URDU STORIES:

اردو ادب اور کہانیوں میں خوش آمدید ۞ قصہ کہانیاں ۞ غزلیں ۞ نظمیں ۞ واقعات ۞ طنزومزاح ۞ لاہور کی پنجابی۞ کچھ حقیقت کچھ افسانہ ۞ پراسرار خواب والی ٹیکنالوجی ۞ میری فیملی کا ذاتی شجرہ نسب سن 1790ء تا 2023ء۔ ۞ قومی پیمانہ ۞ تباہی و زلزلے ۞ دو سو سالہ کیلینڈر ۞ اردو سافٹ وئیر ڈاؤنلوڈ ۞۔
Showing posts with label JAB ME AIK TRUCK ME PHANSS GIA THA - جب میں ایک ٹرک میں پھنس گیا تھا. Show all posts
Showing posts with label JAB ME AIK TRUCK ME PHANSS GIA THA - جب میں ایک ٹرک میں پھنس گیا تھا. Show all posts

JAB ME AIK TRUCK ME PHANSS GIA THA - جب میں ایک ٹرک میں پھنس گیا تھا

 








جب میں ایک ٹرک میں پھنس گیا تھا



میں لاھور کے علاقے کوٹ لکھپت کا رہائشی ہوں اور غریب طبقے سے تعلق رکھتا ہوں۔ میں آپ کو اپنی آپ بیتی اڑھتیس سال (38) بعد سنانے جارہا ہوں جب میں چھوٹا تھا۔

ایک دن میری ماں نے مجھے گھر کے سامان کے بارے میں جو میرے ماموں کراچی سے لائے تھے معلومات لینے کے لیے بھیجا۔ میرے ماموں رینالہ خورد گاؤں میں رہتے ہیں۔ میں ویگن میں بیٹھ کر اپنے ماموں کے پاس رینالہ خورد ان کے گھر پہنچا۔ وہاں سے گھر کے سامان کے بارے میں دریافت کیا۔ میرے ماموں کوٹ لکھپت کی ایک مل میں کام کرتے تھے۔ سامان کے بارے میں پوچھنے کے بعد میں وہیں سے سیدھا اپنی نانی کے گھر چلا گیا۔ وہ بھی رینالہ خورد ہی میں رہتی ہیں۔ نانی مجھ سے مل کر بہت خوش ہوئیں۔ ایک دن نانی کے گھر رکنے کے بعد میں اپنے گھر واپس لاھور کوٹ لکھپت جانے کے لیے باہر نکلا۔ باہر نکل کر میں نے سوچا کہ بس کا کرایہ بچانے کے لیے کسی کار سے لفٹ لینی چاہیے۔ اس زمانے میں ٹیکسیاں نہیں چلتی تھیں نہ ہی نیٹ ہوتا تھا۔ چونکہ بس کا سفر میرے مطابق بہت لمبا تھا اسی لیے میں نے ایک کار سے لفٹ مانگی۔ ڈرائیور نے مجھے بچہ دیکھ کر گاڑی میں بٹھا لیا۔ ہم رینالہ خورد سےبذریعہ ملتان روڈ اپنی منزل کی جانب روانہ ہوگئے۔ ملتان روڈ پر ساہیوال کے آس پاس بدقسمتی سے ہماری گاڑی سامنے سے موڑ کاٹ کر آنے والے ایک بڑے ٹرک سے ٹکرا گئی۔ گاڑی کا شیشہ ٹوٹ گیا۔ بونٹ اکھڑ کر تباہ ہوگیا۔ گاڑی کے ڈرائیور کا تو کچھ پتا نہ چل سکا کہ وہ زندہ بچا یا نہیں۔ ٹرک چونکہ گاڑی سے بڑا ہوتا ہے اسی لیے اس کا پورا بونٹ انجن سمیت کار میں گھس گیا اور میں ایک دزوردار جھٹکے سے اچھل کر ٹرک کے بونٹ میں چلا گیا۔ گاڑی ٹرک کے بونٹ میں بری طرح پیوست ہوگئی۔ اس وقت ملتان روڈ یکطرفہ ہوا کرتی تھی۔ ٹرک ڈرائیور موقع سے ٹرک سمیت فرار ہوگیا۔ گاڑی تو وہیں رہ گئی لیکن میں انجن سے باہر نہ نکل سکا۔

اب پتا نہیں ٹرک کس سمت میں جارہا تھااور مجھے کس سمت جانے تھا، کچھ ہوش نہیں رہا تھا۔ یہ حادثہ شام کے وقت میں ہوا تھا۔ مجھے محسوس ہوا شاید ٹرک ڈرائیور نے اسکا رخ تبدیل کرلیا ہے تاکہ بھاگ سکے لیکن یہ خیال غلط نکلا۔ یاد رہے کہ اس زمانے میں لاہور کی آبادی برائے نام ہی تھی۔ ہر طرف سنسان ہی سنسان رہتا تھا۔ اس وقت تو لاھور کا علاقہ کوٹ لکھپت بھی ایک گاؤں کی طرح تھا اور مضافات میں کھیت ہوا کرتے تھے۔ آج جہاں مین فیروزپور روڈ پہ جنرل ہسپتال ہے وہاں کھیت ہوا کرتے تھے۔

یہ جون کا مہینہ تھا۔ شدید گرمی کے دن تھے۔ جتنی گرمی باہر تھی اس سے کہیں زیادہ گرمی ٹرک کے انجن میں تھی۔ میری ناک اورکانوں سے خون بہنے لگا اور  تھوڑی ہی دیر میں میرے کپڑے ناک و کانوں سے نکلے خون بھرنے لگے۔ ٹرک کا ڈرائیور مسلسل ٹرک انتہائی سُست رفتاری سے چلا رہا تھا کیونکہ ٹرکوں کی رفتار اس سے زیادہ نہیں ہوتی۔میں نے اندازہ لگایا وہ سندھ کی جانب جارہا تھا۔ لیکن مجھے تو اپنے علاقے کوٹ لکھپت پہنچنے تھا۔ مجھے کچھ کچھ ہوش آنے لگا تھا۔

 میں کوٹ لکھپت کے ایک بڑے زمیندار کے غریب مزارع کا بیٹا تھا۔ میری ناک و کانوں سے مسلسل خون بہہ رہا تھا۔ میری آنکھوں سے آنسو آنے شروع ہوگئے تھے۔ مجھے میرے ماں باپ یاد آنے لگے۔ میں ان کا اکلوتا بیٹا ہوں۔ ٹرک کا انجن میرے پھنسنے کی وجہ سے بار بار بند ہونے لگا تھا اور ڈرائیور بھی اسے باربار اسٹارٹ کرنے لگا تھا۔ مجھے اندر پھنسے ہوئے دو دن گزر چکے تھے۔

 میں مسلسل دو دن سے بھوکا پیاسا ٹرک کے انجن میں بری طرح پھنسا رہا تھا۔ میری آواز بھی اب دم توڑنے لگی تھی۔ انجن کے اندر بہت شور تھا۔ کانوں کے پردے تو پہلے ہی پھٹ چکے تھے اور ان سے مسلسل خون بہہ رہا تھا۔ اب گلا بھی دھواں سے بند ہونے لگا تھا۔ میں چیخنا چاہ رہا تھا کہ ’’مجھے باہر نکالو‘‘۔ میں ہر تھوڑی دیر بعد یہی فقرہ دہراتا تھا کہ ’’مجھے باہر نکالو، مجھے باہر نکالو‘‘ کہ شاید ڈرائیور میری آواز سن لے اور مجھے باہر نکال لے، لیکن آواز انجن کے شور کی وجہ سے باہر نہیں جاپا رہی تھی۔

ڈرائیور نے اونچی آواز میں یہ گانا لگا رکھا تھا "آواز دے کہاں ہے؟ دنیا میری جوان ہے، ویران ہیں میری نیندیں، تاروں سے لے گواہی، قسمت پہ چھا رہی ہے کیوں؟ رات کی سیاہی۔۔۔وہ اسی گانے کو کئی گھنٹوں سے بار بار دہرا رہا تھا۔ اس گانے کی آواز میرے پھٹے ہوئے کانوں کو بری طرح سے چیر رہی تھی۔ اوپر سے دھواں کی وجہ سے میرا گلا بھی بند ہوچکا تھا۔

 ٹرک کا انجن میرے پھنسنے کی وجہ سے اب زیادہ دفعہ بار بار بند ہونے لگا تھا۔ ڈرائیور بھی اسے بار بار اسی طرح اسٹارٹ کرنے لگا تھا۔ جتنی دفعہ ڈرائیور اسے اسٹارٹ کرتا، فین بیلٹ گھومنے کی وجہ سے مجھے اتنی ہی بار شدید تکلیف ہوتی تھی۔ فین بیلٹ کی وجہ سے میرا بدن زخموں سے چھلنی ہوا جارہا تھا۔ ٹرک کا ڈفرنشل راڈ میرے جسم کو بری طرح چیر رہا تھا۔ 

آنکھیں زرد پڑ چکی تھیں اور ان سے مسلسل آنسو بہہ رہے تھے۔ مجھے بخار ہونے لگا۔ میری عمر اس وقت صرف سات سال تھی۔

دوسرے دن کی رات ہوگئی۔ آدھی رات کے کسی وقت اچانک ٹرک کا انجن ایک جھٹکے سے بند ہوگیا۔ ڈرائیور اترا اور کسی بس میں سوار ہوکر قریب کے کسی گاؤں سے ایک مستری کو لے آیا۔ اس نے رات کے اندھیرے میں ایک گھنٹے کی کوشش میں ٹارچ کی روشنی میں انجن کھول لیا۔ ٹارچ کی روشنی اندر ڈالی تو اس نے مجھے اندر پھنسے ہوئے دیکھا اور کوشش کرکے مجھے باہر نکال لیا۔

میں دو دنوں سے بھوکا پیاسا ٹرک کے انجن میں پھنسا رہا تھا۔ میری آنکھوں سے ابھی تک مسلسل آنسو آرہے تھے اور آنکھیں پوری طرح زرد پڑ چکی تھیں اور بخار بھی بہت تیز تھا۔ ناک اور کانوں سے ابھی تک خون بہہ رہا تھا۔ آواز تو گلے کی بالکل ہی بند ہوچکی تھی۔

 ٹرک ڈرائیور نے گھبراہٹ کے عالم میں ایک گاڑی سے لفٹ مانگی اور مجھے ہسپتال پہنچا دیا۔ ہسپتال پہنچ کر پتا چلا کہ یہ سندھ کے گاؤں میرپور ماتھیلو کا کوئی ہسپتال ہے۔ میرپور ماتھیلو گاؤں پنجاب اور سندھ کے بارڈر پر ہے۔ میرا حادثہ تو ساہیوال کے آس پاس ہوا تھا اور مجھے تو اپنے گھر کوٹ لکھپت جانے تھا۔ مجھے اب سب کچھ یاد آگیا۔ میرا علاج ہوا۔ اس طرح سے مجھے زندگی مل گئی۔ مجھے صحت یاب ہونے میں دس روز لگے۔

 بلآخر دس روز بعد مجھے ہسپتال والوں نے اپنی ایمبولینس میں ڈال کر مجھے میرے گھر کوٹ لکھپت پہنچا دیا۔ ماں باپ نے مجھے دیکھتے ہی اپنے سینے سے لگا لیا۔ میری گمشدگی کی رپورٹ بھی ایک ہفتے قبل درج کرائی گئی تھی۔ میں اپنے گھر واپس خیر خیریت سے لوٹ آیا تھا۔

سن 1984ء جُون۔
اخبارِ جہاں، جنگ گروپ، کراچی۔
تحریرِ مقرر: سن 2022ء ۔



مالک : کاشف فاروق۔