایسا سمجھوتہ نہ کرلوں جو اردو والوں کے حق میں مفید نہ ہو۔ میں عبدالرحمٰن صدیقی کے ہمراہ لکھنؤ گیا جو مسلم لیگ کونسل کے ممبر تھے صدیقی صاحب کے ہمراہ قائداعظم سے میری ملاقات ہوئ اور انھوں نے اردو کے معاملے میں مجھے تعاون کرنے کو کہا چنانچه میں نے انھیں اپنے تعاون کا یقین دلایا۔ ہم اردو کے بارے میں ایک قراردار بھی لکھ کر ساتھ لے گئے تھے۔ وه ہم نے قائداعظم کو پیش کی انهوں نےشروع سے آخر تک پڑھا اور پسند فرمایا۔

دوسرے دن مسلم لیگ کونسل کا اجلاس تھا اجلاس میں یہ قرارداد پیش کی جانی تھی۔ لیکن میں اسے پیش نہ کرسکتا تھا۔ کیونکه میں کونسل کا ممبر نہ تھا۔ چنانچه یہ قرارداد جناب عبدالرحمٰن صدیقی صاحب نے پیش کی۔اس قرارداد میں یہ فقره بھی تھا کہ مسلم لیگ کی آفیشل زبان اردو ہوگی۔ کونسل کے بعض ارکان نے اس قرارداد کے حق میں اور بعض نے اس کے خلاف رائے دی۔ آخر اس قرارداد کے متذکره بالا فقرے کو اس طرح بدل دیا گیا کہ"ہر ممکن کوشش کی جائے گی که اردو تمام ہندوستان کی عام زبان ہوجائے گی"۔ سن 1939ء  میں انجمن ترقی اردو دہلی منتقل ہوگئی اور 1945ء  میں مولوی سید ہاشمی کی درخواست پر قائداعظمؒ انجمن میں تشریف لائے اور ہمارے ساتھ لنچ کیا۔

اس موقع پر ڈاکٹر ضیاء الدین مرحوم نواب زاده، لیاقت علی خان، سید حسین امام اور چند اور صاحبان کو بھی دعوت دی گئی تھی۔ قائداعظم لنچ سے پہلے آگئے۔ دیر تک باتیں کرتے رہے اور انجمن کی مطبوعات وغیره کا معائنہ کیا۔ میں نے انھیں انجمن کی انگریزی اردو لغات اور سر سید احمد خان کی اردو یونیورسٹی کی تجویز کی ایک نقل نظر کی، جو وه ساتھ لے گئے۔ کچھ دنوں بعد انھیں اینگلو عربک کالج کے طلبہ نے کالج میں تقریر کی دعوت دی۔ اس دعوت سے قبل انھیں رات کا کھانا بھی دیا گیا۔ کھانے کے بعد قائداعظم نے مجھ سے کها کہ انھوں نے سب سے پہلی اردو کی تقریر بنگال کے کسی مقام پر کی۔ اس مجمع میں ہزاروں آدمیوں کا مجمع تھا۔ جن میں سے انگریزی جاننے والے تقریباً 500 اور اردو جاننے والے تقریباً ڈیڑھ ہزار تھے۔ اس موقع پر قائداعظم نے فرمایا کہ میری اردو تانگہ والے کی اردو ہے۔

سن 1946ء میں مسلم لیگ کونسل کا ایک اجلاس دہلی میں ہوا۔ اس اجلاس میں سرفیروز خان نون نے اپنی تقریر اردو کے بجائے انگریزی میں کرنے پر اصرار کیا اور اس کا جواز یہ پیش کیا کہ مسٹر جناح بھی انگریزی میں تقریر کرتےہیں۔ اس پر قائداعظم نے صریح اور صاف لفظوں میں فرمایا کہ "سر فیروز خان نون نے میرے پیچھے پناه لی ہے لہٰذا میں اعلان کرتا ہوں کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہوگی"۔

قائداعظم کو کسی نے یہ کہا تھا کہ پاکستان کی قومی زبان فارسی کرلیتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ نہیں قومی زبان اردو ہوگی۔ ورنہ یہ اپنی اہمیت کھو دے گی۔ فروری 1946ء  میں انجمن ترقی اردو کی سالانہ کانفرنس بمبئ میں ہوئ۔ اس کے لیے قائداعظم نے اپنا ہمت افزا پیغام بھیجا جسے سن کر حاضرین نے خوشی کے نعرے لگائے اور اس جوش سے تالیاں بجائیں کہ سارا پنڈال گونج اٹھا۔ انجمن ترقی اردو نے حکومت ہند سے نئی دہلی میں اپنی عمارت کے لیے ایک قطۂ اراضی خریدا تھا جس کے لیے میں جگه جگه چنده جمع کیا جا رہا تھا۔ اس سلسلے میں حضور نظام نواب پیر مئیر عثمان علی نظامِ حیدرآباد سے بہت اچھا عطیہ ملنے کی توقع تھی۔ میں (مولوی عبد الحق) نے قائداعظم سے حضورِ نظام کے نام ایک سفارشی خط دینے کی درخواست کی۔ آپ (قائدِاعظم) نے فرمایا که خط لکھنا مناسب نہیں۔ کیونکه لوگوں نے پہلے ہی مجھے بدنام کررکھا ہےکہ حضور نظام مجھے چھ لاکھ روپے سالانہ دیتے ہیں۔ تاہم آپ (قائدِاعظم) نے فرمایا کہ عنقریب میں حیدرآباد جانے والا ہوں۔ اس وقت اعلٰی حضرت سے امداد کے لیے بالمشافه کهوں گا۔

قائداعظم حیدرآباد دکن گئے اور انھوں نے حضور نظام سے اس سلسلے میں بات بھی کی لیکن افسوس که جو امیدیں حضور نظام سے تھیں وه پوری نہ هوئیں۔ حضرت قائداعظم کے اس دورۂ حیدرآباد کی بہت اہم اور دلچسپ تفصیلات بابائے اردو سے ملتی ہیں۔ حیدرآباد دکن کا ہوائ اڈه شہر سے کوئ 15 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے ہزارہا آدمی قائداعظم کے استقبال کے لیے ہوائ اڈه اور راستوں پر موجود تھے۔ دو انگریزوں نے قائداعظم کو جہاز سے اپنی پٹرول گاڑی میں سوار کیا اور انھیں بڑی مشکل سے اس ہجوم سے نکال کر لے گئے۔ دوسرے دن سہ پہر کو دارالسلام حیدرآباد میں قائداعظم کی تقریر تھی۔ تقریباً ایک لاکھ کا مجمع تھا۔ انھوں نے بہت صاف اور اچھی اردو میں تقریر کی۔یہ تقریر منٹ کی تھی۔ اس کے بعد انهوں نے انگریزی میں تقریر کرنی شروع کی۔ دوسرے دن میں (مولوی عبدالحق) نے انھیں ایسی اچھی اردو تقریر کرنے پر مبارکباد دی۔ تو جواباً انھوں نے کہا کہ ''آپ اردو کے ماسٹر ﴿استاد﴾ ہیں'' میں نے انھیں کہا که ''اب آپ کبھی یہ نہ کہیے گا که میری اردو تانگه والی اردو ہے'' اس پر وه مسکرائے۔

قیام پاکستان کے بعد حکومت سندھ نے انجمن ترقی اردو کو ایک اچھی عمارت دے دی۔ انجمن کے ارکان چاہتے تھے کہ حضرت قائداعظمؒ اس نئے دفتر کا افتتاح فرمائیں۔ وه رضامند بھی ہوگئے۔ لیکن انھیں پہلے گوناگوں مصروفیات نے اور پھر موت نے آن گھیرا اور وه ہم سے 1948ء میں ہمیشه کے لیے جدا ہوگئے۔

انجمن ترقی اردو پاکستان نومبر 2021ء۔

انجمن ترقی اردو پاکستان کے تحقیقی مجلے “اردو” کی ایک صدی مکمل ہونے پر کراچی میں انجمن ‘اردو باغ’ میں دو روزہ مولوی عبدالحق کانفرنس شروع ہوئی ۔ سندھ کے وزیراعلی کے مشیر اور ایڈمنسٹریٹر کراچی مرتضیٰ وہاب نے اس موقع پر خطاب کیا۔ انھوں نے کانفرنس کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے سندھ حکومت کے ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا ۔ انہوں نے اس امر پر افسوس ظاہر کیا کہ ہم نے اپنی نئی نسل کو اردو سے دور کر دیا ہے

لاہور سے آئے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر نجیب جمال نے اپنے کلیدی خطاب میں کہا کہ بابائے اردو کے اردو زبان پر بے حد احسانات ہیں۔ ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انہوں نے قدیم ترین کتب دریافت کرکے انہیں شائع کرایا۔ان کی اس خدمت سے اردو کی عمر میں اضافہ ہوا ۔

افتتاحی تقریب سے انجمن ترقی اردو کے صدر واجد جواد اور نامور ادیب اور سب رنگ ڈائجسٹ کے مدیر شکیل عادل زادہ نے بھی خطاب کیا ۔

اس موقع پر مطبوعات انجمن کی تقریب رونمائی ہوئی ۔ جن میں سات سے زائد کتب شامل ہیں۔ ان  میں میر حسین علی امام اور ڈاکٹر یاسمین سلطانہ فاروقی کی کتاب “مولوی عبدالحق کے مکتوبات” شامل ہے

واضح رہے کہ دلّی میں انجمن کی تباہی اور بربادی کے بعد بابائے اردو کراچی چلے آئے۔ یہاں ازسرِنو انجمن کے کاموں کا آغاز ہوا۔ بے سروسامانی کے باوجود انجمن نے پاکستان میں نئے عزم اور حوصلے سے کام شروع کیا۔ مشہور ادیب اور ادیب گر سر شیخ عبد القادر صدر منتخب ہوئے۔ قائد اعظم محمد علی جناح کو انجمن کے افتتاح کی دعوت دی گئی۔ قائد اعظم اپنی علالت کی وجہ سے افتتاح نہ کر سکے۔

یہ بھی واضح رہے کہ اردو پاکستان کی قومی زبان ہے نہ کہ رابطے کی زبان۔






















انجمنِ ترقیِ اردو کراچی کی عمارت جو مولوی عبدالحق نے بنوائی تھی۔ یہ عمارت اب مخدوش حالت میں ہے

ہندوستان کی انجمنِ ترقیِ اردو کی عمارت

گاندھی جی کی لکھائی میں لکھا اردو کا خط



~~~~~~~~~~~~~~



لمـــحه فـــکريـــه

چوده اگست انیس سو سینتالیس کو پاکستان ایک آزاد مملکت کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر ابھرا۔ انگریز و هندو کی دوهری غلامی سے نجات حاصل کرنے کےلیے ملسمانان ھند نے الله سے گڑگڑا گڑگڑا کر دعائیں کیں، یاد کیجیۓ یه آزادی ھمارے بزرگوں نے جان و مال کی بےبہا قربانی اور هزاروں فرشته سیرت بہو و بیٹیوں کی عصمت گنوا کر حاصل کی تھی۔

آزادی یقیناً الله کا احسان عظیم اور ایک بہت بڑی نعمت هے یا کہلا سکتی ہے لیکن اس کو قائم و دوائم رکھنے کے لیے اس کے تقاضے پورے کرنے پڑتے ھیں۔ هماری آزادی کا اولین تقاضا یه تھا که نظریه پاکستان یعنی اسلامی نظام کا عملی نفاذ کیا جاتا لیکن بدقسمتی سے اس سمت کوئ پیش رفت نه هوسکی۔ آزادی کو مادر پدر آزادی سمجھ لیا گیا۔ قومی وسائل کی بندر بانٹ اور مفاد پرستی کی ایک دوڑ شروع ھوگئ۔ جس کا نتیجه یه نکلا که پاکستان مسائلستان بنتا چلا گیا۔ مھنگائ، بیروزگاری اور بدامنی نے عوام کی زندگی اجیرن کردی۔ یھاں تک که ملک دولخت هوگیا اور روز بروز یه مسائل بڑھتے چلے گۓ۔ نفسانی خواهشات کو بھڑکانے والے پروگرام ترتیب دیۓ گۓ، راگ و رنگ اور رقص و سرور کی محفلوں کی حوصله افزائ کی گئ۔ بجلی کے بدترین بحران کے باوجود عمارات و سڑکوں کو بقعه نور بنا دیا جاتا هے۔

برادران اسلام، ذرا سوچۓ عام حالات میں بھی ایک مسلمان معاشره ایسی بےھودگی کی اجازت نہیں دیتا۔ لیکن ایسے وقت میں جبکه دنیا کے کونے کونے میں مسلمانوں پر قیامت ڈھائ جارهی هے۔ کشمیر، فلسطین، افغانستان، عراق اور چیچنیا میں ایک عرصے سے مسلم خون سے ھولی کھیلی جارهی تھی اور ہے لیکن گذشته ماه (سن 2005ء) سے اسرائیل امریکه کی شہہ پر لبنان کے بےگناه شہریوں پر جن میں بچے بوڑھے خواتین شامل هیں اندھادھند بمباری کے ذریعے ظالمانه طریقے سے ان کا قتل عام کررها ھے۔

آیۓ هاتھ میں هاتھ ڈالیں اور الله تعالیٰ کے دین کے غلبه اور اس کی اقامت کے لیے اپنا حصه ادا کریں۔ تاکه الله کی کتاب و اس کے رسولﷺ کی سنت کی روشنی میں اور مصور پاکستان علامه اقبالؒ اور معمار پاکستان قائدِاعظم محمد علی جناحؒ کے تصور کے مطابق یه ملک صحیح معنوں میں ایک اسلامی فلاحی مملکت بن سکے۔۔۔ جو سن 1947ء سے محض صرف باتوں کی حد تک ہی رہا ہے۔

آج 2022ء میں خیر سے پاڪـــــستان مڪمل طور پر ایک دیوالیہ ملڪ بن چکا ہے۔


مالک و مصنف: ڪاشف فاروق۔ لاہور سے۔ 2005ء۔