DUNYA AUR PAKISTAN KE AJOOBE
دنیا اور پاکستان کے عجوبے
پاکستان کے 7 عجائبات
آپ نے قدیم عجائباتِ عالم کے بارے میں تو پڑھ رکھا
ہوگا؟ یہ زمانہ قبل از مسیح میں بنائی گئی ایک فہرست تھی جس میں اُس زمانے کی 7
ایسی جگہوں کا ذکر تھا جنہیں ضرور دیکھنا چاہیے۔ اُن میں سے صرف اہرامِ مصر ہی
باقی بچے ہیں، باقی تمام عجائبات مختلف قدرتی آفات کا شکار ہو کر ختم ہوگئے۔ ان
عجائب کا سُن کر ذہن میں ایک سوال پیدا ہوا کہ اگر ایسی ہی ایک فہرست پاکستان کے
لیے بھی بنائی جائے تو کیسا رہے گا؟ آج اسی سوال کا جواب حاصل کرنے کی کوشش کریں
گے۔
پاکستان دنیائے سیاحت کا ایک سربستہ راز ہے۔ یہاں دنیا
کی بلند ترین چوٹیاں بھی ہیں تو طویل ترین ساحلی پٹی بھی، دنیا کے عظیم ترین دریا
بھی اسی سرزمین سے بہتے ہیں تو گرم ترین صحرا بھی اسی ملک میں اپنا وجود رکھتا ہے۔
اتنی رنگارنگی کے باوجود پاکستان دنیا کی نظروں سے اوجھل ہے۔ خیر، شکوے گلے ایک
طرف رکھ کر ہم دوبارہ اپنے سوال کی طرف چلتے ہیں کہ اگر صرف 7 مقامات کو ‘عجائباتِ
پاکستان’ قرار دیا جائے تو وہ کون سے ہوں گے؟ اس کے جواب کی تلاش میں ایک لمبی
فہرست بنتی چلی گئی جسے صرف 7 تک محدود رکھنا بڑا مشکل کام تھا۔ بس دل پر پتھر رکھ
کر 7 مقامات کا چناؤ کیا ہے۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ان میں سے کوئی مقام اس فہرست
میں جگہ پانے کے قابل نہیں تو ہمیں تبصروں میں ضرور بتائیں۔
وطن ِعزیز(پاکستان) خوبصورت اور عجب مقامات کا گڑھ
سمجھا جاتا ہے۔ خاص طور پر پاکستان کے شمالی علاقے اور کشمیر شاندار سیاحتی مقامات
میں نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ ملک کا یہ حصہ (کشمیر) اپنے آسمانوں کو چھوتے پہاڑوں،
دلکش اور سرسبز دیہاتوں، خوبصورت جھیلوں اور حیران کن حیوانی زندگی کی وجہ سے بھی
دنیا بھر میں مقبول ہے۔ ملک کے اس حصہ کے مرکزی سیاحتی مقامات میں نیلام، سوات اور
ہنزہ شامل ہیں۔ یہ تمام مقامات دنیا کی حقیقی خوبصورتی کی عکاسی کرتے ہیں۔ پاکستان
میں سیرو تفریح کے لیے با کمال آثارِ قدیمہ بھی موجود ہیں، جس وجہ سے ہر سال بڑی
تعداد میں سیاح،اس دیس کا رُخ کرتے ہیں۔ دنیا کے 7 عجوبوں میں تاج محل، دیوارِ
چین، پیسا ٹاور، پیٹرا، کولوسییم، چیچن عتزا اور ماچو پیچوشامل ہیں جبکہ پاکستان
کی شاہراہ قراقرام کو دنیا کا آٹھواں عجوبہ سمجھا جاتا ہے۔ شاہراہ قراقرم پاکستان
کے عجوبوں کی بات کی جائے، تو ان سب میں سرفہرست اور دنیا کا آٹھواں عجوبہ شاہراہ
قراقرم ہے۔ یہ ہائی وے N-35 اور
نیشنل ہائی وے کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ زمین سے 15,397 فٹ کی بلندی پر واقع
قراقرم ہائی وے پاکستان اور چائنا کی گہری دوستی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ 1300 کلومیٹر
طویل یہ ہائی وے پاکستان کے صوبہ پنجاب میں واقع حسن ابدال سے شروع ہو کر گلگت
بلتستان، خنجراب پاس پر ختم ہوتا ہے۔ پاکستان چائنا بارڈر کے اُس پار چائنا کا
نیشنل ہائی وے 314 شروع ہو جاتا ہے۔ شاہراہ قراقرام کے خوبصورت اور دلکش مناظر
دنیا بھر سے سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ شاہراہ قراقرم کو دنیا کے سب سے
اونچے اور پکے ہائی وے ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ قراقرم ہائی وے کی اس قدر بلندی
کی وجہ سے اسے کئی قسم کے موسمی حالات سے بھی نپٹنا پڑتا ہے، اسی لیے اس کی مرمت
وقفے وقفے سے جاری رہتی ہے۔ قراقرم ہائی وے پر دوران ِسفر کئی خوبصورت پہاڑبھی
دیکھنے کوملتے ہیں، جن میں نانگا پربت ، راکاپوشی اور دیران سرفہرست ہیں۔ مشہور
برطانوی اخبار دی گارڈینز کے مطابق سیاحوں متوجہ کرنے کے حوالے سے شاہراہ قراقرم
پاکستان میں تیسرے نمبر پر آتی ہے۔اس شاہراہ کے ساتھ کئی غمناک یادیں بھی وابستہ
ہیں، جیسا کہ دورانِ تعمیر قریباً 500 پاکستانی اور چائنیز مزدوروں کی موت واقع
ہوئی، اسی وجہ سے اسے دنیائے تاریخ کا سب سے غیر یقینی اور خوفناک انجینئرنگ
منصوبہ بھی سمجھاجاتا ہے۔ اس ہائی وے کی تعمیر 1978ء سے شروع ہو کر 1982ء کو
اختتام پذیر ہوئی ، تاہم بین الاقوامی سیاحوں کے لیے اسے 1986ء میں کھولا گیا۔
موہنجو داڑوموہنجو داڑو جس کے اُردو میں معانی ’’ مردہ لوگوں کا ٹیلا‘‘ کے ہیں،
پاکستان کے صوبہ سندھ میں آثار قدیمہ کی حیثیت رکھتا ہے۔اس کی تاریخ اتنی پرانی
ہے کہ آج بھی اس کے اصل نام کی تصدیق نہیں ہو سکی، تاہم ماہرین کی بڑی تعداد
’’کوکو ترما‘‘ یعنی مرغے کی لڑائی پر اتفاق کرتی ہے۔ ایک اندازے اور تاریخی شواہد
کے مطابق موہنجوداڑو کی تعمیر 2500BCE یعنی
آج سے 4500 سال قبل مکمل ہوئی۔موہنجوداڑو وادیٔ سند ھ کی قدیم تہذیب اور ماضی میں
یہاں کے لوگوں کے عروج و زوال کی بھرپور نشاندہی کرتا ہے اوراس کا شمار دنیا کے
قدیم ترین گنجان آباد اور ماضی کے ترقی یافتہ علاقوں میں کیا جاتا ہے، جہاں پورے
برصغیر سے لوگ جوق در جوق تجارت کے سلسلے میں آیا کرتے تھے۔ 19ویں صدی میں
موہنجوداڑو کی تباہی اور زوال کے بعد بڑی تعداد میں لوگ یہاں سے ہجرت کر گئے۔ اس
کے بعد 1920ء تک اسے دوبارہ دریافت نہ کیا گیا۔ بعدازاں 1980ء میں اسے بین
الاقوامی ادارے ’’UNESCO ورلڈ
ہیری ٹیج سائٹ‘‘ یعنی دنیا کے قدیم ثقافتی ورثے میں شامل کر لیا گیا، تاہم آج یہ
قدیم ثقافتی ورثہ غیرمناسب دیکھ بھال اور موسمی تبدیلی کی وجہ سے بد حالی سے دوچار
ہے۔ اس سب کے باوجود بھی ہر سال بڑی تعداد میں بین الاقوامی سیاح اس قدیم تہذیب کو
دیکھنے کی غرض سے پاکستان کا رُخ کرتے ہیں۔ بلتت فورٹبلتت فورٹ کا شمار بھی
پاکستان کی خوبصورت اور پرُاسرار جگہوںمیں ہوتا ہے۔ بلتت فورٹ گلگت بلتستان کے ایک
گاؤں ہنزہ میں واقع عجیب و غریب مقام ہے۔ بلتت فورٹ کی تاریخ 700 سال پرانی ہے
اور اس طویل عرصہ میں کئی بار اسے مختلف حکومتوں کے ادوار میں مرمت و تعمیر کیا
جاتا رہا ہے۔ 16 ویں صدی میں ایک مقامی راجہ نے بلتستان کی رانی سے شادی رچائی،تو
ماسٹر بلتی(ماضی میں بلتستان کے مشہورمعمار) کے کاریگروں کو خرید لیا اور بلتت
فورٹ کی تجدید اور توسیع میں لگا دیا۔ بلتت فورٹ دراصل بلتستان کی رانی کی جاگیر
تھی، جو شادی کے بعد راجہ کی ہو گئی۔ ایک لمبے عرصے بعد 1945ء میں یہا ں کے مقامی
لوگوں نے شدید سردی اورضروریاتِ زندگی کے وسائل کی کمی کی وجہ سے اس جگہ کو چھوڑ
کر نچلی پہاڑیوں میں رہنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے بعد لندن کی رائل جیوگرافیکل
سوسائٹی نے یہاں کا معائنہ کیا اور اس جگہ کو ایک میوزیم میں بدل دیا اور اس میں
کئی متعلقہ چیزیں بھی رکھیں،جن میں تصاویر، پرانے برتن ،اوزار اور ہتھیاروغیرہ
شامل ہیں۔ بلتت فورٹ اور اس مقام سے دکھنے والے خوبصورت مناظر کی نظیر دنیا بھر
میں کہی نہیں ملتی۔جھیل سیف الملوکسیف الملوک بڑے بڑے دیو قامت پہاڑوں میں گھری
ایک خوبصورت اور دلکش جھیل ہے۔ یہ جھیل پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے شمالی
آخر کاغان میں واقع ہے۔ یہ جھیل سمندری سطح سے قریباً 10578 فٹ اُونچائی پر ہے۔
سیف الملوک کا شمار پاکستان کی سب سے اونچی جھیلوں میں بھی ہوتا ہے۔ اس کے خوبصورت
مناظر اور سال بھر رہنے والے پر لطف موسم سے محظوظ ہونے، ہر سال دنیا بھر سے
ہزاروں لوگ اُمنڈ آتے ہیں۔ اس شاندار جھیل کے قریب ہی کاغان کی سب سے اونچی چوٹی
’’ملکہ پربت‘‘ بھی واقع ہے۔ آج سے قریباً 3 لاکھ سال پہلے یہ جھیل سرد تر موسم کی
وجہ سے منجمد رہی ۔ بعدازاں بدلتے موسموں نے کاغان کی برفانی پہاڑیوں کو براہِ
راست متاثر کیا اور آخر یہ برف پگھل کر اس جھیل کی صورت میں اُبھر آئی۔ سیف
الملوک کی خوبصورتی اور دلکشی کے پیشِ نظر ماضی کے کئی شعرا اور اُدبا اس کی
تعریفوں کے پُل باندھ چکے، جن میں مشہورِ زمانہ صوفی شاعر میاں محمد بخش بھی شامل
ہیں۔ میاں محمد بخش اس جھیل کے بارے لکھتے ہیں کہ فارس کا ایک مشہور راجا شہزادہ
سیف الملوک، اسی جھیل کے کنارے پری نما شہزادی بدری جمالہ کے پیار میں گرفتار ہو
گیا تھا اور تب سے آج تک یہ جھیل ’’سیف الملوک‘‘ کے نام سے جانی جاتی ہے۔
پاکستان کی وہ سڑک جو ’دنیا کا آٹھواں عجوبہ‘ ہے قراقرم روڈ:
1300 کلومیٹر طویل قراقرم ہائی وے کرہ زمین
پر موجود حیران کن پہاڑی چٹانوں کے درمیان سے گزرتی ہے۔ یہ کسی خواب جیسا راستہ ہے
جس کے بارے میں کم ہی لوگ جانتے ہیں۔ اس
پہاڑی راستے پر سفر کرتے ہوئے تیز ہوا گاڑی کی کھڑکی سے اندر آ رہی تھی۔ موسم گرما
کے باوجود سات ہزار میٹر بلند چوٹیوں پر برف چمک رہی تھی اور گلیشیئر کے پگھلتے
پانی آبشار کی شکل میں ہنرہ وادی سے گزرتے ہوئے دریا میں گر رہے تھے۔ اس وادی کو
برطانوی ناول نگار جیمز ہلٹن نے ’شنگریلا‘ کا نام دیا تھا۔ کسی زمانے میں قراقرم
ہائی وے شاہراہ ریشم کا حصہ ہوا کرتی تھی جس کی بنیاد یہاں کے مقامی باشندوں نے
صدیوں پہلے رکھی تھی۔ تاہم 1978 میں، 24 ہزار پاکستانی اور چینی مزدوروں کی 20
سالہ محنت کے بعد، اس سڑک پر باقاعدہ طور پر گاڑیوں کی آمدورفت ممکن ہوئی جس کے
باعث اس دور دراز علاقے کے لیے تجارت، سیاحت اور سفری آسانی کے دروازے کھل گئے۔ 1300
کلومیٹر طویل سڑک پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے قریب حسن ابدال کے
چھوٹے سے شہر سے شروع ہوتی ہے اور 4700 میٹر کی بلندی پر خنجراب کے مقام پر دنیا
کی سب سے بلند پکی سڑک سے ہوتی ہوئی چین میں شنکیانگ تک جاتی ہے۔ تاہم میرے لیے اس
سڑک کا سب سے دلچسپ حصہ وہ 194 کلومیٹر تھے جو وادی ہنزہ میں موجود ہیں۔ یہ علاقہ
قراقرم کے پہاڑوں میں گھرا ہوا ہے جن کی وجہ سے ہی اس سڑک کا نام قراقرم ہائی وے
رکھا گیا۔ یہ علاقہ غیر یقینی حد تک خوبصورت ہے جہاں سفر کے دوران آپ کو شفاف
گلیشیئر، جھیلیں اور برف سے اٹی چوٹیاں ہر طرف نظر آتی ہیں۔ یہ سفر تو خوبصورت ہے
ہی لیکن اس جگہ پر ہائی وے کو خاص بنانے والی ایک اور اہم بات ہنزہ کے لوگ اور اس
وادی کی روایات ہیں۔
گلگت بلتستان میں شنکیانگ اور واخان کاریڈور کے درمیان موجود ہنزہ 20ویں صدی تک باقی دنیا سے کٹا ہوا تھا۔ یہاں کی مقامی آبادی بروشو اور واکھی لوگوں پر مشتمل ہے اور یہاں کی اپنی زبان، موسیقی اور ثقافت ہے جو پاکستان یا دنیا بھر میں کہیں اور نہیں ملیں گے۔ قراقرم ہائی وے نے دنیا کے لیے اس وادی تک کا سفر آسان تو کر دیا ہے لیکن ماحولیاتی اعتبار سے ایک منفی اثر بھی مرتب ہوا اور مقامی لوگوں کی اکثریت کو اپنی روایتی زندگی ترک کرنا پڑی۔ اب یہاں طویل عرصے تک ’جینانی‘ جیسے جشن منانے والے لوگ کم رہ گئے ہیں جو بہار کی آمد کا جشن ہے۔ تاہم اب کچھ مقامی لوگ ہنزہ کی مخصوص روایات کو زندہ رکھنے کے لیے کافی محنت کر رہے ہیں۔ میرے سفر کے دوران پہلا پڑاؤ التت میں تھا جو 1100 سال پرانے قلعے اور ثقافتی روایات کو محفوظ رکھنے کے لیے مشہور گاؤں ہے۔ یہاں میری ملاقات موسیقار مجیب رزاق سے ایک کیفے میں ہوئی جہاں سے راکاپوشی اور دران کی چوٹیاں دور فاصلے میں دکھائی دے رہی تھیں۔ ہم سے چند قدم دور ہی لیف لارسن میوزک سینٹر نامی سکول تھا جہاں وادی کی روایتی موسیقی اگلی نسل کو سکھا کر زندہ رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
نجیب نے بتایا کہ ’ہم موسیقی پر بہت انحصار کرتے ہیں
کیونکہ موسیقی ہماری زندگی کے ہر حصے سے جڑی ہوئی ہے چاہے آپ کاشتکاری کر رہے ہیں
یا فصل کاٹ رہے ہیں (ہم روایتی لوک گیت گاتے ہیں)۔ نوجوان نسل اس کے بارے میں نہیں
جانتی تھی لیکن اب وہ جان رہے ہیں کہ ثقافت کی روح کیا ہے۔‘ موسیقی کا یہ مرکز
2016 میں قائم کیا گیا لیکن نجیب کا کہنا ہے کہ اس کا اصل آغاز اس وقت ہوا جب ضیا
الکریم نے بچوں کو پڑھانا شروع کیا۔ عام طور پر یہاں موسیقی کو مشغلے کے طور پر
سیکھا جاتا ہے لیکن التت کے ضیا الکریم موسیقی میں ڈگری حاصل کرنے والے پہلے مقامی
باشندے تھے جن کو کئی آلات میں مہارت حاصل تھی۔ 2022 میں ایک موٹر سائیکل حادثے
میں افسوسناک ہلاکت سے قبل انھوں نے 100 سے زیادہ طلبا کو موسیقی سکھائی۔ نجیب
مجھے پریکٹس روم میں لے کر گئے جو کسی مقامی گھر جیسا تھا۔ مقامی تکیے کمرے کی
دیواروں کے ساتھ موجود تھے اور تقریبا دو درجن طلبا بھی۔ اگرچہ پاکستان ایک
پدرشاہی معاشرہ ہے، ہنزہ ایک لبرل خطہ سمجھا جاتا ہے جس کی وجہ یہاں اسماعیلی فرقے
کی اکثریت ہے۔ یہ اسلام کا ایک معتدل فرقہ ہے جس کی شناخت برداشت اور خواتین کے
حقوق کا پرچار ہے۔ یہاں لڑکیوں کی تعلیم اور ان کے لیے کھیلوں کی سرگرمیوں کی
حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اور متعدد لڑکیاں یونیورسٹی یا اس سے بھی آگے تک تعلیم
حاصل کرتی ہیں۔ ایسے ہی ماحول کی وجہ سے اس میوزک سینٹر میں بھی کئی لڑکیاں بھی
رباب تھامے موجود تھیں۔ تین طلبا نے ہریپ موسیقی کا نمونہ پیش کیا جو مقامی ہنزائی
دھنوں کا نام ہے جس میں ایک لمبا اور نسبتا پتلا رباب اور ساتھ میں چھوٹا ڈھول
بجایا جاتا ہے۔ کچھ ہی دیر میں کمرے میں سحر انگیز موسیقی گونج رہی تھی جس نے مجھے
خوشی کا احساس دلایا کہ وسطی ہنزہ کا روایتی فن ابھی زندہ رہے گا۔
پرانے التت کی پتھریلی گلیوں سے نکل کر میں نے قراقرم
ہائی وے کے ذریعے اس وادی کے سب سے مشہور مقام کی جانب رخ کیا۔ یہ ہنزہ بالا یا
مقامی طور پر گوجال کے نام سے جانا جاتا ہے۔ وسطی ہنزہ جیسی ثقافت رکھنے والے
گوجال میں مقامی لوگ واکھی زبان بولتے ہیں اور خیال کیا جاتا ہے کہ یہاں کے مقامی
سینکڑوں سال قبل واخان کاریڈور سے آ کر بسے تھے۔ ہائی وے کھلنے سے پہلے ہنزہ کے ان
دو علاقوں کے درمیان کئی دنوں کا سفر ہوا کرتا تھا۔ اب یہ صرف ایک گھنٹے کا سفر ہے
جس میں نیلی رنگ کی عطا آباد جھیل نے مجھے علاقے میں خوش آمدید کہا۔ قدرتی نظر آنے
والی یہ عطا آباد جھیل دراصل مصنوعی جھیل ہے جس کی پیدائش ایک سانحے کی وجہ سے
ہوئی۔ چار جنوری 2010 کو ایک سیلابی ریلے نے متعدد دیہات کو ملیا میٹ کرتے ہوئے
ہنزہ دریا کے پانی کا راستہ روک دیا تھا جس کے نتیجے میں ایک مصنوعی جھیل معرض
وجود میں آئی۔ پر آسائش ہوٹلوں میں گھری ہوئی اس جھیل کا نام بھی ایک ایسے گاؤں پر
رکھا گیا ہے جو 2010 میں تباہ ہو گیا تھا۔ اب یہ ہنزہ کی جدت کی علامت ہے بلکل
ایسے ہی جیسے قراقرم ہائی وے میں سفر کی آسانی کے لیے ہونے والی تبدیلیاں: چین
پاکستان دوستی کے نام سے پانچ سرنگیں 2015 میں مکمل کی گئی تھیں جن کو دیکھ کر
ایسا لگتا ہے کہ آپ دنیا کے کسی مصروف شہر میں موجود ہیں، اتنے دور دراز علاقے میں
نہیں۔ سڑک پر چند کلومیٹر کے سفر کے بعد مجھے بزلانج کیفے نظر آیا جو خواتین کی
ملکیت میں چلنے والا ریسٹورنٹ ہے اور ایسا کھانا فراہم کرتا ہے جس کی مجھے شدت سے
طلب ہو رہی تھی۔ پاکستانی خوراک مسالوں سے بھرپور ہوتی ہے لیکن ہنزہ کے روایتی
پکوان میں مسالے صرف پودینے کے چند پتوں کی شکل میں ہی موجود ہوتے ہیں۔ ان میں یاک
کا گوشت اور خوبانی کا تیل بکثرت استعمال ہوتا ہے۔ میں نے ’مول‘ کا آرڈر دیا جو
مقامی دودھ، چینی اور سیب اور سرکے کی آمیزش سے بنایا جانے والا مقامی پنیر ہے۔ اس
کے ساتھ ’غلمندی‘ بھی منگوایا جو دہی اور میوے سے بھری پتلی روٹی کا سینڈوچ تھا۔ ملیکہ
سلطانہ اور راشدہ بیگم اس ریسٹورنٹ کی مالک ہیں جنھوں نے مجھے بتایا کہ انھوں نے
2016 میں اس کا آغاز ان مقامی پکوانوں سے کیا تھا جو انھوں نے اپنی والدہ یا نانی
سے سیکھے تھے۔ گلمت گاؤں میں شروع ہونے والا یہ ریسٹورنٹ اب قراقرم ہائی وے کے ایک
خوبصورت موڑ پر واقع ہے۔ سلطانہ نے بتایا کہ ’مقامی پکوان کا رواج تقریبا ختم ہو
چکا تھا کیوں کہ ہمارے بچے یہ کھانے نہیں پکا رہے تھے۔ کوئی نہیں پکا رہا تھا۔ پھر
ہم نے آغاز کیا اور اب اور خواتین بھی شامل ہو چکی ہیں، اور لوگ یہ کھانے آتے
ہیں۔‘ مجھے علم ہوا کہ گوجال اور خصوصا گلمت خواتین کے کاروبار کا مرکز ہے۔
پاکستان میں عموما صرف 20 فیصد خواتین ہی کام کرتی ہیں جو دنیا کے اعتبار سے کافی
کم اوسط ہے لیکن ہنزہ وادی میں خواتین ریسٹورنٹ چلا رہی ہیں، دکانیں چلا رہی ہیں
اور لکڑی کا کام تک کر رہی ہیں۔ سلطانہ اور راشدہ کے ریسٹورنٹ سے کچھ ہی دور جہاں
میں نے پاسو کونز کو پہلی بار دیکھا، ایک اور مثال ملی۔ یہ کورگاہ نامی قالین کی
فیکٹری تھی جسے خواتین ایک 400 سال پرانے گھر میں چلا رہی ہیں۔
موئن جو دڑو:
تاریخ پڑھنے والوں کی نظر میں پاکستان کا ایک خاص مقام ہے ، کیونکہ یہاں موئن جو دڑو واقع ہے۔ انسانوں کی قدیم ترین تہذیب میں سے ایک ‘موئن جو دڑو’ 5 ہزار سال پرانا ہے۔ لاڑکانہ کے قریب دریائے سندھ کے ساحل پر واقع اس شہر کی دریافت 1920ء کی دہائی میں ہوئی تھی جبکہ 1980ء میں اقوامِ متحدہ نے اسے عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا یعنی اس کی حفاظت صرف پاکستان کی نہیں بلکہ پوری دنیا کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ اس شہر کا اصل نام کیا تھا؟ یہ آج تک معلوم نہیں ہو سکا، جس کی وجہ یہی ہے کہ یہ قدیم ترین تہذیبوں میں سے واحد تہذيب ہے جس کی زبان آج تک سمجھ نہیں آئی۔ دنیا کے تین عظیم ترین پہاڑی سلسلوں کا سنگم: دنیا کے تین سب سے بڑے پہاڑی سلسلے ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش ہیں۔ دنیا کی ٹاپ 36 چوٹیاں انہی تین پہاڑی سلسلوں میں واقع ہیں اور یہ تینوں سلسلے پاکستان میں ایک جگہ پر آ کر ملتے ہیں۔ گلگت شہر کے قریب جگلوٹ کے مقام پر دریائے سندھ اور دریائے گلگت کا ملاپ ہوتا ہے اور یہی وہ جگہ ہے جہاں آپ کو بورڈ پر لکھا نظر آئے گا "دنیا کے تین عظیم ترین پہاڑی سلسلوں کاسنگم”۔ یہاں سڑک کے دائیں جانب ہمالیہ کا سلسلہ ہے، سامنے قراقرم اور بائیں جانب ہندوکش۔ ہے نا حیرت انگیز جگہ؟
اُمید کی شہزادی:
مکران
کوسٹل ہائی وے بھی پاکستان کی خوبصورت ترین شاہراہوں میں سے ایک ہے۔ ساحل کے ساتھ
ساتھ چلنے والی اس شاہراہ پر آپ کو ویرانے میں ایک مجسمہ نظر آئے گا، جسے ‘امید کی
شہزادی’ کہتے ہیں۔ یہ مجسمہ کسی انسانی فن کی تخلیق نہیں بلکہ قدرت کا بنایا گیا
شاہکار ہے۔ آج ‘امید کی شہزادی’ مکران کے ساحلی علاقے کی علامت سمجھی جاتی ہے، جس
طرح مینارِ پاکستان لاہور کی علامت ہے۔ پرنسس آف ہوپ: بلوچستان میں ’امید کی
شہزادی‘ کے قدرتی عجوبے کو کس سے خطرہ ہے؟ اگر آپ لسبیلہ سے گوادر کی جانب سفر
کرِیں تو آپ کو ساحلی شاہراہ کے دونوں جانب ایسے پہاڑ دکھائی دیں گے جو پہلی نظر
میں کسی ماہر فنکار کے ہاتھوں تراشے ہوئے مجمسے لگتے ہیں۔ لیکن ماہرین آثار قدیمہ
کا کہنا ہے کہ یہ شاہکار قدرت کے ہاتھوں تخلیق ہوئے جس کی وجہ سمندری کٹاؤ اور چند
دیگر قدرتی وجوہات ہیں۔ انھی عجوبوں میں ’پرنسس آف ہوپ‘ (یعنی امید کی شہزادی)
نامی ایک مجسمہ بھی ہے جو دیکھنے میں کسی خاتون سے مشابہت رکھتا ہے۔ پرنسس آف ہوپ
ضلع لسبیلہ کے ساحلی علاقے میں صدیوں سے موجود ہے لیکن اسے عالمی سطح پر اس وقت
شہرت ملی جب ہالی وڈ کی ایک معروف اداکارہ نے اس علاقے کا دورہ کیا۔ سرکاری حکام
کے مطابق انھوں نے ہی اسے ’پرنسس آف ہوپ‘ کا نام دیا۔ تاہم گذشتہ کچھ عرصے سے اس
خدشے کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ پرنسس آف ہوپ انہدام کے خطرے سے دوچار ہے۔ ان
خدشات کے پیش نظر محکمہ آثار قدیمہ نے حکومت بلوچستان کو پرنسس آف ہوپ سمیت ایسے
دیگر مجسموں اور ڈھانچوں کے تحفظ کے لیے اقدامات کی تجویز پیش کی ہے۔ ضلع لسبیلہ
کے ڈپٹی کمشنر مراد کاسی نے بی بی سی کو بتایا کہ پرنسس آف ہوپ کے تحفظ کے لیے
عملی اقدامات کیے گئے ہیں جن میں پولیس اہلکاروں کی تعیناتی شامل ہے۔ پرنسس آف ہوپ
یا اس نوعیت کے دیگرمجسموں کے تحفظ کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیوں کیا جا رہا
ہے؟ اس سوال کا جواب جاننے سے قبل اس کا محل وقوع جانتے ہیں۔ پرنسس آف ہوپ کہاں
واقع ہے؟ یہ کوئٹہ کے جنوب میں اندازاً سات سو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع پرنسس آف
ہوپ کراچی کے قریب بلوچستان کے ضلع لسبیلہ میں واقع ہے۔ کراچی سے اس مقام تر رسائی
نسبتاً آسان ہے کیوںکہ یہاں سے اس کا فاصلہ ڈیڑھ سے پونے دو سو کلومیٹر کے درمیان
ہے۔ ہنگول نیشنل پارک کے پہاڑی سلسلے میں یہ اپنی نوعیت کا واحد مجسمہ نہیں ہے
بلکہ یہاں انسانوں کو حیران کر دینے والے اس طرح کے متعدد دیگر سٹرکچرز بھی ہیں۔ یونیورسٹی
آف بلوچستان میں شعبہ آثار قدیمہ کے لیکچرر عمران شبیر بلوچ نے بتایا کہ ’آپ ان کو
عجیب و غریب عجوبے کہہ سکتے ہیں کیونکہ اگر آپ ان کو دیکھیں تو آپ ضرور حیران ہوں
گے کہ یہ کسی انسانی کاوش کے بغیر کس طرح مختلف اشکال اختیار کر گئے ہیں۔‘ انھوں
نے کہا کہ ’یہ دراصل قدرتی طور پر مٹی سے بننے والے مڈ فارمیشن (Mud
Formation) ہیں جو آپ کو بزی ٹاپ سے لے کر گوادر میں
ایرانی سرحد کے قریب جیونی تک ملیں گے۔‘ پرنسس آف ہوپ کو یہ نام کس معروف اداکارہ
نے دیا؟ عمران
شبیر بلوچ نے بتایا کہ بلوچستان کے ساحل پر واقع یہ سٹرکچر اور مڈ فارمیشنز صدیوں
سے موجود ہیں لیکن خاتون سے مشابہہ مجسمے کو اس وقت بین الاقوامی سطح پر شہرت ملی
جب ہالی وڈ اداکارہ انجلینا جولی نے اس علاقے کا دورہ کیا۔ محکمہ آثار قدیمہ
بلوچستان کے ڈپٹی ڈائریکٹر جمیل بلوچ نے بتایا کہ سنہ 2002 میں انجلینا جولی نے
اقوام متحدہ کے خیرسگالی سفیر کے طور پر اس علاقے کا دورہ کیا تھا اور انھوں نے ہی
اسے پرنسس آف ہوپ کا نام دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ انجلینا جولی کے دورے کے بعد یہ
ملکی اور بین الاقوامی سطح پر لوگوں کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ عمران شبیر بلوچ نے
بتایا کہ آثار قدیمہ کے حوالے سے ان کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ
ماہر آثار قدیمہ جورج ڈیلز نے 1960ء میں اس علاقے کا دورہ کیا تھا جبکہ اسی طرح
فرانسیسی ماہرین کی ٹیم نے بھی اس علاقے کا دورہ کیا لیکن ان کو یہاں ایسے آثار
نہیں ملے جن کی بنا پر ان کی تعمیر کو انسانوں سے جوڑا جا سکے۔ تاہم جمیل بلوچ نے
بتایا کہ ان سٹرکچرز کے حوالے سے بعض دلچسپ نظریے اور آرا ضرور موجود ہیں۔ ان کا
کہنا تھا کہ کچھ ماہرین کی رائے میں یہ ہندوؤں کے مندر ہیں کیونکہ ان کا ایک اہم
اور بڑ امذہبی مقام ہنگلاج ماتا انھی کے قریب ہے۔ انھوں نے بتایا کہ یونانی سکالرز
میں سے بعض ان کو یونانی دیوتائوں کے تصورکے طور پر لیتے ہیں۔ تاہم ماہرین کی
اکثریت کی رائے میں یہ ڈھانچے سمندری کٹاؤ سمیت قدرتی عمل کے نتیجے میں بنے۔
انھوں نے بتایا کہ ’اب ان کو آثار قدیمہ کے قوانین کے
تحت ناصرف تحفظ حاصل ہے بلکہ ان کو نقصان پہنچانے کی صورت میں سزا بھی ہو سکتی
ہے۔‘ ان ڈھانچوں کو کیا خطرات ہیں؟ جمیل بلوچ کے مطابق ان سٹرکچرز کو اس وقت دو
قسم کے بڑے خطرات لاحق ہیں۔ گذشتہ دنوں سوشل میڈیا پر بعض ایسی تصاویر شیئر کی
گئیں جن میں پرنسس آف ہوپ کے قریب لوگ موجود تھے۔ بعض لوگوں نے کہا کہ ’پرنسس آف
ہوپ اب چند دنوں کی مہمان ہے‘ جبکہ بعض نے یہ بھی لکھ دیا کہ ’الوداع پرنسس آف ہوپ
الوداع۔‘ محکمہ آثار قدیمہ کے ڈپٹی ڈائریکٹر جمیل بلوچ نے بتایا کہ ’ایک خطرہ
انسانوں سے ہے جبکہ دوسرا بارش اور موسمی حالات سے۔‘ ان کا کہنا تھا ’اب سیاحوں کا
یہاں آنے کا رحجان زیادہ ہو گیا ہے جو کہ اچھی بات ہے لیکن لوگ یہ نہیں دیکھتے کہ
یہ چیز کتنی حساس اور نازک ہے وہ تصویریں اور ویڈیوز بنانے کے لیے سٹرکچرز پر
چڑھتے ہیں۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’اگرچہ یہ ہے تو ایک پتھریلا سٹریکچر لیکن اس کے
درمیان مٹی ہے اور جب لوگ ان پر تصاویر اور ویڈیوز بنوانے کے لیے چڑھتے ہیں توان
کے گرنے یا متاثر ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔‘ انھوں نے بتایا انسانوں کے علاوہ قدرتی
طور پر بڑا خطرہ بارشوں سے ہےکیونکہ ’بارشوں سے ان کے کٹاؤ کا خدشہ ہے اور اس سے
ان کے گرنے کے ساتھ ساتھ سٹرکچر میں تبدیلی کا بھی خدشہ ہے۔‘ ان ڈھانچوں کا تحفظ
کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟ جمیل بلوچ نے کہا کہ انھوں نے محکمہ آثار قدیمہ کی جانب سے
حکومت کو جو منصوبہ بھیجا ہے اس کا مقصد انسانوں اور قدرتی دونوں خطرات سے بچانا
ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ’ایک تو لوگوں کو شعور دلانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ ان کو
نقصان نہیں پہنچائیں جس کے لیے پرنسس آف ہوپ سمیت دیگر مقامات میں سے ہر ایک پر
پانچ سے چھ سائن بورڈ لگانے کی ضرورت ہے۔‘ ’ان سائن بورڈز پر یہ تحریر ہو کہ یہ
آثارقدیمہ ہیں اس لیے ان کو نقصان نہیں پہنچایا جائے۔ اور ان کو نقصان پہنچانا جرم
ہے۔ اس حوالے سے جو سزائیں ہیں وہ بھی ان سائن بورڈز پر تحریر ہوں۔‘ ’اس کے ساتھ
ان کے گرد خاردار تار یا اس طرح کے سٹرکچر بھی ہوں تاکہ لوگ ان کے قریب نہ جا سکیں
بلکہ وہ ایک فاصلے پر رہیں۔‘ ’اس کے علاوہ ان کو بارشوں سے بچانے کے لیے فائبر
گلاس لگائے جائیں اور یہ ماحول کے مطابق ہوں کیونکہ لوہے یا کنکریٹ کا کوئی سٹرکچر
اس علاقے میں دیرپا ثابت نہیں ہو سکے گا۔‘ انھوں نے گوادر کے علاقے جیونی میں جنگ
عظیم اوّل کے وقت انگریزوں کے بنائے گئے ایئرپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’یہ
سمندر کے ساتھ ہے لیکن اس کو اس طرح بنایا گیا ہے وہ آج تک محفوظ ہے۔‘ ’اس کو جاکر
دیکھیں۔ اس کا جو رن وے ہے اور اس پر جو ٹاور بنائے گئے ہیں وہ اس طرح بنائے گئے
ہیں کہ طویل عرصہ گزرنے کے باوجود ان کو کچھ نہیں ہوا۔‘ جمیل بلوچ کا کہنا تھا کہ
’ہم نے حکومت کو سٹاف کی فراہمی کے لیے بھی کہا ہے جن میں تین چوکیدار اور ایک
ٹورسٹ گائیڈ شامل ہو گا۔‘
اب تک پرنسس آف ہوپ کے تحفظ کے لیے کیا اقدامات کیے گئے
ہیں؟ پرنسس آف ہوپ کے تحفظ کے لیے اب تک ہونے والے اقدامات کے سلسلے میں جب ضلع
لسبیلہ کے ڈپٹی کمشنر مراد کاسی سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’بلوچستان
کے ساحلی علاقوں کا قدرتی حسن لوگوں کی توجہ کا مرکز ہیں اور سیاح بڑی تعداد میں آ
رہے ہیں۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’پرنسس آف ہوپ کے حوالے سے جن تحفظات کا اظہار کیا
جارہا تھا ان کا نوٹس لیتے ہوئے اس کے تحفظ کے لیے چند فوری اقدامات کیے گئے ہیں۔
جن میں پرنسس آف ہوپ کے سو میٹر کے علاقے میں لوگوں کے داخلے پر پابندی عائد کی
گئی جس کے باعث وہ اب اس کے قریب نہیں جا سکیں گے۔‘ ’اس کے علاوہ یہاں پر پولیس کی
نفری بھی تعینات کی گئی ہے تاکہ کسی کو تصویر یا ویڈیو بنوانے کے لیے زیادہ قریب
نہ جانے دیا جائے۔‘ انھوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ ان اقدامات سے ناصرف اس
شاہکار کو محفوظ بنانے میں مدد ملے گی بلکہ دیگر قدرتی طور پر بنے ڈھانچوں کے تحفظ
کے لیے اقدامات بھی کیے جائیں گے۔
ٹرینگو ٹاورز:
قراقرم کے پہاڑی سلسلے میں جتنی حیرت انگیز چٹانیں یہ
ہیں، شاید ہی کوئی دوسری ہو۔ ٹرینگو ٹاورز دنیا کی بلند ترین کھڑی چٹانیں (cliffs) ہیں اور انہیں کوہ پیمائی
کے لیے دنیا کی مشکل ترین چٹانیں سمجھا جاتا ہے۔ ان تین چٹانوں میں سے سب سے بڑی
گریٹ ٹرینگو ٹاور ہے، جس کی بلندی 6,286 میٹر یعنی 20,623 فٹ ہے۔ اس کے مشرقی حصے
میں دنیا کی تقریباً سیدھی سب سے بڑی ڈھلوان ہے۔
سرد صحرا: (سکردو)۔
پاکستان کا شہر اسکردو سطحِ سمندر سے 8 ہزار فٹ سے زیادہ بلندی پر واقع ہے۔ کے2 اور دوسرے بلند و بالا پہاڑوں کے لیے کوہ پیماؤں کا سفر اسی شہر سے شروع ہوتا ہے۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ اسی اسکردو شہر کے نواح میں دنیا کے بلند ترین سرد صحراؤں میں سے ایک واقع ہے؟ پہاڑوں کے دامن میں واقع اس صحرا کا دلکش ترین نظارہ سردیوں کے موسم میں ملتا ہے جب برف اس پورے صحرا کو ڈھانپ لیتی ہے۔ البتہ گرمیوں میں بلند و بالا پہاڑوں کے دامن میں ایک صحرائی ٹیلے دیکھنا بھی کسی عجوبے سے کم نہیں۔
دیوسائی:
اب پاکستان کے سب سے بڑے قدرتی عجوبے دیوسائی کا ذکر
کریں۔ یہ ساڑھے 13 ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ایک سطح مرتفع ہے۔ سطحِ مرتفع اس
میدان کو کہتے ہیں جس کے اردگرد کا علاقہ اونچا ہے۔ دیوسائی اونچا نہیں بلکہ بہت
بہت اونچا ہے کہ دنیا کی بلند ترین سطح مرتفع میں سے ایک ہے۔ دیوسائی کا مطلب ہے
‘دیووں کی سرزمین’۔ یہاں کی خاص بات ہے منفرد جنگلی حیات اور نباتات۔ یہاں کے
ہمالیائی بھورے ریچھ نایاب جانوروں میں شمار ہوتے ہیں جبکہ سنہرے مارموٹ، سرخ
لومڑی، پہاڑی بکرے، سرمئی بھیڑیے، برفانی تیندوے اور درجنوں اقسام کے مقامی اور ہجرت
کرنے والے پرندے یہاں پائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہزاروں اقسام کے پھول اور تتلیاں
بھی یہاں ملتی ہیں۔ پاکستان نے 3 ہزار مربع کلومیٹر پر پھیلے اس علاقے کو نیشنل
پارک کا درجہ دے رکھا ہے۔
دیوسائی میں جنات کا بسیرا:
دیو سائی جانے کیلئے اسلام آباد سے شاہراہ قراقرم براستہ ایبٹ آباد، مانسہرہ ، بشام، چلاس کا سفر دل کش ہے،پونجی کے مقام پر شاہراہ اسکر دو شروع ہوتی ہے۔ اسکردو سے دیو سائی کا فاصلہ 35 کلومیٹر ہے۔دیو سائی گلگت بلتستان میں بولی جانے والی مقامی زبان ' شینا ‘‘ کا لفظ ہے جو در حقیقت Deo saiتھا۔بعد میں بگڑتے بگڑتے دیو سئے سے دیو سائی بن گیا ۔مقامی زبان میں Deoسے مراد جن جبکہ سئے (sai) سے مراد آبادی یا سر زمین کے ہیں۔یوں مقامی طور پر اسکا مطلب دیو یاجنوں کی سر زمین ہی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ دیو سائی سرزمین کو یہ انفرادیت بھی ورثے میں ملی ہے کہ یہاں بھورے رنگ کے نایاب ریچھ دنیا کے کسی اور خطے میں نہیں پائے جاتے۔لیکن تشویش ناک بات یہ ہے کہ یہ محدود تعداد میں رہ گئے ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق بھورے رنگ کے ان نایاب ریچھوں کی تعداد محض تیس رہ گئی ہے جبکہ کبھی یہاں سینکڑوں کی تعداد میں بھورے رنگ کے یہ ریچھ بلا خوف پھرا کرتے تھے مگر انسانی لالچ نے اس نایاب اور پاکستان کے سب سے بڑے ہمہ خور ( سبزی اور گوشت کھانے والا)جانور کا شکار کر کے اس کی نسل کو محدود کر دیا ہے۔حالانکہ 1993 سے اس پارک کو '' قومی پارک‘‘ کا درجہ دے دیا گیا تھا جس کے تحت اس پورے علاقے میں شکار پر مکمل پابندی لگی ہوئی ہے۔اس منفرد ریچھ کے بارے میںکہا جاتا ہے کہ یہ نومبر سے اپریل تک غاروں میں رہتا ہے۔جب برف پگھلناشروع ہوتی ہیں تو یہ اپنی غار سے باہر نکلتا ہے۔ ریچھ کے علاوہ یہاں مارخور ، تبتی بھیڑیا ،لال لومڑی، ہمالین آبیکس، اڑیال، برفانی چیتے اور نایاب پرندے ( فیلکن، گولڈن ایگل اور داڑھی والا عقاب ) بھی پائے جاتے ہیں۔ جب آپ دیو سائی کی داخلی چیک پوسٹ عبور کر کے آگے آتے ہیں تو حد نگاہ آپ کو سر سبز ڈھلوانوں پر گھاس کھاتے خوبصورت یاک اور لمبے بالوں والے کالے اور گولڈن رنگ کے بکرے دیو سائی سرزمین کے اصل حسن میں اپنا حصہ ڈالتے نظر آتے ہیں ۔یہ چاروں طرف سے برف پوش پہاڑیوں سے سال کے بیشتر حصے تک گھرا رہتا ہے۔البتہ گرمی کے چار مہینو ں میں برف پگھلتے وقت ہر طرف سبزے اور رنگ برنگے جنگلی پھولوں کا راج ہوتا ہے جو دیکھنے والوں کو مبہوت کر دیتے ہیں۔ یہاں صرف سبزے اور پھولوں پر ہی بس نہیں جا بجا پانی کے بہتے چشموں کے اندر تیرتی رنگ برنگی مچھلیاں یہاں کے حسن میں اور بھی اضافہ کر دیتی ہیں۔ یہاں حیران کن بات یہ ہے کہ بلندی کے باعث پورے دیو سائی میں ایک بھی درخت نہیں ہے جس کے سبب پرندے اپنا گھونسلہ زمین پر ہی بناتے ہیں۔البتہ یہاں پر بہت بڑی تعداد میں نایاب جڑی بوٹیاں کثرت سے پائی جاتی ہیں جو ارد گرد کے لوگ ادویات کے لئے استعمال کرتے ہیں۔
اب ہم جدید دنیا کے سات تعمیراتی عجائباتِ عالم سے آپ
کو متعارف کراتے ہیں۔2007ء میں 10 کروڑ سے زائد لوگوں نے جدید دنیا کے جن سات
عجائبات کیلئے اکثریتی ووٹ دئیے تھے، انہیں بغیر کسی رینکنگ کےعالمی ورثے کے طور
پر پیش کیا جارہا ہے۔
تاج محل، آگرہ:
تاج محل بھارت کے شہر آگرہ میں واقع ایک مقبرہ ہے۔ مغل بادشاہ شاہ جہاں نے اپنی بیوی ممتاز کی یاد میں اس کی تعمیر کروائی تھی۔ تاج محل مغل طرز تعمیر کا عمدہ نمونہ ہے۔ اس کی تعمیراتی طرز فارسی، ترک، بھارتی اور اسلامی طرز تعمیر کے اجزاء کا انوکھا ملاپ ہے۔ 1983ء میں تاج محل کو اقوام متحدہ کے ادارہ برائے تعلیم، سائنس اور کلچر نے عالمی ثقافتی ورثے میں شمار کیا۔ اس کے ساتھ ہی اسے عالمی ثقافتی ورثہ کی جامع تعریف حاصل کرنے والی، بہترین تعمیرات میں سے ایک بتایا گیا۔ تاج محل کو بھارت میں اسلامی فنِ تعمیر کا عملی اور نایاب نمونہ بھی کہا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس میں یہ عجوبہ ہے کہ جب بارش کا پہلا قطرہ اس کی کھلی چھت پر سے زمین پہ گرتا ہے تو کھلی چھت اپنے آپ بند ہوجاتی ہے۔
دیوار چین،چین:
حضرت عیسیٰ ؑکی پیدائش سے تقریباً دو سو سال پہلے چین کے بادشاہ چن شی ہوانگ نے اپنے ملک کو دشمنوں کے حملوں سے محفوظ کرنے کے لیے شمالی سرحد پر ایک دیوار بنانے کا ارادہ ظاہر کیا۔ اس دیوار کی ابتدا چین اور منچوکو کی سرحد کے پاس سے کی گئی۔ یہ دیوار خلیج لیاؤتنگ سے منگولیا اور تبت کے سرحدی علاقے تک پھیلی ہوئی ہے۔ اس کی لمبائی تقریباً پندرہ سو میل ہے اور یہ 20سے لے کر30فٹ تک اونچی ہے۔ اس کی چوڑائی نیچے سے25فٹ اور اوپر 12فٹ کے قریب ہے۔ اس میں یہ خصوصیت ہے کہ یہ خلاء سے نظر آتی ہے۔
ایل کاستیو، چیچن ایتزا:
ایل کاستیو
(El Castillo) جس کے ہسپانوی معنی
"قلعہ" کے ہیں، اسے کُوکُلکان کا مندر
(Temple of Kukulcan) بھی کہا جاتا ہے۔ میکسیکو
کی ریاست یوکتان کے آثار قدیمہ کے مقام چیچن ایتزا میں واقع یہ تعمیراتی شاہکار
میسوامیریکن (Mesoamerican) طرز
پر سیڑھی نما اہرام کی شکل میں بنا ہواہے۔ یہاں سب سے اہم ایل کاستیو رصد گاہ ہے
،جس کے ذریعےآسمان کا مشاہدہ کرتے ہوئے ستاروں کی حرکات، وقت،موسم اور قسمت کا
حال معلوم کیا جاتا ہے۔
ماچو پیچو،پیرو:
ماچو پیچو
(Machu Picchu) جنوبی امریکا میں پیرو کے
علاقے کاسکو میں واقع ہے۔ یہ سطح سمندر سے 2430میٹر (7972فٹ) بلندہے۔ اسے
"انکاؔ کا شہر" بھی کہا جاتا ہے۔ماچو پیچو انکاؔ سلطنت کے عروج کے دور میں
1450ء کے دوران تعمیر کیا گیا تھا، اس کا قدیم ’انکاؔ قلعہ‘ بہت سی معروف سیاحتی
فہرست میں شامل ہے۔ انکاؔ تہذیب کا اچانک غائب ہوجانا آج بھی ایک معمہ ہے۔ ماچو
پیچو میں پتھر کی بنی216عمارتیں ہیں، جو سیڑھیوں سے جڑی ہیں۔
مسیح نجات دہندہ مجسمہ،ریوڈی جینر:
مسیح نجات دہندہ
(Christ the Redeemer) ریو ڈی جینرو، برازیل میں
یسوع مسیح کا ایک فنی آرائشی مجسمہ ہے۔ یہ 30میٹر (98فٹ) لمبا ہے، جس میں اس کی
8میٹر (26فٹ) اُونچی چوکی شامل نہیں، اس کے بازو 28میٹر (92فٹ) وسیع ہیں۔1922ء
سے1931ء کے درمیان کورکووڈو(Corcovado) پہاڑی
پر بنائے گئے اس مجسمے کا آرٹ، ڈیکو اسٹائل کا ہے۔ یہ مجسمہ برازیل کے شہریوں پر
اپنا دستِ شفقت بلند کیے ہوئے ہے۔
پیٹرا یا بترا، اُردن:
سن 1985ء
میں عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا جانے والا پیٹرا شاہ آرتاس چہارم کی نبطی سلطنت
کا دارالحکومت تھا۔ اس تہذیب کے ہنرمندوں نے پانی کی ٹیکنالوجی کو فروغ دیا۔
پیچیدہ سرنگوں اور پانی کے چیمبروں کی تعمیر میں اپنا لوہا منوایا، جس سے یہ ویران
صحرائی خطہ، نخلستان میں تبدیل ہوگیا۔ پتھروں کو تراش کربنایا جانے والا 4ہزار
نشستوں والا ایمفی تھیٹر اور ایل ڈییر خانقاہ اس تہذیب کے ماہرینِ تعمیرات کی فنی
عظمت کے عکاس ہیں۔
رومن کولوزیئم،روم:
کولوزیئم
(Colosseum) دنیا بھر میں روم کی پہچان سمجھا جاتا
ہے۔ یہ اکھاڑہ 80بعد از مسیح میں رومن بادشاہ ٹائٹس نے تعمیر کرایا تھا۔ اس کے
افتتاح کے100دن تک رومی باشندوں نے خونی کھیلوں کا مظاہرہ کیا، جس میں غلاموں کو
لڑایا جاتا تھا اور انھیں Gladiators کہا
جاتا تھا۔ اس عرصے میں تقریباً 9 ہزار جانور اور انسان موت کی بھینٹ چڑھے۔ اس
اکھاڑے میں 50 ہزار افراد کے بیٹھنے کی گنجائش تھی۔ اس اکھاڑے میں زمین پر ریت کی
دبیز تہہ بچھائی جاتی تھی، تاکہ خون جذب ہو سکے۔
قدیم دنیا
کے 7
عجائباتِ عالم
زمانۂ قدیم کے7 عظیم تعمیراتی شاہکاروں کو ۷؍عجائبات
عالم کہا جاتا ہے۔ عجائبات کی یہ فہرست305 سے 204قبل مسیح کے دوران ترتیب دی گئی۔
تاہم، مذکورہ فہرست زمانے کی دست برد کی نظر ہو گئی۔ ان۷؍ عجائبات کا ذکر 140قبل
مسیح کی ایک نظم میں بھی ملتا ہے۔بہت سے افراد کو قرون وسطیٰ اور جدید دور کے
عجائبات عالم کا علم تو ہے مگر قدیم زمانے کے ان 7 عجائبات کا علم کم کم ہے۔ جانئے
ان عجائبات کے بارے میں۔ تمام تصاویر: یوٹیوب،آئی این این۔
اہرام مصر،مصر، (Great Pyramid of Giza):
جیزا کاعظیم اہرام 2570ءقبل
مسیح میں بنایا گیا تھا۔ مذکورہ تمام عجائبات میں صرف یہی اب تک موجود ہے۔ خیال
کیا جاتا ہے کہ اسے مکمل کرنے میں20 سال کا عرصہ اور ایک لاکھ کارکنوں کی مدد لگی
تھی۔ اسے ایک کمپلیکس کے حصے کے طور پر بنایا گیا تھا۔
زیوس کا مجسمہ،یونان، (Statue of Zeus): :
اولمپیا میں زیوس کا مجسمہ 430ء قبل مسیح میں بنایا گیا
تھا جو 426ء قبل مسیح میں آتشزدگی کی وجہ سے تباہ ہوگیا تھا۔ مجسمہ ساز فیڈیاس نے
اسے بنایا تھا۔ بہت سے مورخین کا خیال ہے کہ مجسمے کو قسطنطنیہ منتقل کیا گیا تھا
اور تقریباً ۵۰؍سال بعد اسے تباہ کر دیا گیا۔
ریوڈس کا مجسمہ،یونان،(Colossus of Rhodes): :
اس باغ کو 600ء قبل مسیح میں بنایا گیا تھاجو 226ء قبل
مسیح میں زلزلے سے تباہ ہوگیا تھا۔ اس کے متعلق دلچسپ بات یہ ہے کہ بیشتر مورخین
اسے کے وجود کا انکار کرتے ہیں جبکہ کچھ کا خیال ہے کہ اسے ادشاہ نبوچادریزر دوم
نے اپنی بیوی کیلئے بنائے تھے کیونکہ وہ اپنے گھر کے باغات کو یاد کرتی تھیں۔
آرٹیمس کا مندر،ترکی،(Temple
of Artemis): :
اسے 550ءقبل مسیح میں بنایا گیا تھا جو356ء قبل مسیح
میں آتشزدگی کی وجہ سے تباہ ہو گیا تھا۔بعد میں یہ تباہی اور تعمیر نو کے کئی
مراحل سے گزرا۔ در اصل یہ مندر آرٹیمس( شکار کی یونانی دیوی) کو منانے کیلئے
تعمیر کیا گیا تھا جو بعد میں ایک معبد بن گیا۔ اس کے چند باقیات برٹش میوزیم میں
موجود ہیں۔
ہالی کارناسس کا مقبرہ،ترکی،(Mausoleum
at Halicarnassus): :
اسے 352ءقبل مسیح میں تعمیر کیا گیا تھاجو 1404ءءمیں
زلزلے سے تباہ ہو گیا تھا۔ اس یادگار کو سلطنت فارس کے ایک گورنر موسولس اوراس کی
بیوی اور بہن آرٹیمیسیا دوم کیلئے بنایا گیا تھا۔یہ مقبرہ تقریباً 41میٹر 135 فٹ)
اونچا تھا۔اس کے باقیات آج بھی برٹش میوزیم میں موجود ہیں۔
مرتب: کاشف فاروق۔
No comments:
Post a Comment