گڑھ مہاراجا
Garh Maharaja
پاکستان کا ایک آباد مقام جو پنجاب میں واقع ہے۔ضلع جھنگ، تحصیل احمد پور سیال کا ایک قصبہ، یہ دریائے چناب کے مغربی کنارے پر جھنگ سے 9 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ احمد پور سیال سے اس کا فاصلہ 2 کلومیٹر ہے۔ لیہّ، ملتان اور مظفر گڑھ کو یہیں سے سڑکیں جاتی ہیں۔
یہ تاریخی حیثیت کا حامل قصبہ ہے۔ جب شہاب الدین غوری نے ملتان پر حملہ کیا اور اس غرض کے لیے وہ شور کوٹ پہنچا تو اس نے پہلی فوجی چھاؤنی گڑھ مہاراجا کے میدان میں ڈالی تھی۔ ملتان کی فتح کے بعد اپنی اس فوجی چھاؤنی کو باقاعدہ شہر میں بدلا اور اس کا نام شاہ نگر رکھا۔ بعد میں یہ شہر مختلف جنگوں کی زد میں آکر تباہ و برباد ہو گیا۔ یہاں سے تین کلومیٹر کے فاصلے پر سلطان باہو کا مزار ہے۔ مغلوں کے عہد میں یہ قلعہ قہر گان کا علاقہ کہلاتا تھا۔ مغل بادشاہ شاہجہان نے سلطان باہو کے والد سلطان بازید کو ان کی فوجی اور تبلیغی خدمات کے صلہ میں قلعہ قہرگان کے قریب دریائے چناب کے کنارے جاگیر عطا کی تھی۔ یہ علاقہ اس وقت ملتان صوبے کے ماتحت اور اورنگ زیب کی جاگیر میں تھا۔ 1648ء میں اورنگ زیب نے قہرگان (گڑھ مہاراجا) میں دریائے چناب کے کنارے مضبوط قلعہ تعمیر کروایا کیونکہ اس زمانے میں بلوچوں نے ہلچل اور شورش پیدا کر رکھی تھی۔ وہ خود بھی دو مرتبہ یہاں قیام پزیر ہوا اور سلطان باہو کی مجلس عرفان سے فیض یاب ہوا۔ بعد میں یہ قلعہ شکستہ ہو گیا تو نواب ولی داد خان کے عہد میں کوڑا رام نے اس کی دوبارہ مرمت کرائی اور شہر بسایا اور اس کا نام راج گڑھ رکھا۔
بعد ازاں یہ علاقہ رجب سیال کی جاگیر میں مل گیا اوریہ علاقہ گڑھ مہر رجب کے نام سے مشہور ہو گیا۔ سکھوں کے عہد میں یہاں شدید سیلاب آیا جس سے عمارتیں منہدم ہو گئیں چنانچہ دیوان مولراج کے عہد نظام میں نوازش علی خان کے دادا نے 1843ء میں موجودہ قصبہ کی بنیاد ڈالی اور یہ علاقہ پھر آباد ہوتا چلا گیا۔ سکھوں کے بعد انگریزی دَورمیں بھی قصبہ آبادی کے لحاظ سے ترقی کرتا رہا۔ 1848ء میں پنجاب پر انگریزوں کے قبضے کے بعد گڑھ مہاراجا کا علاقہ ضلع مظفرگڑھ میں شامل کیا گیا۔ 1861ء میں نئے بندوبست کے تحت اسے ضلع جھنگ کی تحصیل شور کوٹ میں شامل کر دیا گیا بعد ازاں اسے تحصیل احمد پور سیال میں شامل کر دیا گیا۔ 1919ء کی ایک سرکاری دستاویز کے مطابق اس وقت یہاں تھانہ اور ڈاکخانہ موجود تھے۔ مغلوں کے دور میں یہاں ہندو اور سکھ کثرت سے رہائش پذیر تھے۔ تقسیم ہند کے وقت وہ سب یہاں سے چلے گئے۔ ابھی بھی ان کے مندروں اور شمشان گھاٹوں کے آثار موجود ہیں۔ ساتھ ہی مغلوں کے دور کی بنی پرانی عمارات کھنڈر کی شکل میں موجود ہیں۔
کپاس اور گندم علاقے کی اہم زرعی پیداوار ہیں۔ واجد علی واجد یہاں کے معروف شاعر ہیں۔ ان کا مجموعہ ساغر شائع ہوا۔ معروف پنجابی گلوکار منصور ملنگی کا تعلق بھی اسی قصبے سے ہے۔ گڑھ مہاراجا کی آبادی 1981ء میں 16233 اور 1998ء میں 25094 نفوس پر مشتمل تھی۔2017ء کی مردم شماری کے مطابق یہاں کی آبادی 36409 نفوس پر مشتمل ہے۔ یہ پنجاب کا ایک پسماندہ ترین گاؤں ہے۔ جہاں زیادہ تر غریب غرباء رہتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے گھر بنے ہوئے ہیں۔
اس شہر میں 90٪ شیعۃ لوگ رہتے ہیں۔ اس شہر میں 14 ایسے مقامات ہیں جہاں شیعۃ برادری اپنی عبادات کرتے ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں پورے پاکستان کے کسی بھی شہر میں اتنے زیادہ مقامات نہیں ہیں۔
| مچھلی کے شکاریوں نے دریائے چناب پہ کیمپ لگایا ہوا ہے |
| مچھلی کے شکاریوں کی پلٹن شکار کرتے ہوئے |
یہاں دریائے چناب کے کنارے لوگ مچھلی کا شکار کرتے رہتے ہیں۔ یہاں روڈ کے کنارے تفریح کے لیے شکاری تازہ مچھلی شکار کرکے لوگوں کو کھلاتے ہیں۔ یہاں مچھلی کی ایک مارکیٹ بنی نظر آتی ہے۔ اس گاؤں کی مچھلی بہت مشہور ہے۔ اس کے لیے دریائے چناب کے کنارے کچھ ہوٹل بھی کھلے ہوئے ہیں جہاں دریا سے نکالی ہوئی تازہ مچھلی کھلائی جاتی ہے۔
مرتب: کاشف فاروق۔
