ݐــــاکــــستان میں قــــومی یــــکجہتی
قــــومی یــــکجہتیِ ݐــــاکــــستان
جس انداز سے مسائل کے حل کو بنیاد بنا
کر ملک دشمن نعروں اور رویے کا مظاہرہ کیا گیا۔ وہ یقینا مسائل کے حل سے زیادہ
گھمبیر معاملہ نظر آتا ہے۔ جس طرح اشتعال انگیزی پیدا کرکے اور عصبیت کو استعمال
کر کے ریاست کے خلاف ہرزہ سرائی کی گئی وہ کم از کم ابھی تک تو کامیاب نہیں ہوسکی۔
شاید قسمت ساتھ دے رہی ہے۔ مسائل کا ہونا بجا ہے، شکوہ شکایت بھی سر آنکھوں پر،
مگر ریاست اور ریاستی اداروں کے خلاف مہم یقیناً تکلیف دہ ہے۔ بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے 24 اکتوبر 1947ء کو
اپنے ایک خطاب میں کہا تھا: ''ہم جتنی زیادہ تکلیفیں سہنا اور قربانیاں دینا
سیکھیں گے اتنی ہی زیادہ پاکیزہ، خالص اور مضبوط قوم کی حیثیت سے ابھریں گے۔ جیسے
سونا آگ میں تپ کر کندن بن جاتا ہے۔'' سو یہ راستے میں بچھے کانٹے،
مشکلات اور مسائل منزل نہیں ہیں کہ ہم ان میں ہی اُلجھ کر رہ جائیں۔ ہمیں اپنے
مستقبل کو بہتر بنانا ہوگا، مِل کر جدوجہد کرنا ہو گی۔ اس سرزمین کو اب نعروں سے زیادہ عمل کی
ضرورت ہے۔
دراصل حقیقت میں ایسا ہی ہے
کہ AS A
NATION ہماری کوئی پہچان نہیں ہے دنیا کے ممالک میں۔
پچھلے دنوں 2020ء میں کرونا کی بیماری پھیلی تھی۔ قوم سے کہا جاتا تھا کہ آپ ماسک پہنیں۔ آپ
ماسک نہیں پہنتے۔ قومی پیمانے پہ حقیقتاً آج
2022ء میں ہماری پاکستانی
قوم میں قومی یکجہتی نہ ہونے کے برابر ہے۔ منزل بہت قریب ہوتے ہوئے بھی آپ حاصل نہیں کررہے، اگر بات
کو ذرا سنگینی سے سمجھ لیا جائے تو منزل کو پا سکتے ہیں۔ سازشیں کرنے والے بھی مختلف چہروں اور حُلیوں کے ساتھ ہماری صفوں میں
دراڑیں پیدا کر کے قوم کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔ ہمیں بطور قوم مسائل پر نہ صرف
نظر رکھنا ہے، انہیں حل کرنا ہے، بلکہ دشمن کی چالوں سے باخبر بھی رہنا ہے اور اُن
کا مؤثر جواب بھی دینا ہے۔ پاکستان ہم سب کا ہے اس کی
حفاظت کو یقینی بنانا بھی ہم سب ہی کا فرض ہے۔
سن 2012-13 ء میں امریکہ سے آنے والی خبروں نے مجھے سب سے زیادہ جس چیز نے متاثر کیا وہ امریکی عوام کا باہمی اتحاد اور یگانگت تھی۔ بحرالکاہل سے لے کر بحراوقیانوس تک پھیلے ملک امریکہ کو دنیا کی عالمی طاقت بنانے میں جہاں اس کی سائنس، ٹیکنالوجی اور دیگر مادی ذرائع نے اہم کردار ادا کیا وہاں ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ امریکی قوم کے اندر اتحاد اور اتفاق پایا جاتا ہے۔ وہاں کے لوگ اپنی ریاست اور سرزمین سے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔ سیاسی طور پر امریکہ دو بڑی جماعتوں پر مشتمل ہے جو باری باری حکومت کرتی رہی ہیں مگر عوام کی اکثریت اپنی منتخب حکومت کی حمایت کرتی ہے۔ ہر چار سال بعد 20 جنوری کو منعقد ہونے والی صدارتی تقریب حلف برداری میں تمام زندہ سابق امریکی صدور کی بمعہ بیگمات شرکت یہ ظاہر کرتی ہے کہ وہ سب اپنے ملک کی سلامتی اور ترقی کے لئے ایک ہیں۔ امریکہ کی ترقی کے پیچھے کون سے راز کار فرما ہیں؟ اس موضوع پر مجھے کئی امریکی پروفیسروں کے آرٹیکل آن لائن پڑھنے کا موقع ملا ۔ میں نے ایک بار ایک امریکی پروفیسر سے آن لائن ای میل پہ پوچھا کہ امریکہ کی مختلف ریاستوں کے شہری اپنی ریاست کے نام والی ٹوپی ، شرٹ یا جیکٹ پہنتے ہیں۔ کیا یہ دوسروں سے نفرت نہیں ہے؟ جواب ملا نہیں یہ دوسروں سے نفرت نہیں بلکہ شہریوں کا اپنی اپنی ریاست سے والہانہ لگائو ہے اور انہیں اپنی شناخت پر فخر ہے لیکن اس کا مطلب دوسروں سے نفرت ہر گز نہیں۔ میں نے محسوس کیا کہ امریکی عوام اپنے ملک کی عالمی برتری پر بھی نازاں ہیں دوسری طرف پاکستان جیسے غریب اور حساس ملک میں جہاں عوامی سطح پر عالمی طاقت کے حوالے سے امریکہ کے بارے میں اچھے جذبات نہیں پائے جاتے لیکن ہمیں اتنا تو سوچنا چاہئے کہ غیروں نے ترقی کیسے کی۔ کن خصوصیات نے انہیں اس قابل بنایا کہ وہ دنیا کی قیادت کر رہے ہیں ۔ کیا ہمارے اہل علم اور اہل دانش کے پاس اتنی فرصت بھی نہیں کہ اقوام عالم کی ترقی کی وجوہات پر ہی غور کر لیں اور اپنی پسماندہ قوم کو بتائیں کہ ترقی سیاسی منافرتیں اور نفرتیں پھیلانے سے حاصل نہیں ہوتی اور نہ ہی حکومتوں کے خلاف جلسے جلوس منعقد کرنے سے ہوتی ہے، بلکہ کسی بھی قوم کی ترقی کے لئے سب سے زیادہ ضروری وہاں کے لوگوں کا اتحاد اور اتفاق ہوتا ہے۔ یہی وہ جذبہ تھا جو 1947ء میں قیام پاکستان کا موجب بنا۔ تحریک پاکستان کے اکابرین اور رہنماؤں نے ہندوستان کے بھر پور اتحاد اور اتفاق کی بدولت ایک بھر پور سیاسی مہم چلائی جو بالآخرکر کامیاب ہوئی اور پاکستان معرض وجود میں آیا۔ جب تک پاکستانی قوم اتحاد اور یگانگت کے اصولوں پر کار فرما رہی یہ قوم بے پناہ مسائل کے باوجود آگے بڑھتی رہی۔ لیکن جب ہماری قوم نے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے بتائے ہوئے تین سنہری اصولوں''ایمان,اتحاد، تنظیم'' کو پس پشت ڈال دیا، رسوائی اس کا مقدر ٹھہری۔
پاکستان کے پاس ترقی اور کامیابی کے لئے اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ اپنا بھولا ہوا سبق یاد کرے اور باہمی اتحاد اور اتفاق کا راستہ اختیار کرے۔ اس سلسلے میں سب سے اہم کردار قومی قیادت کا ہے کیونکہ وہی قوم کو ایک جامع پالیسی دے کر متحد کر سکتی ہے۔ عالمی سطح پر پاکستان کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔ کیونکہ بھارت اور اسرائیل جیسے دشمن ممالک پاکستان کے خلاف عالمی سازشوں میں مصروف ہیں اور انہیں غیر اعلانیہ طور پر بعض عالمی طاقتوں کی سرپرستی بھی حاصل ہے جیسے امریکہ اور برطانیہ۔ مجموعی طور پر امریکہ، برطانیہ، انڈیا اور اسرائیل چاروں پاکستان کے جانی اور بدترین دشمن ہیں۔ بہرحال پاکستان نے 1998ء میں ایٹمی دھماکے کرکے ان چاروں کے گلے میں ہڈی پھنسا دی ہے۔
اپنے محدود وسائل کے باوجود پاکستان عالمی سطح پر بھر پور کردار ادا کر رہا ہے لیکن اندرونی مسائل بھی کم نہیں، غربت، افلاس، بیماریاں، کووڈ19- کی وجہ سے مالی، معاشی اور دیگر بے شمار مسائل ہیں جن کی وجہ سے ترقی کی رفتار بہت کم ہے۔ سیاسی افراتفری اور انتشار نے بھی ملک و ملت کو بے پناہ نقصان پہنچایا۔ آئے دن کی ہڑتالوں اور مظاہروں نے بھی ترقی کی رفتار کم کر دی ہے۔ جو کنٹینر سامان لےجانے اور تجارت میں استعمال ہونے چاہئیں وہ الٹا سڑکیں بلاک کرنے اور کاروبار تباہ کرنے میں استعمال ہورہے ہیں، جیسے ہڑتالیں وغیرہ۔ ماضی میں بعض عاقبت نا اندیش سیاسی رہنمائوں نے بھی نفرت کے بیج بوئے اور بھائی کو بھائی سے لڑوایا ۔ کہیں سندھودیش کا نعرہ لگایا تو کہیں پختونستان اور گریٹر بلوچستان کے نعرے لگا کر قوم کو تقسیم کیا۔ قوم کو تقسیم کرنے والوں نے غیر ملکی آقائوں کو خوش کرنے کے لئے ملک و ملت کو بہت نقصان پہنچایا۔ ان ممالک میں امریکہ پیش پیش ہے۔ آج کل تو جنوبی پنجاب والے بھی شور مچا رہے ہیں کہ ہمیں سرائیکستان یا جنوبی پنجاب صوبہ بنا کردو۔
اہل پاکستان نفرتوں کی
دلدل میں اس قدر پھنس چکے ہیں کہ ان کو نفرتوں کے اس چنگل سے باہر نکالنا آسان کام
نہیں بلکہ ناممکن بنتا جارہا ہے کیونکہ ہم آئی ایم ایف کے قرضوں
میں بری طرح جکڑے جاچکے
ہیں۔ اہل پاکستان کو قومی اتحاد و یگانگت کی لڑی میں پرونا ہماری سیاسی و فکری
قیادت کی اہم ترین ذمہ داری ہے۔ مگر پیسہ کی قدر میں کمی اور زبردست مہنگائی کی وجہ سے سب اپنے اپنے ذاتی مسائل میں الجھ کر رہ گئے ہیں۔ ہر ایک کو اپنی اپنی پڑ گئی۔ روٹی
پانی کے لالے پڑتے نظر آرہے ہیں مہنگائی کی وجہ سے۔ کھانا پینا محال ہورہا ہے قوم
کا، تو ایسے میں قومی
یکجہتی کہاں سے آئے گی؟؟؟
پاکستان کی ترقی ، کامیابی و خوشحالی کا واحد راستہ قومی اتحاد میں مضمر ہے۔ پاکستانی قوم نے بہت سے مواقع پر بے مثال اخوت اور بھائی چارے کا مظاہرہ بھی کیا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس ملک کے لوگوں میں باہمی اخوت اور قربانی کا جذبہ بدرجہ اتم پایا جاتا ہے۔ مگر پیسے کی قلت یا پیسے کی ڈی ویلیوایشن، افراطِ زر اور دیگر معاشی مسائل کی وجہ سے سب قومی یکجہتی کو بھول گئے۔ پاکستان کو قدرتی آفات نے بھی بارہا اپنے پنجے میں لیا، اس ملک پر بہت سے مشکل حالات آئے۔ 1998ء میں پاکستان نے ایٹمی دھماکے تک کئے۔ لیکن ساتھ میں بہت سی عالمی طاقتیں خواہ مخواہ ہمارے خلاف میدان میں آگئیں اور پاکستان پر بہت سی پابندیا ں لگا دی گئیں۔ حالانکہ پاکستان نے یہ اقدام خطے میں دفاعی توازن قائم رکھنے کے لئے کیا تھا۔ دشمن ملک انڈیا نے کئی بار جنگ مسلط کی اور بارہا اس نے جنگ کی دھمکیاں بھی دیں، لیکن اہل پاکستان ہمیشہ دشمن کے مقابلے میں اپنی افواج کے شانہ بشانہ رہے۔ کئی بار بڑے سیلاب آئے اور بارہا زلزلوں نے اس ملک کو نقصان پہنچایا لیکن اس بہادر قوم نے کبھی ہمت نہیں ہاری بلکہ قومی جذبے کے ساتھ تمام مشکلات کا سامنا کیا۔ اہل پاکستان اپنے دشمنوں کو بخوبی پہچانتے ہیں۔ اگرچہ وہ سیاسی طور پر مختلف جماعتوں سے وابستہ ہیں اور مذہبی طور پر بھی ان کی وابستگی الگ الگ فرقوں کے ساتھ ہے لیکن وہ اتحاد اور اتفاق کی لا زوال نعمت سے مالا مال ہیں۔ وہ اختلافات کو بھلا کر مشترکہ اقدار پر یقین رکھتے ہیں۔
پاکستان کی حکومت، پاکستان کی مسلح
افواج، قومی ادارے اور پاکستان کے 22 کروڑ عوام اپنے ملک کی حفاظت اور سر بلندی کے لئے سیسہ پلائی
دیوار ضرور بنے ہوئے نظر آرہے ہیں، وہ بھی صرف ایٹمی
ہتھیار اور میزائل ٹیکنالوجی کی وجہ سے، مگر پیسے
کی قدر میں کمی یعنی ڈی ویلیوایشن کی وجہ سے کوئی کچھ نہیں کرسکتا۔ آج 2022ء کے دور میں اگر انڈیا یا
امریکہ جنگ کردے پاکستان کے خلاف تو
مقابلہ کرنے کے لیے ہتھیار تو بہت ہے، دفاع بہت مضبوط ہے
مگر پیسے کی قدر یعنی ڈی ویلیوایشن کی وجہ
سے سب کچھ ختم ہوجائے گا۔ ہم دشمنوں سے ایک ماہ بھی مشکل سے نہیں لڑ سکیں گے۔
جب 1965ء
اور 1971ء کی جنگیں ہوئی تھیں تو اس وقت پیسے
کی ایک ویلیو تھی۔ آج تو پیسے کی قدر نہ ہونے کے برابر ہے۔ ڈالڑ کا ریٹ آپ
کی آنکھوں کے سامنے ہے۔ ایسی مشکل صورتحال میں قوم میں
یکجہتی کیسے آسکتی ہے جب کہ آپ کے پاس پیسہ ہی نہیں ہے۔ آج سرکاری خزانہ میں 75 فیصد سے زائد کی رقم قرض کی ہے جو سود
سمیت واپس لوٹانے ہیں۔ پاکستان میں جتنے بھی منصوبے ترقی کے چل رہے ہیں مثلاً
اورنج لائن موٹرویز وغیرہ یہ سب قرض کی رقم سے چل رہے ہیں جو سود سمیت واپس کرنی
ہے۔ پاکستان کی بہت سی سڑکیں یعنی موٹرویز، کچھ ائیرپورٹس، کچھ ریلوے اسٹیشنز گروی
رکھے گئے ہیں۔
یہ بات سب کو معلوم ہے کہ جناب شبر زیدی صاحب نے
صاف صاف بول دیا تھا کہ پاکستان ڈیفالٹ کرچکا ہے۔ ہم سری لنکا سے صرف 6 ماہ
پیچھے ہیں۔ آج 2022ء میں جو حکومت آئی ہے اقتدار میں وہ سمجھ سے باہر ہے کہ وہ کونسی
جماعت کی ہے۔ نہ وہ پی ٹی آئی ہے نہ وہ پیپلز پارٹی ہے نہ ہی ن لیگ۔۔۔ یہ حکومت
کوئی انہونی قسم کی حکومت ہے جس کا کوئی نام نہیں۔ آج 2022ء میں پاکستان میں حکومت
نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کو کیا نام ہم دیں۔ ایسی
صورتحال میں ممالک میں قومی یکجہتی کبھی پیدا نہیں ہوسکتی۔ محض باتوں کی حد تک رہ
جاتی ہے قــــومی یــــکجہتی۔
۔۔۔۔۔