شرقپور شریف گاؤں کی ٹی
دریا راوی کی ٹی پہ مرغابی کے شکار کی سچی کہانی
یہ اپریل 1984ء کی بات تھی۔ ہم لوگ مرغابی کے شام کے شکار کے لیے گئے۔ جگہ تھی شرقپور شریف کا گاؤں دریا راوی کی ایک ٹی۔
ٹی اس کو کہتے ہیں جہاں دریا کا بند ہوتا ہے۔ سیلاب کی صورت میں وہاں پانی آتا ہے اور بند کی وجہ سے ٹہر جاتا ہے۔ جب فروری مارچ 1984ء کی برساتوں میں سیلاب آیا تو ساتھ اپنے مٹی کے ڈھیر لے کے آیا۔ جب یہ مٹی کے ڈھیر بند کے کنارے پانی تک پہنچتا ہے تو مختلف اشکال میں نظر آتا ہے۔ یہ مٹی کے ڈھیر ایک دلدل جیسی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ ان دلدلی ڈھیروں کو ہم پنجاب میں کھوبہ یا کُھب بولتے ہیں۔ یہ اتنے نرم ہوتے ہیں کہ انسان اس کے اندر دھنس جاتا ہے۔ جتنی اس کی گہرائی ہوتی ہے اتنا ہی آدمی دھنستا ہے۔ بعض کھوبیں تو بہت خطرناک اور گہری ہوتی ہیں۔ اتنی کہ آدمی پورا اندر گہرائی تک چلا جاتا ہے اور بندے کا دم گھٹنے سے ڈیتھ ہوجاتی ہے۔
جب ہم راوی کی اس ٹی پہ پہنچے تو وہاں لال سر والی مرغابیاں بیٹھی تھیں۔ جن کو انگلش میں پوچرڈ بولتے ہیں۔ اپریل کے مہینے میں ان تمام آبی پرندوں کی واپسی ہوتی ہے۔ یہ ان کا واپسی کا سیزن تھا۔ اسی لیے شکارگاہوں پہ جگہ جگہ ان کی پروازیں تھیں۔
شام کا شکار تھا۔ 3 بجے ہم پہنچے تھے۔ہمارے ساتھ دفتر کا ایک ملازم بھی تھا۔ وہ بند کے اوپر ہی بیٹھا رہا تھا۔ ہم لوگ نیچے اتر کے ٹی کے پرلے کنارے تک چلے گئے۔ ہم نے ایک جگہ سامان رکھا۔ وہاں کانے کی فصل کے کچھ بچے کھچے کانے لگے تھے۔ مگر تعداد میں کافی بڑے رقبے پہ پھیلے ہوئے تھے۔ وہیں ہم نے پڑاؤ کیا۔
ہمارے ابو نے ان مرغابیوں پہ فائر کیا مگر ایک بھی نہیں گری۔ وہ تمام کی تمام دریا کی طرف چلی گئیں۔ ٹی سے کوئی ڈیڑھ دو کلومیٹر کے فاصلہ پہ دریا راوی تھا اور دریا کے پرلے کنارے پہ لاہور کا علاقہ چوہنگ تھا جو ملتان روڈ پہ ہے۔
اس دن ہمارے بڑے بھائی نے ایک چاہا پہ فائر کیا جو ہمارے قریب ہی پانی میں اتر گیا تھا۔ یہ فائر بھی ان کی زندگی کا پہلا فائر تھا۔ اس چاہا کے اترنے سے پتہ چلا کہ پانی نہایت ہلکا ہے۔ اس طرف گہرائی نہیں ہے۔ ویسے پورا پانی 20 فٹ سے بھی زیادہ گہرا تھا۔ بھائی نے شاٹ گن کا فائر کیا۔ چاہا مر گیا۔ ابو اٹھانے گئے۔ جیسے ہی پانی میں اترے کچھ قدم آگے جا کے ایک کھوبے میں گھٹنے گھٹنے تک دھنس گئے۔ اس کی گہرائی گھٹنے تک تھی۔
پانی کے اندر کچھ سخت قسم کی گھاس لگی تھی۔ اس کو پکڑ کے سہارا لے کے کھوبے سے باہر آگئے۔ بند پہ گاڑی کھڑی تھی اور دکان کا ایک ملازم بھی ساتھ تھا۔ ابو نے اس کو آواز دی کہ یہاں آجاؤ۔۔۔ ادھر دلدل ہے بہت۔ پھر وہ اتر کے آئے۔ لیکن ابو باہر آچکے تھے۔ گاؤں کا ایک آدمی وہاں آیا۔ اس کو جب بتایا تو وہ ٹریکٹر کے ٹائر کی ٹیوب کے سہارے پانی میں اتر گیا۔ تیرتا ہوا ہمارے طرف آیا اور چاہا اٹھا کے واپس چلا گیا۔
پانی اتنا گہرا تھا کہ اس کی صرف گردن نظر آرہی تھی۔ وہ چاہا اسی کو دے دیا۔ پھر ملازم بھی واپس گاڑی کے پاس چلا گیا۔
وہاں ہم نے غور سے پانی کے کناروں کو دیکھا تو ہمارے کنارے پہ جگہ جگہ ایسے بہت سے کھوبے نظر آئے۔ کھوبے کی شکل ہمیں یاد ہے اچھی طرح۔ کھوبے پورے گول تھے اور اس میں ابھرے ہوئے دانے دانے سے نظر آرہے تھے۔ وہ بالکل کنارے پہ نہیں تھے بلکہ پانی میں کچھ آگے جا کے تھے اور اس طرف پورے کنارے بہت ہلکا پانی تھا۔ وہ کھوبے ہمارے والے کنارے پہ جگہ جگہ پھیلے ہوئے تھے۔ اب یاد نہیں ہے کتنے تھے۔ دس پندرہ تو ہونگے۔ وہ کھوبے سارے دریا کے رخ پہ تھے۔ بند کی طرف نہیں تھے۔ دریا مٹی کے ڈھیر بہا کے لایا تھا۔
اس کے بعد یہ ہوا کہ واپسی پہ شکار کا بیگ وہیں بھول آۓ۔ اس بیگ میں شکار کا لائسنس، کارتوس اور دیگر چیزیں تھیں۔
پھر رات کو ہمارے ابو اور چچا وغیرہ دوبارہ 10 بجۓ گۓ۔ واپسی 12 بجے تک ہوئی۔ جاتے ہوئے بڑے کارتوس لے کے گئے۔ کیونکہ وہاں سؤروں کے حملے کا خدشہ تھا۔ وہاں اس زمانے میں چاروں طرف دور دور تک جنگل ہی جنگل پھیلا تھا۔ آس پاس صرف ایک آدھ ہی کوئی گاؤں تھا جہاں سے وہ ٹریکٹر والا آیا تھا۔ بڑے کارتوس میں ایس جی اور ایل جی تھے۔
جب یہ لوگ دوبارہ وہاں پہنچے تو ٹارچ کی روشنی میں دیکھا کہ بند کے پتھروں کے اوپر بیگ رکھا ہوا تھا۔ اس کو کھول کے دیکھا تمام چیزیں موجود تھیں۔ آپ کو پتہ ہے کہ دریاؤں کے بندوں پہ پتھر رکھے جاتے ہیں۔
ہمیں یاد ہے اچھی طرح سے کہ پھر ہم لوگ اکتوبر 1984ء میں دوبارہ گۓ تھے۔ اسی جگہ۔۔۔۔ تو وہ کھوبے سوکھ چکے تھے۔ ابو نے اس میں ڈنڈا ڈال کے دیکھا تھا۔ اس کے اوپر گھاس اگ چکی تھی۔ وہ بہت سخت ہوچکے تھے۔۔۔
شرقپور کی ٹی سے ہم لوگ دریا تک پیدل دو کلومیٹر تک چلے گۓ۔ وہاں بڑے بڑے سرخاب ملے تھے جو پرلے کنارے پہ چوہنگ کے علاقے میں تھے۔
تھوڑی ہی دیر میں بارش شروع ہوگئ تھی۔ واپسی پہ راستہ بھولے تھے۔ جب واپس اسی ٹی پہ پہنچے تو گاڑی کو کچے بند پہ مین شرقپور روڈ تک پورا پورا دھکا لگانا پڑا تھا۔ وہ بند کا کچا راستہ 7۔8 کلومیٹر الگ پیدل کیا تھا۔ وہ جگہ ہمارے لیے شروع سے ہی منحوس رہی ہے۔
مالک: کاشف فاروق۔ (ہمارے گھر کی ذاتی کہانی)۔
...





No comments:
Post a Comment