وفا جو تم سے
وفا جو تم سے کبھی میں نے نبھائ ہوتی
عمر نه مفت میں سڑکوں په گنوائ ہوتی
سانپ یادوں
کے ہیں ڈستے مجھے هر شام سحر
یه جو سوتے
کو مجھے نیند بھی آئ ہوتی
تیری چوکھٹ سے جو اس روز نبھایا ہوتا
میں دعا کرتا دنیا په خدائ ہوتی
وفا جو تم سے کبھی میں نے نبھائ ہوتی
عمر نه مفت میں سڑکوں په گنوائ ہوتی
ہوتی غیرت تو تیرے ساتھ یهیں مر جاتے سجن
لاش کاندھوں په یوں اپنی نه اٹھائ ہوتی
ہاتھ کیا آیا میرے ایک سیاہی کے سوا
دیکھنے حال میرا تو بھی گواہی ہوتی
وفا جو تم سے کبھی میں نے نبھائ ہوتی
عمر نه مفت میں سڑکوں په گنوائ ہوتی