URDU STORIES:

اردو ادب اور کہانیوں میں خوش آمدید ۞ قصہ کہانیاں ۞ غزلیں ۞ نظمیں ۞ واقعات ۞ طنزومزاح ۞ لاہور کی پنجابی۞ کچھ حقیقت کچھ افسانہ ۞ پراسرار خواب والی ٹیکنالوجی ۞ میری فیملی کا ذاتی شجرہ نسب سن 1790ء تا 2023ء۔ ۞ قومی پیمانہ ۞ تباہی و زلزلے ۞ دو سو سالہ کیلینڈر ۞ اردو سافٹ وئیر ڈاؤنلوڈ ۞۔
Showing posts with label A TRUE STORY "APNEY HUE PARAAY" - AIK GHAR KI SUCH MUCH KI SUCHI KAHANI. Show all posts
Showing posts with label A TRUE STORY "APNEY HUE PARAAY" - AIK GHAR KI SUCH MUCH KI SUCHI KAHANI. Show all posts

A TRUE STORY "APNEY HUE PARAY" - AIK GHAR KI SUCH MUCH KI SUCHI KAHANI - اپنـــــے هـــــوۓ پـــــراۓ ۔ ۔ ۔ مـُــــشْتَـــــرکـــــہ خَـــــانْـــــدانـــــی نِـــــظامْ سے جُـــــڑے ایـــــک گـــــھر کـــــی سَـــــچ مُـــــچ کـــــی سَـــــچِّـــــی کـــــہانـــــی

 





 


APNE HUE PARAY


"اَپنــــے ھُـــــوئے پَـــــرائے۔ ۔ ۔"



مـُــــشْتَـــــرکـــــہ خَـــــانْـــــدانـــــی نِـــــظامْ سے جُـــــڑے ایـــــک گـــــھر کـــــی سَـــــچ مُـــــچ کـــــی سَـــــچِّـــــی کـــــہانـــــی




اس کہانی کے دو حصے ہیں۔ حصہ اول میں سچے واقعے کو بیان کیا گیا ہے۔ حصہ دوئم میں اس گھر میں ہونے والے انہونے واقعات کا تذکرہ ہے




آج
میں آپ کو ایک مجبور، لاچار اور بےکس انسان کی ایسی کہانی سنانا چاہتا ہوں جو دردناک بھی ہے اور سبق آموز بھی، بلکہ 100٪ حقیقت پر مبنی بھی۔ اسے سُن کر آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ آدمی حالات کے ہاتھوں کتنا مجبور ہوجاتا ہے۔ ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب انسان خودکشی کے بارے میں سوچنے لگتا ہے۔ بچوں سے بےزار ہوجاتا ہے اور موت کا انتظار کرنے لگتا ہے، مگر وہ بھی ملتوی ہوجاتی ہے۔ موت کی جتنی خواہش کرتا ہے وہ اتنی ہی دور ہوتی چلی جاتی ہے اور پھر زندگی کچھوے کی چال کی مانند گزرتی رہتی ہے۔ میں عموماً بزرگان دین کے مزارات پر جاتا رہتا ہوں، جس سے مجھے روحانی تسکین میسر آتی ہے۔


ایک دن میں قصور کے ایک مشہور بزرگ کے مزار پر حاضر ہوا۔ وہ جمعرات کا دن تھا اور محفل سماع ہورہی تھی۔ مجھے قوالیاں سننے کا بہت شوق ہے۔ میں نے وہاں ایک بزرگ کو دیکھا جو مسلسل روئے جارہے تھے۔ جب قوالیاں ختم ہوئیں تو میرا دل چاہا کہ بزرگ سے حالات معلوم کیے جائیں۔ میں نے انہیں سلام کیا اور حال احوال پوچھا۔ تھوڑی گفتگو کے بعد میں نے اندازہ لگا لیا کہ بزرگ دکھی ہیں۔ میرا جی چاہا کہ ان سے تفصیل سے گفتگو کی جائے۔ میں انہیں اپنے گھر لاہور تک لے آیا اور جو کچھ ہوسکتا تھا خاطر تواضع کی۔ معلوم ہوا کہ آپ بھی لاہور سے تشریف لائے ہیں۔ چونکہ میں بھی لاہوری ہوں اسی لیے اپنے شہر سے اچھی طرح واقف ہوں۔ بابا جی سے تعارفی گفتگو کے بعد میں اصل موضوع کی طرف آیا اور ان سے مزید حال احوال دریافت کیئے۔ میں نے پوچھا کہ آپ اتنے غمگین کیوں ہیں مجھے ضرور بتائیے۔ بابا جی پھٹ پڑے اور آنسوؤں کا سیلاب رواں ہوگیا۔ مجھے ان سے دلی وابستگی ہوگئی۔ بابا جی نے مجھے جو واقعات سنائے وہ میں ان کی ہی زبانی سنانا چاہوں گا تاکہ بیان کرنے میں آسانی رہے۔



بابا جی نے اپنی روداد کچھ اس طرح بیان کی:۔




میرا نام فاروق ہے۔ میں ہندوستان کے شہر ساگر میں 1944 میں پیدا ہوا۔ قیام پاکستان کے وقت میری عمر تین سال تھی۔ اچھا کھاتا پیتا گھرانہ تھا۔ میرے والد صاحب چار بھائی تھے۔ دادا دادی سب لوگ اکٹھے ایک ہی گھر میں رہتے تھے۔ اتنا چھوٹا ہونے کے باوجود مجھے بچپن کے کافی واقعات یاد ہیں۔ والد صاحب کے ایک بھائی بڑے اور دو چھوٹے تھے۔ سب کا مشترکہ کاروبار تھا۔ پاکستان بننے کے دو سال بعد میرے والدین پاکستان منتقل ہوگئے۔ دادا دادی اور باقی چچا اور تایا ہندوستان ہی میں مقیم رہے۔ پاکستان میں ہم لوگ پہلے لاہور میں آسٹریلیا بلڈنگ کرائے کے گھر میں مقیم رہے اور اس کے بعد اپنے ذاتی گھر میں منتقل ہوئے۔

کرائے کے گھر میں آتے  ہی اپنا کاروبار شروع کردیا۔ یہ کاروبار اس وقت بیڑی کاشروع کیا تھا۔ اللہ کے فضل سے دوکانداری خوب چلنے لگی۔ والد صاحب نے مجھے قریبی سکول میں داخل کروادیا۔ ان کانام عبدالستار تھا۔ یہاں میں یہ بتاتا چلوں کہ میری اپنی سگی والدہ کا ہندوستان کے شہر اندور میں ہی انتقال ہوگیا تھا جب میری عمر صرف تین سال تھی۔ والد صاحب نے دوسری شادی کرلی تھی۔ سگی والدہ کا نام کرم ممتاز تھا۔ جب تک ہندوستان میں رہا میری پرورش میری دادی اماں نے کی۔ وہ مجھے بہت پیار کرتی تھیں۔ جب میں والدین کے ساتھ پاکستان آرہا تھا تو وہ بےحد اداس تھیں۔ ہندوستان میں تو میں آرام سے رہا، لیکن جونہی پاکستان پہنچا پریشانیوں نے گھیر لیا۔ اتنی چھوٹی سی عمر میں بھی مجھے احساس تھا کہ میری اپنی والدہ اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔ پاکستان پہنچ کر میں احساسِ محرومی میں مُبتلا ہوگیا۔ اب میرا خیال رکھنے والا کوئی نہ تھا۔ مجھے پیار کرنے والا کوئی نہ تھا۔ حد تو یہ تھی کہ اپنی بپتا کس کو سناتے؟ والد صاحب کو ہماری کوئی پرواہ ہی نہ تھی۔ اسی طرح دو سال گذر گئے۔ اس دوران ہمارا ایک بھائی اس دنیا میں آگیا۔ اب ہم پر پریشانیاں مزید بڑھ گئیں۔ اپنے کپڑے خود ہی دھونا پڑتے۔ نومولود کیلئے ایک نوکرانی رکھ لی گئی جو کہ اسکے کپڑے وغیرہ دھوتی تھی اور گھر کے کام کاج کرتی تھی۔ اس دوران والد صاحب کے چھوٹے بھائی اور ہمارے دادا دادی بھی پاکستان آگئے۔ وہ بھی ہمارے ساتھ ہی رہنے لگے۔ اب ہمیں کچھ راحت، آرام اور سکون میسر ہوا، گویا کہ ہماری ماں آگئی ہو۔ اسی دن سے ہم اپنے دادا دادی کے ساتھ الگ کمرے میں سونے لگے۔ ہمارے سب سے چھوٹے چچا شادی شدہ تھے، وہ بھی کاروبار میں شریک ہوگئے۔ کچھ عرصے بعد ہمارے تایا بھی اپنے بچوں کے ساتھ پاکستان آگئے اور ہمارے ساتھ ہی رہنے لگے۔ اس طرح ہمارا پورا خاندان آگیا۔ تایا کی بڑی بیٹی خورشیدہ سے ہماری دادی کو بڑی انسیت تھی۔ اسی دوران ہمارے چچا کے ہاں بھی بچے پیدا ہوگئے۔ پہلے ایک بیٹی اور پھر مزید بچے۔ اب ہماری دادی کی توجہ منقسم ہوگئی۔ تایا کا ایک بیٹا بھی تھا جو کہ مجھ سے بڑا تھا۔ اس کا نام یوسف تھا۔ تایا زاد بہن اپنے بھائی سے بہت پیار کرتی تھی اور ہر کام میں مجھ سے اسکا مقابلہ کرتی رہتی تھی۔ باقی گھر والے بھی میرے کزن کی تعریفیں کرتے رہتے تھے۔ اب میں بالکل محرومیت کا شکار ہوگیا۔ یہ سچ ہے کہ میں شروع ہی سے بالکل شریف واقع ہوا ہوں، مجھ میں کسی قسم کی کوئی چالاکی نہیں تھی۔ اسی طرح وقت گزرتا گیا۔ ہم تمام بچوں کی ضرورت کی ذمہ داری ہمارے چچا کے پاس تھی۔ چونکہ ہمارا مشترکہ کاروبار اور مشترکہ رہائش تھی اسی لئے گھر کے ایک فرد کو یہ ذمہ داری دے دی گئی تھی۔ جب ہم لوگ یعنی میں اور میرا کزن چھوٹے تھے تو ہم لوگوں کے لیے کپڑے سلوائے جاتے تھے، جب ہم لوگ بڑے ہوگئے میٹرک میں پہنچ گئے تو ہمیں چچا نے اجازت دے دی کہ ہم لوگ مشترکہ کپڑے استعمال کرسکتے ہیں۔ میرے سگے والد اور دوسری والدہ ایسے تھے کہ انہوں نے مجھے اپنی سگی ماں کی قبر تک نہیں دکھائی۔ حالانکہ ہم لوگ 1957ء میں ہندوستان رشتےداروں سے ملنے گئے تھے۔ اس وقت میری عمر 13 سال کے قریب تھی۔

اس زمانے میں چچا تایا اور ابّا کے کپڑے ایک ہی الماری میں مشترکہ ہوتے تھے اور جس کی مرضی جو کپڑے پہن لے۔ اس اجازت سے میرے کزن کو تو بہت فائدہ ہوا، کیونکہ اسکا قد مجھ سے کچھ بڑا تھا اور کپڑے اس کو بالکل فٹ آجاتے تھے، مگر مجھے ڈھیلے ڈھالے رہتے تھے۔ مجبوراً مجھے وہی کپڑے پہننا پڑتے تھے، کیونکہ الگ سے سلوانا بند کردیا گیا تھا۔ ہمارے مشترکہ کاروبار سے ہمارے سب سے چھوٹے چچا نے خوب فائدہ اٹھایا۔ ان کا نام عبدالغفار تھا۔ چند دن ایک جوڑا استعمال کرتے پھر نوکروں کو دے دیتے۔ جب سے یہ ہندوستان سے آئے تھے ہم لوگوں کو خوب ڈانٹ ڈپٹ کرتے رہتے تھے۔ چلتے پھرتے مارتے رہتے تھے۔ ہر وقت غصے میں رہتے۔ میرے چچا غفار مجھے ہر وقت گندی گندی اور غلیظ گالیاں دیتے رہتے تھے۔ یہ مجھے سونگر سونگر کہتے رہتے تھے۔ سونگر ہندی زبان میں سؤر کو بولتے ہیں یعنی خنزیر کو۔ چھوٹا ہونے کا سب سے زیادہ فائدہ انہوں نے ہی اٹھایا۔ ہمارے والد صاحب کو ہماری بالکل پرواہ نہ تھی۔ بلکہ جب ہمارے چچا مجھے مارتے تھے تو وہ انہیں منع کرنے کے بجائے الٹا بہت خوش ہوتے تھے۔ اب جوں جوں ہمارے بھائی بہن (دوسری ماں سے) بڑے ہورہے تھے ان کی توجہ میری طرف کم سے کم تر ہوتی جارہی تھی۔ دادی اماں اگر کبھی میری طرفداری کرتیں تو انہیں چچا صاحب ڈانٹ دیتے کہ وہ مجھے بگاڑ رہی ہیں۔ اس طرح ان پر بھی پابندیاں لگنا شروع ہوگئیں۔ اسی طرح وقت گذرتا رہا، میں اور میرا کزن کالج میں پہنچ گئے۔ یہ میں بار بار کزن کا ذکر اس لیے کر رہا ہوں کیونکہ گھر میں لڑکوں میں ہم دونوں ہی بڑے تھے اور ایک ہی اسکول میں پڑھتے تھے۔ کالج میں فائنل امتحانوں کے بعد  ہم سب لوگ لاہور میں واقع اپنی ذاتی رہائش گاہ میں شفٹ ہوگئے تھے۔ یہ گھر ایک بہت بڑی کوٹھی تھی جو آج بھی لاہور میں واقع ہے۔ یہ 1960ء میں تعمیر ہونا شروع ہوئی تھی اور 1964ء میں ہم لوگ شفٹ ہوئے تھے۔ یہ تقریباً 6 کنال یعنی 3 ہزار گز پہ مشتمل تھی۔ یہ ایک بہت بڑی مشترکہ حویلی تھی جہاں آج 2022ء کے مطابق تقریباً 60-65 افراد رہائش پذیر ہیں۔

کاروبار بھی خوب چل رہا تھا۔ گھر میں ایک گاڑی بھی آگئی تھی۔ جب ہم نئے گھر میں شفٹ ہوئے تھے تو اس وقت میں بی اے میں تھا۔ میرے فائنل امتحانات ہونیوالے تھے۔ گھر میں خوب شور مچا رہتا تھا۔ نئے گھر میں شفٹ ہونے کی تیاریاں ہورہی تھیں۔ میں بالکل ڈسٹرب ہوگیا تھا کہ پڑھائی کیسے کروں۔ کسی کو میری پراہ نہ تھی۔ شام کو میں اپنی کتابیں لے کر نئے خالی گھر میں آجاتا۔ اس سے پہلے لاہور ریلوے اسٹیشن کے پاس واقع آسٹریلیا بلڈنگ میں کرائے پہ رہتے تھے۔ جب ہندوستان سے پاکستان ہجرت کی تھی تو سب سے پہلے یہیں کرائے پہ رہائش رکھی تھی۔ رات کو امتحان کی تیاری کرتا اور وہیں سوجاتا اور صبح کو واپس اپنے کرائے والے گھر آجاتا، کیونکہ نئے گھر میں کھانے پینے کا کوئی انتظام نہ تھا۔ ہمارے والد چچا اور تایا کو ہمارا کوئی خیال نہیں تھا۔ یہ وقت بھی اللہ نے خیریت سے گزار دیا اور میں پاس ہوگیا۔ ہم لوگ 1964ء میں اس دوران نئے گھر میں شفٹ ہوچکے تھے۔ 65ء کی جنگ میں اس گھر کے پچھلے حصے میں خندقیں بھی کھودی گئیں تھیں۔ میرا کزن سائیکل نہیں چلاتا تھا حالانکہ مجھ سے بڑا تھا۔ غالباً اس کا اپنے باپ سے کوئی جھگڑا تھا، خمیازہ مجھے بھگتنے پڑتا تھا۔ سب لوگوں کے کام مجھے کرنے پڑتے کیونکہ میں سائیکل چلانا جانتا تھا۔ ہمارے چچا اور تایا نے مجھ پر اتنے ظُلم کیے کہ اب سوچتا ہوں کہ یہ لوگ کتنے ظالم تھے!!!

شاید میرے والد بھی مجھ سے بدلہ لے رہے تھے۔ وہ بالکل خاموش رہتے تھے اور مجھے سب لوگوں کی غلامیاں کرنی پڑتی تھیں۔ جب میرا بی اے کا رزلٹ آیا تو کسی نے کوئی خاص توجہ نہ دی۔ اپنے پاس ہونے کی خبر اپنے غفار چچا کو سنائی تو انہوں نے کوئی خاص دھیان نہ دیا بلکہ بولے کہ تمہاری چچی بیمار ہیں ٹیکہ لگوانا ہے، کمپاونڈر کو بلا لاؤ۔ اس زمانے میں ہمارے ہاں یہ رواج عام تھا کہ اپنا علاج خود ہی کرلیتے تھے۔ میں نے سائیکل اٹھائی اور محض کمپاونڈر کو بلانے سائیکل پہ پانچ میل کا سفر طے کیا۔ بی اے کرنے کے بعد میں نے یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا اور ایل ایل بی کرکے وکالت کی ڈگری لے لی۔ ہمارا گھر ابھی بھی مشترکہ تھا۔ سب لوگوں کا کھانا ایک ہی کچن میں پکتا تھا۔

جب 1965ء میں پاک بھارت جنگ ہوئی تو بیڑی کا کاروبار نہ ہونے کے برابر ہوگیا۔ اس لیے سب نے الگ الگ کاروبار شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ والد صاحب نے بھی اپنا الگ کاروبار 1966ء میں سائنس کا "عبدالستار اینڈ سنز" کے نام سے شروع کردیا۔ اس وقت یہ کاروبار کیمیکل کا تھا اور لاہور کی مشہور مارکیٹ آبکاری روڈ پہ کرائے کی دکان پہ کیا تھا۔ پورے پاکستان میں اس نام سے کسی نے بھی کاروبار نہیں کیا۔ البتہ کراچی میں ایک کمپنی تھی جس کا نام "عبدالستار اینڈ سنز اینڈ کمپنی" تھا۔

ایل ایل بی کرنے کے بعد مجھے بھی شامل کرلیا۔ ابھی میرے دوسرے دو سوتیلے بھائی چھوٹے تھے۔ کاروبار میں میرا دل نہ لگتا تھا کیونکہ یہاں اپنے ضمیر کو بیچنا پڑتا تھا۔ ان پڑھ لوگوں کو ’جی حضور!‘ کہنا پڑتا تھا۔ میرے دل پر بڑا بوجھ رہتا تھا اور اپنی بے عزتی محسوس کرتا۔ گاہکوں کو چائے بنا کر دینا پڑتی تھی، یہ کام کوئی ان پڑھ ہی کرسکتا تھا۔ میرے ضمیر پر بڑا بوجھ رہتا۔ والد صاحب سے بھی تناو رہنے لگا۔ وہ مجھے بالکل جاہل سمجھتے اور اپنے دوستوں سے میری برائیاں کرتے رہتے تھے۔ تنگ آکر میں راولپنڈی چلا گیا۔ یہاں میرے ایک بچپن کا دوست رہتا تھا۔ اس کے ماں باپ پہلے ہی فوت ہوچکے تھے۔ وہ اپنے دو بھائیوں کے ساتھ رہتا تھا۔ میری طرح چھڑا چھانٹ تھا۔ اس نے نوکری دلانے کی کافی کوشش کی، مگر ناکام رہا۔ میں نے سوچا آخر کب تک دوست پر بوجھ بنا رہوں گا، اس لیئے کچھ عرصے بعد واپس لاہور گھر آگیا۔ یہاں میں یہ بات بتاتا چلوں کہ میرے تقریباً تمام دوست نوکریاں کرتے تھے اور میں ان کے حالات دیکھ کر خوش ہوتا تھا اور ان کو خوش نصیب سمجھتا تھا۔ میرے تمام دوست خود ہی اپنے پاوں پر کھڑے ہوئے تھے اور خوشحالی کی زندگی گزار رہے تھے۔ یہاں ایک ہم تھے کہ زندگی سے بیزار، احساس محرومی میں مبتلا۔ میں بھی ایک آزاد زندگی گزارنا چاہتا تھا۔ گھر کے ماحول سے مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ میں یہاں مشترکہ فیملی یعنی مشترکہ خاندانی نظام میں خوش نہ رہ سکوں گا، مگر بے حد مجبور تھا۔ اس لیے زندگی کی گاڑی کو رواں دواں رکھنے کے لیے واپس راولپنڈی سے لاہور آگیا۔ جب واپس آیا تو والد صاحب کا رویہ بدلا ہوا تھا۔ وہ کافی نرم ہوگئے تھے۔ دوبارہ ان کے ساتھ کاروبار میں شریک ہوگیا۔ میں چونکہ پڑھا لکھا تھا اس لیے جلد ہی کاروبار کو سمجھ لیا۔ اب حالات اچھے ہونے لگے تھے۔ میرے تمام دوستوں کی شادیاں ہوگئیں تھیں صرف ایک میں ہی رہ گیا تھا۔ کچھ عرصے بعد میں نے اپنی پسند کا اظہار کردیا۔ وہ اپنے ہی خاندان سے تعلق رکھتی تھی۔ نہایت ہی شریف اور پڑھی لکھی فیملی تھی۔

گھر میں کھسر پھسر ہوئی اور تمام بزرگوں نے ناپسندیدگی کا اظہار کردیا۔ سارے بزرگ ہماری شادی کے خلاف تھے، شادی سے پہلے سے ہی، کیونکہ ہم نے انہیں اپنی پسند کا اظہار کردیا تھا۔ بزرگ شادی سے پہلے سے راضی نہیں تھے۔ ہمارے ابا جی نے ہمیں کہا کہ بھئ ہم تمہاری شادی وہاں کر تو دیں گے لیکن ہم لوگ خوش نہیں ہیں۔


بہرحال میری بات مان لی گئی اور شادی ہوگئی۔ یہ شادی کیا ہوئی، ہماری شامت ہی آگئی۔ ہمارے والدین چچا تایا وغیرہ بہت بڑے جہیز کی توقعات رکھتے تھے۔ مجھے گھر والوں کی توقعات کا سوچ کر بہت دکھ ہوتا تھا۔ میری بیوی کے والد محض ایک سرکاری ملازم تھے۔ نہایت ایماندار، نیک اور پابند صوم و صلوٰة۔ بھلا ان کی اتنی آمدنی کہاں کہ وہ کاروباری لوگوں کی خواہشات پوری کرسکیں۔ جب شادی کے بعد رخصتی ہونے والی تھی اس وقت لڑکی والوں نے میرے والد کو بلایا کہ آکر جہیز دیکھ لیں اور پیک کرلیں۔ ہمارے والد محترم اتنے افسردہ تھے کہ کہنے لگے کہ ”ان کو“ لے جاو، یہ دیکھ لیں گے، (یعنی میری طرف اشارہ تھا کہ میں جاکر دیکھوں)، اس سے میں نے اندازہ لگایا کہ جہیز کی تفصیل ان تک یعنی والد صاحب تک پہلے ہی پہنچ چکی ہوگی۔ اسی لیے وہ اب جانا نہیں چاہتے تھے۔ جہیز نہ ہونے کے برابر تھا۔ گھر والوں کی باتیں سن کر میرے دل پر کیا گزری یہ میں ہی جانتا ہوں۔ اس وقت میں نے محسوس کیا کہ واقعی اس گھر میں میرا کوئی بھی ہمدرد نہیں ہے۔ یہاں تک کہ ہمارے دادا دادی تک بہک گئے تھے۔ کسی میں ہمت ہوتی تو ان سے پوچھتا کہ اے چچا تایو! تمہاری شادیوں میں کتنا جہیز ملا تھا۔ کیا تمہاری بیویاں سونے چاندی سے لدی ہوئی آئی تھیں۔ کیا اللہ نے تمہیں پہلے ہی بہت کچھ نہیں دے رکھا تھا جو تم لالچ کررہے ہو۔

جب شادی کے بعد گھر پہنچے تو عورتوں نے کہرام مچایا ہوا تھا کیونکہ اب بات کرنے کی آزادی تھی، ہماری چچی، تائی، اور تایا زاد بڑی بہن بہت آگے آگے تھیں۔ طرح طرح کی باتیں میرے کانوں میں آرہی تھیں۔ سب جہیز کا رونا رو رہے تھے۔ اسی دوران ہماری تائی نے فرمایا بلکہ دونوں ہاتھ فضاء میں اٹھا کے نعرۂ تکبیر بلند کیا کہ آئیندہ بارات حیدرآباد، سندھ نہیں جائے گی۔ میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارے بہت سے قریبی رشتہ دار حیدرآباد اور کراچی میں سندھ میں رہتے ہیں اور میری بارات بھی وہیں گئی تھی۔ سن 1970ء میں شادی ہوئی تھی۔ آگے آنے والے حالات سے میں نے اندازہ لگایا کہ دراصل ہماری چچی اور تائی اپنی اپنی بیٹیوں کا رشتہ مجھ سے کرنا چاہتی تھیں، جسمیں وہ ناکام ہوگئیں تھیں۔ شاید ناظرہ یا عابدہ سے۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ چونکہ میرا رشتہ جہاں ہوا تھا ان سے خاندانی رنجشیں تھیں، آپس کے تعلقات اچھے نہ تھے۔ میرے چچا اور تایا کو یہ دکھ تھا کہ ایک غریب گھرانے کی بیٹی ہمارے امیر گھرانے میں آکر خوب عیش کرے گی، جبکہ ان کو فکر نہ تھی کہ اپنی بیٹیاں نجانے کہیں کسی غریب گھرانے میں نہ دینا پڑیں۔ کیونکہ ہمارے ہاں شادیاں صرف انتہائی قریبی رشتہ داروں میں یا گھر کے گھر میں بزرگان کروانے کی سوچ کھتے تھے۔ ان لوگوں کا یہ رویہ دیکھ کر میں بڑا پریشان ہوتا۔ افسوس تو اس بات کا ہوتا کہ ہمارے والد صاحب بھی اپنے بھائیوں کے ہمنوا بن گئے تھے۔ لیکن ہمارے چچا اور تایا نے تھوک کے چانٹا، انہوں نے بعد میں اپنی بیٹوں اور بیٹیوں کی شادیاں سندھ میں ہی کیں۔ ہم لوگوں کے باہر گھومنے پھرنے سے بھی یہ سب لوگ ناک بھوں چڑاتے۔ ہمارے لیے کوئی الگ سے کمرہ تک نہیں بنایا گیا تھا۔ ایک جگہ خالی پڑی تھی وہاں والد صاحب نے ارادہ کیا کہ ہمارے لیے کمرہ بنادیا جائے۔ اس پر ان کے بھائیوں نے اعتراض کردیا کہ پہلے گھر کا بٹوارہ تو کرلو۔ اس طرح کچھ دنوں کے بعد ہی ہمارے والد چچا تایا نے مشترکہ گھر کو تقسیم کرلیا۔ یہ تقسیم 1973ءمیں ہوئی تھی۔ باقاعدہ چاروں بھائیوں میں اہک معاہدہ لکھا گیا تھا۔ جس میں میری دادی نے یہ گھر اپنے بیٹوں کے نام کیا تھا۔ اس کوٹھی کے کل چار حصے کرنے پڑے کیونکہ میرے والد کل چار سگے بھائی تھے۔ کچن بھی الگ الگ ہوگئے تھے۔ گھر کا سارا کام میری بیوی کے سپرد کردیا گیا، کھانا پکانا، کپڑے دھونا، صفائی کرنا، مہمانوں کی خاطر تواضع کرنا۔ میں تو بھئی اپنی بیوی کی ہمت کی داد دیتا ہوں۔ مجھ سے کبھی کوئی شکایت نہیں کرتی تھی۔ سب کچھ برداشت کرتی رہتی تھی، تاکہ گھر میں دنگا فساد نہ ہو۔ غریب گھر کی بیٹی اور کر بھی کیا سکتی تھی۔ سب گھر والوں کی غلامی اس کی قسمت میں لکھا تھا۔ میں بھی بڑا مجبور تھا۔ ہم میاں بیوی اپنے گھر والوں سے اتنے خوفزدہ رہتے تھے کہ سیر و تفریح کیلئے بھی اکیلے نہ جاسکتے تھے۔ حتی کہ ہم دونوں میاں بیوی گھر والوں کے سامنے اکٹھے ایک صوفے پر بیٹھ بھی نہ سکتے تھے۔ چچا تایا کے بچوں اور اپنی بہنوں کو ساتھ لے جانا پڑتا تھا۔ اگر کبھی نہ لے جاتے تو سب کے منہ پُھول جاتے۔ مجھے پارکوں میں گھومنے پھرنے کا بہت شوق تھا۔ بس ہماری سیر گاہ صرف باغات یا تاریخی مقامات ہوتے تھے۔ ہماری شادی میں تصاویر بھی کوئی خاص نہیں بنی تھیں، کیونکہ اس زمانے میں ایسا فیشن نہیں تھا، جیسا کہ آج ہے۔

بہرحال، ہمیں یہ شوق تھا کہ اپنی ایک تصویر یادگار کے طور پر سٹوڈیو سے بنوائیں، مگر اس کے لیے بھی اکیلے جانا مشکل تھا۔ ساتھ میں "بہن جی محترمہ صوفیہ صاحبہ" کی تصویر بھی کھینچوائی گئی۔ اگر اسے شامل نہ کرتے تو والدین افسردہ ہوجاتے یعنی میاں بیوی بھی اپنی مرضی سے اپنی تصویرتک نہیں بنواسکتے تھے۔ گھر میں کافی خوشحالی تھی۔ گاڑی تھی، ٹیلی فون تھا، جو کہ اس زمانے میں بڑی بات ہوتی تھی۔ یہ ٹیلی فون اس زمانے میں پورے محلے میں صرف ہماری ہی 6 کنال کی کوٹھی میں تھا۔ پورا محلہ ہماری کوٹھی میں آ کے فون کرتا تھا۔ مگر ہماری بیوی اپنے گھر والوں کو فون بھی نہ کرسکتی تھی کیونکہ ان کے گھر فون اس زمانے میں نہیں تھا۔ ان کے گھر ٹیلی فون 1994ء میں کہیں جا کے لگا۔ میری بیوی بےحد خوفزدہ رہتی تھی۔ اسی لیے وہ کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہتی تھی جس سے لڑائی جھگڑے ہوں۔ آہستہ آہستہ وقت گزرتا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے ایک بیٹا عطا کردیا۔ ہم نے اس کا نام عدنان رکھا۔ ماشاءاللہ تندرست و صحتمند اور خوبصورت تھا۔ اب ہمارے گھر میں رونق آگئی تھی۔ اپنے غم کو بھول کر بیٹے کے پیار میں کھو گئے۔ گویا اللہ نے ہمیں ایک کھلونا دیدیا تھا۔ سب گھر والوں کا رویہ ویسا ہی رہا جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا تھا۔ ہمارا تایا زاد بھائی مجھ سے بڑا تھا، لیکن میری شادی اس سے پہلے ہوگئی تھی، اس لیے تایا اور ان کی فیملی ہم لوگوں سے سخت متنفر تھی۔ وہ ہمارے بیٹے سے سخت نفرت کرنے لگے تھے۔

اِس وقت ایک واقعہ یاد آرہا ہے۔ "ہمارے غفار چچا کا سب سے چھوٹا بیٹا عابد ہمارے بڑے بیٹے سے تقریباً ایک سال ہی بڑا ہوگا۔ جب ہمارا بیٹا چلنے پھرنے لگا تو وہ اپنے چچا یعنی ہمارے چچا کے بیٹے عابد کے ساتھ کھیل رہا تھا، چونکہ گھر میں اس کا ہم عمر اور کوئی نہ تھا، ہمارے تایا اپنے بھائی کے بیٹے کی انگلی پکڑ کر لان میں اسے سیر کرانے لگے۔ انہوں نے ہمارے بیٹے پر کوئی توجہ نہیں دی، حالانکہ میرا بیٹا چھوٹا تھا، وہ بےچارہ کھڑا معصومیت سے دیکھتا رہا، یہ منظر دیکھ کر مجھے بے حد رنج ہوا اور میرے آنسو آگئے"۔

اتنی شدید نفرت کرتے تھے یہ سب لوگ میرے بچے سے۔ میرا بیٹا ایک سال کا ہوگیا۔ ہم میاں بیوی نے اس کی پہلی سالگرہ منانے کا فیصلہ کیا۔ خوب تیاریاں کیں، کیک وغیرہ کا آرڈر دیا گیا، رشتہ داروں کو بھی بلایا گیا، تاکہ اچھی رونق ہوجائے۔ کیک کاٹا گیا، تصاویر بنائی گئیں، مگر ایک بات بہت بری لگی، ہمارے سگے والد اور دوسری والدہ سمیت چچا چچی، تایا تائی وغیرہ کوئی بھی ہماری تقریب میں شامل نہ ہوا، شاید وہ ہم دونوں میاں بیوی کو اکٹھا دیکھنا نہیں چاہتے تھے، ان کو بڑی شرم آرہی تھی، حالات میں تناو بڑھنا شروع ہوگیا۔ ہمارے چھوٹے چچا غفار سیٹھ ہمارے سگے والد کو ہمارے ہی خلاف خوب اکساتے تھے۔ یہاں تک کہ ہماری دادی جو ہم سے بہت پیار کرتی تھیں وہ بھی متحدہ محاذ کا حصہ بن گئیں تھیں۔ ان لوگوں کو یہ غم کھائے جارہا تھا کہ ایک غریب دشمن کی بیٹی ہمارے ہاں کیوں آرام اور سکون سے زندگی گزارے۔

ایک اور واقعہ مجھے یاد آگیا، جس کا ذکر کرنا میں ضروری سمجھتا ہوں جو کہ ہماری شادی کے چند دن بعد ہی پیش آیا تھا: "ہمیں پرندوں کا شکار کھیلنے کا شوق تھا، مگر ہمارے پاس ذاتی بندوق نہیں تھی۔ گھر میں ہمارے چچا کے پاس ایک ائیرگن تھی جو کہ دراصل مشترکہ جائیداد کا حصہ تھی۔ اس وقت خریدی گئی تھی جب ہم لوگوں کا مشترکہ بیڑی کا کاروبار تھا۔ میں نے چچا کے بیٹے عابد سے کہا کہ وہ گن لے آئے ۔ ہم لوگ شکار پر جانا چاہتے ہیں۔ وہ اپنے والد سے اجازت لینے چلا گیا۔ مگر انہوں نے انکار کردیا۔ مجھے بہت افسوس ہوا اور میں نے اسے بولا کوئی بات نہیں ہم اپنی ایک گن خرید لیں گے۔ پھر وہ واپس اپنے گھر گیا اور اپنے باپ کو یہ بات بتائی۔ وہ بڑے سیخ پا ہوئے اور میرے پاس آکر یہ طعنہ دیا ::: کیا تمہیں جہیز میں اتنے پیسے ملے ہیں جو تم گن خرید لو گے؟ ::: کہاں کی تان کہاں نکالی!!!"۔

اب قارئین آپ ہی انصاف کیجئے۔ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ سب لوگ جہیز کے کتنے لالچی تھے۔ بہرحال، مجھے حالات سے سمجھوتا کرنا پڑا کیونکہ میرے پاس تو کوئی راستہ ہی نہ تھا۔ کاش میں اس وقت اپنا ہی کوئی کام یا نوکری وغیرہ کررہا ہوتا تو شاید  اپنا راستہ الگ کرلیتا۔ یہ لوگ میری بیوی کو پاوں کی جوتی سمجھتے تھے اور ہم لوگ حالات کی چکی میں پستے جارہے تھے۔

کچھ عرصے بعد سن 1976ء میں میرا ایک اور دوسرا بیٹا کاشف پیدا ہوا تو میرے اسی چچا غفار صاحب نے اس کے اوپر تعویزات کردیے۔ وہ پیدا ہوتے ہی زبردست بیمار پڑ گیا۔ پوری میڈیکل فیل ہوگئی اس کے علاج میں۔ اسے دستوں کی زبردست بیماری لگی۔ وہ قریب المرگ تھا۔ ہماری دکان کے ایک ملازم حبیب الرحمان نے مجھے ایک مولوی صاحب کا پتہ بتایا جن کو لاہور میں واقع آئی کلینک ای پلومر (مال روڈ) والے بھی اچھی طرح جانتے تھے، ان سے اس کا روحانی علاج کروانا پڑا۔ بیماری تو ٹھیک ہوگئی مگر وہ بیٹا زندگی بھر ناکام رہا۔ ان مولوی صاحب نے ہم میاں بیوی کو کہا کہ عورتیں ہوتی ہیں وہ یہ جادوٹونے تعویزات عملیات کردیتی ہیں۔ ہم اس بات کو نہ سمجھ سکے کہ تعویزات کیا اور کیسے ہوتے ہیں۔ اس سے پہلے 1974ء میں بھی میرا ایک بیٹا غفار سیٹھ کے تعویزات کی وجہ سے مردہ پیدا ہوا تھا یا پیدا ہوتے ہی مر گیا تھا مجھے ٹھیک سے یاد نہیں لیکن ایسا ضرور ہوا تھا کہ ایک بیٹا اور تھا۔ آپ کو معلوم ہے کہ تعویزات کے ذریعے پیدائشِ اولاد کی بندش بھی کردی جاتی ہے ایسا سو فیصد  ہوتا ہے۔ لوگ جادوٹونوں کو مانتے نہیں ہیں۔

میرے چچا نے والد کو کہا کہ "ان کے تو بیٹے پیدا ہورہے ہیں انہیں کاہے کی فکر"۔۔۔ ہمارے والد صاحب نے جو نیا کاروبار شروع کیا تھا کیمیکل کا اس میں غفار چچا کو بھی شامل کرلیا تھا یعنی سائنس والا، وہ بھی دادی اماں کے کہنے پہ۔ وہ اپنا بھی الگ ذاتی کاروبار بیڑی کا کر رہے تھے۔ سن 1971ء میں ہمارے کیمیکل کے کاروبار نے ترقی کرلی تو والد صاحب نے اپنی لائن بدل لی۔ نئی لائن تھی آلاتِ جراحی کوسرکاری ہسپتالوں اور کالجوں میں سپلائی کرنا۔ وقت کے ساتھ ساتھ جب ہمارا کاروبار خوب چلنے لگا تو غفار چچا نے ہم لوگوں سے مال بٹورنا شروع کردیا جبکہ اپنے ذاتی کاروبار کا رونا روتے رہتے تھے۔ بس مجبوری تھی۔ وہ ہمارے سلیپنگ پارٹنر تھے۔ اس میں تو شئیر ہوتا نہیں پھر بھی مانگ مانگ کے لے جاتے تھے ہمارے ابا جی سے۔ ایک پرچہ تھما دیتے تھے ابا جی کے ہاتھ میں اور پیسے کھینچتے تھے۔ اس کے باوجود ہمارے والد اپنے چھوٹے بھائی کو پسند کرتے تھے۔ باقی بھائیوں کو اتنا نہیں کرتے تھے۔ جبکہ تیسرے بھائی جلیل سے کسی کاروباری رنجش کی وجہ سے نفرت کرتے تھے۔

ایک وقت آیا تقریباً 1978ء میں کہ میرے دوسرےچھوٹے سوتیلے بھائی کو بھی اس کی شادی ہوتے ہی کاوربار میں شامل کرلیا۔ اس کا نام سرفراز تھا۔ اس کے کچھ عرصے بعد والد صاحب نے چچا کو کاروبار سے الگ کردیا سن 85ء کے آس پاس کیونکہ اس کاروبار کو شروع کرنے اور چلانے والے ہمارے والد ستار صاحب ہی تھے۔ غفار چچا تو محض سلیپنگ پارٹنر تھے۔ دوسرے ہم دو بھائی بھی ورکنگ پارٹنر بن گئے تھے، اس لیے کاروبار میں چچاکو شامل کرنے کا کوئی جواز نہ تھا۔ یہ بتاتا چلوں کہ ہم لوگ کل تین بھائی تھے۔ میں سب سے بڑا اور مجھ سے چھوٹے دو بھائی، وہ دوسری والدہ سے تھے۔ دوسرے کا نام سرفراز اور تیسرے کا طارق۔ ان میں سے اس وقت تیسرا سوتیلا بھائی کالج میں زیر تعلیم تھا۔ اب والد اور چچا میں دشمنی کا آغاز ہوگیا کیونکہ چچا کی مفت کی کمائی کا ذریعہ بند ہوگیا تھا۔ وہ میرے بدترین دشمن بن گئے۔ انکا خیال یہ تھا کہ میں نے ان کو کاروبار سے الگ کروایا ہے۔ مجھے بھی یہی شک ہے کہ میرے والد نے ان کو کہا ہوگا کہ یہ بندہ چاہتا کہ تم کاروبار سے الگ ہوجاؤ یعنی میں نے کہا ہے۔ یہاں ایک بات کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ جب تک ہمارے چچا ہمارے بزنس پارٹنر رہے، تب تک ہم لوگ ہی ان کے اخراجات اٹھاتے رہے۔ مثال کے طور پر ان کی بیٹیوں کی شادیاں اور تعلیم کے تمام اخراجات، ان کے بچوں کو اسکولوں سے لانا لے جانا بھی میری ہی ڈیوٹی تھی۔ ان کے بچے بیمار ہوں تو میں ہی ان کو لے کر ہسپتال جاتا تھا۔ میری ڈیوٹی نوکروں کی طرح تھی۔ چچا کے ذمہ اس طرح کی کوئی ڈیوٹی نہیں تھی۔ وہ اپنی ہی اولاد کو ہسپتال اور اسکول نہیں لے جاتے تھے۔ ہمارے کاروبار میں شامل رہ کر انہوں نے خوب عیش ہی عیش کیے، اتنی خدمات کے باوجود اس شخص کا رویہ میرے ساتھ دشمنوں جیسا ہی رہا۔ جب 1992ء میں سب سے چھوٹے تیسرے سوتیلے بھائی طارق کو اس کی شادی کے بعد کاروبار میں شامل کرلیا گیا، پھر میرے والد صاحب کا رویہ میرے ساتھ دوبارہ تلخ ہونا شروع ہوگیا۔ مگر میں نے کوئی پرواہ نہ کی اور کاروبار میں دل و جان سے شامل رہا۔ اب وہ وقت آگیا کہ تمام کاروباری معاملات میرے پاس آگئے اور کاروبار خوب چلنے لگا۔ پھر والد صاحب مجھ سے کافی متاثر ہونے لگے اور میری تعریف کرتے رہتے۔ پیسے کا کنڑول انہی کے پاس تھا۔ وہ مجھے تمام معاملات سے باخبر رکھتے۔

ایک واقعہ سناتا ہوں کہ یہ سن 1982ء کی بات تھی دوکان کے مالک نے تنگ کرنا شروع کردیا، وہ اپنی جائیداد بیچنا چاہتا تھا، مگر بہت زیادہ پیسے مانگنے لگا تھا کرایہ کے کیونکہ ہماری دوکان کرائے کی تھی اور لاہور میں میکلیگن روڈ پہ واقع تھی، اس لیے معاملہ طے نہ ہوسکا۔ ہم نے نزدیک ہی ایک دوکان دیکھ لی اور خریدنے کا ارادہ کیا۔ یہ دکان پرانی انارکلی لیک روڈ پہ تھی۔ پہلے تو والد صاحب اور دوسرا چھوٹا بھائی سرفراز پرُجوش تھے مگر جب سودا وغیرہ ہونے لگا تو نہ معلوم یہ دونوں کیوں پیچھے ہٹ گئے!!! انہوں نے کوئی خاص دلچسپی نہیں لی۔ اب میں اکیلا رہ گیا۔ میں نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور سودا طے کرکے ایڈوانس رقم دے دی۔ باقی رقم بھی والد صاحب سے لے کر ادا کرکے دوکان کا قبضہ لے لیا۔ دوکان خریدنے کے لیے جب والد صاحب سے رقم طلب کی تو انہوں نے رقم ہاتھوں میں نہ دی بلکہ غصے سے پھینک کے میرے منہ پہ ماری۔ سارے پیسے زمین پہ بکھر گئے۔ مجھے نیچے جھک کے اٹھانے پڑے۔ اگر وہ دوکان نہ لی ہوتی تو آج میرے پاس کچھ نہ ہوتا۔ بچے بری طرح تباہ ہوچکے ہوتے۔ اس دوکان نے ہی مجھے برے وقت سے بچایا۔ بچانے والا تو اللہ ہی ہے۔

یہ نئی دکان میری بیوی اور میرے اسی سوتیلے بھائی سرفراز کی بیوی کے نام تھی۔ مگر افسوس، اس موقع پر کوئی بھی میرے ساتھ نہ گیا، نہ والد صاحب نہ چھوٹا بھائی سرفراز۔ مجھے اپنی دکان کے ملازم کو لے جانا پڑا۔ مجھے آج تک وجہ سمجھ میں نہیں آئی کہ یہ لوگ ایک دم سے پیچھے کیوں ہٹ گئے تھے، حالانکہ دوکان ہم دونوں بھائیوں کی بیویوں کے نام ہی خریدی گئی تھی۔ دوکان کافی پرانی تھی، اس لیے توڑ کر دوبارہ بنوائی گئی۔ یہ سارا کام بھی میں نے اور ایک ملازم نے انجام دیا۔ اس کے بعد ہم لوگ نئی دوکان میں شفٹ ہوگئے۔ والد صاحب بیمار رہنا شروع ہوگئے تھے۔ انہیں دمہ ہوگیا تھا۔ اس لیے اب دوکان پر کبھی کبھی آتے تھے۔ جب ہماری پرانی کرائے والی دکان میکلوڈ روڈ لاہور میں تھی وہاں کاروبار زوروں پہ چلتا تھا، مگر جیسے ہی ذاتی دوکان لیک روڈ پرانی انارکلی میں لی تب سے ہی کاروبار زوال پذیر ہونا شروع ہوگیا۔ وہاں انہی دنوں دوکان کی چھت پہ بکرے کی سریاں پڑی ملتی تھیں۔ جس کا مقصد تھا دوکان ختم کرنا جو بلآخر 1998ء میں مکمل ختم ہوگئی۔ایسا کوئی جانی اور حاسد دشمن کون تھاجس نے کاروبار بند کروا دیا؟

کچھ عرصے بعد تیسرے سوتیلے چھوٹے بھائی طارق کا رویہ مجھ سے خراب رہنے لگا۔ وہ اس کاروبار میں 92ء میں شامل ہوا تھا۔ اس کی شادی ہوچکی تھی 1992ء میں۔ کاروبار میں میری بالکل مدد نہیں کرتا تھا اور کچھ عرصے سے مجھ سے بات چیت بھی نہیں کرتا تھا۔ میں نے والد صاحب کو تمام معاملات کے بارے میں بتایا اور عرض کی کہ آپ بھی دوکان پر تھوڑی دیر کے لیے آجایا کریں تاکہ آپ خود بھی سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کریں۔ چند دن تو وہ آئے مگر پھر چھوڑ دیا۔ آخر میں نے تنگ آ کر الگ سے اپنی نئی فرم بنالی جس کا نام بائیومیڈ رکھا۔ میر ی فرم کا دفتر بھی اسی بلڈنگ میں تھا۔ والد صاحب کو اس بات کا بے حد افسوس ہوا۔ مگر انہوں نے مجھے منع نہ کیا۔ میں نے ان کو بتایا کہ مشترکہ کاروبار بھی چلاتا رہوں گا اور اپنا بھی کام کروں گا۔ مگر ایسا کرنا میرے لیے مشکل ترین ہوگیا اور ہوتا چلا گیا، کیونکہ کئی معاملات میں والد صاحب مجھ سے تعاون نہیں کرتے تھے۔ ان کو میرے نئے کاروبار سے سخت رنج تھا۔ مجبوراً مجھے اپنا کاروبار بند کرنا پڑا۔ 

ایک وجہ یہ بھی ہوئی تھی ایک روز انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ سے ایک صاحب آئے اور پوچھ گچھ کی۔ میں نے اسے سب کچھ سچ سچ بتا دیا۔ مگر اس نے ماننے سے انکار کردیا اور باقاعدہ یہ الفاظ بولے کہ تم جھوٹ بول رہے ہو۔ تمہاری آمدن کہیں زیادہ ہے۔ اس نے مجھ پہ دہرا ٹیکس لگایا۔ اس سے میں اور زیادہ دلبرداشتہ ہوگیا۔ میں نے کوئی دو سال ہی اپنا ذاتی کام کیا تھا۔ میں نے بڑی مجبوری میں اپنا الگ کاروبار شروع کیا تھا اور اس کی وجہ بھائیوں اور والد صاحب کا طرزعمل تھا کیونکہ مشترکہ کاروبار اس طرح نہیں چلتے کہ پارٹنر آپس میں بول چال ہی بند کردیں۔ انہی دنوں میرے سگے والد نے میرے خلاف پوری کوٹھی میں جا کے ہر ایک کو کچھ کہا۔ بعد میں واپس آ کے مجھے کہتے ہیں کہ یار میں نے بہت کچھ کہہ دیا تمہارے خلاف، مجھے کہنا نہیں چاہیے تھا۔ یہ ان کے اپنے الفاظ تھے۔ جب باپ نے ہی سب کو خود کہا تو ہر بندہ اسے مانے گا کہ باپ نے ہی تو کہا ہے ٹھیک ہی کہا ہوگا۔ پتا نہیں کیا کچھ کہہ آئے تھے میرے خلاف۔

ایک موقع ایسا بھی آیا کہ اس چھوٹے سوتیلے بھائی طارق نے دوکان پر آنا جانا ہی بند کردیا۔ جب والد صاحب نے وجہ پوچھی تو بولے کہ میں کوئی اور کام کرنا چاہتا ہوں اور کام کی تلاش میں ہوں۔ یہ بات والد صاحب نے ہی مجھے بتائی ۔ دراصل جب سے چھوٹا بھائی کاروبار میں آیا تھا، والد صاحب کا رویہ اسی وقت سے بدلنا شروع ہوگیا تھا میرے ساتھ۔ بلکہ ایک موقع تو ایسا بھی آیا تھا کہ والد صاحب نے مجھے چھوٹے بھائی سے ذلیل بھی کروایا تھا وہ سرفراز تھا۔ ہوا کچھ اس طرح تھا کہ میں چونکہ بڑا تھا، میرے بچے بڑے ہورہے تھے اور مجھے مزید کمروں کی ضرورت تھی۔ میں، بیوی اور تین بچے سب ایک ہی کمرے میں رہ رہے تھے۔ میں نے والد صاحب کو مشورہ دیا کہ کوئی پلاٹ وغیرہ خرید لیں تاکہ گھر بنا سکیں۔ میں نے یہ بھی کہا کہ چھوٹے بھائیوں کو بھی آئندہ جگہ کی ضرورت پڑے گی اس لیے ان کے لیے بھی پلاٹ خرید لیں۔ جیسا کہ میں نے بتایا تھا کہ ہم کل تین بھائی تھے ، دو کی شادی ہوگئی تھی یعنی میری اور میرے دوسرے سوتیلے بھائی کی۔ جبکہ تیسرے کی ابھی ابھی ہوئی تھی۔ اس وقت والد صاحب کو میرا یہ مشورہ بہت برا لگا اور وہ یہ سمجھتے تھے کہ شاید میں الگ ہونا چاہتا ہوں۔ پہلے تو چھوٹے بھائی سرفراز کو بلاکر اسے میرے خلاف خوب اکسایا، پھر بعد میں مجھے بلا کر اس سے ذلیل بھی کروایا۔ یہ بھائی سرفراز والد کی آشیرواد سے اچھل اچھل کر مجھ سے بات کررہا تھا۔ حالانکہ میں اس سے تقریباً ساتھ آٹھ سال بڑا ہوں گا۔ میں نے اسے سمجھایا کہ ایک دن آئے گا جب تم بھی یہی مطالبہ کرو گے کیونکہ ایک ہی مشترکہ گھر میں اتنے سارے افراد نہیں رہ سکتے۔ مگر وہ تو اس طرح برتاو کررہا تھا گویا کہ وہ بڑا اور میں چھوٹا ہوں۔ یہ واقعہ اس سے پہلے کا ہے جب میں نے الگ سے اپنا کاروبار شروع کیا تھا۔ یہ سرفراز تو مجھے بھائی کہنا نہیں گوارا کرتا تھا۔ ”اوئے، ائے“ کہہ کے مخاطب کرتا تھا۔

جب سرفراز کی شادی ہوئی تو میرے والد نے اس کے لیے کمرے بنوائے۔ جب طارق کی ہوئی تو اس نے اس کے لیے بھی کمرے بنوائے۔ میرے بچوں کے لیے وہ کچھ نہیں کرنا چاہتا تھا۔ وہ ہمارے بچوں کو ایک ہی چھوٹے کمرے میں قید رکھنا چاہتا تھا۔

میرے والد صاحب نے مجھے بےعزت کرنے کے لیے مجھے طارق کی شادی پہ 50 ہزار کی رقم دے کے بھیجا کہ خرچ میں کام آئے گی اور دوسری طرف سرفراز کو ایک لاکھ کی رقم دے کے بھیج دیا۔ جب شادی پہ پہنچے تو مجھے پتا چلا۔ دوسرے رشتےدار مجھے سے پوچھ رہے تھے کہ تمہیں پچاس ہزار کی رقم کیوں دی؟ اس سوال کا جواب میرے پاس نہیں تھا۔ اس زمانے میں 1992ء میں ایک لاکھ کی رقم آج 22ء کے مطابق 50 لاکھ کے قریب بنتی ہے۔

میرے والد کے دماغ میں میرے خلاف اتنا بغض تھا کہ ایک دن وہ فرمانے لگے کہ تم "میرے بچوں" کو مار ڈالنا چاہتے ہو۔ گویا کہ میں انکا بیٹا نہیں تھا۔ یہاں انہوں نے ایک لکیر کھینچ دی تھی "سگا اور سوتیلا"۔ میں ان حالات میں اتنا تنگ آگیا تھا کہ خودکشی کرنے کو جی چاہتا تھا۔ دوسری والدہ صاحبہ کا رویہ بھی میری بیوی سے بہت امتیازی تھا۔ جب کسی مہمان کو دعوت دینا ہوتی تومیری دوسری والدہ حساب لگاتیں کہ کس دن میری بیوی کی کھانا پکانے کی باری ہے۔ بس اسی دن مہمان کو دعوت دیتی تھیں، اپنی چھوٹی بہو کا بہت خیال رکھتی تھیں کہ اسے کوئی کام نہ کرنے پڑے۔ جب سب سے چھوٹی تیسری بہو کی کھانا پکانے کی باری ہوتی تو ساتھ خود بھی بیٹھ جاتیں اور روٹیاں پکانے میں مدد کرنے لگتیں۔ والد صاحب بھی ایسا ہی طرزعمل رکھتے۔ میری بیوی دوپہر کو جب سورہی ہوتی تو اس کو جگا کر چائے بنواتے اور کسی بہو سے کبھی کچھ نہ کہتے۔ مجھے تو کبھی کبھی ایسا لگتا تھا کہ شاید یہ میرے سگے باپ نہیں بلکہ سوتیلے باپ ہیں۔ اور تھا بھی یہی کہ ماں سوتیلی تھی لیکن باپ تو سگا تھا۔۔۔ میں تو اپنی شادی کا ذکر کر ہی چکا ہوں۔ نہ کوئی بینڈ نہ کوئی باجا،نہ ہی تصاویر، بالکل سادگی سے ہوئی۔ لیکن اپنے دو سگے بیٹوں یعنی میرے دو سوتیلے بھائیوں کی شادیاں بڑی دھوم دھام سے کیں۔ ایک کی شادی میں تو فوجی بینڈ بھی آیا تھا اور دوسرے کی شادی پر بھی بے دریغ پیسہ خرچ کیا۔

ایک واقعہ سناتا ہوں جو میرے سینے پر کنندہ ہوگیا ہے۔ ”یہ 1978ء کی بات تھی۔ جب میرے منجھلے سوتیلے بھائی سرفراز کی شادی ہورہی تھی تو میں خود وڈیو بنا رہا تھا، کیونکہ مجھے فوٹوگرافی کا کافی شوق تھا۔ میرے پاس اس زمانے کا مووی کیمرہ تھا جو پروجیکٹر پہ چلتا تھا۔ اس زمانے میں کمرشل مووی نہیں بنتی تھی نہ وی سی آر تھے گھر میں۔ اس وقت وی سی آر والے کیمرے پاکستان میں نئے نئے آئے تھے۔ یہ صرف پروجیکٹر والا ساونڈلیس مووی کیمرہ تھا۔ اتفاق سے میرے کیمرے کا سیل خراب ہوگیا۔ میرے ساتھ ایک اور ایکسپرٹ بھی تھے۔ انہوں نے جلدی سے سیل نکال کر کپڑے سے خوب صاف کیا تاکہ کسی طرح مووی بن جائے، مگر کیمرہ تھوڑا چلتا اور پھر بند ہوجاتا۔ اب دیکھیے ہمارے والد محترم کیا فرماتے ہیں ::: کہنے لگے کہ اسے (یعنی مجھے) یہ غم ہے کہ اسکی شادی میں مووی نہیں بنی تھی اِسی لیے اِس نے جان بوجھ کر کیمرہ خراب کردیا ::: اس بات سے آپ خود اندازہ لگا لیں کہ آیا وہ مجھے سگا بیٹا تسلیم کرتے تھے یا سوتیلا۔ ایک تو میں مووی بنا رہا تھا جو میرا کام نہیں تھا، دوسرا ملزم بھی میں ٹھہرایا جارہا تھا۔ اگر والد صاحب کو اتنا شک و شبہ تھا تو پہلے کسی ایکسپرٹ کا انتظام کر لیا ہوتا اور اپنی مرضی کی فلم بنوالیتے"۔

سب سے چھوٹا تیسرا سوتیلا بھائی طارق بھی جب کاروبار میں شامل ہوگیا تو میرے ساتھ شروع شروع میں کچھ دن تو اچھی طرح پیش آیا۔ جیسا میں کہوں ویسا ہی کرتا تھا۔ میں نے اس کو بھی کاروبار کے ایک شعبے سے منسلک کردیا۔ مگر کچھ ہی دنوں بعد وہ بدلنا شروع ہوگیا۔ والد صاحب دونوں چھوٹے بھائیوں سے مشورے کرنے لگے اور مجھ سے فاصلے بڑھانے لگے۔ اسی طرح اب ہم لوگوں کے درمیان تناو کافی بڑھ گیا اور کاروبار زوال پذیر ہونا شروع ہوگیا۔ والد صاحب بھی بیمار رہنے لگے اور پھر فوت ہوگئے۔ یہ 1995ء تھا جب والد فوت ہوئے۔ جیسا کہ میں بتا چکا ہوں کہ والد صاحب کی زندگی میں ہی میں نے سب سے چھوٹے سوتیلے بھائی کو پارٹنر بنایا تھا، کیونکہ پہلے وہ پارٹنر نہیں تھا البتہ کاروبار میں کبھی کبھی ساتھ ہوتا تھا۔ حالانکہ منجلا سوتیلا بھائی سرفراز اس وقت مخالفت کررہا تھا۔ میرے والد کے چالیسویں پہ چھوٹے سوتیلے بھائی طارق صاحب نے مجھے کسی بات پہ واضح کہا تھا کہ "میں آپ کو قیامت تک معاف نہیں کروں گا"۔ یہ اس کے لفظ تھے۔ 1996ء کی بات ہوگی۔ میں نے بھی جواباً اس کو کہہ دیا تھا کہ "ہم تم سے بڑے ہیں ہم تمہیں چانٹا بھی مارسکتے"۔ تو اسی بات پہ یہ دونوں میاں بیوی (کتا کتیا) مجھ پہ تعویز کر آئے اور یہ تعویز اس کی بیوی کے اشارے پہ ہوئے تھے۔ یہ 1996ء میں ہوئے تھے۔ ان تعویزات کا مجھے کافی عرصے بعد پتا چلا تھا۔ ایسے پتہ چلا تھا کہ 2007ء میں ہم میاں بیوی عمرے پہ جانے کی تیاری کررہے تھے۔ طارق اور اس کی بیوی دونوں روتے دھوتے ہمارے پاس آئے تھے اور باقاعدہ پیروں میں پڑ کے معافی مانگی۔ یہ الفاظ بولے کہ آپ ہم سے بڑے ہیں ہمیں مار بھی سکتے ہیں۔ اس کے بعد اگلے ہی دن سے پھر ویسے ہی ہوگئے۔ بس اپنا فرض ادا کردیا۔ اس نے لازمی کوئی سنگین گناہ کیے ہوں گے جس کی وہ معافی مانگنے آیا تھا۔ یہی بات تھی کہ اس نے سوچا کہ ہم لوگوں نے ان پہ تعویزات کیے ہیں چلو چل کے معافی مانگ لیں ورنہ یہ ہمیں بدعائیں دیں گے۔ بالکل یہی وجہ تھی معافی مانگنے کی۔

 ہم بھائیوں نے والد صاحب کے انتقال کے بعد ان کا کاروباری حصہ پورے کا پورا سب سے چھوٹے بھائی طارق صاحب کو دے دیا۔ پارٹنر تو وہ پہلے ہی بنا لیا گیا تھا۔ اب الٹا اس کا حصہ ہم سب سے زیادہ ہوگیا۔ گو کہ نئی پارٹنرشپ ڈیڈ لکھی گئی۔ اب ہم لوگ برابر کے حصے دار تھے۔ یہ ایک بہت بڑی غلطی تھی۔ حالانکہ میں نے اس وقت تک کوئی 30 سال محنت کی ہوگی۔ میرا حصہ تو سب سے زیادہ بننا چاہیے تھا۔ ویسے بھی یہ رقم والد کے نام تھی اس لیے ماں، بہنوں سمیت تمام اولادوں میں تقسیم ہونا تھی۔ ابھی نئی فرم کو قائم ہوئے فقط چھ ماہ ہی ہوئے تھے کہ اسی سب سے چھوٹے بھائی نے اپنے بڑے بھائی سے مل کر شور مچانا شروع کردیا کہ فرم ختم کرو اور اپنے اپنے حصے بانٹو۔ دوکان بیچو اور ہمیں حصہ دو۔ میں بڑا حیران ہوا کہ اسے کیا ہوگیا ہے۔ میں نے دونوں کو سمجھایا کہ اتنے جلدی کیوں کاروبار ختم کررہے ہو لوگ کیا کہیں گے، ابھی والد کو فوت ہوئے 6 ماہ ہی تو ہوئے ہیں اس کو دوکان بیچنے کی پڑ گئی۔۔۔ مگر میری آواز صدا بصحرہ ثابت ہوئی۔

 یہ لوگ اپنا ذاتی کام کرنا چاہتے تھے۔ طارق کے سسرالیوں نے اس کو پٹیاں پڑھائیں اور یہ طے کیا کہ اس نام سے کوئی بھی کاروبار نہیں کرے گا "عبدالستار اینڈ سنز"۔ وہ اس کو مشترکہ کاروبار سے الگ کرنا چاہتے تھے۔ بلکہ چاہتے تھے کہ یہ کاروبار ہی بند ہوجائے۔ طارق صاحب نے اپنے سسرالیوں کے کہنے پہ اپنے ہی باپ کا نام مٹا دیا۔ جب کہ ہماری اس ٹریڈ کے دیگر کاروباری حضرات اپنا ذاتی کاروبار بھی کرتے رہے اور ساتھ میں اپنے باپ کا نام بھی چلاتے رہے۔ انہوں نے پیرینٹ کمپنی بند نہیں کی۔ ٹریڈ کے لوگ جنہوں نے 70ء کے وقتوں میں ہم ہی سے سیکھا تھا آج وہی کروڑوں میں کھیل رہے۔ 2022ء کے مطابق ہسٹوپیتھالوجیکل مشین "ٹیشوپروسیسر" 13 کروڑ کی ہے۔ یہ لوگ سپلائی کرنے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ 90ء تک ہم لوگوں نے بھی یہی مشینیں امپورٹ کرکے سپلائی کی ہیں۔ 

سن 81ء میں میڈیکل اسٹرومنٹس کی سپلائی والی بڑی کمپنیوں کی اسلام آباد میں نمائش تھی۔ اس میں لاہور، کراچی، راولپنڈی اسلام آباد کی کمپنیاں شامل تھیں۔ جس میں میں اپنی کمپنی کی طرف سے گیا تھا۔ وہاں پاکستان کے سابق صدر جنرل ضیاء الحق کو نمائش کی تقریب کے لیے بلایا گیا تھا۔ میں نے ان سے ہاتھ ملایا تھا۔ اس کے برعکس آج کا دن ہے ہماری کمپنی محض خوابوں میں رہ گئی ہے۔ 1978۔79ء میں، میں بزنس ویزے پہ بیرون ملک تک گیا تھا۔ جاپان، تھائی لینڈ، یورپ اور امریکہ اپنے پرنسپلز سے ملنے۔ ان ملکوں کی کئی ایجنسیاں تھیں ہماری کمپنی کے پاس۔ یہ تمام کی تمام جاتی رہیں۔ انہی سے مال امپورٹ کرکے سپلائی کرتے تھے سرکاری ہسپتالوں و کالجوں کو۔ 






میں جاپانی بزنس وزٹ پہ ۔ 1978

یہ 1990ء کی بات تھی کہ ہماری ٹریڈ کے کاروباری حضرات یہ بدمعاشی کرتے تھے کہ وہ مختلف اسی ٹریڈ کے دفتروں میں صفائی کرنے والوں سے کہتے تھے کہ "تم نے ان کے دفتر کا کچرا ایسے نہیں پھینکنا۔ تم اس میں سے سارے کاغذ ہمیں لا کر دو۔ ہم جاننا چاہتے ہیں کہ فلاں دفتر والوں نے کس قسم کی ٹریڈ کی ہے اور ان کے کتنے پرنسپلز ہیں باہر"۔ وہ کاروباری راز چرانا چاہتے تھے۔ ان کو پیسہ کھلاتے تھے۔ نجانے ہمارے دفتر کے کتنے ہی راز ہماری ٹریڈ کے دوسرے بزنس مینوں کے پاس چلے گئے ہونگے!!!۔ کیونکہ کچرے کی ٹوکری میں آپ وہی کاغذ پھاڑ کے ڈالتے ہیں جن میں آپ کاروباری خطوط لکھ کے اپنے پرنسپلز سے کچھ منگواتے یا رابطہ کرتے ہیں۔

CHAMBER OF COMMERCE 1992





میں یہ یاد دلا دوں کہ دوکان میرے اور منجھلے بھائی کی بیویوں کے نام تھی، اس میں کسی اور کا کوئی حصہ نہیں بنتا تھا۔ گھر میں ہمارے چچا غفار سیٹھ بہکانے والوں میں پیش پیش تھے۔ ساتھ ہی سب سے چھوٹے سوتیلے بھائی طارق کے سسرال والے بھی میرے ان دونوں بھائیوں کے کان بھرنے لگے تھے۔ اس کی شادی بھی سندھ کے شہر کوٹری میں ہی ہوئی تھی۔ اس کے سسرالی تو بہت ہی خطرناک ترین لوگ تھے۔ جادو ٹونہ تعویزات و عملیات کرنے کروانے والے لوگ اور ان کا تو ایک ایسا جادوگر بھی واقف تھا جو پیسے ہی کام ہونے کے بعد لیتا تھا۔ وہ کالا علم میں بہت ماہر تھا۔ اس کا نام سجاد عرف سجادہ تھا۔ وہ صوبہ سندھ کے شہر کوٹری کی بہار کالونی میں رہتا تھا۔ اسے بابا بہاری بھی کہتے تھے۔ پورے محلے کو معلوم تھا کہ یہ مانا ہوا جادوگر ہے جو پیسے ہی کام ہونے کے بعد لیتا ہے۔ تیسرے چھوٹے سوتیلے بھائی کا سالا اس کے پاس جاتا ہے تعویزات کروانے۔ اس کا نام "شیخ اسرائیل" تھا۔ وہ صوبہ سندھ کے ضلع دادو کی ضلعی زکوة کمیٹی کا چئیرمین تھا۔ پورا صوبہ سندھ اسے جانتا تھا۔ سن 2003ء کا وزیراعلی سندھ بھی اس کو اچھی طرح جانتا تھا۔ اس زمانے میں ضلع جامشورو نہیں بنا تھا۔اسرائیل نے مرتے دم تک تعویزات کیے ہم لوگوں پہ۔ مر گیا مگر باز نہیں آیا۔ اس کے خلاف تو وزیراعلی سندھ نے 2003ء میں ہی سندھ کے اردو مقامی اخبارات میں باقاعدہ خبر بھی شائع کی تھی کہ "وزیراعلی سندھ نے اسرائیل کے خلاف تحقیقات کا حکم دے دیا"۔ یہ سرخی تھی۔ اس کے علاوہ ایک اور مقامی اخبار میں یہ درج ذیل خبر بھی شائع ہوئی تھی۔







جادوٹونے اور گھر خالی کروانے کی بات کا ایسے پتہ چلا کہ ہمارے رشتےدار ہیں سندھ کے شہر کوٹری میں۔ مجھے شک تھا کہ اسرائیل ٹھیک آدمی نہیں۔ میں نے اپنے رشتےدار کو اس کا پیچھا کرنے کو کہا۔ اس نے اپنے دوستوں کو اسرئیل کے پیچھے لگا دیا۔ اسرائیل رشتےداروں کو تو جانتا ہے دوستوں کو تو نہیں جانتا!!! دوست اس کا پیچھا کرتے ہوئے کوٹری شہر کی بہار کالونی تک پہنچے۔ انہوں نے اسے ایک گھر میں داخل ہوتے دیکھا۔ انہوں نے محلےداروں سے پوچھا یہ گھر کس کا ہے؟ تو انہوں نے بتایا کہ یہ ایک مانے ہوئے جادوگر کا گھر ہے۔ اس کا نام سجاد عرف سجادہ ہے۔ اسے بابا بہاری بھی کہتے ہیں۔ یہ اتنا ماہر ہے اس کام میں کہ یہ کام ہونے کے بعد ہی پیسہ لیتا ہے اور بہت لوگوں کو جادو کے ذریعے قتل کرچکا ہے۔ پولیس سمجھاتی ہے باز نہیں آتا۔ پولیس گرفتار اس لیئے نہیں کرتی کیونکہ آلہ قتل برآمد نہیں ہوتا۔

پھر رشتےدار کے دوست اس کے ساتھ کراچی پہنچے۔ وہاں دوستوں کے ایک پیر صاحب رہتے تھے۔ وہ ان کے گھر گئے اور حساب کتاب کروایا کہ اسرائیل کا کیا معاملہ ہے؟ تو پیر صاحب نے براہِ راست میرا نام لیا کہ لاہور میں کوئی فاروق صاحب ہیں۔ انہوں نے اسرائیل کی بہن کے گھر پہ قبضہ کیا ہے اور وہ پوری کوٹھی پہ قبضہ جمانا چاہتے ہیں۔ اس بہانے سے تعویزات ہورہے ہیں۔ میرا رشتےدار اور اس کے دوست میرا نام سن کےبہت حیران ہوئے۔ یہ پیر صاحب کی طاقت تھی کہ انہوں نے عملیات سے سب کچھ بتا دیا۔ رشتےدار نے مجھے یہ خبر فون پہ دی اور  یہ 2011ء میں معلوم ہوئی تھی۔ 2018ء میں ہمیں مجبوراً اپنے کمرے خالی کرنے ہی پڑے۔


شیخ اسرائیل کل چار بہن بھائی ہیں جن میں سے دونوں بھائی فوت ہوچکے ہیں۔ شیخ اسرائیل سے چھوٹے بھائی کا نام جاوید عرفان تھا۔ وہ بھی جادوگر تھا۔ کالاجادو کرتا تھا۔ اس کی شادی ایک امریکی نژاد پاکستانی سے ہوئی تھی۔ اس نے اسی وجہ سے طلاق مانگ لی تھی کہ وہ کالاجادو کرتا ہے۔جاوید عرفان کے ایک دوست جو کراچی میں رہتا ہے نے بتایا تھا کہ اسرائیل اور جاوید عرفان دونوں کااپنا ایک بنایا ہوا بازار ہے کراچی کیماڑی یا کلفٹن میں (مجھے ٹھیک سے یاد نہیں)۔ وہاں جادوگر بٹھائے ہوئے ہیں۔ وہاں جادوٹونے کا سامان بیچا جاتا ہے۔ مٹی کی جادوئی ہنڈیا، پتلے، کھلونے، کپڑے سلائی کی سؤئیاں وغیرہ۔ شیخ اسرائیل کی دونوں بہنیں بھی کالاجادو کرتی ہیں۔ بڑی کا نام زاہدہ ہے اور چھوٹی کا شاہدہ۔ چھوٹی کا دماغ بہت تیز ہے۔ زاہدہ کے پاس تو ایک سرکٹا جنات تک موجود ہے جس سے وہ کام لیتی ہے۔ سرکٹا جنات جس کے قابو میں ہو وہ عورت یا مرد بہت بھاری طاقت کے ہوجاتے ہیں۔ ان کی موت نہیں ہوسکتی جب تک وہ اپنا علم کسی کو سکھا نہ دیں۔  زاہدہ کے شوہر کا نام ادریس ہے۔ اس نے بھی بیوی سے کالاعلم سیکھ لیا۔ دونوں میاں بیوی یہی کام کرتے ہیں۔ زاہدہ نے تو اپنی ہماری حویلی کی دو بزرگ خواتین کی جان بھی کالےجادو سے لیں۔ یہ لوگ پوری کوٹھی پہ قبضہ جمانا چاہتے ہیں۔ یہ بات مجھے اپنے ایک تایازاد کزن سے معلوم ہوئی تھی۔

 زاہدہ کے دونوں بھائی مر چکے ہیں۔ شاہدہ ان کی چھوٹی بہن ہے۔ اس کی شادی میرے سب سے چھوٹے سوتیلے بھائی طارق سے ہوئی ہے۔ شیخ اسرائیل کی پوری فیملی سندھ کے شہر کوٹری میں رہتی ہے۔ بہن بھائیوں اور والدین سمیت۔ والدین فوت ہوچکے ہیں۔ میرا چھوٹا سوتیلا بھائی طارق بھی جادوٹونے کے کاموں میں پڑا ہوا ہے۔ یہ شروع سے ہی ایسا تھا۔ ان دونوں بہنوں کے شوہر حضرات نے قبرستان جا کے اپنے والدین کی قبریں تک دکھائی ہوئی ہیں۔ گورکن ہمارے پورے گھر کو اچھی طرح جانتا ہے۔ اسی نے میرے ایک تایازاد کزن کو بتایا تھا کہ تمہارے گھر سے دو عورتیں آتی ہیں اور تمہارے والدین کی قبروں پہ تعویزات کرتی ہیں۔ میرے تجربے کے مطابق ایک ہی کوٹھی میں دو سگی بلکہ دو سوتیلی بہنیں تک شادی ہو کے نہیں آنا چاہیئں۔ ورنہ گھر ایک شمشان گھاٹ بن جاتا ہے۔

اب میرے اردگرد گھیرا تنگ ہونا شروع ہوگیا اور بالآخر مجھے دوکان بیچنا ہی پڑی۔ 1998ء میں دوکان بیچ دی گئی۔ سارا کاروبار میں نے چلایا۔ والد صاحب تو دوکان پہ بیٹھتے تھے۔ محنت میں کرتا تھا۔ جو کماتا تھا وہ سب والد صاحب کے کہنے پہ انہی کی جھولی میں ڈالنا پڑتا تھا جبکہ ہم دونوں باپ بیٹا برابر کے پارٹنر تھے وہ کمائی تو برابر تقسیم ہونا چاہیے تھی۔ وہ مرتے دم تک اپنے پاس رکھے رہے۔ مرنے کے بعد اپنے سگوں کو نواز گئے۔ مجھے صرف دوکان بیچنے کا ملا بلکہ اس کا بھی آدھا کیونکہ وہ دو کے نام تھی۔ مجھے ان سے بڑی امید تھی کہ وہ مرنے سے پہلے پوری کمائی کا برابر حساب کریں گے۔ لیکن ایسا نہ ہوا۔

ایک بات اور بتاتا چلوں کہ یہ 80ء۔90ء کے وقتوں کی بات تھی۔ اس زمانے میں، میں کچھ پیسہ سعودی عرب سے اپنے ایک رشتہ دار کے ہاتھ منگواتا تھا۔ یہ کمیشن کی رقم تھی۔ اس زمانے میں لوگ اپنا پیسہ وائٹ کروانے کے لیے یہ کام کرتے تھے۔ جتنا بھی پیسہ تھا وہ سب میں نے اپنے نام سے منگوایا تھا اور یہی سب سے بڑی غلطی کی۔ وہ پیسہ مجھے اپنے والد یا کمپنی کے نام منگوانا چاہیےتھا۔ اسی غلطی کی قیمت آج تک چکا رہا ہوں۔ وہ پیسہ میں اپنے نام سے منگوا کے والد صاحب کو دیتا تھا۔ یہ دوسری بڑی غلطی کی تھی۔ کاروبار کے دوسرے پارٹنرز اور گھر کے دیگر دشمن رشتےدار والد صاحب کے انتقال کے بعد یہی کہنے لگے کہ وہ پیسہ تو آپ منگواتے تھے اپنے نام سے، آپ ہی کے پاس ہیں۔ تب میں نے سوچا کہ والد صاحب کو پیسہ دینے کا بھی ایک تحریری ثبوت ہونا چاہیے تھا۔ اپنے والد سے اسٹامپ پہ لکھوانے چاہیے تھا تاکہ ایک ٹھوس ثبوت تیار ہوتا۔ وہ آج میرے کام آتا۔ میں تو مشورہ دیتا ہوں کہ کاروباری معاملات میں اپنے بیوی بچوں تک سے تحریری ثبوت لکھوانا چاہیے۔ پیسوں کے معاملے میں تو انسان اپنے بیوی بچوں تک پہ بھروسہ نہ کرے۔ والد صاحب سےاسٹامپ نہ لکھوانے کی قیمت چکا رہا ہوں۔ میں نے سوچا کہ والد صاحب ہیں اپنے والدین سے بھی کوئی اسٹامپ لکھواتا ہے!!!۔ یہ پیسہ میں سعودیہ سے اسی رشتےدار سے منگواتا تھا جس کا نام لائق تھا۔ وہی مجھے انہی پیسوں کے معاملے پہ بلیک میل کررہا تھا۔ وہ لائق نہیں نالائق تھا۔ بلیک میلر تھا۔ اب میں ا پنی صفائی کے لیے گرم توے پہ بھی بیٹھ جاؤں تب بھی کوئی نہیں مانے گا اور ایسا ہی ہوا تھا۔ سب نے یہی کہا تھا کہ کمیشن کا پیسہ تو آپ کے نام آتا تھا۔ آپ ہی کو پتا ہوگا!!!۔ خدا کا شکر کہ دکان میری اور میرے سوتیلے بھائی سرفراز کی بیویوں کے نام تھی۔ جب 98ء میں دکان بیچی تو اسی کا پیسہ میرے اور بچوں کے کام آیا۔ ورنہ تو کچھ بھی نہیں تھا۔ لائق سے میرا کیا تعلق ہے یہ میں آپ کو آگے بتاؤں گا۔ 


غفار چچا کے دل میں اتنا بغض تھا میرے خلاف کہ انہوں نے سعودیہ میں لائق کو خط لکھ کے پوچھا کہ ”کتنا پیسہ تم نے کمیشن کا بھیجا تھا“۔ اسی لیے شاید لائق کے ذہن میں بھی یہی تھا کہ میرے پاس کمیشن کی کروڑوں کی رقم ہے۔ تبھی اس نے زبردستی اپنی بیٹی کی شادی میرے بیٹے سے کروائی کہ میری بیٹی عیش کرے گی۔


بہرحال، دراصل میرے خلاف یہ ایک سوچی سمجھی سازش تھی۔ کیونکہ دونوں چھوٹے سوتیلے بھائی کوئی نیا کاروبار کرنا چاہتے تھے۔ صرف میں ہی پرانا کاروبار کرنا چاہتا تھا۔ اس لیے انہوں نے سوچا کہ جب دوکان بک جائے گی تو اس کے (یعنی میرے) پاؤں کٹ جائیں گے۔ یہ کہیں کا نہ رہے گا۔ میں نے بڑی محنت سے دوکان خریدی اور بنوائی تھی۔ اس کے بیچنے کا غم سوائے میرے اور کس کو ہوسکتا تھا؟؟؟ وہ بھائی جس نے دوکان خریدنے اور قبضہ لینے میں میری کوئی مدد نہیں کی تھی اب بیچنے میں آگے آگے تھا۔ یہ سرفراز تھا۔ حالانکہ وہ خود بھی آدھے حصے کا مالک تھا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ سب سے چھوٹا تیسرا سوتیلا بھائی طارق جس نے یہ سازش تیار کی تھی، ظاہر کررہا تھا کہ گویا اسے دوکان بیچنے کا بہت غم ہو۔ میں نے اس کو دوکان بکنے پر آنسو بہاتے دیکھا۔ کتنا چالاک آدمی تھا یہ طارق !!! اتنا ہی میسنا بنتا ہے۔ آج اس کے پاس کروڑوں کی رقم ہے۔ جو رقم کاروبار ختم ہونے کے بعد اصولی طور پر تینوں بھائیوں میں تقسیم ہونا تھی یہ دونوں سوتیلے بھائی کھا گئے۔ کھاتے تو طارق ہی لکھتا تھا۔ اسے کیوں نہیں معلوم ہوگا کس کے پاس کتنا پیسہ ہے۔


یہ انسان کی فطرت ہوتی ہے کہ وہ اپنے چھوٹے بیٹے کو سب سے زیادہ چاہتا ہے۔ وہ اس کا لاڈلہ ہوتا ہے۔ بڑے بیٹے بیشک کما کما کے دولت کے ڈھیر لگا دیں وہ ہمیشہ اپنے چھوٹے بیٹے کو ہی چاہے گا۔ وہ اس کو سب سے زیادہ عزیز ہوتا ہے۔ میرے والد محترم کو بھی طارق صاحب سب سے زیادہ عزیز تھے۔ والد کے مرنے کے بعد چھوٹی بڑی تمام بہنیں بھی سب سے چھوٹے لاڈلے بھائی کے گن گاتی ہیں۔ حتی کہ سگی ماں بھی اسی کا ساتھ دیتی ہے۔ میری تو خیر سگی ماں تھی ہی نہیں۔

اسی طرح ایک بات کا اور پتہ چلا دوسرے سوتیلے بھائی سرفراز کی زبانی معلوم ہوا کہ" آپ سوچ نہیں سکتے کہ آپ کے چچا غفار کے پاس اتنی رقم ہے کہ انہوں نے ایمنسٹی اسکیم میں پیسہ وائٹ کروایا ہے اور کروڑ کی مد میں صرف ٹیکس ہی دیا ہے۔آپ تصور نہیں کرسکتے ان کے پاس کتنا پیسہ نہیں ہوگا؟؟؟ بیڑی کا کام کرتے تھے اس میں اتنی آمدن کہاں کہ کوئی کروڑوں کمالے!!!" یہ بات میرے اس سوتیلے بھائی نے میری بیوی کے سامنے کہی وہ خود اس کی چشمدید گواہ ہے۔ یہ سن 1990 تا 95ء کے درمیان کی بات تھی۔۔۔ اور تو اور میرے چچا غفار نے اپنی ہی بیگم کو خود یہاں تک کہا تھا کہ ”ہمارے پاس اتنا پیسہ ہے ساری عمر گنتی رہو گی کبھی ختم نہیں ہوگا،تم فکر مت کرو۔ساری عمر عیش کریں گے یہ لوگ“۔ یہ خبر ہمارے گھر تک خود پہنچی تھی۔ اس کا مطلب ہے کہ غفار چچا نے لازمی اسمگلنگ کی ہوگی کیونکہ ان کی بیڑی افغانستان اور ایران جاتی تھی۔ وہ شاید اس میں ہیروئن بھر کے بیچتے تھے۔ اتنا پیسہ کوئی نہیں کما سکتا۔

اس تمام کارروائی کے دوران منجھلا سوتیلا بھائی بھی مجھ سے بات نہ کرتا تھا۔ ایک دفعہ تو ایسا بھی ہوا تھا کہ یہ مجھ سے کسی بات پہ ناراض تھا تو دوکان کے اندر ہی میرے اوپر پیپر ویٹ مارنے کو دوڑا تھا، یہ سرفراز تھا۔ یہ 86ء 1987ء کی بات ہوگی۔ دوکان کے ملازم اکبر نے مجھے بچا لیا تھا۔ وہ ایکدم سامنے آگیا تھا۔۔۔ بلآخر دکان بکنے کے بعد یہیں سے میری تباہی کا آغاز ہوگیا 1998ء سے۔ میں کوئی اور کام بھی نہ کرسکا۔ بچوں کو میں نے نوکریوں کی طرف لگا دیا۔ بڑا بیٹا انجینئیر بن گیا، لیکن اس کو نوکری آئی ٹی (انفارمیشن ٹیکنالوجی )میں ملی جو اس کی لائن ہی نہیں تھی۔ سب سے چھوٹا تیسرا بیٹا بھی نوکری پر لگ گیا۔ وہ بھی آئی ٹی میں ہی لگا۔ میرے دونوں چھوٹے بچے مکمل طور پرتعلیم یافتہ نہ ہوسکے۔ میرے تیسرے چھوٹے سوتیلے بھائی طارق نے اپنی بیوی کے ساتھ مل کر میرے اور میرے بیوی بچوں پہ اپنے سسرال والوں سے مل کر تعویزات کیے جو 1996ء میں ہوئے تھے جس کی وجہ سے میرا دوسرا بیٹا ساری عمر روزگار سے محروم رہا۔ اس کی تعلیم بھی نہ ہوسکی، اس کی شادی بھی نہ ہوسکی۔ حتی کہ وہ دل کا مریض بن کر رہ گیا۔ وہی جو پیدا ہوتے ہی بیمار ہوا تھا "کاشف"، جس پر ہمارے غفار چچا نے تعویزات کیے تھے 1976 میں۔ بڑے بیٹے کی شادی بھی غنڈے بدمعاشوں میں چوہانی خون ( چوہانی ذات) میں ہوئیں وہ بھی میرے تایا کی اولادوں میں باقاعدہ تعویزات کے ذریعے ہوئی جو کہ ہم غیروں میں چاہتے تھے۔ اس کی شادی بھی زبردستی میرے تایازاد کزن یوسف صاحب جو مجھ سے بڑا ہے نے زبردستی کروائی تھی۔میرا یاتا زاد کزن اور اس کی بیوی دونوں مجھ سے اور میری بیوی سے لڑ کر گئے تھے کہ یہیں ہوگی شادی۔اسی نے میرے بڑے بیٹے کی شادی اپنی بہن کی بیٹی سے زبردستی کروائی جو راولپنڈی میں رہتے ہیں۔ یہ تعویز 2001ء میں ہوئے تھے کیونکہ منگنی ایک سال پہلے ہوئی تھی اور فیصل آباد سے ہوئے تھے۔ بڑے بیٹے کی بیوی بھی بہت بےہودہ نکلی۔ ہم میاں بیوی اس کے ماموں ممانی تھے۔ وہ ہم پہ روعب جماتی تھی۔ بالآخر میرے بیٹے کو ورغلا کے بیرونِ ملک ہمیشہ کے لیے لے گئی۔ اس کا باپ یعنی میرے بیٹے کا سسر بھی مجھے اسی بات پہ بلیک میل کررہا تھا ایک دن جو میں اوپر بتا چکا ہوں۔ وہ ایک بلیک میلر نکلا۔ اسی کا نام لائق تھا۔ دراصل وہ لائق نہیں نالائق تھا۔ یہ شادی بھی شاید اس نے میرے بیٹے سے اسی لیے ہی کروائی تھی کہ وہ بھی یہی سمجھ رہا تھا کہ میرے پاس کروڑوں کی کمیشن کی رقم ہے۔ 

یہ صرف کہاوت ہے کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔ آج کل کے مرد تو بیویوں کے غلام بن جاتے ہیں اور والدین کو آنکھیں دکھاتے ہیں۔ والدین تک کا گریبان پکڑ لیتے ہیں۔ اور تو اور ایسے مرد تو دوسرے مردوں کو بھی پٹیاں پڑھاتے ہیں۔ آج کل کے دور میں تو 95 فیصد مرد شادی کے فوراً بعد بدل جاتے ہیں۔ ان کو اپنے سگے ماں باپ بہن بھائی تک نظر نہیں آتے۔ انہیں صرف اپنے سسرال والے ہی نظر آتے ہیں۔ وہ اپنوں کی بجائے انہی پہ بھروسہ اور اعتماد کرنے لگتے ہیں اور کرنا پسند کرتے ہیں۔ اِس وقت ایک بڑے اور ایک سب سے چھوٹے کی شادیاں ہوئی ہیں۔ منجھلا بیٹا بےروزگار اور دل کا مریض ہے اس لیے اس کی شادی نہ ہوسکی۔ تیسرے بیٹے کی شادی بھی کچھ ٹھیک لوگوں میں نہ ہوسکی۔ وہ بھی چوہانی خون میں ہی ہوئی۔ میرے خیال میں یہ بھی تعویزات کے اثرات ہیں۔ ہمارے دونوں بیٹوں کی شادیاں ان لوگوں کی بیٹیوں سے ہوئیں جو لوگ ہماری دکان کے ملازم تھے۔ مجھے اس بات کا بہت رنج ہے۔ ہمارے گھر اور زندگی کو بزرگوں نے تمام کیا۔ ہمارے بزرگ ٹھیک نہیں تھے۔ مجھے باغبانی کا شوق تھا۔ جو پودا میں لان میں لگاتا میری سوتیلی ماں اکھاڑ کے پھینک دیتی تھی۔


ایک اور بات کا پتہ چلاکہ میرے تایا زاد کزن جو مجھ سے بڑا ہے، نے مجھے بتایا کہ "تمہارے والد ستار چچا نے تو اپنی سگی اولاد تک کو نہیں چھوڑا تھا۔ اس نے اس پر تعویز کروائے تھے اور اپنے ہی سب سے چھوٹے بیٹے طارق کو ہی بھیجا تھا اور "میں" بھی ساتھ میں گیا تھا۔ میں اپنی مرضی سے نہیں گیا تھا، یعنی تمہارے باپ نے سگی اولاد سرفراز پہ تعویز کیے تھے۔ ان کو اس کی شادی ناپسند تھی۔ اس نے پسند کی کی تھی اور یہ تعویز بھی فیصل آباد سے ہوئے تھے۔ باپ نے کیا معلوم تم پر بھی نہ کیے ہوں تعویز کہ تم نے اپنا الگ کاروبار شروع کردیا تھا اور تمہارے والد تمہاری شادی بھی اپنے بھایئیوں کی بیٹیوں سے چاہتے تھے یعنی ناظرہ یا عابدہ سے، میرے خیال میں شاید عابدہ سے۔ اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں۔۔۔ تمہارے والد اس کو منع کرتے تھے کہ اپنے سسرال میں نہ جاؤ۔ یہ سنتا نہیں تھا۔ اسی لیے اس پہ تعویز کروائے تھے۔ تمہارے والد کو اس کی شادی پسند نہیں تھی۔ اس نے شور ڈال کے زبردستی کی تھی 

 میرے سب سے چھوٹے سوتیلے بھائی کو بھی شرم نہ آئی۔ اس نے 1985 میں حج کیا تھا اور 1987 میں باپ کے کہنے پہ اپنے ہی سگے بھائی پہ تعویزات کیے۔۔۔ وہ حاجی نہیں پاجی نکلا۔ ایک نمبر کا پاجی۔ حج کرکے سگے بھائی کو نہ چھوڑا۔ اس پہ تعویز کیے، میں تو ہوں ہی سوتیلا مجھ پہ کیوں نہیں کرے گا وہ۔ میرے تایا کے بیٹے یوسف کا کوئی جاننے والا جادوگر فیصل آباد میں رہتا تھا۔ میرے والد کی اپنے چھوٹے بھائی یعنی تیسرے نمبر کے بھائی سے پرانے وقتوں میں کاروباری کوئی رنجش تھی۔ اسی لیے وہ اس کو پسند نہیں کرتے تھے اور سرفراز نے شادی بھی اسی بھائی کی بیٹی سے کی تھی۔ حالانکہ وہ بھی گھر کے گھر میں ہی ہوئی تھی۔ والد کے ان بھائی کا نام جلیل تھا۔ وہ ان کو کہتے تھے کہ یہ جلیل نہیں ذلیل ہے۔ جیسا کہ میں بتا چکا ہوں کہ میرے والد کل چار بھائی تھے۔ سب سےبڑے یعنی میرے تایا کا نام سلیمان تھا۔ پھر میرے والد ستار اس کے بعدتیسرے بھائی جلیل اور سب سے چھوٹے غفار۔ 

اسی طرح ایک دن ایسا بھی آیا تھا کہ میرے چچا جلیل صاحب نے والد کو کہا تھا کہ "اس کا ایک بیٹا عدنان انجنئیر بن گیا ہے وہ اس کو لے کر اُڑ جائے گا، تو جواب میں میرے سگے والد نے فرمایا کہ میں سالوں کے پر کاٹ دوں گا۔"

ایک دن مجھے میری سوتیلی ماں نے میرے بارے میں یہ خبر سنائی تھی کہ جلیل چچا نے کہا ہے کہ فاروق تو ہے ہی سوتیلا۔ اس کو تو ہم گھر سے ہی نکال دیں گے۔ میری ماں بھی سوتیلی تھی لیکن اس وقت تو اس کو بھی بہت برا لگا تھا۔ بیشک وقتی طور پہ برا لگا ہو۔

 گھر والدین کا تھا جس میں سے کچھ پورشن رہنے کے لیے مجھے مل گیا تھا۔ یہ  کوٹھی کے ایک چوتھائی حصے کی مزید تقسیم تھی جو 1998ء میں ہوئی تھی۔ مگر یہاں سکون بالکل نہیں تھا۔ مجبوری میں گزارہ کررہے تھے۔ یہ تقسیم بغیر کسی معاہدے کے ہوئی تھی جو ہمیں فائدہ دے گئی۔


سن 98ء میں ہماری کوٹھی کے ایک چوتھائی حصے کی تقسیم کے بعد ہمیں جو کمرے ملے وہ وہی کمرے ہیں جو اسرائیل خالی کروانا چاہتا تھا۔ پتہ نہیں ان کمروں کے نیچے کوئی خزانہ دفن تھا یا پھر کوئی تعویز گڑا تھا کہ اسرائیل بلکہ اور بھی کوٹھی کے لوگوں کی نظریں جمی تھیں۔ ایسا کیا ہے وہاں جو ان کمروں پہ نظریں جمائے بیٹھے تھے کچھ لوگ۔ حالانکہ یہ کمرے پوری کوٹھی کی مشترکہ سیوریج لائن یعنی گٹروں پہ بنے ہیں۔ وہاں سے پوری کوٹھی کا پانی، گیس، سیوریج گزر رہا ہے۔ گٹروں پہ تو بنے تھے۔ سن 98ء سے 2018ء تک میری بیوی کو پوری کوٹھی کا گندبلا بھی صاف کرنا پڑا۔ جب برسات ہوتی تھی تو گٹروں کا گندا پانی ہمارے کمروں میں بھرتا تھا۔

سن 98ء میں ایک چوتھائی حصے میں ہمیں وہ کمرے ملے جو دراصل مشکوک جگہ پہ تعمیر شدہ تھے۔ ہمارے حصے میں صرف دو کمرے آئے۔ باقی کے دونوں سوتیلے بھائیوں کے پاس کوٹھی کے اصل بڑے بڑے کمرے تھے اور باقاعدہ سڑک سے بہت اونچے بنے تھے۔ان دونوں کے پاس 5۔5 کے قریب کمرے تھے۔ ان منحوس کمروں میں ہر وقت پریشانی رہتی تھی۔ جب سے ان کمروں میں آئے تھے تب سے ہی گھر میں پریشانیاں بڑھنے لگیں تھیں۔ دراصل میرے بچے بڑے ہورہے تھے۔ رہنے کا صرف ایک ہی کمرہ تھا جہاں پڑھائی متاثر ہورہی تھی۔ یہ کمرے کوٹھی کی بڑی تقسیم سن 1973ء کی تقسیم کے بعد تعمیر کیے تھے اور بیٹھک کے طور پہ بنے تھے۔ یہ خالی پڑے رہتے تھے۔ جگہ کی تنگی کی وجہ سے ہم 87ء میں یہاں شفٹ ہوئے اور یہی دو کمرے 98ء کی تقسیم کے بعد ہمارے پاس ہی رہ گئے۔ جبکہ باقی دونوں بھائیوں کے پاس کوٹھی کے اصل کمرے تھے۔

دراصل ہوا یہ تھا کہ ہمارے بزرگوں نے زمین 1958ء میں لی تھی۔ اس وقت لاہور میں ایل ڈی اے نہیں تھی۔ لاہور امپروومنٹ ٹرسٹ کے نام سے ایک ادارہ تھا جو بعد میں 1975ء میں ایل ڈی اے کے نام سے بنا۔ اس وقت امپروومنٹ ٹرسٹ نے ہمارے بزرگوں کو کہا کہ آپ نے دائیں طرف کی زمین ساتھ والے ہمسائے کو دینی ہے اور بائیں طرف کی زمین لینی ہے۔ تاکہ پلاٹ سیدھا کیا جاسکے۔ یہ امپروومنٹ ٹرسٹ کی پالیسی تھی۔ دوسرے یہ کہ پلاٹ کے پیچھے سڑک بھی گزرے گی جو 1990ء میں گزری۔ جس کا معاوضہ بھی ایل ڈی اے نے نہیں دیا۔ یہ زمین کے بدلے زمین کی تبدیلی نہیں تھی کیونکہ دونوں اطراف کی زمینوں کے مالکان الگ الگ تھے۔ یہ خرید و فروخت ہی تھی۔ ہمارے بزرگوں نے ایسا نہ کیا۔ امپروومنٹ ٹرسٹ نے کہا تھا کہ اگر آپ زمین کا لینا اور دینا کریں گے تب ہی آپ کا نقشہ پاس ہوگا۔ ہم لوگوں نے زبانی کلامی بول دیا کہ ہم نے ایسا کردیا ہے حالانکہ ایسا عملی طور پہ نہیں کیا گیا تھا۔ امپروومنٹ کی پالیسی کے مطابق ہم ایسا کرچکے تھے۔ اسی لیے جوکمرے ہمارے حصے میں آئے یا جن میں ہم 87ء میں شفٹ ہوئے وہی کمرے دراصل دائیں طرف کے ہمسائے کو دینا تھے یعنی زمین بیچنا تھی۔ یہ وہ زمین تھی جو دراصل پھڈے کی تھی۔ میرے والد ستار صاحب نے اس زمین پہ کمرے اسی لیے بنائے تھے تاکہ کوئی قبضہ نہ کرلے۔ امپروومنٹ کے مطابق یہ زمین ہماری نہیں تھی۔ بزرگوں نے جب 1973ء میں پوری کوٹھی کی اصل تقسیم کی تو یہ زمین ہمارے والد صاحب کے حصے میں آگئی۔73ء میں تقسیم کے بعد میرے والد ستار صاحب کو ایک کمرہ، باتھ اور کچن اپنے خرچ پہ اوپر بنوانا پڑا۔ یہ کیسی تقسیم تھی کہ کسی بھائی کے پاس کم اور کسی کے پاس زیادہ کمرے تھے۔ اگر کسی بھائی کے پاس زیادہ کمرے حصے میں آگئے تو اس کو باقی بھائیوں کو کمرے بنواکے دینا چاہیے۔ اگر نہیں بنوا سکتا تو میرے خیال میں پوری کوٹھی کو بیچ دینا چاہیئے تھا اور رقم کی تقسیم کرلی جائے۔

بہرحال،  یہی وہ دو کمرے تھے جو کوٹھی کی انیکسی کے طور پہ جانے جاتے تھے، آج بھی۔ 64ء میں جب کوٹھی بنی تھی تو اس وقت 3۔4 کمروں کا ایک سرونٹ کواٹر بنا تھا جو کوٹھی کے پچھلے حصے میں تھا۔ یہ میرے غفار چچا کے حصے میں چلا گیا۔ یہ بھی آج تک اسی طرح بنا ہوا ہے۔

قارئین آپ خود بتائیں کہ جو زمین ہمسائے کو دینا تھی جوامپروومنٹ ٹرسٹ کے مطابق ہماری ملکیت ہی نہیں تھی، اس کو یہ چاروں بھائی کیسے تقسیم کررہے ہیں؟؟؟ یہ کس قسم کی تقسیم تھی۔۔۔ اور یہ کہ یہ تقسیم بھی دراصل نقشے کے مطابق بالکل نہیں تھی۔ اس کوٹھی کے پچھے دو حصے بہت بڑے بڑے تقسیم ہوئے جو میرے تایا اور سب سے چھوٹے چچا غفار کے پاس آئے۔ اگلے دو حصے ایک میرے والد ستار صاحب اوردوسرا جلیل چچا کے پاس آیا۔ یہ تقسیم بھی ایسی تھی کہ کسی کے پاس کمرے بہت زیادہ تھے اور کسی کے پاس صرف دو تین۔ ہمارے والد کے حصے میں سب سے چھوٹا پورشن آیا۔ جس کو کوئی بھی لینے کو تیار نہ تھا۔ جلیل چچا نے دیکھا کہ یہ حصہ جوانہوں نےمانگ کے لیا ہے وہ اس وقت کوٹھی کا فرنٹ تھا۔ اس کے اوپر کمرے بہت زیادہ تھے۔ یہ چاروں بزرگ کوٹھی کے کمرے یا دیواریں توڑنا نہیں چاہتے تھے۔ اسی لیے کسی کے حصے میں کم کسی کے پاس زیادہ کمرے آئے۔ یہ بالکل غلط تقسیم تھی۔ جو آج بھی رہائشی بھگت رہے ہیں۔ ان کی والدہ یعنی میری دادی نے ان کو اسی لیے کہا تھا کہ تم لوگ چار الگ الگ گھر بناؤ۔ یہ مانتے نہیں تھے۔ انہوں نے نہیں مانا۔

اس کوٹھی کا نقشہ ایک ماہر آرکیٹیکٹ نے ڈیزائن کیا تھا جو سرکاری عمارتوں کے نقشے بناتا تھا۔ ان کا نام نقی تھا۔ ہمارے بزرگوں کے ان سے تعلقات تھے۔ اس گھر کے راستے بہت ہی پراسرار ہیں۔ اگر کوئی باہر کا آدمی اندر داخل ہوجائے تو واپسی اکیلے بہت مشکل ہوجاتی ہے۔ یہاں اس محلے میں بہت گھروں میں ڈاکہ بھی پڑا لیکن ہمارے گھر میں کوئی ڈاکو نہ گھس سکا کیونکہ سب کو معلوم تھا کہ اس گھر کے راستے بہت مشکل ہیں۔ اگر ہم اندر گئے تو بھٹک جائیں گے ہمارے آس پڑوس کے بہت گھروں میں ڈاکے بھی پڑے لیکن ہماری کوٹھی میں کوئی ڈاکو نہیں داخل ہوا کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ یہاں کے راستے بہت عجیب ہیں۔ اور دوسرے یہ بھی کہ پوری کوٹھی میں 25 سے زائد فیملیاں رہائش پذیر ہیں اور زیادہ تر کے پاس بندوقیں ہیں اور پرندوں کے شکاری ہیں۔

 ہمارا یہ گھر سیاسی سرگرمیوں میں بھی استعمال ہوتا رہا ہے۔ یہاں مرحروم کرمانی صاحب آکے تقریر کرتے تھے۔ یہ 1972 سے 77 تک کی بات تھی۔ یہاں 1972ء میں انجمن رفاہ عامہ کے نام سے اہل علاقہ کی خدمت کے لیے ایک انجمن بھی قائم کی تھی جو پیپلز پارٹی کی طرف سے کام کرتی تھی۔ یہاں اسی انجمن نے اہل علاقہ کے لیے ایک لیٹر بکس بھی لگوایا تھا۔ بھٹو کی پھانسی کے بعد بند کردی تھی۔یہاں 1990 میں بیگم راحت عزیز اور 85ء میں حاجی حنیف طیب کو بھی بلایا گیا تھا۔ یہاں 1985ء میں وزیرِ اعلی نوازشریف کو بھی بلوایا گیا تھا مگر وہ نہیں آئے۔ انہوں نے اپنی جگہ شہباز شریف کو بھیج دیا۔ ان کے یہ الفاظ تھے کہ "یہ تو آپ لوگوں پہ بڑا ظلم کررہا ہے"۔ "یہ" سے مراد "مظہر بخاری" ہے۔ اس کا ذکر آگے آئے گا۔ اتنا عرصہ بیت چکا ہے ان کو اب کہاں یاد ہوگا!!! ہماری اس کوٹھی میں سابق کرکٹر عبدالقادر بھی کرکٹ کھیلنے آتے تھے۔ یہ 1975ء تھا۔ یہ لاہور کے 10 خوبصورت گھروں میں سے ایک تھا۔ اس زمانے کے حساب سے اس کا ایلیویشن بہت شاندار تھا۔ پی ٹی وی کے اداکار آصف رضا میر کے والد رضا میر نے گھر کے رہائشیوں کو 1964ء ۔70ء کسی ڈرامے کی شوٹنگ کی اجازت مانگی تھی مگر انہوں نے انکار کردیا تھا۔ ہمارے ہمسائے میں ایک گھر چھوڑ کے رضا میر کے کزن رہتے ہیں۔ آج بھی۔ کرکٹر عمران خان کے ایک بھانجے کا نام بھی عمران خان ہے۔ وہ بھی ہمارے آچکے ہیں۔ وہ 2022ء میں میرے سوتیلے چھوٹے بھائی سرفراز کے انتقال پہ افسوس کے لیے بھی آئے تھے۔ عمران خان کی نیازی فیملی کے بہت لوگ ہمیں جانتے ہیں۔









کوٹھی کے پیچھے سے روڈ گزرنی تھی جو امپروومنٹ ٹرسٹ کی پلاننگ تھی۔ وہاں ریلوے کی زمین پہ ایک محلےدار قبضہ کرکے بیٹھ گئے تھے۔ نام سید مظہر حسین شاہ بخاری تھا۔ وہ ریلوے میں 19ویں گریڈ میں تھا اور ریلوے کی ہی زمین پہ قبضہ کرکے بیٹھ گیا تھا۔ اس نے 1982ء میں قبضہ کیا تھا۔ 


اس کے قبضہ کرنے سے ریلوے کی زمین پہ دوسرے پہلے سے قابض بستی والوں کو سپورٹ مل گئی۔ ہم لوگوں نے اس بستی کو ہٹانے کے لیے ریلوے سے نوٹس بھجوائے۔ ان کو توڑنے کی بجائے ایل ڈی اے والے آئے اور الٹا ہماری دیوار توڑ گئے کہ یہاں سے روڈ گزرے گی۔ ان ایل ڈی اے والوں کو بخاری نے بھجوایا تھا۔ وہاں 1970ء میں کچی بستی قائم ہوئی تھی۔ جہاں مزدور طبقے کے لوگ رہتے تھے۔ وہ بستی آج بھی قائم ہے۔ کوئی اسے خالی نہیں کروا سکا۔ 


وہ بستی والے ہم لوگوں سے اکثر جھگڑتے رہتے تھے۔ ایک دفعہ پتھراؤ کرکے ہماری باؤنڈری وال آدھی سے زیادہ توڑ دی۔ یہاں اس دن پولیس ایکشن بھی ہوا تھا بستی والوں کو روکنے کے لیے۔ جس دن روڈ گزرنی تھی یہاں پولیس ہی پولیس تھی۔


1990ء میں روڈ گزرتے ہی بااثر لوگوں نے ان کے کچے گھر خرید لیے۔ انہوں نے دے دلا کے محکموں سے بجلی گیس پانی کے کنکشن لگوا لیے۔ روڈ گزرنے سے ہماری 2 کنال زمین جاتی رہی۔ اب وہ گھر پکے شاندار محل جیسے بن چکے ہیں۔ وہاں گاڑیاں اور فانوس تک لٹک چکے ہیں۔


ہمارے ایک رشتےدار حیدرآباد سندھ میں صحافی تھے نوائے وقت کے۔ ان کو روزنامہ پاکستان کے صحافی شامی صاحب بھی جانتے ہیں، آج 2022ء میں  بھی۔ صحافی رشتےدار نے ایک خط سابق صدر پاکستان جنرل ضیاء الحق کی میز پہ پہنچایا۔ بخاری کی اتنی واقفیت و طاقت تھی کہ اس نے کسی چوکیدار کو پیسے کھلا کے وہ خط جنرل ضیاء کی میز سے اٹھوا لیا۔ اگر وہ خط جنرل ضیاء کو مل جاتا تو شاید بخاری کو پھانسی ہوجاتی۔ بس روڈ گزرنے کے معاملے پہ جھگڑا تھا اسی لیے ان سیاسی شخصیات کو بلا گیا تھا۔ مگر کسی نے بھی مدد نہیں کی تھی۔ یہ 86ء کی بات تھی۔ ہماری کوٹھی کے رہائشیوں نے عدالت سے اسٹے بھی لے رکھا تھا جس کی وجہ سے روڈ گزرنے کا سلسہ 90ء تک رکا رہا۔ بلآخر نومبر 90ء میں روڈ اسی بخاری نے گزارا۔


جب کوٹھی کے پیچھے سڑک بن رہی تھی تو اسی بخاری نے گھر کے لوگوں کو اونچی آواز میں بتایا تھا کہ تمہارے بزرگ حضرات میں سے کوئی بھی ٹھیک نہیں تھا۔ فلاں بزرگ فلاں مسئلے مسائل کا شکار تھا فلاں بزرگ فلاں مسئلے سے دوچار تھا۔ میں نے ہی ان کو بچایا تھا الزامات سے۔ پھر اس نے یہ بھی علانیہ کہا تھا کہ تم لوگوں کے چاروں بزرگ حضرات شرابیں بھی پیتے تھے۔  یہ سنتے ہی سب ادھر ادھر بھاگنے لگے تھے۔ اسی نے ہمارے والد اور چچا تایا کی حرکتوں کی پول کھولی تھی۔


میرے تایا نے کوٹھی کے اسی پچھلے حصے میں کھلی زمین پہ سن 70ء میں پولٹری کا کاروبار شروع کیا تھا۔ یہاں ایک فارم بھی بنایا تھا جو کچی دیواروں کا تھا۔ سن 85ء میں سب سے پہلا بلڈوزر بخاری نے اسی فارم پہ پھیرا تھا۔ چونکہ فارم خالی پڑا تھا، اگر اس میں مرغیاں ہوتیں تو کبھی لائیواسٹاک پہ بلڈوزر نہیں چلتا۔ دراصل ہوا یہ تھا کہ میرے بڑے چچا جلیل صاحب نے بخاری سے مل کے سیمنٹ کا کاروبار شروع کیا تھا۔ یہ 82ء کی بات تھی۔ جس کے لیے ایک گودام بنایا تھا۔ بخاری نے کاروبار کرنے کے بہانے اس گودام پہ قبضہ کرلیا اور اس کو ایک مکان کی شکل دے دی۔ اس کے بعد سے پےدرپے اس نے جگہ جگہ بلڈوزر چلائے اور ہماری تقریباً 2 کنال کی زمین کا نقشہ ہی بدل دیا۔ اس کے بعد 90ء میں ہی اسی نے روڈ گزارا۔ ایل ڈی اے کے مطابق ہم زمین کا معاوضہ وصول کرچکے تھے۔ مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہوا تھا۔ حتی کہ ایل ڈی اے نے ایک لیٹر بھی گھر کے پتے پہ لکھ دیا تھا کہ ہم لوگ معاوضہ وصول کرچکے ہیں۔ حکومت/محکموں کا بھی جہاں دل کرتا ہے منہ اٹھا کے سڑک گزار دیتے ہیں اور چلّو بھر معاوضہ دیتے ہیں۔ صرف بارہ ہزار معاوضہ دے رہے تھے۔ جبکہ اس کی قیمت کم از کم ایک لاکھ تو بنتی تھی۔  ایل ڈی اے والوں نے بخاری کو کہا کہ سڑک آپ گزار سکتے ہیں لیکن کچھ توڑ نہیں سکتے۔ ظاہر ہے کہ جو کچھ سڑک کی زد میں آئے گا وہ تو ٹوٹے گا۔ سڑک آسمان سے تو نہیں گزر سکتی۔ 


یہ روڈ کا گزرنا حتی کہ ہماری کوٹھی کا نقشہ تبدیلی یعنی پلاٹ کو سیدھا کرنا بھی امپروومنٹ ٹرسٹ کا اپرمال اسکیم کی ماسٹر ٹاؤن پلاننگ میں شامل تھا۔ یہ پلاننگ آج بھی اسی طرح اپرمال ٹاؤن پلاننگ میں موجود ہے۔ یہی محکمہ بعد میں ایل ڈی اے کے نام سے 75ء میں بنا۔ جبکہ ٹاؤن پلاننگ تو یہاں ہوئی ہی نہیں تھی۔ یہ علاقہ تو انگریز بنا کے گئے تھے۔ صرف اسکاچ کارنر کے آس پاس ٹاؤن پلاننگ تھی۔ ہم لوگوں نے زمین مختلف لوگوں سے خریدی تھی۔ امپروومنٹ ٹرسٹ کی یہ پلاننگ سراسر زیادتی تھی۔ جیسے لاہور میں ڈی ایچ اے پہلے لوگوں سے زمین خریدتا ہے پھر ٹاؤن پلاننگ کرتا ہے اور لوگوں کو بیچتا ہے۔


بخاری 2003ء میں فوت ہوا تھا۔ اس کے دو بیٹے تھے۔ ایک کو پولیس میں بھرتی کروایا اور دوسرے کو رینجرز میں تاکہ لوگ آنکھیں نہ دکھائیں۔ جو پولیس میں تھا وہ لاہور کے تھانہ ریس کورس میں اس وقت ایس ایچ او لگا تھا۔ بعد میں ایس پی کے عہدے تک پہنچا اور ریٹائر ہوا۔ نام نہیں بتاؤں گا۔۔۔ اب تو اس نے وہ گودام بیچ بھی دیا اور ایک کروڑ میں بیچا۔ یہ 2020۔22ء میں بیچا تھا۔ بخاری کوئی بھی کام پیسوں یعنی رشوت کے بغیر  نہیں کرتا تھا۔ اس نے مجھے ایک دن خود کہا تھا کہ میں پیسوں کے معاملے میں تو اپنے باپ کو بھی نہ چھوڑوں۔ اس کے کچھ بھائی بھی تھے۔ اس کا سب سے چھوٹا بھائی بہت خطرناک تھا۔ وہ انسانی اسمگلر تھا۔ مختلف شہروں سے لڑکیاں اغواء کرکے دوسرے ملکوں میں پہنچاتا تھا۔ چاروں بھائیوں یعنی ہمارے چاروں بزرگوں کا معاہدہ بھی اسی بخاری نے لکھا تھا۔ اس کے ہاتھ کی لکھائی تھی۔


جب مشترکہ کوٹھی تھی تو اس وقت بجلی پانی گیس اور سیوریج چاروں پورے خاندان بھر کے لیے مشترک تھے۔ جب تقسیم کا معاہدہ لکھا گیا تو اس میں یہ درج نہیں کیا گیا کہ اگر کوٹھی کے پیچھے سے سڑک گزر گئی تو یہ سہولیات بھی چاروں گھروں کی الگ الگ ہونا چاہئیں۔ 90ء میں جب سڑک بنی تو وقت کے ساتھ ساتھ تقریباً 95ء تک پانی، گیس، بجلی اور سیوریج چاروں سہولیات محکموں نے سڑک کو مہیا کیں۔ اس وقت سے آج تک صرف بجلی ہی کے کنکشن چاروں گھروں کے لیے الگ الگ لگےجبکہ سیوریج سب کے مشترک ہیں۔ کوٹھی کا پچھلا حصہ جس فیملی کو ملا اس کا فرض تھا کہ وہ اپنی تمام سہولیات ازخود الگ الگ کرلیتے۔ میرے والد کے پاس جو حصہ کوٹھی کا آیا پچھلے والوں کے پانی اور گیس ہمارے ہی حصے سے گزر رہے ہیں۔ آج بھی۔۔۔ 


بس یہی معاہدہ فساد کی جڑ بنا۔۔۔آج تک بنا ہوا ہے۔میرے چاروں بزرگوں والد، تایا اور دونوں چچا نے اپنے اپنے حصے امپروومنٹ ٹرسٹ میں اندراج ہی نہیں کیے اور نہ ہی کوٹھی کی ڈگری بنوائی۔ یہ مسئلے مسائل آج تک ہیں اور شاید رہتی دنیا تک رہیں۔ میرے چچا غفار نے ہمارے ایک عزیز کو کہا تھا کہ ہم لوگوں نے جان بوجھ کر ایسی مشترکہ کوٹھی اس لیے بنائی ہے تاکہ کوئی اسے ساری عمر بیچ ہی نہ سکے۔ یہ چچا غفار کے الفاظ تھے۔ ان تمام بزرگوں نے اپنی ہی اولادوں کو مشکل میں پھنسا دیا۔ جب تک ڈگری نہیں بن  جاتی اور چار حصے ایل ڈی اے سے منظور نہیں ہونگے تب تک کوٹھی کا بھی حصہ بیچا نہیں جاسکتا۔ البتہ پوری کوٹھی مشترکہ طور پہ بیچی جاسکتی ہے لیکن اس کے لیے بھی ڈگری کا ہونا لازمی ہے۔ وہ کوٹھی میری دادی اماں کے نام پہ ہے۔








بہرحال،  میں نے وقت گزارنے کے لیے ایک جگہ نوکری کرلی تھی۔ فرم کا مالک میرا جاننے والا تھا۔ اس کا نام شفیع اللہ تھا۔ میرے پاس چونکہ تجربہ تھا اس لیے انہوں نے مجھے اپنی فرم میں جگہ دے دی تھی۔ اس فرم کا نام ہے "شفیع اللہ اینٹرپرائزز"۔ ان کے والد کی کمپنی کا نام مسلم ٹریڈنگ ایجنسیز تھا۔ یہ ان کی پیرنٹ کمپنی ہے جس کو ان کے بیٹے یعنی شفیع اللہ کے بھائی آج بھی چلا رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے باپ کا نام جاری رکھا۔ یہاں ہمارے سوتیلے بھائی طارق صاحب نے اپنے سسرالیوں کے کہنے پہ اپنے ہی باپ کا نام مٹا دیا۔ آج شفیع اللہ، ان کے بھائی اور ان کی اولادیں کروڑوں میں کاروبار کررہے۔

 وہ میرے حالات دیکھ کر بہت تعجب کرتے تھے کہ یہ سب کچھ کیسے ہوگیا۔ لوگ ہمیں ’سیٹھ صاحب‘ کہتے تھے اور مارکیٹ میں بے حد عزت تھی۔ ہم کبھی سوچ بھی نہ سکتے تھے کہ حالات ایک دم اتنے خراب ہوجائیں گے کہ مجھے نوکری کرنی پڑے گی۔ حالت ایسی ہوئی کہ کاروباری فیلڈ میں جو لوگ ہم سے نیچے تھے وہ ہم سے آگے نکل گئے اور مجھے انہی میں سے ایک کی دوکان پہ نوکری کرنا پڑی۔ اور وہ انہی کی دوکان تھی۔ شفیع اللہ بہت نمازی پرہیزگارتھے۔ اتنے زیادہ کہ انہوں کے ایک مولوی رکھا ہوا تھا فتویٰ دینے کے لیے۔۔۔ کہ فلاں کاروباری ڈیلنگ ہمارے لیے جائز ہے۔ اس مفتی کو 20 ہزار فیس دیتے تھے۔ ایک دفعہ میں نے ان سے پوچھ لیا کہ بھئی یہ کام تو ٹھیک نہیں ہے۔ تو جواب میں فرمایا کہ فاروق بھائی دراصل کاروبار جھوٹ بولے بغیر ہوتا نہیں ہے۔۔۔ ہر سال ان کا حج عمرہ ہوتا ہے۔۔۔ آج بھی۔۔۔ شفیع اللہ اپنی دکان کے ملازمین کو ہر وقت گندی گندی گالیاں دیتے رہتے تھے۔ پانچ وقت نمازی بھی تھے۔  بہرحال میں نے 2014ء میں نوکری چھوڑ دی۔ ایک عمر ہوتی ہے نوکری کی۔ 2020ء میں کرونا سے ان کی وفات ہوئی۔ انسان بڑے بڑے بنگلے کینالوں پہ بناتا ہے اور مرتا ہے تو صرف 2 فٹ ضرب 6 فٹ کی زمین میں دفن ہوجاتا ہے۔

ہماری یہ کوٹھی علاقے میں سیٹھاں دی کوٹھی کے نام سے جانی جاتی تھی۔ اصلیت اب لوگوں نے جانی کہ لو جی یہ سیٹھ لوگ ایسے ہیں۔ 

 کبھی کبھی فرم کے مالک سے بھی گھریلو حالات پر بات چیت ہوجاتی تھی۔ وہ میری بے حد عزت کرتے تھے۔ مگر کبھی کبھی وہ کچھ ایسی باتیں بھی کہہ جاتے تھے کہ جس سے دل کو ایک جھٹکا سا لگتا تھا اور میں اپنے آپ کو کوسنے لگتا تھا۔ ایک دن مجھے کہنے لگے کہ یہ سب کچھ اس وجہ سے ہوا ہے کہ تمہاری کوئی "بیٹی" نہیں ہے!!! مجھے اس طعنے کا بے حد رنج ہوا۔ کیا یہ میرے اختیار میں تھا؟؟؟ دنیا میں میری طرح کتنے لوگ ہونگے جن کے ہاں کوئی بیٹی نہیں ہے اور ماشاءاللہ خوش و خرم زندگی گزار رہے ہیں۔ میں نے تو کئی ایسے خاندانوں کو دیکھا اور سنا ہے کہ انکے ہاں ایک بھی بیٹا نہیں ہے، صرف بیٹیاں ہیں اور وہ بھی دس دس بارہ بارہ، مگر وہ کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ میرا تو یہ ایمان ہے کہ بیٹا ہو یا بیٹی اس میں انسان کا کوئی اختیار نہیں ہے اور اگر اس کے ہاں بیٹی پیدا نہیں ہوتی تو رزق تو اللہ ہی نے دینا ہے۔ ایسی باتیں عموماً وہ لوگ ہی کرتے ہیں جن کو اللہ نے بیٹیوں سے نوازا ہو۔ ہمارے دفتر میں جہاں میں نوکری کرتا تھا، یہ بات پورے سٹاف کو معلوم ہوگئی تھی۔ وہ لوگ بھی جانتے بوجھتے ہوئے مجھ سے بار بار یہی سوال کرتے تھے کہ آپکے کتنے بچے ہیں؟؟؟ جب میں انہیں بتاتا کہ "میرے تین بیٹے ہیں"، تو وہ تعجب سے پوچھتے "کوئی بیٹی نہیں ہے؟؟؟" مجھے ان لوگوں کی باتوں سے سخت مایوسی ہونے لگی تھی۔ میں تو اپنا غم بھلانے دفتر آتا تھا، مگر یہاں مجھے پریشان کیا جانے لگا تھا۔ گھرمیں بھی پریشانی بڑھنے لگی۔

بچوں کی شادی کے بعد بہوؤں نے گھر کے کام کاج میں اپنی ساس یعنی میری بیوی کا کوئی ہاتھ نہ بٹایا۔ دو دو بہوؤں کے ہونے کے باوجود میری بیوی کو گھر کے سارے کام بڑھاپے میں خود کرنے پڑتے تھے اور آج تک کرنے پڑ رہے ہیں۔ دراصل آج کل کى بہو، بہو نہيں ہوتى بلکہ بھؤ ہوتى ہے۔ وہ بھوتنی کی طرح سر پہ سوار ہوکر اپنا حکم چلاتی ہے۔ میرے بڑے بیٹے کی بیوی  کے دل میں تو اتنا غرور تھا کہ زمین پہ کوئی چیز پڑی ہو تو یہ پیروں کی انگلیوں سے اٹھاتی تھی۔ نیچے جھکنا نہیں گوارا کرتی تھی۔ یہی لائق کی بیٹی تھی۔

جو شادیاں تعویزات سے ہوتی ہیں وہاں کی عورتیں ایک وقت آنے پہ پورے گھر پہ حاوی ہوجاتی ہیں۔ بس وہیں سے گھر کی تباہی کا آغاز ہوجاتا ہے۔ میرا تجزیہ ہے کہ تمام شادیاں زمینوں پہ ہی ہوتی ہیں آسمانوں پہ نہیں۔ لوگ کہتے ہیں رشتہ آسمانوں پہ بنتے ہیں۔ میرے بچوں کے رشتے زمین پہ بنے تھے۔ جب میری بیوی بہو بن کر آئی تھی تو اس وقت بھی اس کو سارے کام خود کرنا پڑے تھے اور اب بھی خود کرنے پڑتے ہیں۔ معلوم نہیں کن گناہوں کی سزا مل رہی تھی۔ شاید یہ پسند کی شادی کا انجام ہے۔ منجھلے بیٹے کاشف کی مجھے بےحد فکر لگی رہتی تھی۔ اس کی تو گھر میں کوئی عزت ہی نہیں ہے۔ اس کو تو کوئی بھی قبول کرنے کو تیار نہیں کیونکہ وہ بے روزگار اور دل کا مریض ہے۔

میں آپ کو یہ بتا دوں کہ ہمارا پورا خاندان ایک حویلی کی شکل میں بنا ہے۔ میرے چچا تایا والد  کل چار بھائی تھے۔ ان کی والدہ نے ان کو سمجھایا تھا کہ تم لوگ چار الگ الگ گھر بنانا۔ میرے تایا جی نے کہہ دیا کہ تم کیسی ماں ہو جو اپنے بچوں کو الگ کرنا چاہتی ہو؟ ماں کی سوچ بہت اعلیٰ تھی۔ انہوں نے دوراندیشی سے سوچا کہ ہماری اولادیں آپس میں لڑیں گی جھگڑیں گی۔ ان میں فساد ہوگا۔ اسی لیے انہوں نے الگ الگ گھر کا مشورہ دیا جو درست تھا۔ بزرگوں کی یہ حویلی 3 ہزار گز یعنی 6 کنال اراضی پہ محیط ہے، جہاں پانی گیس سیوریج سب مشترکہ ہے۔ آج بھی۔ اس پہ تنازاعات بھی بہت ہیں۔ ایک حویلی کے اندر 60۔65 افراد رہائش پذیر ہیں۔ میرے تجزیے کے مطابق ایک حویلی جو 3 ہزار گز یعنی 6 کینال اراضی پر محیط ہے اور وہاں 60۔70 یا اس سے بھی زیادہ افراد رہائش پذیر ہیں تو میرے خیال میں وہاں "انسان" نہیں "جانور" بستے ہیں۔ وہ حویلی دراصل" گھر" نہیں بلکہ "چڑیاگھر" ہے۔ مشترکہ خاندانی نظام زیادہ سے زیادہ 15۔20 افراد پہ مشتمل ہونا چاہیے۔

بہرحال، اب میں دفتری حالات سے بھی تنگ آگیا اور گھریلو پریشانیوں سے بھی۔ ہمارے گھر کو ایسی نظر بد لگ گئی تھی کہ حالات درست ہی نہیں ہونے پہ آرہے۔ بچوں میں ناچاقی بڑھنے لگی ہے۔ اس لیے میں نے الگ رہنے کا ارادہ کرلیا۔ ہم نے لیک روڈ والی دکان بیچ کے ایک پرائیویٹ سوسائٹی میں بنا بنایا گھر خرید لیا ہے۔ میں، بیوی اور دونوں بیٹے یہاں شفٹ ہوگئے ہیں۔ نوکری چھوڑ دی ہے۔ یہاں آکر ہم لوگوں نے گھر میں ہی بچوں کو تعلیم دینے کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ کافی بچے آجاتے ہیں ان کو دینی و دنیاوی تعلیم دی جاتی ہے۔ درود و سلام کی محفلیں بھی ہوتی ہیں، ذکر و اذکار بھی ہوتا ہے۔ بس یہی ہماری آمدنی کے ذریعے ہیں۔ جو مل جائے روکھی سوکھی کھا لیتے ہیں۔ ہمیں ایک اچھی اور نیک بہو چاہیے تھی اور کچھ نہیں، جو ہماری بیٹی بن کررہتی۔ مگر ایسا نہ ہوسکا۔ روتا اس لیے ہوں کہ ہم لوگوں نے زندگی بھر دکھ درد اٹھائے اور ہمارے اپنے بھی ہمارے کام نہ آئے۔ دراصل وہ ہمارے اپنے تھے ہی نہیں۔ حج کرنے کی تمنا تھی، وہ بھی پوری نہ ہوسکی۔

جب ہم بھائی الگ الگ ہوئے 1998ء میں ، میں نے اپنا کاروبار شروع کرنے کی کافی کوششیں کی تھیں، مگر ہر دفعہ ناکام رہا تھا تعویزات کی وجہ سے۔ میرے دل میں ہر وقت ایک خوف سا رہتا تھا۔ بچے اس وقت زیرتعلیم تھے اور چھوٹے تھے۔ جب ہم بھائیوں کا مشترکہ کاروبار ختم ہوا اس وقت پیسہ بہت محدود تھا۔ پھر بھی کئی کاروبار کیے مگر ہر بار ناکام رہا۔ جب ہم بھائیوں کا مشترکہ کاروبار تھا اس وقت میں بہت ہمت والا اور کاروبار کا مرکزی کردار تھا۔ مگر علحیدگی کے بعد نہ جانے کیا ہوگیا تھا کہ دل میں ہر وقت ایک انجانا سا خوف رہنے لگا تھا۔ کئی بار روحانی علاج بھی کروایا مگر کوئی افاقہ نہ ہوا۔ حالات جوں کے توں ہی رہے۔ میر ی قوت ارادی کم سے کم تر ہوتی چلی گئی کسی نے مجھے یہ بھی بتایا کہ تم پر کافی پرانے جادو کا اثر ہے۔ جب تاریخ کا حساب لگایا گیا تو یہ وہی تاریخ بنتی تھی جب میں نے والد صاحب کی زندگی میں اپنا الگ کاروبار شروع کیا تھا اور پھر بعد میں جلد ہی وہ کاروبار بند کردیا تھا۔ کیونکہ والد صاحب ناراض ہوگئے تھے۔ کسی نے مجھے یہ بھی بتایا کہ تمہیں ایک بہت بڑے حصے سے محروم کردیا گیا ہے۔

مجھے یاد آرہا ہے کہ ایک دفعہ  چھوٹے بھائی نے مجھ سے والد صاحب کی وفات کے بعد ایک سادہ کاغذ پر دستخط کروائے تھے اور یہ کہا تھا کہ یہ لیٹر بینک مینیجرخود لکھ لے گا۔ بینک میں اباجی کا اکاونٹ تھا وہاں سے پیسے نکلوانے تھے۔ مجھے یہ بتایا کہ تھوڑی سی رقم ہے۔ میں نے بلا چوں و چرا دستخط کردیئے تھے۔ اب اللہ ہی جانتا ہے کہ اس میں کتنی رقم تھی۔ یہ انتہائی بیوقوفی میں ہوا۔ پتہ نہیں کیسے ہوگیا۔ میرا دماغ کام نہیں کرتا تھا۔

دوسرا واقعہ بھی اسی طرح کا ہے یہ ابا جی حیات میں ہوا تھا۔ اسی چھوٹے سوتیلے بھائی نے ابا جی کی حیات میں ایک کورے کاغذ پر میری بیوی سے دستخط کروائے تھے اور یہ کہا تھا کہ بینک سے ایک سرٹیفکیٹ کیش کروانا ہے جو کہ میری بیوی کے نام تھا۔ درخواست میں یہ لکھنا ہے کہ ذکوٰة نہ کاٹی جائے۔ جب میں گھر آیا تو بیوی نے مجھے یہ بات بتائی۔ مجھے بڑا تعجب ہوا کہ میری غیر موجودگی میں بیوی سے کورے کاغذ پر دستخط کیسے کروالیے۔ اب چونکہ والد صاحب حیات تھے اس لیے خاموش رہا۔

 روحانی علاج کرنے والے کی بات پر مجھے یہ دو واقعات یاد آگئے۔ خیر، مجھے اب اسکا رنج نہیں ہے۔ اب پچھتائے کیا ہوت چب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ جس کی قسمت میں جتنا ہوتا ہے اتنا ہی ملتا ہے۔ مگر مجھے افسوس اس بات کا ہے کہ بچوں کو کاروباری نہ بنا سکا۔ نوکریوں کی وجہ سے بچے تقسیم ہوگئے اور سب کو اپنی اپنی پڑ گئی۔ اب بڑھاپے میں سزا بھگت رہا ہوں۔ موت کی دعائیں کرتا رہتا ہوں، مگر وہ بھی دور بھاگتی جارہی ہے۔ کبھی کبھی تو یہ بھی سوچتا ہوں کہ کاش میں نے شادی ہی نہ کی ہوتی۔ شادی نہ کرنے سے سب لوگ خوش رہتے ہیں اور پھر یہ ساری کہانی جنم ہی نہ لیتی۔ یہ پسند کی شادیوں کا انجام ہوتا ہے۔

میرا سب سے چھوٹا بیٹا واصف بھی آجکل بےروزگار ہے۔ "اگر شوہر حضرات بےروزگار ہوجائیں اور بیگمات کمانے لگیں تو سمجھ لیں کہ بندر کے ہاتھ میں بندوق آگئی"۔ سب سے بڑا بیٹا عدنان کو تو اس کی بیوی بھگا کے لے گئی ملک سے باہر۔ کبھی کبھی وہ بیٹا ہم لوگوں سے ملاقات کےلئے آجاتا ہے ۔ اس کے تین بچے ہیں ایک بیٹی اور دو بیٹے۔ بڑے ہی پیارے بچے ہیں۔ میں آپ کو بتا نہیں سکتا کہ ہم لوگ اپنے پوتا پوتی کے بغیر کیسے زندگی گزار رہے ہیں!!! یہ ہماری آنکھوں میں ہر وقت بسے رہتے ہیں۔ بچے بھی ہم لوگوں سے بےحد مانوس ہیں۔

بچوں سے مجھے یاد آیا کہ ہمارے خاندان کی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ بچے اپنے ننھیال میں پیدا ہوئے ہوں۔ لائق میرا سمدھی تھا۔ اس کی بیوی نے یہ حرامزدگی کرکے میری بےعزتی کی کہ وہ میری بہو یعنی اپنی بیٹی کو اپنے سسرال لے گئی۔ میرے پوتے اپنے ننھیال میں پیدا ہوئے۔ گھر کے کچھ لوگوں نے اسے منع بھی کیا تھا مگر وہ نہیں مانی تھی۔

چچا اور تایا نے مرتے دم تک ان ہی لوگوں کو سپورٹ کیا۔ میرے چچا، تایا، میرا دوسرا سوتیلا بھائی سرفراز، سعودیہ کے شہر جدہ کے ائیرپورٹ میں لائق نوکری کرتا تھا، وہ بھی مرچکا، حتی کہ شیخ اسرائیل تک مر چکا ہے۔ لائق کو 2004ء میں ائیرپورٹ میں ہی دل کا دورہ پڑ گیا تھا۔ اس کے دو بیٹے دو بیٹیاں ہیں۔ اس کی بیٹی سے ہی میرے بیٹے کی زبردستی شادی تعویزات کرکے کروائی گئی تھی۔

 جب لائق مرا تھا تو اس کے بیٹوں نے یہ بدمعاشی کی کہ  ٹیکسی کی پچھلی سیٹ پہ اس کی بوڈی کو رکھا اور ایسے رکھا جیسے وہ زندہ ہو اور سو رہا ہو۔ ٹیکسی والے کو سب کچھ بتا کے اور اضافی پیسے کھلا کے خاموشی سے  مکہ کے حرم میں داخل ہو کے جنت المعلی میں دفن کروا دیا۔ ہوسکتا ہے وہاں بھی کسی محافظ کو پیسے کھلائے ہوں۔۔۔ اور یہ تدفین ہونے والی بات لائق کی اپنی بیٹی یعنی میری بہو نے ہم سب گھر والوں کو خود ہی بتائی تھی کہ اس طریقے سے دفن کیا تھا ہم نے۔ جو جنت المعلی یا بقیع میں ہی کیوں نہ دفن ہو وہ بھی حساب ضرور دے گا۔ اس طرح تو ابو جہل بھی تو وہیں دفن ہے۔ لائق کی اولادیں غنڈے بدمعاش جیسی ہیں۔ لائق کی اولادوں نے اپنے باپ کو کس قدر بےہودہ طریقے سے تدفین کی۔ ٹیکسی  والے کو پیسہ کھلایا اور ظاہر کیا کہ یہ زندہ ہے ذرا تصور کریں کہ ایک مردہ انسان ایک گھنٹے سے زیادہ گاڑی / ٹیکسی میں سفر کرتا رہا اپنی اولادوں کے ساتھ۔ اس کی بیٹی میری بہو بن کے جب آئی تھی تو کچھ ہی مہینوں میں وہ اپنے ماں باپ کو ہمارے گھر لے آئی تھی لڑوانے کو۔ ہمارے گھر آکے لائق مجھے کمیشن کے پیسوں پہ بلیک میل کر رہا تھا۔ ہمیں حکم دے رہا تھا کہ بیٹی ہے بیٹی بنا کے رکھو۔ بہو اور بیٹی میں بھی تو فرق ہوتا ہے۔ اس نے یہ الفاظ بھی بولے تھے کہ ایک دن میری بیٹی تمہارے بیٹے کو ملک سے باہر اڑا کے لے جائے گی۔۔۔ یعنی اپنے شوہر عدنان کو۔

انسان مرجاتا ہے تو اپنے اعمال ساتھ لے جاتا ہے، پیسہ نہیں۔ ہم لوگوں میں اتنی طاقت بھی نہیں ہے کہ اپنے حقوق کی حفاظت کرسکیں۔ اب ہم نے اس کو بھی اللہ کی مرضی جان کر خاموشی اختیار کرلی ہے۔ مجھے امید ہے کہ اللہ ہی اس کا حساب کتاب لے گا، کیونکہ میرا ایمان ہے کہ اللہ ہمیشہ مظلوم کا ساتھ دیتا ہے۔ میں تو ہمیشہ اللہ سے ہی مدد مانگتا رہتا ہوں۔ ایک بات کا اور پتہ چلا۔ ایک ایسے ذریعے سے جو بیان نہیں کیا جاسکتا۔ جادوٹونے کرنے والوں کا کیا انجام ہوتا ہے مرنے کے بعد۔۔۔ میرے چھوٹے سوتیلے بھائی سرفراز کے ایک بیٹے نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ میرے والد عبدالستار کی قبر پہ بکرے کے جبڑے کی ہڈی پڑی ہے۔ جادوٹونہ کرنے والوں کی قبروں کی یہ حالت ہوتی ہے کہ ان کو مرنے کے بعد بھی لوگ نہیں چھوڑتے۔ جو جیسا کرتا ہے ویسا ہی آخرت میں بھگتے گا۔ میں تو کہتا ہوں کہ دنیا بلکہ آخرت بھی مکافاتِ عمل ہے۔

مزے کی بات یہ کہ بعض دفعہ اللہ دنیا میں ہی دکھا دیتا ہے۔ بالکل جیسا مشترکہ گھر میں سن 1992ء تا 1998ء حالات بگڑے اور فسادات ہوئے کہ 98ء میں ہمارے ایک چوتھائی حصہ کی مزید تقسیم ہوئی۔ وہی ایک چوتھائی حصہ جو ہمارے والد ستار صاحب کو ملا تھا۔ کافی سالوں بعد بالکل پھر ویسے ہی حالات میرے سوتیلے بھائی سرفراز کے گھر کے ہوئے۔ اس کو بھی اپنے بچوں کے درمیان لکیر کھینچنی پڑی۔  یہ تقسیم 2022ء میں ہوئی۔ پہلے والی تمام تقسیمیں اینٹوں کی دیواروں سے کی گئیں، جبکہ یہ آخری تقسیم 2022ء والی لکڑی کے چپ بورڈ سے کرنا پڑی۔ جیسے پہلے ہم بھائیوں میں لڑائیاں ہوئیں بالکل ویسے ہی میرے سوتیلے بھائی سرفراز کے بچوں میں ان کی شادیوں کے بعد ہوئیں۔ شادیوں کے بعد اکثر گھروں میں فسادات ہوتے ہیں۔ یہی عورتیں قرآن کے سائے میں شادی کے دن رخصت ہوکے اپنے سسرال پہنچتی ہیں۔ مساجد میں ان کے نکاح ہوتے ہیں۔ ساتھ ہی کچھ ہی سالوں میں جادوٹونے کے چیپٹر کھول کے بیٹھ جاتی ہیں۔ پھر گھر میں جو دنگا فساد ہوتا ہے اسی کی یہ کہانی لکھنا پڑی۔

اور یہی عورتیں دوسری طرف اپنی اولادوں کو کلمے سکھاتی ہیں حدیثیں بتاتی ہیں نمازیں پڑھاتی ہیں اللہ ھو والی باتیں بتاتی ہیں۔

میں آپ کو تفصیلاً یہ بتا دوں کہ ہماری کوٹھی کی پہلی بڑی تقسیم 1973ء میں ہوئی تھی جس میں کوٹھی کے چار بڑے حصے کیئے گئے تھے۔ یہ تقسیم میرے والد، چچا اور تایا کے درمیان ہوئی تھی۔ اس کے بعد 98ء میں ہمارے ایک چوتھائی حصہ جو ہمارے والد ستار صاحب کے حصے میں آیا تھا اس کی ہوئی۔ یہ تقسیم ہم تین بھائیوں میں ہوئی۔ میں، میرا چھوٹا سوتیلا بھائی سرفراز اور اس سے چھوٹا تیسرا سوتیلا بھائی طارق۔۔۔ اور اس کے بعد پھر سب سے آخر میں سرفراز کے بچوں میں دنگا فساد ہوا، بالکل ویسے ہی جیسے ہمارے والد صاحب کے مشترکہ گھر میں ہوا۔ اس کو بھی اپنے گھر کی اپنے ہی ہاتھوں سے مزید تقسیم کرنا پڑی جو 2022ء میں ہوئی۔ یہی وہ تقسیم ہے جو لکڑی کے چپ بورڈ سے کی گئی۔

کچھ دن پہلے ایک خبر ہماری اس کوٹھی سے آئی تھی کہ سرفراز نے اپنے تینوں بچوں کو تین سے چار کروڑ کی رقم دی ہے۔ ایک بچے کے پاس تین سے چار کروڑ ہیں۔ مرنے سے پہلے وہ یہ رقم اپنے تینوں بچوں میں تقسیم کرچکا تھا۔ اس نے اپنے  ایک بیٹے کو گاڑیوں کے سپئیر پارٹس کی دکان بھی کھول کے دی تھی۔ یہ دکان 2004ء میں خریدی گئی تھی۔ یہ بات ہمیں معلوم نہیں تھی کہ دکان خریدی گئی۔ ہم سمجھ رہے تھے کرائے پہ لی ہے۔ باتوں باتوں میں اس کے اپنے منہ سے خود یہ بات نکل گئی کہ دکان خریدی گئی تھی۔ اس زمانے میں بھی اس کے پاس کروڑوں روپیہ تھا۔ اتنا پیسہ اس کے پاس کہاں سے آیا؟؟؟۔ 

میرے والد ستار صاحب نے ایک کمپنی بنائی تھی میرے بیٹے عدنان کے نام سے جو اس وقت صرف ایک سال کا تھا۔ اس کا نام عدنان کارپوریشن تھا۔ اس کو ایڈکو بھی بولتے تھے۔ یہ 72ء میں بنی تھی اور 80ء کے شروع میں بند کردی تھی۔ یہ امپورٹ کا لائسنس لینے کے لیے بنائی گئی تھی اور غفار چچا کے سرونٹ کواٹر کا ظاہر کیا تھا کہ یہاں کھلی ہے۔ جب پوری مشترکہ کوٹھی تھی تب کھلی تھی 1973ء کی تقسیم سے پہلے۔ یہاں کمپریسر مشین تک رکھ دی تھی لوگوں کو دکھانے کو کہ اگر کوئی آئے تو اس کو پتہ ہو کہ یہاں کام ہوتا ہے۔ یہ وہی کمپریسر تھا جو 90ء کے وقتوں میں میرا ایک محلےدار دوست امیراللہ کھا گیا تھا۔ اس نےساری زندگی واپس نہیں کیا۔ اس زمانے میں امپورٹ کا لائسنس لینا پڑتا تھا ورنہ امپورٹ نہیں کرسکتے تھے۔ ایک کمپنی کو ایک لائسنس ملتا تھا۔ یہاں شیشے بنانے اور اس کو مرمت کرنے کا کام ایڈکو کے نام سے شروع کیا تھا۔ شیشہ مارکیٹ تھی بیڈن روڈ پہ۔ امپورٹ لائسنس پہ صرف کمپنی کا نام ہوتا تھا۔ اس میں یہ نہیں لکھا ہوتا تھا کہ کاروبار کیا کرنا ہے۔ مثلا شیشہ امپورٹ کرنا ہے، بیڑی امپورٹ کرنی ہے۔ اس لائسنس کو حاصل کرکے آپ کوئی بھی امپورٹ کرسکتے ہو۔ اسی طرح جب پرانے وقتوں میں ہمارے بزرگ مشترکہ طور پہ بیڑی کا کام کرتے تھے تو انہیں بھی لائسنس ملا تھا ورنہ کام نہیں کرسکتے تھے۔ ظاہر ہے ان پڑھ لوگوں کو تو نہیں پتا تھا کہ لائسنس بھی چاہیے ۔ اسی لیے وہ لوگ بھی اپنی بیڑی ہمیں ہی بیچ دیتے تھے۔ میرے والد صاحب نے ایک اور لائسنس بھی لیا تھا۔ وہ موٹرسائیکلیں اور اسکوٹر منگوا کے بیچنے کے لیے لیا تھا۔ یہ شاید 70ء سے پہلے کی بات ہوگی۔ 70ء کی دہائی میں بھٹو نے لائسنس ختم کیے تھے تاکہ کوئی بھی شخص کچھ بھی منگوا لے۔


میرا سوتیلا بھائی سرفراز اس کمپنی کا غلط استعمال کرتا رہا۔ جب کمپنی عدنان کارپوریشن یعنی ایڈکو بند کردی گئی تھی تو تم کیسے اس نام سے کاروبار کرتے رہے؟؟؟۔ یہ بات ایسے پتہ چلی تھی کہ 96ء میں ایک لیٹر آیا تھا اس کے نام اور گھر کے پتے پہ، کیونکہ گھر کے پچھلے سرونٹ کواٹر میں یہ کمپنی کھولی تھی۔ میں بڑا حیران ہوا کہ جب کام بند کردیا گیا تھا تو لیٹر کیسے آگیا!!!۔ کمپنی میرے والد نے میرے بیٹے عدنان کے نام شروع کی تھی۔ سرفراز کو کہیں سے لیٹر پیڈ مل گئے ہوں گے یقیناً تبھی اس کمپنی کے نام سے خفیہ طور پہ کاروبار کرتا رہا۔ پتہ نہیں کب سے کب تک چلاتا رہا۔ شاید اس نے اسی کمپنی کے نام سے کروڑوں کما لیے۔ وہ کیا امپورٹ کرتا رہا تھا یہ نہیں معلوم۔ وہ میرے بیٹے کے نام کی کمپنی کا غلط استعمال کرتا رہا۔


میرا یہ مشورہ ہے کہ جب آپ کوئی بھی کمپنی بند کرتے ہیں تو اس کے تمام بچھے کچھے لیٹرپیڈز، وزٹنگ کارڈز اور دیگر کاروباری ثبوت کو آگ سے جلا دینا چاہیے۔ صرف وہ ثبوت رکھے جائیں جو انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ یا ایف بی آر والے مانگ سکتے ہیں۔ آج کے دور کے مطابق آپ کے کمپیوٹر یا موبائل میں بھی اس کمپنی کا کوئی بھی لیٹرپیڈ یا وزٹنگ کارڈ موجود نہیں ہونا چاہیے۔

میری اس کہانی میں تمام کرداروں کے نام اصلی ہیں جن میں سے درج ذیل نام جادوگروں کے ہیں:۔

1۔ شیخ اسرائیل۔ مرحوم

2۔ جاوید عرفان۔ مرحوم

3۔ زاہدہ۔ ادریس کی بیگم۔

4۔شاہدہ۔ طارق کی بیگم۔

5۔ ادریس۔

6۔ طارق۔

7۔ غفار سیٹھ (میرا چچا مرحوم) کی تو پوری فیملی تک انہی کاموں میں شامل تھی۔ کم از کم 3 افراد۔ ایک اس کا بیٹا عابد اور غفار سیٹھ کی بیوی نورجہاں بیگم مرحومہ۔

8۔ میرے والد عبدالستار مرحوم۔ نہایت افسوس کے ساتھ لکھنا پڑ رہا ہے۔ انہوں نے اپنی سگی اولاد پہ تعویز کروائے تھے۔

9۔ میرا تایا زاد کزن یوسف مرحوم۔ اس نے میرے بیٹے کی شادی تعویزات سے کروائی تھی۔ اس کی بہن کا نام بھی شاہدہ ہے۔ اسی کے کہنے پہ کیے گئے تھے۔

10۔ شاہدہ۔ یوسف مرحوم کی بہن جی۔ میرے بیٹے عدنان کی ساس۔ یہ کتیا بھی جادوٹونوں میں شامل تھی۔ اس کا سسرال راولپنڈی میں ہے۔ اب لاہور کی نجی سوسائٹی میں شفٹ ہوگئے ہیں۔ جبکہ شوہر کی نوکری جدہ ائیرپورٹ میں تھی۔ اسی لیے یہ لوگ سعودیہ میں رہے۔ اسی کے شوہر کا نام لائق تھا۔ جو دراصل نالائق تھا۔


اس کے علاوہ کچھ اور دیگر لوگ بھی اسی کوٹھی میں جادوٹونے کے کام کرتے ہیں۔ آج بھی کر رہے ہیں اور ان لوگوں نے زاہدہ اور شاہدہ سے ہی سیکھا ہے۔

۔۔۔بس اسی طرح زندگی کے دن پورے کر رہا ہوں۔ یہی میری کہانی ہے۔۔۔ ایک زمانہ تھا کہ میں نے صدر پاکستان ضیاء الحق سے ہاتھ ملایا تھا اور آج یہ زمانہ ہے کہ مشکلات کے  یہ دن دیکھنا پڑ رہے ہیں۔


 ہماری یہ کوٹھی اپرمال لاہور میں واقع ہے۔ 


یہاں تک بابا جی نے کہانی سنانے کے بعد خاموشی اختیار کرلی!!!








کوٹھی کی تقسیم کا چارٹ ۔ کوٹھی کا ایک حصہ تقسیم در تقسیم ہوتا چلا گیا۔ باقی کے بڑے والے حصے ویسے ہی ہیں آج تک
حصہ نمبر 2/a ہمارے متنازع کمرے تھے جو 2018ء میں خالی کردیئے تھے

میں نے دیکھا کہ باباجی کا چہرہ آنسوؤں سے تر تھا۔ بابا جی کی یہ روداد تقریباً تین چار گھنٹے بعد ختم ہوئی۔ یہ واقعات سنتے سنتے میرے بھی آنسو آجاتے تھے۔ مجھے بابا جی سے بےحد پیار ہوگیا تھا اور میں نے انہیں اپنے باپ کا درجہ دے دیا تھا۔ اتفاق سے میرے بھی ماں باپ نہیں ہیں۔ میرے ماں باپ تو بچپن ہی میں فوت ہوگئے تھے۔ میں نے بابا جی سے درخواست کی کہ اب وہ میرے پاس ہی رہا کریں مگر وہ نہ مانے، کہنے لگے کہ "میں کسی پر بوجھ نہیں بننا چاہتا۔ ہاں! کبھی کبھی آجایا کروں گا"۔ میں نے باباجی کی ہمت بندھائی ”اللہ پر بھروسہ کریں، اللہ ضرور آپ کو اور آپ کے بیوی بچوں کو خوشیاں دے گا“۔ باباجی نے کہا "کچھ اپنے بارے میں بھی تو بتاو، کہاں کے رہنے والے ہو، کیا کام کرتے ہو؟ ماں باپ بہن بھائیوں کے بارے میں بتاو"۔ میں نے ان سے وعدہ کیا پھر کسی وقت اپنے بارے میں ضرور بتاوں گا۔

یہ تحریر مالک: اردو ادب اسٹوریز پی کے  کے ذاتی گھر کی ہے۔

مالک و مصنف: محمد فاروق۔

کمپوزر: کاشف فاروق۔ لاہور سے۔



نتیجہ:

اس سچ مچ کی سچی کہانی کا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ شادی ہمیشہ والدین کی رضامندی سے ہی کرنا چاہیے اور والدین کا بھی یہی فرض ہے کہ وہ اپنی اولاد کی شادی ہمیشہ اپنے اسٹیٹس کے لوگوں یا امیر ترین خاندانوں میں کریں تاکہ آپ کے سسرال والے آپ کو مکمل مالی سپورٹ دے سکیں اور آپ کو کسی امیر ملک میں سیٹ کرواسکیں۔

  جہاں باباجی نے شادی کی ان کا گھر پرانے دور کا بنا تھا 1941ء کا اور وہ بھی چونے کا۔ یہ رہتے تھے لاہور میں ایک کوٹھی میں جو 6 کینال پر محیط ہے۔ 6 کینال یعنی 3 ہزار گز۔ ان کا بنگلہ تھا کنکریٹ کا۔ یہ 1960ء میں بننا شروع ہوا تھا اور 1963ء تک مکمل ہوا تھا۔ سن 64ء میں یہ وہاں منتقل ہوئے تھے۔ پتا نہیں بابا جی کو اپنے سسرال جو سندھ کے کوٹری شہر میں تھا کیا نظر آیا کہ یہ وہاں پسند کی شادی رچا کے بیٹھ گئے۔ ان کے سسرالیوں کے پاس تو اتنا بھی نہیں تھا کہ پاؤں میں پہننے کو جوتی، چپل خریدنے کی رقم ہوتی۔ ان کے سسرالیوں کے بچے پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس رہتے تھے۔ ان کے گھر میں سائیکل کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔ آج انہی سسرالیوں کے پاس 2022ء میں اپنی ذاتی ٹیوٹا کرولا 1300 سی سی گاڑی ہے اور دماغ آسمانوں پہ پہنچ چکے ہیں۔ ان کے انہی سسرال والوں نے باباجی کا کوئی ساتھ نہیں دیا جب ان کے بچے تباہ ہوئے۔ آج یہ باباجی خود مشکل زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کا خاندان ٹوٹ گیا۔۔۔اور تو اور ان کے اپنے ہی سسرالیوں یعنی سالوں نے یہاں تک کہہ دیا تھا اپنی ہی ماں جی کو کہ "بہنوں کا ہمارے گھر آنا جانا بند کرو"، بہنوں سے مراد باباجی کی بیگم اور ان کی بہنیں ہیں یعنی بیگم کے اپنے ہی سگے بھائیوں نے۔۔۔اسی طرح ایک دن ایسا بھی آیا تھا کہ باباجی نے اپنے ایک سالے کو کاروباری راز کی کوئی بات بتا دی تو وہ الٹا انہی کو بلیک میل کرنے لگا۔ اس سالے کا نام عرفان تھا۔ یہ راولپنڈی میں رہتا ہے، آج بھی۔ اس نے کوئی ایسی بات کہہ دی جو بلیک میل کرنے کے لیے کافی تھی۔ تو کیا فائدہ ہوا پسند کی شادی کرنے کا؟ جس کے سالوں نے اپنوں کو ہی گھر آنے سے منع کردیا۔۔۔

بابا جی کے سسر جی نے خود امیر گھرانے میں شادی کی تھی۔ وہ لوگ پڑھے لکھے بہت تھے۔ کوئی سیشن کورٹ کا جج تھا تو کوئی وکیل تھا۔یہ اس زمانے کی بات ہے جب پاکستان نہیں بنا تھا۔یہ سسر جی کی غلطی تھی کہ انہوں نے اپنے سسرالیوں سے مدد نہیں مانگی کہ ہمیں ملک سے باہر سیٹ کرواؤ۔ ان کے سسرالی اپنی بیٹی کی خاطر ان کو ملک سے باہر کہیں بھی سیٹ کروا سکتے تھے۔ بس اپنے سرکاری دھندوں میں لگے رہے۔ٹیلی گراف آفس میں کام کرتے تھے۔ میڑک پاس تھے۔ اس زمانے میں میڑک بھی بڑی تعلیم تھی۔

بابا جی نے شادی کی اپنی مرضی سے اور امید رکھتے تھے کہ اس گھر میں سے کوئی ہمارا ساتھ دے۔ اتنا بیوہ قوف تو کوئی نہیں ہوتا کہ شادی کررہا ہے اپنی مرضی کی اور امید رکھتا ہے گھر میں سے کوئی ساتھ دے تو وہ کیسے ممکن ہے!!!۔ پھر امید بھی انہی سے رکھو جہاں شادی کی ہے۔ جبکہ ان کے سسرالیوں نے بالکل ساتھ نہیں دیا جو ان کا لازمی فرض تھا۔ ان سسرالیوں کو اپنی ہی بہنوں سے نفرت تھی اور آج بھی ہے۔ یہ بات بھی کنفرم تھی کہ بابا جی کا رشتہ صوبہ سندھ سے لڑکی کے ماں باپ نے نہیں بھیجا تھا بلکہ کسی اور عورت نے اپنی مرضی سے بھیجا تھا۔ جب لڑکی کے والدین نہیں بھیج رہے تو تم کیسے بھیج رہی ہو اپنی مرضی سے!!!۔ نہ تم لڑکے کی ماں ہو نہ تم لڑکی کی ماں ہو۔ تمہیں یہ اختیار کس نے دیا؟۔ ایسی عورتیں قیامت کے دن جہنم میں جائیں گی جو دوسروں کے گھر اجاڑتی ہیں۔

بابا جی کا باپ سگا تھا اور ماں سوتیلی تھی۔ ان کو چاہیے تھا کہ باپ سے کہتے جہاں آپ کا دل چاہے وہیں شادی کرو۔

بابا جی کے چھوٹے اور بڑے بیٹے دونوں کی شادیاں بھی غلط گھروں میں تعویزات کے ذریعے ہوئیں اور منجھلا بیٹا "کاشف" دل کا مریض بن گیا۔ ساری عمر بےروزگاری میں گزر گئی۔ اس کی شادی نہ ہوسکی۔ اس کو کسی نے نہیں پوچھا۔ اچھا ہی ہوا اس نے شادی ہی نہیں کی ورنہ وہ بھی تباہ ہوجاتا۔

 باباجی کے غفار چچا نے ان کے سسرال جا کے ان کو سنایا تھا کہ "جو لوگ پہلے سائیکلوں پہ پھرتے تھے آج وہ گاڑیوں میں گھوم رہے"۔ انہوں نے یہ بھی سنایا تھا کہ "کوٹری شہر میں نالیاں بہتیں"۔۔۔ تو جواباً بابا کی ساس نے ان کو کہا کہ" نالیاں تو لاہور میں بھی بہتیں"، تو یہ سن کر غفار چچا بےحد سیخ پا ہوئے۔انہوں نے کھری کھری سنائی کہ" بابا جی کے سسر جی کو نمازیں پڑھنے کے علاوہ کچھ نہیں آتا۔ جب بھی دیکھو تو ہر وقت اللہ ھو اللہ ھو میں لگے رہتے ہیں۔ دس دس بچے پیدا کیئے ہیں پالنے آتے نہیں ہیں، عمران خان ہیں تو پھنے خاں بنے پھرتے ہیں"۔ (باباجی کے ایک سالے کا نام عمران ہے)۔ یہ ہوا باباجی کی ازخود بےوقوفی سے پسند کی شادی کا انجام۔

بابا جی کے سسر جی نے اپنی ایک بیٹی کی شادی ساری عمر نہیں کی۔ وہ پڑھ لکھ کے  ڈاکٹر بن گئی۔ اس کو مرگی کی بیماری تھی۔ اس کو دوسرے ڈاکٹر کہتے تھے کرلو شادی کچھ نہیں ہے آپ کو۔ سسر جی نے اپنی دوسری بیٹی کی شادی بھی غلط گھر میں کی۔ اس کے شوہر نے اس پہ الزامات لگائے کہ یہ غیر آدمیوں سے باتیں کرتی ہے۔ اس کو چھوڑ دیا خلع کرلی۔ البتہ طلاق نہیں دی۔ یہ شادی بھی سسر جی کے سب سے چھوٹے بھائی نے کروائی تھی۔ یہ 1974ء میں ہوئی تھی۔ بابا جی کے سسر جی کل 6 بھائی تھے۔ ان کا ایک پلاٹ تھا جو گھر کے بالکل ساتھ تھا۔ وہ ان کی اولادوں کے کام آتا۔ انہوں نے منہ اٹھا کے سب سے چھوٹے بھائی کو دے دیا۔ اولاد منع بھی کررہی تھی نہ دو۔ ہمارے کام آئے گا۔ بابا جی کا سسر گدھا آدمی تھا۔ بالکل جاہل۔  اس کو اولاد کی کوئی فکر نہیں تھی۔ اس نے اولاد کو تمیز نہیں سکھائی تھی۔ اس کی اولاد ہماری بےعزتی کرتی ہے۔ یہ بات سچ تھی کہ اسے نماز پڑھنے کے علاوہ کچھ نہیں آتا تھا۔ ”ہم ذرا نماز پڑھ آئیں“ اس سے آگے کچھ نہیں آتا تھا۔

دراصل اس کہانی میں "بابا جی" سے مراد مؤلف ہی ہیں۔ یہ مؤلف کی اپنی ہی آپ بیتی ہے۔ کاروباری کوئی بھی بات ہو ہمیشہ ذاتی طور پہ اپنے تک ہی رکھنا چاہیے۔ حتی کہ اپنی بیوی اور اولاد تک کو نہیں بتانا چاہیے۔


نتیجہ ماخذ: کمپوزر "کاشف فاروق"۔ بِن "محمد فاروق"۔
6 مئی 2025ء۔




حصہ دوئم

کچھ حیران کردینے والے انہونے واقعات جو ہمارے گھر و فیملی میں رونما ہوچکے ہیں




پنجے کے نشانات والے عملیات


ہمارے گھر میں کچھ عملیات کیے گئے تھے جن کی معلومات ہم عامل حضرات سے لے چکے تھے۔ تمام نے یہی کہا تھا کہ "یہ ہمارے بس میں نہیں ہے"۔ معلومات کے لیے یہ بھی بتاتا چلوں کہ ہمارے گھر میں جو بھی عملیات کیے گئے ہیں یہ 90٪ سندھ کے شہر حیدرآباد اور اس کے گردونواح اور کچھ کراچی سے کئے گئے ہیں۔ کچھ عملیات ملتان سے بھی ہوئے تھے یہ کنفرم تھا اور کچھ عملیات فیصل آباد سے ہوئے، کچھ لاہور میں بستی سیدن شاہ (عیسائیوں کی بستی) سے ہوئے اور یقیناً کچھ لاہور کے مختلف علاقوں سے بھی ہوئے ہونگے جن کا ہمیں نہیں معلوم ۔ ہمارے گھر کے کل 4 بڑے حصے ہیں، دو آگے کی طرف ہیں اور دو سڑک کے پیچھے ہیں۔ جن میں سے ایک حصے میں یہ عملیات ہوئے تھے جو گھر کا پچھلا حصہ ہے، جس میں پنجے کے نشانات پڑ گئے تھے اور ساتھ میں عجیب و غریب آوازیں بھی آئی تھیں ساتھ میں۔ ایسا لگتا تھا جیسے کوئی بہت سی عورتیں یا چڑیلیں چیخیں مار رہی ہوں، چیخ رہی ہوں۔ یہ نشانات 26 جنوری 2008 کی رات کو 2 بجے گھر کے پچھلے حصے میں پڑے۔ اس دن لاہور میں شدید ترین سردی کا ریکارڈ بھی ٹوٹا تھا، درجہ حرارت منفی 2.2 تھا۔ آدھی رات کو 2 بجے زبردست شور و غل ہوا، یہ آوازیں کسی انسان کی نہیں تھیں بس عجیب سی چیخیں تھیں۔ جیسے کوئی بلا پیدا ہوگئی ہو۔ رات دو بجے اسی شور سے میری آنکھ کھلی تو مجھے معلوم ہوا۔ وہ آوازیں میں نے خود سنی تھیں۔ باقی سب لوگ گھر میں گہری نیند سو رہے تھے۔ وہ لوگ بیمار تھے انہیں بخار تھے۔ اسی لیے ہم نے انہیں نہیں جگایا۔ ان کو میں نے صبح ناشتے کے دوران بتایا تھا۔ صبح ہوئی تو گھر والوں نے باہر نکل کر دیکھا توجگہ جگہ باغیچہ میں چھوٹے اور بڑے مرغی کے پنجوں جیسے نشانات دیکھے، کچھ چھوٹے اور کچھ بڑے۔ گھر کے پورے لان میں تھے وه نشانات۔

سب سے حیران کردینے والی بات تو یہ تھی کہ مٹی میں تو پڑے ہی پڑے تھے نشانات پنجے کے حتٰی کے گھر کے پکے فرش تک پر نشان پڑ گئے تھے اور فرش والے نشان کے ساتھ ایک ایڑی تک کا نشان بھی تھا۔ حیرت کی بات یہ سامنے آتی ہے کہ کنکریٹ کے پکے فرش پر کیسے پڑ سکتے ہیں۔۔۔!!! یہ تمام نشانات دراصل کسی ایک ٹانگ والی مخلوق کے تھے کیونکہ ان میں دوسری ٹانگ موجود ہی نہیں تھی۔ سامنے والے گھر میں کنسٹرکشن ہورہی تھی، تو انہوں نے ریت کا ڈھیر ہمارے گھر کی باؤنڈری وال کے ساتھ لگایا ہوا جو دیوار سے بھی کافی اونچا تھا، اس ریت کے ڈھیر کے اوپر بھی ایک پنجے کا نشان موجود تھا۔ فرش والے نشان تو اتنے پکے تھے کہ 15 روز تک پڑے رہے۔ ان پر پیر بھی پھیرتے تھے تو بھی نہیں مٹتے تھے۔ پھر وقت کے ساتھ ساتھ آہستہ آہستہ ختم ہوتے گئے۔ اسی دوران اسی رات بلکہ اسی لمحے ہمارے ایک چچا کے کمرے کا دروازہ بھی آدھی رات کو 2 بجے کسی نے کھولنے کی کوشش بھی کی تھی اور اسی لمحے ہمارے دوسرے چچا کے گھر کی گھنٹی بھی کسی نے بجائی۔ آدھی رات دو بجے کون گھنٹی بجائے گا؟؟؟ اتنی زور سے بٹن دبایا کہ گھنٹی بول بول کے جل گئی، شارٹ ہوگئی اور اسکا بجلی کا بٹن تک اندر دبا ہی رہ گیا۔ انہی پنجوں کی تصاویر موبائل سے اتاری گئی تھیں وه دیکھانی ہیں آپ کو ۔

 








میں نے اپنے ایک ماموں سے اس بارے میں بات کی تو وہ مذاق سمجھے۔ وہ اسلام آباد میں ہیوی مکینل کمپلیکس (جہاں ایٹم بم بنتے ہیں) میں کام کرتے تھے۔ اب 2017ء میں یہ ریٹائرڈ ہیں۔ انہوں نے اپنے دفتر میں کسی کولیگ سے ذکر کیا تو اس نے بتایا کہ "ہاں بھئی یہ ٹھیک کہا ہے، ایسے عملیات ہوتے ہیں۔ ہمارے اپنے گھر میں بھی پنجے کے یہی نشانات پڑ گئے تھے اور ساتھ میں عجیب سی آوازیں چیخیں بھی سنائی دی تھیں۔ ہم نے نوٹس نہیں لیا تو ہمارے جوان جوان بچے اسی عمل کے نتیجے میں تڑپ تڑپ کر مرگئے تھے۔ پھر ہمیں کسی نےبتایا تھا کہ لاہور میں سنگھ پورہ کے علاقے میں ایک مسجد ہے نور مسجد، اس کے مخالف ایک گلی جارہی ہے وہاں ایک صاحب رہتے ہیں جن کا نام ہے صوفی ولی الرحمٰن ان کی عمر 80 سال ہے، وہ خاص طور سے ان پنجوں کے نشان والے عملیات کا توڑ کرتے ہیں۔ انہوں نے ہی ہمیں بتایا تھا کہ ان پنجوں والے عملیات کا اثر 5 سے 20 سال تک کبھی بھی سامنے آسکتا ہے اور آتا ضرور ہے۔ ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ اثر سامنے نہ آئے"۔ اب یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ آج حیات ہیں بھی یا نہیں۔ یہ 2008ء کی بات تھی جب ہمارے ماموں نے بتایا تھا۔ لاہور کے رہائشی اس آرٹیکل کو پڑھ رہے ہیں تو انہیں سنگھ پورہ اور نور مسجد کا تو ضرور پتا ہوگا۔ پھر 2009ء میں میں، میرے والد اور بڑے بھائی ہم تینوں سنگھ پورہ گئے بھی تھے۔ صوفی صاحب سے بات بھی کی تھی۔ مگر والد صاحب نے منع کردیا تھا کہ "یہ پنجوں کے نشان والی بات ان کو نہ بتاؤ۔ کیوں کہ یہ نشانات دراصل ہماری کوٹھی کے پچھلے حصے میں پڑے تھے، جہاں دوسری فیملی رہتی ہے۔ اس لیے یہ انہی کا کام ہے توڑ کروانا، ہمار انہیں۔ ہم کیوں کسی کے گھر کے معاملے میں مداخلت کریں؟" اسی لیے ہم لوگ ادھر ادھر کی پرانی باتیں کرکے واپس آگئے تھے۔ تب سے آج 2024ء آگیا ہے اور کسی نے توڑ نہیں کروایا۔ اگر ان کا اثر 20 سال تک آتا ہے تو یہ 2028ء بنتا ہے۔ اب یہ صرف اپنا نتیجہ ہی ظاہر کرے گا۔

مرغی کے انڈے

یہ 15 دسمبر 2007 ہفتے کے دن کی رات تھی، ہوا یہ تھا کہ ہمارے گھر کے صحن میں کسی نے مغرب کے بعد جب اندھیرا چھا جاتا ہے، مرغی کے انڈے اچانک پھینکے، جو کسی انسان کا کام نہیں لگتا تھا، ہمارے گھر کی چوکھٹ پر انڈا گرا اور کسی ایسی جگہ سے پھینکا گیا کہ کوئی انسان اس جگہ سے پھینک ہی نہیں سکتا، جو کچھ ہوا اپنے آپ ہی ہوا۔ آپ کو بتا دیا ہے کہ ہماری کوٹھی کے بڑے بڑے کل 4 حصے ہیں۔ ہمارے ایک بڑے حصہ کے پھر مزید تین حصے ہوگئے تھے 1998ء میں۔ کوٹھی کے دو بڑے حصوں میں بھی انڈے گرے یعنی گھر کے کل تین بڑے حصوں میں انڈے گرے۔ ہو سکتا ہے چوتھے حصے میں بھی گرا ہو اور انہیں پتا نہ چل سکا ہو۔ ہم نے یہ بات کسی کو نہیں بتائی تھی۔ ہمارے گھر کے ایک فرد نے میری والدہ کو بتایا تھا کہ ایک انڈا ہمارے اور ایک گھر کے ساتھ والے حصے میں بھی گرا تھا تو اس کے بعد ہی میری والدہ نے ان کو اپنے گھر کا بتایا کہ ہمارے ہاں بھی ایک انڈا گرا تھا۔

تسبیح کا غائب ہونا

ایک انہونا واقعہ یہ بھی ہوا تھا انہی دنوں بلکہ اگلے ہی دن کہ ہماری امی کے ہاتھوں سے اپنے آپ ہی فجر کے وقت تسبیح غائب ہوگئی تھی اور 65 دن تک غائب رہی۔ غائب ہاتھوں سے ہوئی تھی اور ملی صوفہ سیٹ کے کشن کے نیچے سے وہ بھی مٹی میں بری طرح اَٹی ہوئی۔ فجر کے وقت جائے نماز پہ تسبیح رکھی تھی۔ اسی وقت لوڈشینگ ہوگئی تھی تو امی نے اٹھ کر سوئی گیس کا لیمپ جلایا۔ اس وقت ہمارے ہاں یو پی ایس نہیں تھا تو واپس آکر امی نے دیکھا تو تسبیح غائب تھی۔ پورے کمرے کی اچھی طرح صفائی کروالی وہ نہیں ملی۔ جب ملی تو 65 دن بعد صوفہ کے کشن کے نیچے سے مٹی میں اٹی ہوئی ملی۔ پھر ہمارے ابو اس کو لفافے میں ڈال کرنہر میں پھینک آئے۔ یہ مارچ 2008ء میں ہوا تھا۔

خون کے چھینٹے

اسکے علاوه ہمارے گھر کے صحن کے دروازے کے سامنے اور کبھی ہماری گاڑی کی چھت اور کبھی گاڑی کے بونٹ پر کالے رنگ کے چھینٹے پڑے ملتے تھے، یہ سلسلہ سن 2000 سے 2005 تک جاری رہا ۔ یہ بھی سمجھ سے باہر تھا۔ ہر دوسرے تیسرے دن یہ عمل ہوتا تھا۔ پھر میں اور میری والدہ نے ایک دن گاڑی کے بونٹ پر سفید کلر کی کاغذ کی شیٹ ٹیپ سے چپکا دی، یہ دیکھنے کے لیے کہ یہ کیا چیز ہے۔ پھر اسی دن سے وه چھینٹے اچانک غائب ہوگئے۔ پہلے تو ہر دوسرے تیسرے دن پڑتے تھے پھر اچانک غائب ہوگئے اور 5 ماه تک غائب رہے۔ پھر 5 ماه بعد اچانک گھر کے باتھ روم میں یہی چھینٹے آدھی رات کے وقت دو بجے کوئی پھینک گیا۔ میں اٹھ کے باتھ روم گیا تو مجھے نظر آئے، یعنی پکی چھت کے نیچے، کمرے کے باتھ روم میں۔ ہم نے کچھ عاملوں اور مولویوں سے معلومات لیں تو ان کے مطابق یہ کالے رنگ کے چھینٹے خون کے چھینٹے تھے اور یہ کالا علم کیا جارہا ہے۔ ہمیں یہ بھی معلوم گیا تھا بعد میں کہ رات کو یہ عمل کیا گیا ہے کہ ایک الو کو زندہ زمین کے نیچے گاڑھ دیا گیا ہے اس کے خون کے چھینٹے پوری کوٹھی میں جگہ جگہ پڑے ملتے ہیں۔۔۔ اور یہ بات ہماری فیملی میں سے کسی نے ہمیں بتائی تھی۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ یہ خون والا عمل پوری کوٹھی میں ہوا ہے۔ سن 2000 سے 2005ء تک یہ سلسلہ بھی ہمارے کمروں یعنی انیکسی میں جاری رہا تھا۔

اس کے علاوہ دیگر

اس کے علاوہ گھر کے پچھلے ایک اور پورشن کے گھر والوں نے بتایا تھا کہ اپنے آپ پکی پکائی روٹی پڑی ملتی ہیں سیڑھیوں کے پاس تو کبھی مرغی کی کٹی ہوئی گردنیں پروں سمیت کچی پڑی ہوئی ملتی ہیں۔ کبھی کبھی بالوں کا گچھا بھی پڑا ملتا ہے۔ یہ سب کالا جادو ہے ،(اکثر یہ بالوں کا گچھا فرج کے اندر بھی پڑا ملتا ہے)۔ ہم نے کئی عالم دین سے پتا کروایا تو سب نے یہی کہا کہ یہ گھر چھوڑ دو، ورنہ سب مارے جاؤ گے، جس گھر میں پنجوں کے نشانات پائے گئے سمجھو وه تو ختم ہی ہے۔ کچھ لوگ گھر خالی کروانا چاہتے ہیں اور آپ ہی کے رشتہ دار ہیں۔ یہ گھر میں سے ہی ہو رہا ہے کالاجادو۔ یہ بات بھی کسی عامل نے ہی بتائی تھی 2012ء میں کہ دو عورتیں ہیں وہ یہ کررہی ہیں۔ ہم 1997 سے مختلف عالم دینوں سے رجوع کرچکے ہیں۔ بہت سوں نے آیتہ کریمہ بھی کروایا۔ ہمیں پڑھنے کو بھی دیا گیا ہم نے مکمل پڑھا بھی، لیکن کچھ فرق نہ پڑا، حالات جوں کے توں ہی ہیں ابھی تک، بلکہ اب تو مزید بگڑتے جارہے ہیں۔ کچھ عاملوں نے تو ہمیں باقاعدہ یہاں تک کہاں کہ یہ بہت پرانے عملیات ہیں اب یہ مضبوط ہوچکے ہیں۔ اب یہ اپنا نتیجہ ہی ظاہر کریں گے۔ آپ کو تو 1990ء کے وقتوں میں کسی کو دیکھانا چاہیے تھا۔ اب یہ ہمارے بس میں نہیں ہیں۔ ہمارے گھر پہ ہونے والے تمام عملیات ایسے ہی کیے گئے ہیں جو ناقابلِ توڑ و پلٹ ہیں۔ کوئی جادوگر اس معاملے میں ہاتھ نہیں ڈال رہا۔تمام جادوگروں کو اپنا پیشہ عزیز ہے ورنہ ان کی طاقت چھن جائے گی اور ہمیں کچھ نہیں ملے گا سوائے تباہی و بربادی کے۔ اگر ہم نے کسی سے پلٹوانے کی کوشش کی تو ہمارا پورا گھر تباہ ہوجائے گا۔ کروانے والے بھی مارے جائیں گے اور جن پر کیا گیا ہے وہ بھی۔

ہماری کوٹھی 1960ء میں تعمیر ہونا شروع ہوئی تھی اور 1964ء میں سفر کےمہینے میں آسٹریلیا بلنڈنگ نزد ریلوے اسٹیشن لاہور سے شفٹ ہوئے تھے۔ بڑے بوڑھے اسی لیے کہتے ہیں کہ سفر کے مہینے میں شفٹنگ نہیں کی جاتی۔ آسٹریلیا بلڈنگ میں بھی جنات کا بسیرا تھا۔اس کے اوپر کی پہلی منزل اور اس عمارت کی چھت جناتی تھی۔ ایک دفعہ ہمارے ابو نے اس بلڈنگ کی چھت پہ ایک بزرگ کو سفید کپڑوں میں ملبوس اپنی آنکھوں سے کچھ ہی لمحوں کے لیے پھرتے دیکھا تھا۔ پھر وہ غائب ہوگیا تھا۔ اس نے اپنے کندھوں پہ چارپائی کے اگلے دو پائے اٹھائے ہوئے تھے اور چارپائی کے دو پچھلے پائے زمین پر تھے۔ اس بلڈنگ کی چھت سے ویٹ لفٹنگ کے ڈمبل لڑھکانے کی آوازیں آتی تھیں۔ اس بلڈنگ کا باتھ روم چھت پر ہی تھا۔ انہیں باتھ روم رات کو استعمال کرنا بہت مشکل لگتا تھا۔ یہ لوگ کرائے پہ رہتے تھے۔ 2000ء میں اس کے مالک نے اس عمارت کوتوڑ کر کچھ اور بنا لیا ہے۔

ہماری کوٹھی کے پچھلے پورشن میں ایک بڑا سا آم کا درخت لگایا گیا تھا جو آج بھی ہے۔ اس پہ بہت بری طرح جنات کا زبردست بسیرا ہے آج بھی۔ یہ جنات گھرکے رہائشیوں نے تعویزات کرکر کے بسائے ہیں۔اس درخت کو اب کاٹا نہیں جاسکتا۔ اس کوٹھی کی دیواریں 13 انچ کی بنی ہوئی ہیں۔ یہ لاہور کے علاقے اپرمال میں موجود ہے جو کافی بڑا علاقہ ہے اور پوش علاقہ ہے۔ آج 2024ء میں یہاں 60-62 کے قریب افراد رہائش پذیر ہیں۔ اس گھر کے راستے بہت ہی پراسرار ہیں۔ اگر کوئی باہر کا آدمی اندر داخل ہوجائے تو واپسی اکیلے بہت مشکل ہوجاتی ہے۔ یہاں اس محلے میں بہت گھروں میں ڈاکہ بھی پڑا لیکن ہمارے گھر میں کوئی ڈاکو نہ گھس سکا کیونکہ سب کو معلوم تھا کہ اس گھر کے راستے بہت مشکل ہیں۔ اگر ہم اندر گئے تو بھٹک جائیں گے ہمارے آس پڑوس کے بہت گھروں میں ڈاکے بھی پڑے لیکن ہماری کوٹھی میں کوئی ڈاکو نہیں داخل ہوا کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ یہاں کے راستے بہت عجیب ہیں۔ اگر ہم اندر گئے تو راستہ بھٹک جائیں گے۔ ہمارے گھر کا یہ علاقہ پورا ہی ٹھیک نہیں لگتا مجھے۔

یہ کوٹھی جب تعمیر ہوئی تو اس سے پہلے زمین خریدی گئی۔ یہاں پہلے کھیت ہوا کرتے تھے۔ فصلیں اگتی تھیں اور ہل چلتے تھے۔ کوٹھی کے ساتھ ایک سروینٹ کواٹر بھی بنا تھا جو 1960ء میں ہی بنا تھا۔ پھر اس کے بعد 1973ء میں دوسرا سروینٹ کواٹر بنا جس کو کوٹھی کی انیکسی کہا جانے لگا۔ اس انیکسی کی جگہ پہلے یہاں ایک کھالا ہوا کرتا تھا جو پانی کی سپلائی کھیتوں میں کرتا تھا۔ یہاں کسی قسم کا کوئی ایسا درخت بھی نہیں لگا تھا جس پہ جنات کا بسیرا ہو۔ ہمیں ایک عامل نے یہ بھی بتایا تھا کہ کوٹھی جب بنی تھی تو جنات یہاں پہلے سے تھے۔ ان کو آپ کی یہ کوٹھی پسند نہیں آئی تو انہوں نے وقت کے ساتھ ساتھ اس کوٹھی پہ قبضہ جمانا شروع کردیا۔ عامل صاحب کی یہ کہانی کچھ مشکوک سی لگتی ہے۔ البتہ یہ ضرور تھا کہ اس کوٹھی کے تعمیر ہونے کے بعد یہاں وقتاً فوقتاً عملیات ہوتے رہے ہیں۔

یہاں اس علاقے اپرمال میں ہر گھر میں کچھ نہ کچھ جناتی قوتیں موجود ہیں۔ ہمارے سامنے والے گھر میں بھی دو بڑے بڑے آم کے درخت موجود ہیں۔ ان کے گھر کی ایک فیملی کی بیوی ڈاکٹر ہے۔ اس کے بچوں کے کپڑوں میں اکثر خون لگ جاتا تھا کہیں سے۔ پھر انہوں نے اس کا توڑ کروایا کسی عامل سے۔ پھر یہ خون کپڑوں میں لگنا بند ہوگیا۔ توڑ کروانے کے بعد عامل نے کہا کہ آپ لوگ ایک آم کے درخت کی زیادہ تعداد میں شاخیں کاٹ دیں تاکہ عمل مکمل ہوجائے۔

ٹھیک اسی طرح ہمارے بالکل ساتھ والا گھر بھی ان کی فیملی کو نہیں پھلا تھا۔ اس گھر میں انہونی وجوہات کی بنا پر لوگوں کی اموات ہوئیں۔ بالکل انہونی وجوہات کی بنا پر۔۔۔ ان کا گھر 1941ء میں بنا تھا۔ یہاں سکھ رہتے تھے۔ جب 47ء میں پاکستان بنا تو وہ لوگ 48ء میں اس کو بیچ کر انڈیا شفٹ ہوگئے۔ ایسا اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ جن گھروں میں سکھ یا ہندو رہائش پذیر ہوں وہاں جنات کا بسیرا ضرور ملتا ہے۔ اس گھر کو ایک صاحب نے خرید لیا۔ ان کا نام قاضی تھا۔ انہوں نے گھر کا نام دارالسلام رکھ دیا۔ ان کی شادی ہوئی لیکن اولاد نہیں ہوئی۔ یہ گھر ان کو نہیں پھلا کیونکہ ان کی اولاد ہی نہیں ہوئی۔ ان کی وفات کے بعد وہ گھر ان کے وارثین کو مل گیا۔ یہ گھر ان وارثین کو بھی نہیں پھلا۔ ایک ایک کرکے انہونی اموات ہوتی چلی گئیں۔ اموات کا سلسلہ جاری رہا۔ 2015ء میں انہوں نے اس کو بیچ دیا اور نئے گھر میں شفٹنگ 2018ء میں کی۔ وہ لوگ ہم سے مل کر گئے۔ وہ لوگ گرین سٹی برکی روڈ میں شفٹ ہوئے۔ ہم سے مل کے گئے تھے۔

یہ وارثین 3 بھائی تھے۔ سب سے بڑے کو دل کا عارضہ تھا۔ یہ انگلینڈ میں تھا۔ وہاں سے یہاں ملنے آیا تھا۔ اس کو اسی گھر میں بیٹھے بیٹھے ایک دم ہارٹ اٹیک ہوگیا تھا اور گھر میں ہی فوت ہوگیا۔ یہ وارثین رات کو 10 بجے کے بعد شرابیں پیتے تھے۔ ایک دن شراب پی تو سب سے چھوٹے بھائی کے گردے فیل ہوگئے۔ اس کے بعد اس کے دماغ نے کام کرنا بند کردیا۔ جب عمر زیادہ ہوئی تو اس کا دماغ بالکل 6 مہینے کے بچوں جیسا ہوگیا۔ اس کی بیوی اسے گود میں لے جاکر اس کو باتھ روم کرواتی تھی۔ پھر اس کا انتقال ہوگیا۔ یہ لوگ قادیانی تھے۔ البتہ والدین نے اسلام قبول کرلیا تھا۔ وہ پانچوں وقت کے نمازی تھے۔ جب اس چھوٹے بھائی کا انتقال ہوا تو اسے قادیانیوں کے قبرستان میں ہی دفنایا گیا۔ ان کے رہتے ہوئے اس گھر میں پراسرار طریقے سے دو گاڑیوں کو اپنے آپ ہی بغیر کسی وجہ کے آگ بھی لگی۔ یہ جنوری 2017ء تھا۔ پہلے ایک گاڑی کو آگ لگی، فائر بریگیڈ بلوائی۔ پھر ٹھیک 25 دن بعد اسی جگہ پہ ایک رکشہ کھڑا تھا جو ان کے ملازمین کا تھا، اس میں بھی آگ لگ گئی اپنے آپ۔

میں نے آپ کو بتایا ہے ابھی ابھی کہ جادوگروں نے کہا تھا کہ یہ کالاجادو ہے جو آپ ہی کے گھر سے ہورہا ہے۔۔۔ سن 2003ء میں میری دادی کے انتقال کے دن 8 جون بروز اتوار، دو بچیاں آپس میں باتیں کررہی تھیں، جو ہماری فیملی سے ہیں اور چچاؤں کی ہیں۔ یہ دونوں اس وقت بچیاں ہی تھیں اب تو ان کے شناختی کارڈ بھی بن گئے ہیں بلکہ شادی شدہ بھی ہوگئیں ہیں۔ ایک بچی کہتی ہے دوسری سے کہ "ہماری خالہ (جن کا میں نام نہیں لوں گا) کے پاس ایک جن ہے وہ سرکٹا ہے۔ اس کا سر نہیں ہے"۔ ( یاد رکھیں کہ بچے جھوٹ نہیں بولتے، ان کی عمر اس وقت 9 – 10 سال تھی اور یہ سرکٹا گھر کے پچھلے پورشن میں دیکھا گیا تھا۔ یہ آج بھی یقیناً موجود ہوگا) تو وہاں سے میری چچیوں میں سے ایک چچی گزر رہی تھیں، انہوں نے سن لیا اور سب عورتوں کے سامنے پوچھ بھی لیا کہ بچے ایسا کہہ رہے ہیں، تو جن خالہ کا ذکر ہورہا تھا انہوں نے مان بھی لیا سب کے سامنے اور کہہ دیا کہ ہاں ہے ہمارے پاس سرکٹا، ایک طرف کونے میں بیٹھا رہتا ہے کچھ کہتا تھوڑا ہی ہے۔ تو میری چچی نے کہا "ہیں۔۔۔ بھئی میرا تو انتقال ہی ہوجائے آپ کیسے رہ لیتی ہو اس کے پاس۔ میں تو کبھی بھی نہ جاؤں گی ایسے گھر میں"۔ 2003 ء میں یہی بات مشہور ہوئی تھی کوٹھی میں کہ پیچھے والوں کے گھر میں سرکٹا پھرتا ہے۔

یہ تمام واقعات مجموعی طور پر منگل بدھ اور ہفتہ اتوار کو ہوئے۔ بلا ہفتہ کی رات پیدا ہوئی، انڈے ہفتے کی رات گرے، میری امی کے سامنے لیموں اتوار کی دوپہر کو گرا، بکرے کی سری منگل کی رات پھینکی گئی، ہماری دادی کا انتقال اتور کے دن ہوا، دادا کا انتقال بھی منگل کے روز ہوا، ہمارے ہی گھر کی دوسری فیملی میں سے میرے بڑے دادا کے بڑے بھائی یعنی بڑے دادا اور بڑی دادی کے انتقال بھی ہفتہ اور اتوار کے دن ہوئے تھے۔ حتی کہ ہمارے کچھ عزیز رشتہ دار والٹن میں رہتے ہیں ان کے والدین جو میرے دادا ہی لگتے تھے کے انتقال بھی سننے میں آتے ہیں کہ ہفتہ اور اتوار کو ہی ہوئے تھے۔ لیکن یہ اتنا کنفرم نہیں۔ ہماری دادی کہا کرتی تھیں کہ ایسا لگتا ہے جیسے ہمیں کوئی گلا دبا کے مار ڈالے گا۔ یہ بات 2003 کی بات تھی اور ان کا انتقال بھی 8 جون 2003ء بروز اتوار ہی ہوا تھا۔ جب 1990 میں میرے بڑے بھائی جب یونیورسٹی جاتے تھے تو یہی بات کہتے تھے کہ لگتا ہے جیسے کوئی گلا دبا رہا ہو۔ کوٹھی کے پچھلے والے پورشن کے لان میں ایک سفید کپڑوں میں ملبوس کسی بزرگ کی روح کو پھرتے دیکھا گیا تھا 2009ء میں۔ واللہ عالم کون تھے!!! یہ خبر بھی پیچھے رہنے والی فیملی کی طرف سے آئی تھی۔

پانی کا قطرہ

یہ سن 1988ء کی بات تھی کہ ہمارے ابو کے سر پر پانی کا ایک قطرہ گرتا تھا اپنے آپ۔ جیسے کسی نے پانی کا صرف ایک عدد قطرہ ابو کے ماتھے پہ پھینکا ہو۔ ہم لوگ بچے تھے اس لیے اس بات کا نوٹس نہیں لیا۔ بعد میں تقریباً سن 1990ء میں اس کا خمیازہ بھگتنا شروع ہوگئے۔ اس پانی کے قطرے کا اثر آج تک ہے۔ یہ پانی کا قطرہ ناپاک چیز ہے۔ ساتھ میں یہ بھی کہ ابو کو ایک خواب آتا تھا کہ وہ کسی اونچی عمارت سے نیچے گرتے چلے آرہے ہیں۔ یہ خواب آئے دن دکھتا تھا۔ اس کا مطلب پستی کی علامت تھی جو ہم نہیں سمجھ سکے۔چونکہ ہم لوگ بچے تھے اسکولوں میں تھے۔ ابو نے نوٹس نہیں لیا اور امی کو بھی اتنی معلومات نہیں تھیں۔ ہمیں کچھ نہیں معلوم تھا کہ ہمارے اپنے گھرمیں 87ء سے تعویزات ہورہے ہیں۔ سب سے پہلے ہمارے ماں کی باپ کی شادی پہ ہی ہوئے تھے سن 1970ء میں۔ جس کا ہمیں تقریباً 2012ء تک پتا چلا۔ اس کا توڑ اب ناممکن ہے۔ ہمارے ہاں کچھ لوگ جادوگر بن ہی چکے ہیں جن میں سے کچھ فوت ہوگئے ہیں مر گئے مگر باز نہیں آئے اور کچھ ابھی زندہ ہیں۔ وہ ابھی بھی انہی کاموں میں لگے ہیں۔ یہ رشتہ دار کچھ لاہور میں ہماری ہی کوٹھی میں مقیم ہیں، کچھ فیصل آباد، کراچی، حیدرآباد اور کوٹری شہر سے تعلق رکھتے ہیں۔

ہمارے گھر کا ایک انہونہ واقعہ

ہمارے ہی گھر کے کچھ مزید آنکھوں دیکھے انہونے واقعات ایسے بھی ہوئےتھے کہ ہماری کوٹھی کے اگلے ایک پورشن میں ہمارے ایک دادا اپنے گھر میں پودوں میں پانی دے رہے تھے تو ان کی آنکھوں کے سامنے دو عورتیں گھر کا سڑک کا لوہے کا مین دروازہ کھول کر اندر داخل ہوگئیں۔ یہ سن 2012ء میں ہوا تھا۔ ایک نے سبز رنگ کی سی شلوار قمیض پہنی ہوئی تھی اور دوسری نے سفید رنگ کی۔ وہ دونوں آپس میں باتیں کرتی ہوئی داخل ہوئیں اور باقاعدہ انہوں نے سڑک کا دروازہ کھولا اور سیدھی اندر باورچی خانے میں چلی گئی۔ دادا جی سمجھے کہ کوئی ہونگی عورتیں بلایا ہوگا ان کو۔ وہ اپنی دھن میں کام کرتے رہے۔ جب فارغ ہوئے تو اندر باورچی خانے میں گئے۔ اندر جا کر انہوں نے اپنے پوتوں پوتیوں سے پوچھا کون تھا کون آیا تھا بلایا تھا کسی کو؟ ہمارے سامنے دو عورتیں باتیں کرتے ہوئے گھر کے اندر داخل ہوئیں ہیں ایسے؟ تو بچے حیران رہ گئے یہ کیا کہہ رہے ہیں!!! یہاں تو کوئی عورتیں داخل ہی نہیں ہوئیں!!!۔ انہوں نے جواب دیا کہ آپ نے کس کو دیکھ لیا۔۔۔ یہاں تو کوئی نہیں داخل ہوا، تو ہمارے دادا جی پریشان ہوگئے؟ یہ دو پراسرار عورتیں کون تھیں اور کہاں سے آرہی تھیں۔ میرے علم کے مطابق یہ دونوں خواتین جنات تھیں اور انہیں کسی بڑے جادوگر نے ہمارے گھر میں بھیجا تھا۔ ہمارا پورا گھر انہی اندیکھی دنیا سے بھرا پڑ اہے۔ یہاں گھر میں اس قدر مخلوقات موجود ہیں کہ آپ تصور نہیں کرسکتے۔ یہ مخلوقات رات کے 12 بجے کے بعد سے فجر کی آذانوں تک ہمارے گھر کے اندر، اوپر نیچے کی منازل اور باہر لان میں بھی ہر جگہ گھومتی پھرتی رہتی ہیں۔۔۔ آج بھی۔۔۔

ہمارے گھر کے پچھلے پورشن میں جو فیملی رہتی ہیں جن کے گھر پنجوں کے نشانات پڑ گئے تھے انہوں نے اپنی آنکھوں سے خود دیکھا ہے کہ اورنج، پیلے اور کبھی سرخ شلوار قمیض میں بچے نما دن دیہاڑے پھرتے دیکھے ہیں۔ ایک دفعہ انہوں نے بتایا تھا کہ ایک عورت پہلی منزل کی چھت پر کرسی پہ بیٹھی تھی کھلے آسمان تلےکالے برقعے میں۔ جیسے ہی ان کے کسی فرد نے قدم باہر نکالا دیکھنے کے لیے کہ یہ کون ہے، تو وہ فوراً بیٹھے بیٹھے ہی ایک دم ہی چھلانگ مار کر نیچے کود گئی۔ بارہ فٹ نیچے۔ ہمارے گھر کی چھتیں بارہ بارہ فٹ اونچی ہیں۔ جب اس فرد نے نیچے جھانک کر دیکھا اوپر ہی سے تو نیچے کوئی بھی نہیں تھا۔ اسی طرح ایک دفعہ ایسا بھی ہوا تھا کہ ایک سایہ نما انسان کمرے میں تیز رفتاری سے داخل ہوا کہیں سے اور الماری کے اندر گھس گیا۔ جب الماری کا دروازہ کھول کر دیکھا تو اندر کوئی نہیں تھا۔

ہم نے اب اپنا گھر چھوڑ دیا ہے اور نئے گھر میں 2018ء میں شفٹ ہوگئے ہیں۔ یہ نیا گھر پیراگون سٹی سوسائیٹی میں ہے جو برکی روڈ لاہور میں واقع ہے۔ یہاں نئے گھر میں شفٹ ہونے کے بعد بھی ہمارے گھر میں وہی بلائیں پیچھا کرتی ہوئی پہنچ گئی ہیں کیونکہ ان بلاؤں سے اب چھٹکارا ممکن نہیں رہا۔ یہاں بھی انہونے واقعات ہوئے ہیں ہمارے ساتھ۔ اگر ہم شہر بھی چھوڑ دیں حتی کہ ملک بھی چھوڑ دیں تو بھی کالا علم اپنا نتیجہ ظاہر کرے گا، جب تک کہ اس کا توڑ نہ کرلیا جائے اور توڑ کے حوالے سے میں آپ کوبتاچکا ہوں کہ توڑ نہ ممکن بن چکا ہے کیونکہ یہ بہت پرانا ہوچکا ہے۔بڑے سے بڑے جادوگر کے بس میں بھی نہیں ہے اب اس کاتوڑ۔ کچھ عاملوں نے ہمیں یہ باتیں بتائی تھیں کہ جو عورت آپ کے گھر میں یہ عملیات کررہی ہے وہ بہت بھاری ہوچکی ہے اس کی موت نہیں ہوسکتی۔ وہ بہت بھاری طاقت ہے۔آپ کسی قسم کا کوئی ایکشن نہیں لے سکتے اس کے خلاف ورنہ آپ کا نقصان ہوجائے گا۔یہ جان لیں کہ یہ واقعات ہمارے پرانے گھر کی تباہی سے پہلے کے ہیں۔ اب وللہ عالم کہ جب پنجوں کے نشانات کے اثرات آئیں گے تو کیا کچھ ہوگا!!! ان کا نتیجہ 2026ء تا 28ء تک ہی متوقع ہے۔ چونکہ کالا علم مرنے سے پہلے کسی کو سکھایا جاتا ہے تب ہی جادوگر کو موت نصیب ہوتی ہے ورنہ اس کی بلائیں ہی اسے ماریں گی۔ اسی لیے وقتاً فوقتاً یہ جادو ایک سے دوسرے کو ہمارے گھر میں سکھایا جاتا رہا ہے یعنی منتقل کیا جاتا رہا ہے۔

ہمارے محلے دار کے ساتھ ایک عجیب واقعہ

جیسا کہ میں بتا چکا ہوں کہ کچھ عملیات ہمارے گھر پہ ''بستی سیدن شاہ'' سے ہوئے تھے جو عیسائیوں کی بستی ہے۔ یہ بستی ہمارے گھر سے قریب ہی واقع ہے۔ یہاں عیسائیوں کا ایک گورا قبرستان بھی ہے جو وہیں کے ایک گندے نالے کے پاس ہے۔ ہمارے ایک محلےدار کی دکان تھی بالکل اس کے پاس۔ اس محلےدار کو بھی ہم اچھی طرح جانتے ہیں یہ لوگ پرانے گھر کے پاس ہی ایک گلی میں رہتے ہیں۔ یہ لوگ گاڑیوں کے آٹو پارٹس کا کام کرتے ہیں، آج بھی۔ ان کی دکان کے علاقے میں ایک واقعہ رونما ہونے لگا تھا۔ یہ شاید 2010ء کے آس پاس کی بات تھی۔ ہوتا یہ تھا کہ باقاعدگی سے روزانہ ایک انتہائی غلیظ بدبو اس پورے علاقے میں پھیل جاتی تھی جس سے اہلِ علاقہ تک اس سے پریشان تھا۔ یہ بدبو خاص طور سے عین عشاء کے وقت پر آتی تھی، بیٹھا تک نہیں جاتا تھا۔۔۔ محلےدار نےایک پروگرام بنایا کہ کیوں نہ ہم کسی عامل کو بلائیں اور اس سے مشورہ لیں کہ یہ کیسی بدبو ہے جو روزانہ باقاعدگی سے عین عشاء کے وقت پہ ہی آتی ہے، جس سے اہلِ علاقہ تک پریشان ہیں۔ انہوں نے ایک عامل سے رجوع کیا۔ اس نے عمل پڑھ کے صاف صاف بتا دیا کہ میرے علم کے مطابق یہاں ایک عیسائی عورت کی بدروح آتی ہے جو گورے قبرستان سے آتی ہے اور اس کو کوئی جادوگر اپنے عملیات سے بلاتا ہے۔ شاید وہ کسی پہ عملیات کرتا ہے۔ یہ سن کر محلےدار نے کہا کہ تم اس کو قابو کرکے لے جاؤ اپنے ساتھ بذریعہ عملیات۔ وہ عامل اتنا طاقتور نہیں تھا کہ بدروح کو قابو کرسکے۔ بس اس نے اسی لمحے عمل پڑھ کر اس کے راستے کو بدل دیا۔ راستے سے ڈائیورٹ کردیا۔ ٹھیک اسی دن سے بدبو آنا بھی بالکل بند ہوگئی۔

ایک بات مجھے یاد آئی کہ یہ سن 85ء 86ء کی بات ہوگی، ہم لوگ اسکولوں میں پڑھتے تھے۔ ہمارے ابو بتایا کرتے تھے کہ اخبارات میں یہ خبر اکثر آتی تھی کہ ایک سرکٹا دیکھا گیا ہے جو دھرمپورہ، میاں میر اور اس کے آس پاس گھومتا دیکھا گیا ہے۔ یہ سرکٹا بھی اسی گورے قبرستان میں دیکھا جاتا تھا اور آتا ہی یہیں سے تھا۔ اہلِ علاقہ میں جو لوگ زیادہ عمر کے ہونگے ان کو شاید یاد بھی ہوگا۔ یہ سائے کی مانند لوگوں نے دیکھا۔ یہ وہی قبرستان ہے جہاں سے عیسائی عورت کی بدروح آتی تھی، جس کا ذکر کیا ہے۔ یہ قبرستان بھی 200 سال پرانا ہے۔ جہاں انگریزوں تک کی قبریں موجود ہیں۔ ہمارا اپرمال کا پورا محلہ ہی کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ یہ آسیبی سا معلوم ہوتا ہے۔

کوٹھی کی انیکسی

اس کوٹھی میں ایک انیکسی بھی 1970ء کی دہائی میں تعمیر ہوئی تھی۔ یہ کسی کو بھی نہیں پھل سکی تھی۔ خاص طور سے ہم لوگوں کو۔ ہم لوگ پہلے کوٹھی کے ایک ہی سنگل روم میں رہتے تھے۔ جگہ تنگ تھی۔ ہم لوگ بڑے ہورہے تھے۔ اسکول کی پڑھائی میں بہت مشکل پیش آرہی تھی۔ اس لیے یہ ابو نے فیصلہ کیا کہ ہم لوگ صرف ہماری فیملی انیکسی میں منتقل ہوجاتے ہیں۔ ہم 86ء میں شفٹ ہوئے۔ جو پہلے ڈرائینگ روم کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔

انیکسی مشکوک تھی رہنے کے لیے

ہمارے ایک چچا انیکسی کے ایک کمرے میں رات کو سوتے تھے تو ان کے پلنگ کے نیچے سے کپڑے سلائی کی سوئیاں ملتی تھیں۔ یہ اٹھا اٹھا کے پھینکتے تھے۔ ایک دن انہوں نے کسی عامل سے پتا کروایا تھا تو اس نے بتایا تھا کہ آپ کے کوئی رشتے دار ہیں جو جی ٹی روڈ پہ رہتے ہیں اسٹیشن کے آس پاس۔ وہ اپنی بیٹی کا رشتہ آپ سے چاہتے ہیں۔ یہ اکثر دفتر سے گھر آتے تھے تو راستےمیں ان کی موٹرسائیکل کا رخ اپنے آپ ہی انہی کے گھر ہوجاتا تھا۔ یہ پہلے ان کے گھر جاتے تھے پھر اپنے گھر آتے تھے۔ پھر انہوں نے اس کا توڑ کروایا۔ یہ بات انکی بیگم ہماری چچی نے ہمیں بتائی تھی۔ یہ بات 2012ء میں بتائی گئی۔

ہم لوگ اس زمانے میں بچے ہوتے تھے۔ ہمارے ٹیوٹر انیکسی میں ہمیں پڑھاتے تھے۔ جب انیکسی میں ٹیوشن پڑھنے بیٹھتے تھے سن 80ء کے وقتوں میں تو محسوس ہوتا تھا جیسے کچھ ہے یہاں پہ!!! ڈر لگتا تھا ہم لوگوں کو ان کمروں میں بیٹھتے ہوئے۔ یہاں انہی کمروں میں دو بڑے حادثات بھی ہوئے تھے۔ ہمارے چھوٹے چچا بھی انہی کمروں میں ٹیوشن پڑھ رہے تھے یہ 70ء کی دہائی میں ہوا تھا، تو ان کے سر پہ چلتا ہوا پنکھا گر گیا تھا۔ پھر ابو انہیں اٹھا کے ہسپتال لے کے گئے تھے۔ دوسرا حادثہ یہ تھا کہ ہماری پھوپھی انہی کمروں میں مولوی صاحب سے پڑھتی تھیں تو ایک دن مولوی صاحب کو یہیں بیٹھے بیٹھے ہارٹ اٹیک ہوگیا تھا۔ ابو انہیں لے کے گئے تھے ہسپتال۔ یہ دونوں حادثات 70ء کی دہائی میں ہوئے تھے۔

سن 84ء کی بات تھی کہ ہمارے ہمسائے نے ہمارے چچا سے اجازت لی کہ وہ انیکسی میں کچھ عملیات کرنا چاہتے ہیں تو چچا نے ہمسائے ہونے کے ناطے اجازت دے دی۔ ہمسائے کے ملازم کے ابا کو لا کر انہی کمروں میں بٹھایا گیا۔ دادی ہمارے بھائی کو کہتی تھیں جاؤ وہ بیٹھے ہیں کمرے میں ان کو ناشتہ دے آؤ۔ ہمسائے کے ملازم کے ابا انہی کمروں میں تعویزات کرتے تھے۔ یہ کمرے تعویزات کے لیے بھی استعمال ہوتے رہے ہیں۔

صوبہ سندھ سے کیے گئے کچھ تعویزات کے قصے

سن 2012ء کی بات تھی یہ خبر ملی کہ صوبہ سندھ کے شہر کوٹری سے ہمارا ایک خاص رشے دار شیخ اسرائیل بھی ہمارے انہی کمروں کو خالی کروانا چاہتا ہے۔ وہ ایک مشہور سیاسی قسم کی شخصیت تھا جس کو 2003ء کے زمانے کا وزیرِاعلیٰ سندھ تک جانتا تھا۔ وہ صوبہ سندھ کے ضلع دادو کی ضلعی ذکوٰۃ کمیٹی کا چئیرمین تھا۔ آج کے دور میں کوٹری شہر اب ضلع جامشورو میں شامل ہے۔ وہ کوٹری شہر سے بھی ہمارے گھر پہ تعویزات کرتا تھا۔ ایک دن ہم نے جاسوسی کا پروگرام بنایا۔ ہم نے کسی رشتے دار کو اس کا پیچھا کرنے کا کہا تو اس نے اپنے دوستوں کو اس کے پیچھے لگا دیا۔ اب وہ رشتے دار ہمارے دوسرے رشتہ داروں کو تو جانتا تھا لیکن اس کے دوستوں کو نہیں جانتا تھا جس جاسوس کو ہم نے اس کے پیچھے لگایا۔ اس کے دوست اس رشتہ دار کا پیچھا کرتے ہوئے کوٹری شہر کی بہار کالونی تک پہنچ گئے۔ وہاں دیکھا کہ وہ شخص ایک گھر میں داخل ہوا ہے۔ دوستوں نے آس پڑوس سے پوچھا کہ یہ گھر کس کا ہے؟ تو لوگوں نے بتایا کہ یہ ایک جادوگر کا گھر ہے جس کا نام سجاد ہے۔ اس کو سجادہ بھی کہتے ہیں اور بابا بہاری بھی۔ یہ کالےجادو کا اتنا ماہر ہے کہ پیسے کام ہونے کے بعد ہی لیتا ہے۔ اس کے بعد دوست واپس آگئے اور رشتہ دار کو مطلع کیا۔ رشتے دار اپنے دوستوں کے ساتھ کراچی گیا۔ وہاں دوستوں کے کوئی پیر صاحب تھے۔ انہوں نے ان سے پوچھا تو پیر صاحب نے براہِ راست ہمارے ابو کا نام لے کے کہا کہ لاہور میں کوئی فاروق صاحب ہیں ان کے کمرے یعنی انیکسی خالی کروانی ہے اور اس بہانے سے تعویزات ہورہے ہیں کہ فاروق صاحب نے اس شخص کی بہن کے گھر پہ قبضہ کیا ہوا ہے وہ قبضہ چھڑانا ہے۔ اس کی بہن شادی ہوکے ہماری کوٹھی میں آئی تھی۔ یہ دو بھائی اور دو بہنیں ہیں۔ دو بھائی فوت ہوچکے ہیں۔

اس سیاسی شخصیت کو ہمارے ایک قریبی رشتہ دار نے باقاعدہ اپنی آنکھوں سے جادوگر سجاد کے گھر بیٹھے ہوئے بھی دیکھا تھا۔ ہوا یہ تھا کہ ہمارا خاص قریبی رشتہ دار جس کا نام نہیں لیا جاسکتا ایک اسکول میں نوکری کرتا تھا۔ جادوگر کے بچے اسی اسکول میں پڑھتے تھے۔ یہ سرکاری اسکول تھا۔ بچوں نے کہا ہمارے اسی خاص رشتہ دار ٹیچر سے کہ ہمارے گھر سالگرہ ہے آپ نے آنا ہے۔ وہ بچے اسکول میں بہت مشہور تھے کہ یہ جادوگر کے بچے ہیں، تو رشتہ دار نے سوچا چلو چل کے دیکھتے ہیں کہ ایسا کونسا جادوگر ہے۔ یہ 1998ء تھا۔ جب یہ وہاں پہنچا تو اس نے اپنی آنکھوں سے اسی سیاسی رشتہ دار کو ایک کمرے میں بیٹھے ہوئے دیکھا۔ اس کی نظر ہمارے رشتہ دار پہ نہیں پڑی تھی۔ وہ لوگ دوسرے کمرے میں سالگرہ منا رہے تھے۔ اس طرح سے معلوم ہوا تھا کہ وہ سیاسی رشتہ دار اس جادوگر پہ جاتا ہے۔

سن 2016 ء میں کسی نے دو بکروں کی سریاں ایک ہفتے کے وقفے سے ہماری انیکسی کے سڑک کے گیٹ پہ پھینکی۔ کوئی ان کمروں کو خالی کروانا چاہتا تھا۔ اس بارے میں ہمارے ایک جاننے والے عامل نے بتایا تھا کہ حیدرآباد سندھ سے اس کام کے لیے دو بکرے قربان کیے گئے ہیں۔ ان ہی کی سریاں انہوں نے اپنے مؤکل کے ذریعے یہاں پہنچائیں۔ ایک سری 23 فروری 2016ء کو گری تھی اور دوسری یکم مارچ 2016ء کو۔ یہ سریاں بھی منگل اور بدھ کے دنوں سے تعلق رکھتی ہیں۔

بلآخر حالات سے مجبور ہوکر ہم لوگوں نے 15 دسمبر 2018ء کو انیکسی خالی کر ہی دی۔ کیونکہ سریوں کے عمل کا مقصد ہی ہماری انیکسی خالی کروانا تھا۔ دو پھیروں میں سامان نئے گھر میں شفٹ کرلیا۔ ہمیں انیکسی خالی کرنا ہی پڑی۔ ہم لوگ پیراگون کے نئے گھر میں شفٹ ہوگئے۔ اب یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ انیکسی گٹر کے پائپ لائنوں پہ بنی ہے۔ پتا نہیں وہاں ایسا کیا ہے کہ کسی نامعلوم کی نظر ان کمروں پہ ہے یا کوئی ایسی مخلوق یہاں پہلے سے بستی تھی جس کی موجودگی سے ہم لوگ ڈرتے تھے اس کو ہمارا رہنا پسند نہیں آیا۔ یہ کمرے انیکسی ہم لوگوں بالکل نہیں پھلی۔ واللہ عالم ان کمروں کے نیچے کوئی خزانہ دفن ہے یا کوئی تعویز گڑا ہے، سمجھ سے باہر ہے۔

یہ تو تھے وہ واقعات جو ظاہری طور پہ رونما ہوئے۔ اس کے علاوہ کچھ ایسے بھی تھے جو خواب میں ہوتے تھے۔ جن کا ثبوت پیش نہیں کیا جاسکتا۔

ہماری یہ کوٹھی اب ایک شمشان گھاٹ کی سی شکل اختیار کر گئی ہے۔ پنجے کے نشانات کے عملیات کے جب اثرات آئیں گے تو اندازاً نتیجہ یہ نکلے گا کہ لوگ ہلاک ہوں گے اور گھر کو آگ لگے گی۔ سچ مچ کی آگ نہیں بلکہ تباہی آئے گی۔

ہماری اس کوٹھی کے جتنے بھی لوگ فوت ہوچکے ہیں ان سب کی روحیں وہیں قید ہیں۔ انہوں نے خود اپنے آپ کو اسی کوٹھی میں نظر بند کرلیا ہے۔ کیونکہ وہ خود گھر چھوڑنا نہیں چاہ رہے تھے۔ غفار چچا نے تو ہمارے ایک عزیز رشتےدار کو خود کہا تھا کہ ہم نے جان بوجھ کے یہ کوٹھی ایسی بنائی ہے تاکہ کوئی اسے  بیچ ہی نہ سکے۔


مالک: کاشف فاروق، لاہور۔