URDU STORIES:

اردو ادب اور کہانیوں میں خوش آمدید ۞ قصہ کہانیاں ۞ غزلیں ۞ نظمیں ۞ واقعات ۞ طنزومزاح ۞ لاہور کی پنجابی۞ کچھ حقیقت کچھ افسانہ ۞ پراسرار خواب والی ٹیکنالوجی ۞ میری فیملی کا ذاتی شجرہ نسب سن 1790ء تا 2023ء۔ ۞ قومی پیمانہ ۞ تباہی و زلزلے ۞ دو سو سالہ کیلینڈر ۞ اردو سافٹ وئیر ڈاؤنلوڈ ۞۔
Showing posts with label DEHSHATGARDI KA KHATMA. Show all posts
Showing posts with label DEHSHATGARDI KA KHATMA. Show all posts

DEHSHATGARDI KA KHATMA 2008-2022 - دہشت گردی کا خاتمه


پہلا حصہ مورخہ09-04-2008۔ کو اپ لوڈ کیا

دہشت گردی کا خاتمه




آج 03-04-2008 کی یه خبر بهت خوش آئیند ہے که ہمارے فوجی سربراه جنرل اشفاق کیانی صاحب وزیر اعظم ہاؤس گئے اور وزیراعظم صاحب سے بشمول حکومت میں شامل سیاسی قیادت سے بات چیت کی۔ یه ایک بڑی تبدیلی ہے، کیونکه پهلے تمام میٹنگز 3 ایچ کیو میں ہوتی تھیں، دراصل پستی حکومت عوام کی نمائنده نه تھی۔ وه لوگ بظاهر تو الیکٹڈ تھے، مگر سلیکٹڈ۔

شنید ہے که فوجی قیادت نے دہشت گردی کے بارے میں امریکی و اپنی سابقه پالیسی کے بارے میں حکومت کو بریف کیا ہے۔ فوجی قیادت کا فرض پورا ہوچکا۔ اب یه ہمارے سیاست دانوں کا کام ہے که وه اس مسئله کو آپس میں بیٹھ کر صلح مشورے سے اس کا حل نکالیں اور عوامی رائے کا احترام کریں۔ عوامی رائے یهی ہے که امریکه کے ڈالروں کو نه دیکھا جائے اپنی عزت نفس کو دیکھا جائے۔ اگر ہم متحد رہیں گے تو امریکه ہمارا کچھ نه بگاڑ سکے گا۔ ایرانی صدر احمدی نژاد کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ ہم نے دیکھا که ایرانی صدر اپنے موقف پر ڈٹ گئے کیونکه انکے پیچھے عوام تھی۔ ان کو پیچھے سے مکمل سپورٹ تھی۔ اب ہماری قیادت کو بھی عوامی سپورٹ ہے۔ ہمیں اپنے ملک کو بچانا ہے۔ جن کو ہم دہشت گرد کهتے ہیں دراصل یه ہمارے ہی بھائ ہیں جب ہم ان پر ظلم کریں گے تو وه انتقام تو لیں گے ہی۔ ہمیں امن کی ضرورت ہے۔ ہم نے اپنے ملک کو ترقی کی شاهراه پر گامزن کرنا ہے۔ اس لیے ہمیں دوسرے کے مفادات کی جنگ نهیں لڑنی چاہیے۔

کهتے ہیں که ان تشدد پسندوں کی قیادت القاعده کرہی ہے، مگر یه تو سوچیے القاعده والے کون ہیں۔ یه وہی لوگ تو ہیں جنهوں نے روس کے خلاف افغان جنگ میں حصه لیا تھا۔ اس وقت تو ہم سب ان کو مجاہد کهتے تھے۔ ان کو خوب اسلحه بارود دیکر جنگ میں جھونکتے تھے۔ اس وقت وه ہمارے بھائ تھے۔ مگر اب ہم انهیں دہشت گرد کهتے ہیں، اب ان لوگوں کی حالت ایسی ہے که وه نه تو واپس اپنے ملکوں میں جاسکتے ہیں اور نه ہی ہم انهیں اپنے ملک میں رہنے کی اجازت دے رہے ہیں۔ حالانکه سنا ہے که یهاں انهوں نے رشته داریاں بھی کرلی ہیں۔ وه اب ہمارے شهری بن چکے ہیں۔ لهٰذا اس سلسلے میں عرض کروں گا که قبائلی سرداروں سے بات چیت کی جائے۔ فوج کو فوراً واپس بلایا جائے اور هر قسم کے حملے بند کیئے جائیں بلکه تمام لوگوں کو عام معافی دی جائے۔ امریکه سے صاف کهه دیا جائے که اب ہم تمهاری پالیسی پر عمل نهیں کرسکتے۔ ہم اپنے مسائل خود ہی حل کریں گے۔ دوسری طرف افغانستان کے صدر حامد کرزئ سے بھی بات چیت کی جائے وه طالبان سے روابط بڑھائیں اگر افغانستان میں بھی تمام گروه اور قبائل آپس میں متحد ہوجاتے ہیں پھر وہاں سے بھی امریکه کو نکالنا مشکل نه ہوگا۔

حالات یه بتا رہے ہیں که وہاں کرزئ صاحب کو ملک و قوم کیلیے قربانی دینا ہوگی کیونکه شاید طالبان انھیں کبھی قبول نه کریں۔ ہم دوسرے ملکوں کے معاملات میں مداخلت تو نهیں کرسکتے۔ مگر چونکه ہماری سرحدیں ملی ہوئ ہیں اس لئیے صرف مشترکه پالیسی ہی کامیاب ہوسکتی ہے۔ اصل مسئله یهی ہے که امریکه اس خطے سے اپنا بوریا بستر گول کرے۔

پاکستان میں امن تبھی ہوگا جب افغانستان میں بھی امن ہوگا، دونوں ملکوں کے رشتے بهت پرانے ہیں اور قبائلی علاقوں میں رہنے والے لوگوں کی آپس میں رشتے داریاں ہیں۔ طالبان کے دور حکومت میں ہمارے افغانستان سے بهت اچھے مراسم تھے اور وه بڑا پر امن دور تھا۔ ہم دوباره طالبان رہنماؤں سے بات چیت کا سلسله شروع کرسکتے ہیں۔کسی طرح انهیں اس بات پر آماده کرلیں که وه موجوده افغان قیادت سے تعلقات ہموار کریں اور حکومت کا حصه بن جائیں۔ جب وہاں بھی عوامی قیادت ہوگی، پھر امریکه کو نکالنا کوئ مشکل کام نه ہوگا۔

عراق میں کیا ہورہا ہے؟؟؟ آج اگر امریکه واپس چلا جائے تو وہاں بھی امن ہوجائے گا۔ کیونکه تاریخ گواه ہے مسلمان کبھی غیر کا قبضه برداشت نهیں کرسکتا۔ اس لیئے ہمیں افغانستان کو بھی ساتھ لیکر چلنا ہوگا۔ تب ہی اس خطے میں دیر پا امن قائم ہوگا۔


منجانب: کاشف فاروق۔ لاہور سے۔